معرکہ کربلا اور آزادیِ انسانیت (تیسری قسط)

تحریر:سجاد حسین مفتی
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے وہ آزاد ہے چلا جائے۔ (ارشاد مفید:243)
اگر تمھارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت کا بھی تمھیں کوئی خوف نہیں ہے تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو۔(مقتل خوارزمی، ج2،ص33)
تیسری قسط: آزادی کے تحفظ کے لیے حسینیؑ محاذ کے عملی اقدامات ( حصہ اول)
۱۔تعلیم و تربیت
۲۔حقائق سے روشناس کرانے کا عمل
۳۔دعوت اِلیٰ اللہ۔
۴۔ احساس ذمہ داری کو اجاگر کرنا ۔
۵۔ مدینے سے ہجرت اور بیت اللہ میں پناہ لینا۔
۶۔عدل وانصاف اور قرآنی معاشرے کاقیام نیز جہالت و استبداد سے نجات کے لیے عراقی عوام کی اپیل کا مثبت اور محتاط جواب۔
۷۔ آزادی انسانیت اور مقام انسانی کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قیام حق اور مظلوموں کی آزادی کی خاطر حضرت مسلم ؑ کا کوفہ میں امام ؑ کے لیے بیعت لینا۔
۸۔ بیت اللہ اور دینی شعائر کی حرمت کے تحفظ کی خاطر مکہ سے بھی ہجرت ۔
۹۔ لشکر حر کو پانی پلانا اور انہیں کتاب و سنت کی طرف دعوت دینا ۔ نیز اہل کوفہ کے عدم تعاون کی صورت میں واپس پلٹنے کی پیش کش۔
۱۰۔ کربلا کی زمین کو بنی اسد سے خریدنا تا کہ آپ کا قیام ان کی سر زمین پر ان کی مرضی کے خلاف نہ ہو اور آزادی ملکیت کا احترام برقرار رہے ۔
۱۱۔متعد د مقامات پر اصحاب سے یہ فرمانا کہ ہمارے پاس مقام و منصب اور مال و دولت نہیں ہے،جو جانا چاہتا ہے چلاجائے ۔ میری بیعت کی وجہ سے جو ذمہ داری تم پر عائد ہوئی ہے میں اسے اٹھا لیتا ہوں اور تمھیں آزاد کرتا ہوں۔ (انساب الاشراف بلاذری، ج ۱، ص۱۶۹)
اس دور میں بیعت کا مطلب یہ تھا کہ انسانی جان ، مال اور عزت و آبرو سب کچھ بیعت لینے والے کے اختیار میں ہو اور ہر حالت میں اس کی بات مانی جائے ۔
۱۲۔شب عاشور خصوصی طور پر چراغ بجھا کر فرمایا: تم آزاد ہو چلے جاؤ مجھے چھوڑ دو کیونکہ یزیدی فوج کو میری ضرورت ہے ۔ اگر روشنی میں جاتے ہوئے شرماتے ہو تو یہ چراغ بھی بجھائے دیتا ہوں۔
✍ سجاد حسین مفتی