سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

فضائلِ سیدہ فاطمۃالزّہراء سلام اللہ علیہا صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں

مقالہ نگار:شبیر حسین حیدری
چکیدہ:

محمد و آل محمد (ع) وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی فضیلتوں کا احاطہ کوئی انسان نہیں کرسکتا۔ ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق ان پاکیزہ ہستیوں کے فضائل کو جان سکتا ہے اور بیان کر سکتا ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک بی بی طاہرہ فاطمہ (س) ہیں وہ دنیا کی خواتین کی سردارہیں۔ مختلف اہل علم و دانش نے جناب زہرا ء(س) کی شان کو ان کے درجۂ فکر کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔یہاں ہمارا مقصد صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی روایات کی روشنی میں فاطمہ (س) کی شان کو بیان کرنا ہے صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں بھی بخاری و مسلم نے اپنی استطاعت کے مطابق چند فضائل بیان کیے ہیں، اس مختصر تحقیق میں ان فضائل کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔تحریر میں اساسی منابع کے طورپر صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور ان کے علاوہ چند دیگر اہم ذرائع سے فضیلت کے اہم پہلوؤں کو تحریر میں لانے کی سعی و کوشش کی ہے۔صحیحین کی سینکڑوں روایات میں بی بی طاہرہ (س) کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سے بعض میں بی بی (س) کے فضائل بیان ہوا ہے۔ان روایات کی روشنی میں سیدہ ؑ کے فضائل کے کچھ اہم گوشوں کو بیان کیا گیا ہے،جوکہ اس رسالہ میں بالترتیب تحریر ہے۔
مقدمہ
حضرت شہزادی کونین، صدیقۃ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کی قدر ومنزلت کا بیان عام انسان کی زبان سے ہونا ممکن نہیں ہے۔ آپ کی شان،مقام و مرتبہ ہرذی روح کی آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ اگر فرامین خدا و ائمہؑ نہ ہوتے تو بشر کا کوتاہ ذہن ہرگز شان فاطمہ سلام اللہ علیھا کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اس عظیم بی بی سلام اللہ علیھا کی شان اقدس میں نہ صرف قرآن کی چند آیات موجود ہیں بلکہ کئی سورتیں شان زہرا ء سلام اللہ علیھا میں قصیدہ خواں نظر آتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ائمۂ اطہار علیھم السلام کے فرامین خصوصاً سرکار انبیاءؐ کے ارشادات آپ علیھا السلام کے مقامِ رفیع کو آشکار کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ قرآن وسنت میں آپ علیہا السلام کی شان کاملاً بیان ہوئی ہے لیکن ہر انسان ان کمالات کو کاملا درک نہیں کرسکتا البتہ کمالات و فضائل زہرا ءسلام اللہ علیہا سے مستفید ہو سکتا ہے۔سیدۂ دوعالم سلام اللہ علیھا کے فضائل کا ادراک کاملاً خدا اور محمد وآل محمد علیھم السلام کے علاوہ کسی اورسے ممکن نہیں ہے مگریہ مشہور فارسی کہاوت بھی ہمارے سامنے ہے؛
آب دریا را اگرنتوان کشید
ہم بقدر تشنگی باید چشید

اس مقولہ سے حوصلہ لیتے ہوئے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے روایات کی روشنی میں اپنے قلم کو فضائل مخدومۂ کونین سلام اللہ علیہا سے معطر کرنے کی کوشش کی ہے۔
1۔مکہ کی گلیوں میں رسولؐ کی پشت پناہ تھیں فاطمہ سلام اللہ علیھا
اللہ تعالٰی کے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ والسلام کو تبلیغ دین مبین اسلام کی پاداش میں مشکلات اور اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلام کا فرمان ہے :”ما أُوذِیَ نَبِیُّ مِثْلَ ما أُوذیتُ"(۱)
"(تبلیغ دین میں )جتنی تکلیف مجھے دی گئی ہے اتنی کسی اورنبی کو نہیں دی گئی ۔”
مکہ میں جان لیوا مظالم ، جانثاروں کی مظلومانہ بے بسی اور شعب ابی طالب کا تین سالہ سوشل بائیکاٹ قریش کے ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یہاں تک کہ جسم مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی تو اس وقت آپؐ کے جسم مبارک سے آپؐ کی دختر نیک اختر اسے اٹھاتی تھیں۔
صحیحین میں اس موضوع کے متعلق بہت سی روایات مو جود ہیں ہم یہاں پر چند نمونے ذکر کریں گے:صحیح بکاری میں آیا ہے ؛
"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ البَيْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلاَنٍ، فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَى القَوْمِ فَجَاءَ بِهِ، فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ لاَ أُغْنِي شَيْئًا، لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ
۔۔۔۔۔۔عبداللہ بن مسعود نے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی اونٹنی ذبح ہوئی ہے اس کی اوجھڑی اٹھا لائے اورجب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھ میں روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ( ہنسی کے مارے ) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔”(۲)
اسی طرح صحیح مسلم میں آیا ہے:”عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، وَقَدْ نُحِرَتْ جَزُورٌ بِالْأَمْسِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى سَلَا جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ، فَيَأْخُذُهُ فَيَضَعُهُ فِي كَتِفَيْ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَأَخَذَهُ، فَلَمَّا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ: فَاسْتَضْحَكُوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَمِيلُ عَلَى بَعْضٍ وَأَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ، لَوْ كَانَتْ لِي مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى انْطَلَقَ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَ فَاطِمَةَ، فَجَاءَتْ وَهِيَ جُوَيْرِيَةٌ، فَطَرَحَتْهُ عَنْهُ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَشْتِمُهُمْ، …..
