خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:316)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 15 اگست 2025 بمطابق 20 صفر المظفر 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: چہلم امام حسینؑ و شہدائے کربلا
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اس جمعہ میں جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ وہ بابرکت دن ہے جو حق اور باطل میں تمیز کرنے کا شعور دیتا ہے اور ہمیں محمد و آل محمد (ص) کی محبت سے جوڑتا ہے۔ آج کا یہ اجتماع ایک خاص مناسبت سے ہے، آج ہم نواسۂ رسول، سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور ان کے باوفا ساتھیوں کے چہلم (اربعین) کی یاد منا رہے ہیں۔ یہ دن صرف ماتم اور غم کا دن نہیں، بلکہ یہ کربلا کے عظیم پیغام کو زندہ رکھنے کا ایک عہد ہے۔
آج ہم اسی مناسبت سے کربلا کے فلسفے، اربعین کی اہمیت، اور اس تحریک کے دائمی اثرات پر گفتگو کریں گے۔
اربعین کا فلسفہ اور اس کی اہمیت
اربعین کا مطلب ہے چالیس۔ یہ دن امام حسین (ع) کی شہادت کے چالیس دن بعد 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔ اس کی ابتداء اُس وقت ہوئی جب واقعہ کربلا کے بعد صحابی رسول (ص) حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری نے پہلے زائر کے طور پر امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کی۔ اسی دن اسیرانِ کربلا بھی شام سے واپس کربلا پہنچے، اور اس غمزدہ خاندان نے اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر نوحہ و ماتم کیا۔ اس طرح اربعین کا سفر اور زیارتِ کربلا کی بنیاد رکھی گئی۔
یاد رکھیں کہ آئمہ اہل بیت (ع) نے صرف امام حسین (ع) کا چہلم منانے کا حکم دیا ہے۔ باقی کسی امام، شہید یا عزیز کا چہلم منانے کی تاکید نہیں ملتی۔ یہ تخصیص اس بات کا ثبوت ہے کہ امام حسین (ع) کی شہادت کوئی عام شہادت نہیں، بلکہ اس میں اسلام کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔لہذا اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
اربعین اور عزاداری حسین (ع) اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
(سورۃ الحج، آیت 32)
ترجمہ: "اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری کی علامت ہے۔”
امام حسین (ع) کی ذات، ان کی شہادت اور ان کا پیغام یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ ان کی یاد کو تازہ رکھنا، ان کے غم کو محسوس کرنا اور ان کے راستے پر چلنے کا عہد کرنا، یہ دلوں کے تقویٰ کی نشانی ہے۔
امام حسین (ع) کی تحریک کا پیغام
آج چہلم کے دن ایک بار پھر ہمیں تحریک امام حسین اور اس کے مقاصد کو یاد کرنیی کی ضرورت ہے۔ امام حسین (ع) کی تحریک محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل پیغام ہے:
1. ظلم کے خلاف مزاحمت اور شہادت کا مقصد:
امام حسین (ع) نے اس وقت کے ظالم حکمران یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ یہ ان کے لیے عزت کی راہ تھی۔ آپ (ع) نے فرمایا:
ألا وَإنَّ الدَّعيَّ ابنَ الدَّعيِّ قَد رَكَّزَ بَينَ اثنَتينِ بَينَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَهَيهاتَ مِنّا الذِلَّةُ
” اس بدبخت نے مُجھے دو راہے پر کھڑا کیا ہے ایک راہ یہ ہے کے میں اُس کی بیعت کر کے اُس کے اشاروں پر چل کے ذلّت و خواری کو تسلیم کروں اور دوسری راہ یہ ہے کے میں ذلت پر جنگ و شھادت کو ترجیح دوں، حق یہ ہے کہ ہَيْہَاتَ مِنَّا الذِّلَّۃُ ذلت ہم سے دور ہے۔(مسعودی، اثبات الوصيۃ، ۱۳۸۴ش، ص۱۶۶)
یہ فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا مقصد ذاتی اقتدار نہیں بلکہ دینِ اسلام کی بقا تھا۔ آپ (ع) نے اپنی شہادت کے ذریعے ظالم کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا اور دنیا کو سکھا دیا کہ ظالم کے سامنے جھک کر ذلت قبول کرنے کی بجائے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا اور شہادت کو اختیار کرنا ہی عزت اور نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی اس کی تائید فرمائی ہے:
وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ(سورۃ الشوریٰ، آیت 41)
ترجمہ: ” اور جو شخص مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے پس ایسے لوگوں پر ملامت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔”
ظلم کا ایک بدلہ تو قصاص ہے لیکن ظالم کے ظلم کو آشکار کرکے اسے بے نقاب کرنا بھی ایک بہترین بدلہ ہے۔
2. وفا اور قربانی کی عظیم مثالیں:
کربلا ہمیں وفا اور ایثار کا درس دیتی ہے۔ حضرت عباس (ع) کی وفا،جو قدم قدم پر اپنے وقت کے امام کے تابع فرمان رہے، جو فرات میں داخل ہوئے اپنے چلو میں پانی لیا اور اپنے آقا اور ان کے بچوں کی پیاس کو یا د کرتے ہوئے واپس دریا میں پھینک دیا، حضرت علی اکبر (ع) کی آخری اذان اور ان کی جوانی کی قربانی، اور حضرت قاسم (ع) کی شہادت پانے کی تڑپ اور حق کی راہ میں موت کو شہد سے بھی میٹھا سمجھنا، یہ سب ہمارے لیے قربانی کی ایسی مثالیں ہیں جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ان سب ہستیوں نے اللہ پر توکل کیا اور حق کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔ امام علی (ع) نے فرمایا:
