اربعین کا عالمی سافٹ ویئر

تحریر: محمد جواد نظافت
اربعین (چہلم امام حسین علیہ السلام) کی زیارت صرف ایک طویل فاصلے تک پیدل چلنے کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ راستہ ایک درسگاہ ہے جہاں ارادے پرورش پاتے ہیں اور روحوں کی تربیت ہوتی ہے۔ شاید یہ پیدل سفر زائر کو جو سب سے اہم سبق سکھاتا ہے وہ "جدوجہد” ہے۔ اس معنی میں نہیں کہ جسم کو تکلیف پہنچائی جائے بلکہ روح کی مشق اور نفس امارہ (انانیت) کے خلاف جہاد کے معنی میں ہے۔ ہر انسان کے وجود کے دو پہلو ہیں: عقلی اور حیوانی۔ حیوانی پہلو اس انانیت پر مشتمل ہے جو اگر عقل پر غالب آ جاتی ہے تو انسان کو انسانیت کی راہ سے زوال کے پاتال کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر عقل شہوت پر غالب آ جائے تو انسان فرشتے سے افضل ہے اور اگر شہوت عقل پر غالب ہو جائے تو وہ حیوان سے بھی زیادہ پست ہو جاتا ہے۔”
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہم ایک فعال حیوانی پہلو کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جبکہ ہماری عقل سوئی ہوئی ہوتی ہے اور صرف تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی بیدار ہوتی ہے۔ اربعین واک اسی تعلیم و تربیت کا ایک پیش خیمہ ہے۔ اس راستے پر انسان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہی مشکلات اس بات کا سنہری موقع فراہم کرتی ہیں کہ انسان میں عقل کا پہلو مضبوط ہو اور وہ انسانی وجود کی کمان اپنے ہاتھ میں لے سکے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ روحانیت کے میدان کے بہت سے ہیرو اور عظیم شخصیات کے مالک انسان اسی میدان میں تربیت پائے ہیں۔ جس طرح دفاع مقدس کے دوران بہت سے شہداء ماضی میں اچھا انسان ہونے کے باوجود محاذ جنگ پر اپنے کمال کے عروج تک پہنچے۔
اگر ہم نے آج خودسازی کا مرحلہ طے نہ کیا تو کل امتحان کے میدان میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں کربلا کے موقع پر آرام پسند اور سست عناصر نے امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا۔ خودسازی کے بغیر انسان ایسے حساس مراحل پر کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔
اربعین کا سفر مشقت اور لذت کا امتزاج ہے۔ تھوڑی سی پیاس اور گرمی اور پھر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا پانی کا ایک گھونٹ وہ لذت دیتا ہے جو مستقل خوشحالی میں نہیں ملتا۔ یہ امتزاج جدوجہد کی بہترین شکل ہے کیونکہ سراسر سختی دل کو تکلیف دیتی ہے لیکن اربعین اس توازن کے ساتھ روح کو لچک دار اور خوش مزاج بنا دیتا ہے۔ اس بات کا تذکرہ ائمہ معصومین علیہ السلام کے فرامین اور سیرت میں بھی کثرت سے ملتا ہے۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
"میں تقویٰ کے ذریعے اپنے نفس کو مشقت میں مبتلا کرتا ہوں تاکہ روز قیامت پرسکون رہوں اور دنیا میں حساس مواقع پر خطا سے محفوظ ہو جاؤں”۔
اربعین اسی استقامت کے لیے ایک مشق ہے۔ اگر ہم آج اس مشکل مگر پرلطف راستے پر چلتے ہیں تو کل دنیا اور آخرت کے راستے پر مضبوطی سے کھڑے ہوں گے۔
انفرادیت سے ماوراء ہو جانا
یہ سفر صرف ایک انفرادی تجربہ نہیں ہے بلکہ "اجتماعی زندگی” کی ایک مشق ہے۔ اسلام اجتماعی سرگرمیوں پر زور دیتا ہے:
"نیک کاموں اور پرہیزگاری میں ایکدوسرے سے تعاون کرو۔”
گروہی سرگرمی لوگوں کو کئی گنا زیادہ توانائی دیتی ہے اور نوجوان کو انفرادیت سے مثبت اجتماعیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ اجتماع ایک مشترکہ روح کا حامل ہے جو اس کے اجزا کو متاثر کرتا ہے۔
مہدوی معاشرے کی جھلک
دوسری طرف، اربعین "مہدوی مطلوبہ معاشرے” کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس راستے پر اہلسنت برادران، عیسائی اور حتی غیر مسلم بھی خوشی سے خدمت کرتے ہیں۔ سب ایک ہی میز پر بیٹھتے ہیں اور انسانی وقار اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ یہ وہ تصویر ہے جسے بڑی طاقتوں کا میڈیا دکھانے سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ شان و شوکت فطرت کو بیدار کرتی ہے اور دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرتی ہے۔
مستقبل کے لیے سرمایہ کاری
نوجوانوں کو اربعین کے لیے بھیجنے پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں وہ درحقیقت ایک سرمایہ کاری ہے جو انہیں بہت سے سماجی نقصانات سے بچاتی ہے۔ اگر آج اس سفر پر اخراجات نہ کیے جائیں تو کل ہمیں جیلوں اور برائیوں کی روک تھام پر کئی گنا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔
حتی وہ گھرانے جن کے بچے نہیں ہیں وہ بھی دوسروں کے بچوں کی تربیت میں حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ "باقیات الصالحات” میں سے ایک ہے جس کا اجر اور ثواب سالوں اور نسلوں تک باقی رہے گا۔
ایک تیار ثقافتی سافٹ ویئر
اربعین ایک تیار ثقافتی سافٹ ویئر ہے جو آنے والی نسل کو کم قیمت پر حسینی اور مستحکم بننے کی تربیت دے سکتا ہے۔ اس سنہری موقع کو پہچاننے کی ضرورت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے پوری طرح بہرہ مند ہونے کے لیے اس کے ساتھ منصوبہ بندی، تعاون اور پرعزم معلمین کی موجودگی ضروری ہے۔ اگر ہم آج یہ پودا لگائیں تو کل یہ ناصران امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی صف میں پھل لائے گا۔