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح ہوئی تھی۔ ابوجہل نے کہا: تم میں سے کون اٹھ کر بنی فلاں کے محلے سے اونٹنی کی بچے والی جھلی (بچہ دانی) لائے گا اور محمد سجدے میں جائیں تو اس کو ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ تب قوم کا سب سے بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اٹھا اور اس کو لے آیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے وہ جھلی آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی، پھر وہ آپس میں خوب ہنسے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ میں کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا، کاش! مجھے کچھ بھی تحفظ حاصل ہوتا تو میں اس جھلی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اٹھا کر پھینک دیتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے۔ اپنا سر مبارک نہیں اٹھا رہے تھے، حتی کہ ایک شخص نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی، وہ آئیں، حالانکہ وہ اس وقت کم سن بچی تھیں، انہوں نے وہ جھلی اٹھا کر آپ سے دور پھینکی۔ پھر وہ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور انہیں سخت سست کہا۔ ۔”(۳)
اس طرح سے مشرکین شان رسالت مآبؐ میں گستاخیاں کیا کرتے اور شہزادی کونینؑ اپنے بابا کی جوان بیٹے کی طرح مدد فرماتی تھیں۔
۲۔رسول اللہ ﷺکےزخموں کا مرہم آپ ؑ کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوتا تھا
تاریخ میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ بدر کی شکست کے بعد کفار بدلہ لینے کی نیت سے احد کے میدان میں پہنچے ۔ اس جنگ میں ستّر صحابہ کرام شہید ہوئے اور رسول خدا ؐ خود زخموں سے چور تھے اس وقت آپؐ کی چہیتی بیٹی حضرت بی بی صفیہؓ کے ساتھ میدان احد میں پہنچیں اور اپنے بابا کے زخموں کو دھوکر مرہم پٹی کی، چنانچہ اس حوالے سے بھی چند روایات صحیحین میں ہیں یہاں از باب نمونہ ایک، ایک روایت تحریر ہے ۔
‎بخاری۔۔۔۔"سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، وَسَأَلَهُ النَّاسُ، وَمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ أَحَدٌ: بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، «كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِتُرْسِهِ فِيهِ مَاءٌ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ، فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ۔
۔۔۔۔سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور ( میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( احد کے ) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا اب مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔”(۴)
مسلم۔۔۔۔۔”سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، يَسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ: «جُرِحَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، فَكَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغْسِلُ الدَّمَ، وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ يَسْكُبُ عَلَيْهَا بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَاءَ لَا يَزِيدُ الدَّمَ إِلَّا كَثْرَةً، أَخَذَتْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهُ حَتَّى صَارَ رَمَادًا، ثُمَّ أَلْصَقَتْهُ بِالْجُرْحِ، فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ۔
۔۔۔۔۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے متعلق سوال کیا جا رہا تھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا تھا اور سامنے (ثنایا کے ساتھ) کا ایک دانت (رباعی) ٹوٹ گیا تھا اور سر مبارک بھی زکمی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا (آپ کے چہرے سے) خود دھو رہی تھیں اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ڈھال سے اس (زخم) پر پانی ڈال رہے تھے، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون نکلنے میں اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا وہ راکھ ہو گیا، پھر اس کو زخم پر لگا دیا تو خون رک گیا۔”(۵)
۳۔بی بی طاہرہ سلام اللہ علیھا جنت کی خواتین کی سردار
آپ سلام اللہ علیہا کے القابات میں سے ایک سیدۃ نساء الجنۃ ہے یعنی جنتی خواتین کی سردار تو اس حوالے سے فریقین کے ہاں احادیث کی کتابوں میں کافی ساری روایات موجود ہیں۔ا گرچہ میرا مقصد صحیحین میں موجود فضائل پر مبنی روایات کی روشنی میں بی بی ؑکے مناقب کو بیان کرناہے لیکن ضمناً جامع ترمذی سے ایک خوبصورت روایت بھی نقل کر رہاہوں ۔
