متفرق مقالات

واقعہ کربلا: امام حسن مجتبیٰ (ع) کے بیٹوں کی تعداد اور قربانیاں

تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی

معرکہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس میں خاندانِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی دین اسلام کی بقاء کے لئے لازوال قربانیاں اور بہادری کے قصے صدیوں سے سنائے جا رہے ہیں۔ اس عظیم میدانِ جنگ میں امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ ان کے اہلِ بیت علیہم السّلام نے جان کی بازی لگائی۔ان میں آل علی علیہ السّلام، آل عقیل، آل جعفر، امام حسن علیہ السّلام کی اولاد اور امام حسینؑ کے بیٹے قابلِ ذکر ہیں۔
لیکن اکثر لوگوں کو اس بات کا علم کم ہوتا ہے کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے بھی کئی بیٹے اس معرکے میں موجود تھے اور انہوں نے بھی کربلا کی قربانیوں میں حصہ لیا۔ اس مضمون میں ہم امام حسن علیہ السّلام کے بیٹوں کی تعداد اور ان کی قربانیوں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
امام حسین علیہ السلام اور حضرت قاسم علیہ السلام کی محبت کی خاص وجہ
بعض ذاکرین، خطیب، اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السّلام نے حضرت قاسم علیہ السلام کو ایک خط یا تعویذ دیا تھا، جس میں لکھا تھا کہ جب کوئی مشکل وقت آئے تو اسے کھولنا۔ کربلا میں حضرت قاسم علیہ السلام کو کمسنی اور امام حسنؑ سے خصوصی شباہت کی وجہ سے جنگ کی اجازت نہیں ملی تھی، مگر حضرت قاسمؑ نے جب اس خط کو کھولا تو خط میں امام حسن علیہ السّلام نے لکھا تھا بھیا حسینؑ میری جانب سے کربلا میں قاسمؑ کی قربانی کو قبول کریں۔
اس خط کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے حضرت قاسم علیہ السلام کو لڑنے کی اجازت دی۔
مجھے اس واقعہ  کی سند پر کوئی بحث نہیں کرنی، بلکہ امام حسن علیہ السّلام کے کئی بیٹوں کی موجودگی کو تبیین کرنا میرا مقصد ہے۔
حضرت قاسمؑ سے منسوب یہ واقعہ سن کر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کربلا میں صرف حضرت قاسم علیہ السلام ہی امام حسن علیہ السّلام کے بیٹے تھے جبکہ یہ درست نہیں۔
کربلا میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کے بیٹے اور ان کی تعداد
امام حسن علیہ السّلام کے بیٹوں کی تعداد تاریخی کتابوں میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ مورخین کے مطابق امام حسن علیہ السّلام کے کل بیٹے تقریباً بیس تھے، جن میں سے کئی کربلا میں موجود تھے۔
ان میں سے چند معروف بیٹوں کے نام یہ ہیں: حضرت زیدؓ، حضرت حسن مثنیؓ، حضرت قاسمؓ، حضرت احمد بن حسن۔حضرت ابوبکر بن حسن، حضرت عبداللہ اکبر۔حضرت بشر بن حسن۔حضرت عمرو بن حسن اور حضرت عبداللہ بن حسن وغیرہ۔
حضرت زیدؓ امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کے سب سے بڑے بیٹے تھے جو کربلا میں موجود نہیں تھے۔
حضرت حسن مثنیؓ سے جناب فاطمہ صغریٰؓ کی شادی ہوئی تھی، جو کربلا کی مصیبتوں میں اہلِ حرم کے ساتھ رہیں۔ حضرت حسن مثنیؓ واحد زخمی ہیں جسے رشتہ دار کوفہ لے کر گئے جب تندرست ہوئے تو مدینہ واپس گئے۔
حضرت قاسم علیہ السلام جب دو یا تین سال کے تھے، امام حسن علیہ السّلام شہید ہوئے۔ وہ واقعۂ کربلا کے وقت تیرہ سال کے تھے اور امام حسین علیہ السلام نے ان کی پرورش کی۔ ان کی امام حسن علیہ السّلام سے شباہت اور امام حُسین علیہ السلام سے محبت خاص تھی۔
کربلا میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کے بیٹوں کی قربانیاں
مورخین کی آراء کے مطابق کربلا میں امام حسن علیہ السّلام کے بیٹوں کی تعداد مختلف ہے:
شیخ مفیدؒ کے مطابق تین بیٹے شہید ہوئے۔
محدث قمی اور علامہ محسن امین نے تعداد چار بتائی۔
علامہ مجلسی نے پانچ بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔
کربلا میں شہید ہونے والے چند بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں:
حضرت حسن مثنی، حضرت احمد بن حسن، حضرت ابوبکر بن حسن، حضرت قاسم بن حسن، حضرت عبداللہ اکبر، حضرت عبداللہ اصغر، حضرت بشر بن حسن، اور حضرت عمرو بن حسن۔
حضرت حسن مثنی عاشور کے روز زخمی ہوئے لیکن زندہ رہے، ان کا علاج کوفہ میں ہوا اور بعد میں وہ مدینہ واپس چلے گئے۔ عمرو بن حسن گیارہ سال کے تھے اور کربلا میں موجود تھے اور بعد میں اسیر ہوئے۔
نتیجہ
کربلا میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کے کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ سات بیٹے شہید ہوئے۔ حضرت قاسم علیہ السلام کی خصوصیت ان کی امام حسین علیہ السّلام سے محبت اور شہادت کے لیے ان کی لگن تھی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واحد شہید بیٹا تھے۔
علماء اور ذاکرین کو چاہیے کہ وہ تخیلاتی واقعات کے بجائے حقائق کو اجاگر کریں تاکہ کربلا والوں کی حقیقی شجاعت اور قربانی نوجوانوں کے لیے بہترین اسوہ بن سکے۔

حوالہ جات
1.ارشاد۔شیخ مفید
2.اعیان الشیعہ۔محسن امین عاملی
3.بحارالانوار۔علامہ مجلسی
4.لہوف۔سید ابن طاووس
5.مقتل مقرم۔عبدالرزاق موسوی مقرم۔
6.محدث قمی۔نفس المھموم

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button