خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:201)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک19مئی2023ء بمطابق 28شوال المکرم1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایمان ابوطالب/ولادت سیدہ معصومہ قمؑ
تاریخ اسلام کی ایک اہم اور مظلوم ہستی حضرت ابو طالب علیہ السلام سے یہ ایام منسوب ہیں۔ ماہ شوال کے آخر اور ماہ ذیقعد کی ابتداء میں حضرت ابو طالب کی ولادت کا ذکر ملتا ہے اسی طرح یکم ذیقعد کو سیدہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا کی ولادت کا ذکر ملتا ہے اسی وجہ سے یکم ذیقعد کو ایران میں سرکاری طور پر یوم دختر (بیٹیوں کا دن) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس بابت کوئی مستند روایات موجود نہیں ہیں لیکن شہرت کے سبب ہم ان ایام میں ان ہستیوں کا ذکر کریں گے۔
سب سے پہلے ہم حضرت ابو طالب کے ایمان کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ایمان ابو طالب کی بحث شیعہ سنی کے درمیا ن ایک عرصے سے چلی آ رہی ہے ۔ مخالفین اس بات کو اچھالتے ہیں کہ حضرت ابوطالب آخر وقت تک ایمان نہیں لائے تھے لیکن تاریخی واقعات و روایات کو دیکھا جائے تو حضرت ابو طالب کا ایمان روز روشن کی طرح واضح ہے۔
یہاں ہم جناب ابو طالب کے ایمان پر چند دلائل ذکر کرتے ہیں:
1. حضرت ابوطالب علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب علیہ السلام قریش کے قافلے کے ہمراہ شام گئے تھے وہ اپنے بارہ سالہ بھتیجے "محمد” کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انہوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جوں ہی قافلہ کتب عہدین کے بڑے عالم اور قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت”بحیرا“ نامی مسیحی راہب – جس کی زیارت کے لئے تجارتی قافلے رک جاتے تھے – کے قریب سے گذرا، تو راہب کی نظریں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں۔
بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران و ششدر رہنے اور گہری اور پُر معنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا: یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟ لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ بحیرا نے کہا اس بچے کے ماں باپ زنده نھیں ہونے چاہئیں. تو حضرت ابوطالب علیه السلام نے کہا جی ہاں ان کے والدین کا انتقال ہوا ہے اور اب میں ان کے چچا کی حیثیت سے ان کا کفیل ہوں.
” بحیرا“ نے کہا : اس بچے کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے جس کی نبوت و رسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اس کی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں ۔
ابوطالب علیہ السلام اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔
2. ویسے تو بہت ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے. مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ:
اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکہہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور "خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں”ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں «چاند سا» لڑکا بھی تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی. بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی.
وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور نہ تھا جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی. حضرت ابوطالب علیہ السلام اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:
و ابیض یستسقى الغمام بوجهه
ثمال الیتامى عصمة للارامل
وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “
3. حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا.(امام علی صدای عدالت انسانی، ج1 . 2، ص 74)
4. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فداکار چچا ابوطالب علیہ السلام کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں۔ منجملہ ان کتاب ” ابوطالب علیہ السلام مؤمن قریش“ کے مؤلف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشییع جنازہ کے بعد اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں سوگواری کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں کس طرح آپ کی مصیبت کو بھول جاؤں، تو نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔
نیز آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے:” مَا نَالَ مِنِّي قُرَيْشٌ شَيْئاً حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ
”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب علیہ السلام کی وفات نہ ہوگئی“۔
5. ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب علیہ السلام کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکہیں، اس کے باوجود ابوطالب علیہ السلام کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھر و محبت کا اظھار اور ایک گھر میں رہن سہن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب علیہ السلام سے عشق کی حدتک مھر و محبت رکھیں حتی کہ ان کے گھر میں رہیں!
6. تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بایکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب علیہ السلام نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پااڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب علیہ السلام“ کے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سکونت اختیار کر لی۔
ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا “ تو ابوطالب علیہ السلام جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت کی طرف رواں دواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے ۔
یہ بات اور بھی توجہ طلب ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ ہوں۔
مومنین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں تاریخ کی سنرطی سطروں کو پڑہے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہمصدا ہوکر کہے گا :
وَلَولَا اٴبُوطَالب وَ إبنَہُ لِما مثَّل الدِّین شَخْصاً وَقَامَا
فَذَاکَ بِمَکَّةِ آویٰ وَحَامٰی وَھَذا بِیثْربَ حَسّ الحِمَامَا
” اگر ابوطالب علیہ السلام اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا ،ابوطالب علیہ السلام تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور علی علیہ السلام یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں موت بھنور میں اتر گئے“
7. ابوطالب علیہ السلام کا سال وفات ”عام الحزن“
ابوطالب علیہ السلام کی تایخ زندگی، جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ہم یھاں تک دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال رکھا ۔ یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ علیہ السلام کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رہبر اور پیشوا کا تحفظ کررہا ہو۔“
بات اگر رشته داری کی ہوتی تو اپنے بیٹے کو آپ کا فدیہ قراردینے کی بات بڑی عجیب ہوگی کیونکه بیٹا رشتے میں بھتیجے سے قریب تر ہے۔
8. اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے ذریعہ سے ہم تک پہنچنے والی احادیث میں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں، جن کو یہاں نقل کرنے سے بحث طولانی ہو جائے گی ،یہ احادیث منطقی استدلال کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:
”انَّ ھُنَا قَوماً یَزْعَمُونَ اٴنَّہُ کَافِرٌ“ اس کے بعد فرمایا:” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کافرتھے،کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلمہے کہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رہیں۔“(الغدیر ، جلد ۸)
9. ایمان ابو طالب پر امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ اَلْكَهْفِ أَسَرُّوا اَلْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا اَلشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اَللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ
ترجمہ: ابو طالب(ع) کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے جنہوں نے اپنا ایمان خفیہ رکھا اور شرک کو ظاہر کیا پس خداوند متعال نے انہیں دو گنا اجر عطا کیا۔(الکافی، ج1، ص448)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے یونس بن نباتہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مِنْ رُفَقَاءِ اَلنَّبِيِّينَ وَ اَلصِّدِّيقِينَ وَ اَلشُّهَدٰاءِ وَ اَلصّٰالِحِينَ وَ حَسُنَ أُولٰئِكَ رَفِيقاً
ترجمہ: بےشک ابو طالب(ع) انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ خدا اور صالحین کے رفیق و ہم نشین ہیں اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔( کنز الفوائد، ص80)
نیز امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
كَانَ وَ اَللَّهِ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ يَأْمُرُ أَنْ يُحَجَّ عَنْ أَبِي اَلنَّبِيِّ وَ أُمِّهِ وَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ حَيَاتَهُ وَ لَقَدْ أَوْصَى فِي وَصِيَّتِهِ بِالْحَجِّ عَنْهُمْ بَعْدَ مَمَاتِهِ
ترجمہ: (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے والد ماجد) عبد اللہ بن عبدالمطلب، اور ان کے فرزند، اور آپ(ص) کی والدہ (آمنہ(س) اور ابو طالب(ع) کے لئے حج بجا لایا جائے اور اپنی شہادت کے وقت اپنی وصیت میں ہدایت کی کہ ان حضرات کی جانب سے حج بجا لایا جاتا رہے۔( بحار الانوار، ج35 ص146)
10. ابو طالبؑ کی وصیت قریش کے نام:
إنّ أباطالب لمّا حضرته الوفاة جمیع إلیه وجوه قریش فأوصاهم فقال: یا معشر قریش أنتم صفوة الله من خلقه ـ إلى أن قال: ـ وإنّی أوصیكم بمحمد خیراً فإنه الأمین فی قریش، والصدیق فی العرب، وهو الجامع لكل ما أوصیتكم به، وقد جاءنا بأمر قبله الجنان، وأنكره اللسان مخافة الشنآن، وأیم الله كأنی أنظر الى صعالیك العرب وأهل الأطراف والمستضعفین من الناس قد أجابوا دعوته، وصدقوا كلمته، وعظموا أمره۔۔۔ یا معشر قریش ابن أبیكم، كونوا له ولاة ولحزبه حماة، والله لا یسلك أحد سبیله إلاّ رشد، ولا یأخذ أحد بهدیه إلاّ سعد، ولو كان لنفسی مدة، وفی اجلی تأخیر، لكففت عنه الهزاهز، ولدافعت عنه الدواهی۔
ترجمہ: جب حضرت ابو طالب(ع) کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: "اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔
خدا کی قسم! گویا می دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔
خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا۔
ابو طالب(ع) نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے کہا:
يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا ۔
ترجمہ: اے جماعت بنی ہاشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہکی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ۔(الغدیر، ج 7، ص367)

 

 

ولادت سیدہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا
آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب "معصومہ” ہے۔ آپ کے والد محترم ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر علیھما السلام اور والدہ محترمہ حضرت نجمہ خاتون ہیں۔
جناب معصومہ کی ولادت یکم ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ بچپنے میں ہی امام موسیٰ ابن جعفرعلیھما السلام کی بغداد میں شہادت واقع ہو گئی اور آپ آٹھویں امام علی ابن موسی الرضا علیھما السلام کی کفالت میں قرار پائیں۔ سنہ ۲۰۰ ہجری میں امام رضا علیہ السلام کو مامون نے شدید اصرار کر کے خراسان بلوا لیا۔ امام تمام اعزاء اور اقرباء کو مدینہ چھوڑ کر خراسان تشریف لے گئے۔ امام کی ہجرت کےایک سال بعد جناب فاطمہ معصومہ اپنے بھائی سے ملاقات کے شوق میں اور سیرت حضرت زینب کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی طرف چل پڑیں۔ اس سفر کے دوران ہر مقام پر اپنے بھائی کی مظلومیت کا پیغام دنیا والوں تک پہنچاتی ہوئی ایران کے ایک شہر ساوہ میں پہنچیں۔ ساوہ کے رہنے والوں نے کہ جو دشمنان اہلبیت تھے عباسی حکومت کی طرف سے ماموریت کی بنا پر اس کاروان کا راستہ روک لیا۔ اور حضرت معصومہ کے ساتھ تشریف لائے ہوئے بنی ہاشم کے ساتھ جنگ کرنے پر اتر آئے۔ اور نتیجہ میں تمام جوان شہید ہو گئے حتی ایک روایت کی بنا پر حضرت معصومہ کو بھی زہر دے دیا گیا۔
بہر حال زہر کی وجہ سے یا شدت غم اور اندوہ کی وجہ سے آپ شدید مریض ہو گئیں۔ اب چونکہ خراسان کی طرف جانا ممکن نہیں رہا لہٰذا قم کا ارادہ کیا ۔ شہر قم کا راستہ معلوم کیا اور فرمایا: مجھے قم لے چلو۔ اس لیے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے قم کا شہر شیعیوں کا مرکز ہے۔ جب قم کے لوگوں کو خبر لگی خوشی اور مسرت کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔آخر کار جناب معصومہ ۲۳ ربیع الاول سنہ ۲۰۱ ھجری کو قم پہنچیں۔ صرف ۱۷ دن اس شہر میں زندگی گذاری۔اور اس دوران اپنے پروردگار سے مسلسل راز و نیاز میں مشغول رہیں۔آپ کا محل عبادت "بیت النور” کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔
آخر کار ۱۰ ربیع الثانی سنہ ۲۰۱ ھجری بغیر اسکے کہ اپنے بھائی سے ملاقات کر پائیں بارگاہ رب العزت کی طرف سفر کر گئیں۔ قم کے لوگوں نے آپ کے جسد اقدس کو سرزمین قم میں جہاں آج آپ کا روضہ ہے تشییع جنازہ کیا اورنماز جنازہ پڑھنا چاہتے تھے کہ دو روپوش آدمی قبلہ کی طرف سے نمودار ہوئے نماز جنازہ پڑھا کے ایک قبر میں داخل ہوا دوسرے آدمی نے جنازہ قبر میں اتارا اور دفن کر کے غائب ہو گئے۔
بعض علماء کہ بقول وہ دو آدمی امام رضاعلیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام تھے۔ دفن کے بعد موسی ابن خزرج سایبانی نے ایک کپڑا قبر کے اوپر بطور علامت ڈال دیا یہاں تک کہ ۲۵۶ ھجری میں حضرت زینب امام جواد کی بیٹی نے سب سے پہلی بار اپنی پھوپھی کی قبر شریف پر گنبد تعمیر کروایا اس کے بعد یہ روضہ عالم اسلام خصوصا اہلبیت کے چاہنے والوں کی عقیدتوں کا مرکز بن گیا۔ اورآج تمام دنیا سے آپ کے چاہنے والے آپ کے روضہ کی زیارت کرنے تشریف لاتے ہیں۔
حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت:
حضرت معصومہ علیہا السلام کے سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کے بعد جتنی ترغیب آپ کی زیارت کے سلسلہ میں دلائی گئی ہے اتنی ترغیب کسی اور کے سلسلے میں نہیں ملتی ۔ تین معصوم شخصیت نے آپ کی زیارت کی تشویق دلائی ہے۔ جن روایات میں آپ کی زیارت کی ترغیب دلائی گئی ہے ان میں سے بعض آپ کی ولادت سے قبل معصوم سے صادر ہوئی تھیں ۔
تین معصومین علیھم السلام کا ارشاد ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کے ثواب میں جنت نصیب ہوگی ۔ معصومینکی زبان سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کی فضیلت کے سلسلہ میں چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
شیخ صدوق نے صحیح سند کے ساتھ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ:
مَنْ‏ زَارَهَا فَلَهُ‏ الْجَنَّة، جو شخص ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی ۔(كامل الزيارات، النص، ص: 324)
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا ارشاد ہے: مَنْ‏ زَارَ عَمَّتِي‏ بِقُمَّ فَلَهُ الْجَنَّة
جس شخص نے بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔(بحار الأنوار ،ج‏48، ص: 316)
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :
أَنَّ زِيَارَتَهَا تُعَادِلُ‏ الْجَنَّة، زیارت معصومہ جنت کے برابر ہے ۔(مستدرك الوسائل ، ج‏10، ص: 368)
حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :یا سعد ! من زارہا فلہ الجنة او ہو من اہل الجنة"اے سعد جو شخص بھی ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی یا وہ اہل بہشت سے ہے ۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button