ترمذی۔۔۔۔”عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا فَنَالَتْ مِنِّي فَقُلْتُ لَهَا دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ قَالَ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلْ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکاہوں، تو وہ مجھ پر خفاہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپ کے ساتھ صلاۃِ مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا:’ کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے کہا: ‘ کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو'(پھر)آپ نے فرمایا:’ یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے انپے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان )کے سردار ہیں۔”(۶)
اسی موضوع پر صحیحین میں روایات موجود ہے؛
بخاری۔۔۔ "قَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، أَلاَ تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ المُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الأُمَّةِ۔
۔۔حضرت عائشہ کا کہنا ہے کہ جب رسول ؐ کی رحلت کے قریب آئی تو حضرت زہرا ءسلام اللہ علیھا رورہی تھیں تو آپؐ نےفرمایا فاطمہ بیٹی ! کیا تم اس بات پرخوش نہیں ہوکہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہوگی،یا فرمایا کہ اس امت کی عورتوں کی سردارہوگی۔ "(۷)
مسلم۔۔۔۔”فَقَالَتْ: أَمَّا الْآنَ، فَنَعَمْ، أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ الْآنَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنِّي لَا أُرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ ” قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ فَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ أَمَا تَرْضِيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ» قَالَتْ: فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ۔
حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بی بی ؑ نےکہا:اب(اگر آپ پوچھتی ہیں)تو ہاں،پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا:”جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور ہ کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دورہ کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل(مقررہ وقت) قریب آگیا ہے،اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا،میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔”(حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا:اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا،پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا:”فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو ۔”(۸)
ذھبی نے سیراعلام النبلاء میں کچھ اس طرح سے لکھا ہے؛
"فاطمۃ بنت رسول اللہﷺ سیدۃ نساء العالمین في زمانھا، البضعۃ النبویۃ و الجھۃ المصطفویۃ ام ابيها بنت سید الخلق رسول اللہﷺ ابي القاسم محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد المناف القرشیة الهاشمية و أم الحسنین”(۹)
فاطمہ بنت رسول اللہؐ اپنے زمانے میں دنیا کی ساری عورتوں کی سردار ہیں، نبی کریم ﷺ کی جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی، ام ابیہا سید الخلق رسول اللہ ابو القاسم محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف قریشی ہاشمیﷺ کی بیٹی اور حسنین کی والدہ ہیں۔
اہل سنت کے بعض منابع کی روشنی میں دیکھا جائے تو مختلف کتب میں کہیں پر سیدۃ النساء الجنۃ ہے تو کہیں سیدۃ نساء زمانھا ہے لیکن اہل تشیع کے منابع میں سیدۃ النساء العالمین ہے اور یہ ان کا عقیدہ بھی ہے،چنانچہ بحارمیں ہے۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا؛ "وَأما ابْنَتِی فَاطِمَةُ فَإِنَّهَا سَیِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مِنَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِین۔”(۱۰)
میری بیٹی فاطمہ خواتینِ عالم( اولین و آخرین) کی سردار ہیں۔
۴۔بی بی سلام اللہ علیھا مثل نبیؐ چلتی تھیں:
خاتون جنت، دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،سیدۃ فاطمة الزہراءؑ جب چلتیں تو بابا کی طرح چلتی تھیں۔ چنانچہ علامہ صائم چشتی کہتے ہیں؛
کرم کا مخزن سخا کا مرکز عطا سرا پا جنابِ زہراءؑ
نبی کی صورت نبی کی سیرت نبی کا نقشہ جنابِ زہراءؑ

یہی چیزہمیں صحیحین میں بھی دیکھنےکوملتی ہے؛
بخاری۔۔۔”حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أُمُّ المُؤْمِنِيِنَ، قَالَتْ: إِنَّا كُنَّا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ جَمِيعًا، لَمْ تُغَادَرْ مِنَّا وَاحِدَةٌ، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تَمْشِي، لاَ وَاللَّهِ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ قَالَ: «مَرْحَبًا بِابْنَتِي۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ تمام ازواج مطہرات (حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احتضار کے وقت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں ، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھاکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں ۔ خدا کی قسم ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چال سے الگ نہیں تھی ( بلکہ بہت ہی مشابہ تھی ) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا ۔ فرمایا بیٹی! مرحبا۔۔”(۱۱)
مسلم۔۔۔۔۔”عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةً، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَرْحَبًا بِابْنَتِي» فَأَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب ازواج مطہرات ؓ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھیں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چلتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا ۔”(۱۲)
۵۔مخدومہ کونین سلام اللہ علیھا کے لئے خادمہ کا نعم البدل تحفہ (تسبیح فاطمہ زھراء )
تسبیح فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا ایک مخصوص ذکر ہے جو نبی پاک حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چہیتی صاحبزادی (فاطمہؑ) کو تلقین فرمایا تھا۔ تسبیح فاطمہ میں ۳۴ بار تکبیر (ٱللَّٰهُ أَكْبَرُ) ۳۳ بار تسبیح (سُبْحَانَ ٱللَّٰهِ‎) ۳۳ بار تحمید (ٱلْحَمْدُ لِلَّٰهِ‎) کا ورد کیا جاتا ہے۔
یہ وہ عظیم ورد ہے جس کی فضیلت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہاں پر از باب نمونہ چند روایات ذکرکرتے ہیں؛
فروع کافی ۔۔۔۔”عن ابي جعفرؑ قال ما عبد الله بشيء من التحميد افضل من تسبيح فاطمة ولو كان شيء افضل منه لنحله رسول الله صلى الله عليه واله وسلم فاطمة عليها السلام
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اگر تسبیح فاطمہ سے زیادہ کوئی چیز فضیلت والی ہوتی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کو ضرور تعلیم فرماتے۔
فروع کافی ۔۔۔سمت ابا عبد الله عليه السلام يقول تسبيح فاطمة سلام الله عليها في كل يوم في دبر كل صلاة احبّ الي من صلاة الف ركعة في كل يوم
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد تسبیح فاطمہ سلام اللہ علیھا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے ہر روز ہزاررکعت نماز پرھنے سے۔”(۱۳)
اس عظیم تسبیح کے بارےمیں صحیحین میں بھی کافی ساری روایات تحریر ہیں؛
بخاری ۔۔۔۔”عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو إِلَيْهِ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى، وَبَلَغَهَا أَنَّهُ جَاءَهُ رَقِيقٌ، فَلَمْ تُصَادِفْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ، قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا، فَذَهَبْنَا نَقُومُ، فَقَالَ: «عَلَى مَكَانِكُمَا» فَجَاءَ فَقَعَدَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى بَطْنِي، فَقَالَ: «أَلاَ أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا؟ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا – أَوْ أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا – فَسَبِّحَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِم
علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ شکایت کرنے کے لیے حاضر ہوئیں کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں کتنی تکلیف ہے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کچھ غلام آئے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی ۔ اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا ۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے یہاں تشریف لائے ( رات کے وقت ) ہم اس وقت اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ہم نے اٹھنا چاہا آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جس طرح تھے اسی طرح رہو ۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے ۔ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی ، پھر آپ نے فرمایا ، تم دونوں نے جو چیز مجھ سے مانگی ہے ، کیا میں تمہیں اس سے بہتر ایک بات نہ بتادوں ؟ جب تم ( رات کے وقت ) اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے لیے لونڈی غلام سے بہتر ہے۔” (۱۴)
بخاری۔۔۔۔”حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعَ مُجَاهِدًا، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، فَقَالَ: «أَلاَ أُخْبِرُكِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْهُ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ عِنْدَ مَنَامِكِ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ» ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: إِحْدَاهُنَّ أَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ، فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ، قِيلَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ: وَلاَ لَيْلَةَ صِفِّينَ۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور آپ سے ایک خادم مانگا تھا ، پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہو ۔ سوتے وقت تینتیس ( 33 ) مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس ( 33 ) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس ( 34 ) مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ ان میں سے ایک کلمہ چونتیس بار کہہ لے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے ان کلموں کو کبھی نہیں چھوڑا ۔ ان سے پوچھا گیا جنگ صفین کی راتوں میں بھی نہیں؟ کہا کہ صفین کی راتوں میں بھی نہیں ۔”(۱۵)
مسلم ۔۔۔۔ "حَدَّثَنَا عَلِيٌّ أَنَّ فَاطِمَةَ اشْتَكَتْ مَا تَلْقَى مِنْ الرَّحَى فِي يَدِهَا وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَانْطَلَقَتْ فَلَمْ تَجِدْهُ وَلَقِيَتْ عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ بِمَجِيءِ فَاطِمَةَ إِلَيْهَا فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْنَا نَقُومُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَكَانِكُمَا فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمِهِ عَلَى صَدْرِي ثُمَّ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَا إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا أَنْ تُكَبِّرَا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ وَتُسَبِّحَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتَحْمَدَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَهْوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ۔
حضرت علی علیہ السلام نے حدیث بیان کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی پیسنے سے جو زحمت برداشت کرنی پڑی اس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں تکلیف ہوئی۔ ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کچھ قیدی آئے۔ تو وہ آپ کی طرف گئیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (گھر میں) نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور انہیں (اپنی تکلیف کے بارے میں) بتایا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ان (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے اپنے پاس آنے کے بارے میں بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے ۔۔ اس وقت ہم اپنے اپنے بستروں میں جا چکے تھے، ہم کھڑے ہونے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” دونوں اپنی اپنی جگہ پر رہو۔” آپ ہم دونوں کے درمیان (والی جگہ پر) بیٹھ گئے حتی کہ میں نے آپ کے قدم مبارک کی ٹھڈک اپنے سینے پر محسوس کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ” جو کچھ تم دونوں نے مجھ سے مانگا ہے کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ سکھلاؤں؟ جب تم دونوں اپنے اپنے بستروں میں جاؤ تو چونتیس بار اللہ اکبر کہو، تینتیس بار سبحان اللہ کہو اور تینتیس بار الحمدللہ کہو، یہ (عمل) تم دونوں کے لیے ایک خادم کے (مل جانے) سے بہتر ہے۔” (۱۶)
۶۔ ایذاء بتول سلام اللہ علیھا ایذاء رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
تما م عالم اسلام بی بی طاہرہ سلام اللہ علیہا کے متعلق اس مشہور حدیث پر متفق ہے "اِنّها فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی یُوذینی ما آذَاھا” چنانچہ اسی موضوع پر صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں بھی بہت سارے روایات لکھی گئی ہیں۔ ہم چند ایک اقتباسات یہاں پر پیش کر رہے ہیں؛
بخاری۔۔۔۔”عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے ، اس لیے جس نے اسے ناحق ناراض کیا ، اس نے مجھے ناراض کیا ۔”(۱۷)
مسلم ۔۔۔۔”عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا»
مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر ما یا :” فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔”(۱۸)
تبصرہ: اس طرح کی بہت سارے روایتیں صحیحین(بخاری اور مسلم) میں تحریر ہیں، لیکن ان روایتوں کے مقام صدور میں ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس کی وجہ سےان ساری روایتوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا اور وہ واقعہ کچھ اس طرح سےہے؛
حضر ت فاطمہ (س) نے ایک دن سنا کہ علیؑ ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے جارہے ہیں۔ یہ سن کر بی بی(س) ناراض ہو کر پیغمبرؐ کے پاس شکایت لیکر گئیں تو پیغمبر اکرمؐ کو برداشت نہیں ہوا، آپ نے سیدھا جاکر منبر سے خطبہ دیا اور کہا میری فاطمہ (س) میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ یہ حدیث نبیؐ نے حضرت علیؑ کی مذمت میں بیان فرمائی ہے ۔لہذا ہمیں اس واقعہ کی حقیقت کیا ہےگہرائی میں جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ان روایتوں پر سند اور دلالت کے لحاظ سے کئی طرح کے اشکالات وارد ہیں ؛
۱۔ ان روایتوں کا راوی مسورابن مخرمہ ہے جو دشمنان علیؑ میں شمار ہوتاہےچنانچہ ذھبی نے سیراعلام النبلاء میں لکھا ہے؛
"قال الزبیر بن بکّار۔۔ کانت الخوارج تغشاہ و ینحلونہ یعنی یہ آدمی خوارج کے دوستوں میں سے تھا۔
عن عروۃ فلم اسمع المِسْورَ ذکر معاویۃ إلاّ صلّی علیہ عروہ کہتا ہے میں نے مسور کو معاویہ کانام لیتے نہیں سنا مگر اس پر صلوات پڑھنے کے ساتھ۔
وقيل اصابه حجر المنجنيق فنفلقت منه قطعة اصابت خدّ المسور وهو يصلي فمرض ومات في يوم الذي جاء فيه نَعْيُ يزيد
کہا جاتا ہے کہ اسے منجنیق سے پتھر کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر نماز پڑھتے ہوئے اس کے گال پر لگا تو وہ بیمار ہو گیا اور جس دن یزید مرگیا اس دن وہ بھی مر گیا۔”(۱۹)
یعنی عمر کے آخری حصہ میں عبداللہ ابن زبیر کے ساتھ تھا۔
خلاصہ جسکی پوری زندگی علی ؑ کے سخت سے سخت مخالفین کے ساتھ گزر گئی ہو یقیناً وہ علی ؑ کے خلاف ہی بولے گا۔
۲۔اس شخص کے بارےمیں علماء نے یہ بات شہرت کے ساتھ لکھی ہے کہ یہ ۲ہجری کو پیدا ہوا ہے جبکہ یہ افسانہ ۸ہجری کا ہے ، اس بناء پر روایت کرتے وقت اس کی عمر ۶ سال بنتی ہے ۔ اب یہ عجیب نہیں ہے ؟ کہ۶سالہ بچہ بہت ہی نازک مسئلہ کوسمجھ کر روایت کرے اس سے تعجب تر تو یہ ہے کہ ۸ہجری کو مدینہ میں تقریبا ۸۰ٍ/۹۰ فیصد مسلمان ہوچکے تھے ان میں سے کسی نے یہ واقعہ نہیں دیکھا لیکن ایک بچہ نے دیکھ کر روایت کی۔۔۔
۳۔ "اس واقعہ کے سلسلہ میں جوکلمات آپ کی طرف منسوب کئےگئےہیں ان کی صحت پروہی اعتماد کرےگاجو منصبِ نبوت کے تقاضوں سے بے خبرہو۔منصبِ نبوت کا تقاضاتویہ تھاکہ آپ جذبات سے بلند ترہوکرحلالِ خدا کو حلال کہیں اور حرامِ خدا کو حرام اور ذاتی لگاؤ کی بناء پر اس میں کوئی تفریق پیدانہ کریں۔ لہٰذا ہماری عقلیں یہ باور نہیں کرسکتیں کہ جس رسول ص نے شرعی احکام کے سلسلہ میں کبھی ذاتی تعلقات کا لحاظ نہ کیا ہو وہ محض اپنی بیٹی کی محبت میں خدا کے حلال کردہ امر کی مخالفت کریں گے۔رسول ص تو بڑی ہستی ہیں جبکہ احکامِ خدا و رسول ص کا تھوڑا سا پاس و لحاظ رکھنےوالے شہنشاہ جن کا غرور شاہی احکام خدا اور رسول ص کو پس پشت ڈالنےکےلئے آمادہ رہتا ہو وہ بھی ایسےموقع پر بیٹی کی محبت کا خیال کرتے ہوئے احکامِ خدا و رسول ص کی اہمیت کو مدِنظررکھتےہیں۔چنانچہ تاریخ اسلام کے مشہورشہنشاہ مامون عباسی نے اپنی بیٹی امّ الفضل کا عقد امام محمد تقی ع سے کیا اور امام اسے اپنے ہمراہ مدینہ لےگئے۔مدینہ سے اس نے اپنےباپ مامون کو تحریرکیاکہ امام محمد تقی ع کی کچھ کنیزیں بھی گھرمیں ہیں۔مامون نے سیخ پا ہونےکےبجائےاپنی بیٹی کو تنبیہ کرتےہوئےلکھا۔انّالم نزوجك له لنحرم عليه حلالا فلا تعودى لمثله(صواعق محرقه۔ص۱۲۳)
ہم نے ان سے تمہاراعقد اس لئےنہیں کیاتھاکہ حلالِ خدا کو حرام قراردیں لہٰذا آئندہ ایسی بات نہ دہرائی جائے۔
جب مامون جیسےحکمران اور دنیوی فرمانرواکو حلالِ خدا کا اتناپاس ہو کہ وہ اپنی بیٹی کی شکایت کو درخور اعتنانہ سمجھےتوپیغمبر اکرم ؐ جو حلال و حرامِ خدا کی تعلیم دینےآئےتھے ان کے متعلق کیونکریہ تصورکیا جاسکتاہےکہ وہ حلالِ خدا کا کوئی پاس و لحاظ نہ کریں گے اور اپنی بیٹی پر سوکن آجانےکے خیال سے اتنابرانگکتہ ہوں گے کہ مسلمانوں کے بھرے مجمع میں منبرپر اپنی خفگی و ناراضی کا اعلان فرمائیں گے”۔(۲۰)
۴۔ یہ روایت نص قرآن کے ساتھ ٹکڑارہی ہے۔ قرآن کہتا ہے "{فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ وثلاث ورباع}"(۲۱)
تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو،
لیکن پیغمبرؐ جنہوں نے کہ خود کئی شادیاں کی ہیں دوسروں کو نص قرآن کے خلاف عمل کرنے کو کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
۵۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نبیؐ جو کائنات میں سب سے زیادہ لوگوں کی عزت نفس اور حرمت کاخیال رکھتا تھا وہ ایک حلال کام پر اتنا غصہ ہوکہ ایمرجنسی نافذ کرکے منبر پرجاکر امیرالمؤمنین ؑ کی عزت کو پامال کرے۔
ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے اشکا لات وارد ہیں جن کی بناء پر اس افسانہ کا غلط اور من گھڑت ہونا واضح ہے۔
اشکال:
اگر خواستگاری والی بات جھوٹ اور افتراء ہے تو یقینا حدیث کا دوسرا حصہ” فاطمة بضعة منی۔۔۔۔۔۔۔” بھی ضعیف اور غیر معتبر قرار پائے گا۔
جواب:
ہاں یہ بات اس وقت صحیح تھی اگر دوسرا حصہ صرف اسی روایت میں ہوتا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ بہت سارے اصحاب نے مختلف طرق سے روایت کی ہے۔جیسا کہ امام علی علیہ السلام،ام المومنین عائشہ،عبدالله بن زبیر،انس بن مالک،عمرو بن حزم انصاری اورعمروبن محمد بن علی، سب نے رسول اللہ ؐ سے دوسرے حصے کو روایت کی ہیں۔ (۲۲)
لہذا یہ اعتراض بھی قابل قبول نہیں ہے۔
اشکال:
احادیث میں غضب جو آیا ہے اس سے مراد غضب اخروی (دینی) نہیں ہے بلکہ دنیوی ہے۔
جواب:
یہ بات بھی عقل انسانی سے کوسوں دور ہے ، کیونکہ فریقین کے ہاں بہت ساری روایات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ مومن سے قطع کلامی تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے۔
ابی داؤد۔۔۔۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَمَنْ هَجَرَ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ.
۔۔۔ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ میل جول چھوڑے رہے ۔ جس نے تین دن سے زیادہ مقاطعہ کیا اور مر گیا تو وہ آگ میں جائے گا ۔ “ (۲۳)
یہ عام مؤمنین کیلئے بھی ہے لیکن وہ زہرا ء ؑجس کے بارے میں پاک پیغمبرؐ نے فرمایاتھا؛
عن ابی موسیٰ۔۔۔۔۔كمل من الرجال كثير ، ولم يكمل من النساء إلّا أربع آسية بنت مزاحم امرأة فرعون ، ومريم بنت عمران ، وخديجة بنت خويلد ، وفاطمة بنت محمد
بہت سے مرد کامل تھے،لیکن عورتوں میں سے صرف چار عورتیں کامل ہے: آسیہ بنت مزاحم، فرعون کی بیوی، مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، اور فاطمہ بنت محمد۔(۲۴)
ایسی کامل خاتون بھلا کیسے دوسروں پر دنیوی چیزوں پر غصہ ہو کر رہیں نہ صرف غضبناک ہو کر رہی بلکہ اسی طرح سےدنیا سے چلی گئی ۔ سمجھ سے بالاترٍ ہے ٍ!
خلاصہ یہ ہے کہ اس افسانہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ عصمت وعظمت پیغمبراکرم ؐ، امیرالمؤمنین ؑ اور سیدۃالنساء العالمین (س) کے بر خلاف ہے۔
۷۔آیت تطہیر میں اہل البیتؑ کا نمایاں مصداق فاطمہ(س)
{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}(۲۵)
"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے”۔(۲۶)
یہ آیت مجیدہ آیت تطہیر کے نام سے مشہور ہے جس میں اللہ پاک اہل بیت رسولؑ کو ہر رجس سے پاک ہونے کی سند دے رہاہے ۔
تمام مسلمانوں کا متفق علیہ نظریہ ہے کہ اہل البیت میں پنجتن پاک شامل ہیں اور پنجتن ؑ کا مرکز فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔ اس میں کسی کوبھی اختلاف نہیں ۔ اسی بناء پر صحیح مسلم میں بھی امام مسلم نے اس حوالے سے روایات نقل کی ہیں؛
مسلم ۔۔۔۔”قَالَتْ عَائِشَةُ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ:{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو۔ "(۲۷)
اس موضوع کی بابت فریقین کی کتابیں بھری ہوئی ہے، لہذا مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
۸۔آیت مباہلہ میں ‘نسائنا’ کا واحد مصداق فاطمہ(س)
{فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ} (۲۸)
” آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”(۲۹)
اس آیت کی تفسیر میں بھی فریقین کے مفسرین نے نسائنا کا مصداق بی بی طاہرہ سلام اللہ علیہا کو ہی بیان کیا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں بھی یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے؛
مسلم۔۔۔۔۔۔”وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
اورجب یہ آیت اتری:”(تو آپ کہہ دیں:آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تم اپنے بیٹوں کو بلالو۔”تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا:اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔”(۳۰)
لہذا بی بی سلام اللہ علیہا کی شان کیلئے اتنا کافی ہے کہ نساء نا کے مصداق میں صرف آپ سلام اللہ علیہا کو رسول اللہ ؐ نے لے جاکر بتا دیا کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے نزدیک خواتین میں سے صرف فاطمہ ؑ وہ ذات ہے جن کی دعا اور مناجات سو فیصد قابل قبول ہے۔
اسی طرح اس حدیث سے اہل البیت علیہم السلام کون ہیں ؟ وہ بھی معلوم ہو جاتاہے۔
نتائج
۱۔ صحیحین کی روایات کی روشنی میں یہ بات اور بھی واضح ہوا کہ سیدہ (س) ہمیشہ اپنے بابا کے مونس و غمخوار رہی ہیں۔
۲۔ اہل سنت کے اولین منابع کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ جنت کی خواتین کی سردار بی بی فاطمہ (س) ہیں اور آپ ؑ تمام خواتین میں سے افضل خاتون بھی ہیں کیونکہ مفضول کا سردار بننا معقول نہیں ہے۔
۳۔زہراء مرضیہ(س) وہ عظیم ہستی ہیں جن کو دنیا کا سب سے افضل ذکر (تسبیح فاطمہ )تحفے میں ملا ہے۔
۴۔ زہراء مرضیہ سلام اللہ علیھا وہ باکمال خاتون ہیں جن کو اذیت دینا رسول اعظمؐ کو اذیت دینے کئ مترادف ہے اور رسول اکرم ؐ کو اذیت دینےوالے کیلئےقرآن نےسخت سزاء کی وعید سنائی ہے۔
۵۔آیت تطہیر میں اہل البیت ؑ سے مراد پنجتن پاک ہےاور ان میں دختر رسول ؐ کا فریقین کے ہاں بالاتفاق شامل ہونا ثابت ہوئے۔
۶۔ آیت مباہلہ میں نسائنا کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میدان مباہلہ میں صرف آپ (س) کو لے جاکر رسو ل للہ ؐ نے بی بی (س) کے مقام و مرتبہ کودنیا والوں کو واضح کیا ، یہ بھی مسلمانوں کے اہم منابع سے ثابت ہوا ۔
خداہمیں مقام زہراء سلام اللہ علیھا کو سمجھنے اورآپ ؑکی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔آمین
اللّھم صلی علی محمد وآل محمد
حوالہ جات


۱۔مجلسی،شیخ محمد باقر، بحار الانوار، دار التراث العربی بیروت،طبع اول 1983م,39/56
۲۔بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:240
۳۔نیشابوری،مسلم بن حجاج،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:4649
۴۔ بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:243
۵۔نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:4642
۶۔ترمذی،ابو عیسیٰ، جامع ترمذی،مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:3781
۷۔بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:6286
۸۔نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6313
۹۔ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء، موسسۃ الرسالہ بیروت، طبع ثانی1982م،2/118
۱۰۔مجلسی،شیخ محمد باقر، بحار الانوار، دار التراث العربی بیروت،طبع اول 1983م، 43172/
۱۱۔ بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث: 6285
۱۲۔ نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6314
۱۳۔مولانا ظفرحسن ، الشافی ترجمہ فروع کافی، کتاب الصلاۃ باب تعقبات،ظفر ششمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ2004، 2/108
۱۴۔بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:5361
۱۵۔ بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:5362
۱۶۔ نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6314
۱۷۔ بخاری، محمد اسماعیل،صحیح بخاری، مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:3714
۱۸۔نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6308
۱۹۔ذھبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء، موسسۃ الرسالہ بیروت، طبع ثانی1982م، 3/391
۲۰۔جعفر حسین،مفتی، سیرت امیر المومنین،مصباح القرآن ٹرسٹ, 1/192-195
۲۱۔القرآن4/3
۲۲۔ امام علیؑ کی ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کا افسانہ مأخوذ از کتابخانہ مدرسہ فقاہت
۲۳۔ ابو داؤد،سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد مکتبہ شاملہ اردو، حدیث:4914
۲۴۔ثعلبی،ابو اسحاق احمد بن محمد،الکشف والبیان عن تفسیر القرآن،دار التفسیر جدۃ طبع اول 2015، 27/71
۲۵۔القرآن 33/3
۲۶۔نجفی، محسن علی ،بلاغ القرآن،دارالقرآن الکریم۔جامعۃ الکوثرطبع ہفتم:مارچ2016،ص568
۲۷۔ نیشابوری،مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6261
۲۸۔ القرآن3/61
۲۹۔ نجفی، محسن علی ،بلاغ القرآن،دارالقرآن الکریم۔جامعۃ الکوثرطبع ہفتم:مارچ2016،ص81
۳۰۔ نیشابوری مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم، مکتبہ شاملہ اردو،حدیث:6220

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button