مَنِ اسْتَغْنَى بِاللَّهِ افْتَقَرَ إِلَيْهِ النَّاسُ (غرر الحکم و درر الکلم، حدیث 8493)
ترجمہ: ” جو اللہ پر ہی بھروسہ کر کے بے نیاز ہو جاتا ہے، لوگ اُس کے محتاج ہو جاتے ہیں۔۔”
کربلا کے شہداء نے دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ کی رضا کو اپنا مقصد بنایا، اور آج بھی ان کے چاہنے والے ان کے عشق میں بے نیاز ہیں۔
اربعین کا سفر اور اس کے اخلاقی اثرات
اربعین کے موقع پر کربلا کی طرف لاکھوں زائرین کا پیدل سفر کرنا ایک عظیم عبادت اور شعار بن چکا ہے۔ یہ سفر صرف جسمانی مشقت کا نام نہیں، بلکہ یہ روحانی تطہیر، باہمی مواخات اور خدمت خلق کا عملی نمونہ ہے۔ اس سفر میں ہر زائر دوسرے کا بھائی ہے، ہر کوئی دوسرے کی خدمت کے لیے تیار ہے۔ یہاں امیر و غریب، جوان و بوڑھے، سب ایک ہی صف میں ہوتے ہیں، جو اسلامی اخوت اور ہمدردی کی بہترین مثال ہے۔
اربعین کی زیارت کی خاص فضیلت کے علاوہ آئمہ اطہار نے سال کے مختلف مواقع پر بھی زیارتِ امام حسین (ع) پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ان مواقع میں پندرہ شعبان کی رات، شب ہائے قدر، عیدین، دس محرم، اور اربعین شامل ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ لوگ کربلا کو اور اس کے مقصد کو مسلسل یاد رکھیں۔ یہ فقط ایک تاریخ کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا درس ہے جس کی ہر وقت اور ہر لمحے ضرورت ہے۔
امام جعفر صادق (ع) نے زیارتِ حسین (ع) کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ عَرَفَ حَقَّهُ كَانَ كَمَنْ زَارَ اللَّهَ فِي عَرْشِهِ
(کامل الزیارات، صفحہ 283)
ترجمہ: "جو حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے اور اس کے حق کو پہچانے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی۔”
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ زیارت کا مقصد صرف قبر پر حاضر ہونا نہیں، بلکہ امام حسین (ع) کے حق کو پہچاننا اور ان کے پیغام کو سمجھنا بھی ہے۔یہاں معرفت والی بات پر توجہ کی ضرورت ہے۔ زیارت کوئی سیر کا سفر نہیں بلکہ ان ہستیوں کے حق کو پہچانتے ہوئے ان کے مزار پر حاضر ہونے کا نام زیارت ہے۔
اربعین کا پیغام :
چہلم اپنی ذات میں عاشورا کی جانب دوبارہ پلٹنے کا نام ہے۔ چہلم منانے کے لیے سب کچھ اہتمام شاید اس نکتے کی یاددہانی ہو کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی مرکز کے گرد منظم کرے۔ اسی طرح ایمانی معاشرہ بھی کربلا کے خورشید کی جانب متوجہ ہو اور چہلم درحقیقت اسی خورشید تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
چہلم امام حسین (ع) کا پیغام ہماری عملی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے۔
• ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں:
• اربعین ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر دور میں ہمیں یزیدیت کے خلاف کھڑے ہونا ہے، چاہے وہ یزیدیت کسی حکمران کی ہو یا ہمارے اپنے نفس کی۔
• ایثار اور قربانی کا جذبہ اپنائیں:
• اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کو حق اور سچائی کے لیے قربان کرنا سیکھیں۔
• صبر اور استقامت سے کام لیں:
• زندگی میں آنے والی مشکلات اور مصائب میں ثابت قدم رہیں، جیسے کربلا کے شہداء رہے۔
• عزت اور ذلت کا حقیقی معیار:
• امام حسین (ع) نے حق کی خاطر شہادت کو عزت اورباطل کی بیعت کو ذلت سمجھا۔ ہمیں بھی اس معیار پر چلناا چاہیے۔
• دین کی حفاظت کا عزم کریں:
• اربعین ہمیں اس عزم کو تازہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
امام حسین (ع) نے شہادت کو عزت اور یزید کی بیعت کو ذلت سمجھا، اور اس کے بعد نبی اکرم (ص) کی یہ حدیث ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیے:
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ
ترجمہ: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ حسینیت اور اسلام ایک ہی ہیں۔ کربلا کا مقصد اسلام کی بقا تھا اور ہے!
زیارت اربعین:
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آج کے دن کربلا موجود ہیں اور امام کی زیارت کربلا میں پڑھیں گے۔ لیکن ہم لوگ بھی محروم نہیں ہے۔ کوئی دنیا میں کہیں بھی ہو بس انگلی کا اشارہ کرکے بھی زیارت پڑھ سکتا ہے۔آج کے دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی قرار دیا گیا ہے:
عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:
1. صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ شب و روز کے دوران 51 رکعتیں نماز پڑھنا
2. وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ زیارت اربعین پڑھنا
3. وَالتَّخَتُّمُ بِالْيَمِينِ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا
4. وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ سجدے میں پیشانی مٹی پر رکھنا اور
5. وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ .. نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھنا۔
(طوسی، تہذیب الاحکام، ج6 ص52)
نیز یہ بھی توجہ رہے کہ زیارت اربعین پورے سال میں فقط آج یعنی 20 صفر کے دن کے ساتھ مخصوص ہے لہذا اسے چھوڑنا نہیں چاہیے۔
(امام جمعہ کو چاہیے کہ اس موقع پر اعلان کرے کہ نماز جمعہ کے فورا بعد یہیں مسجد میں زیارت اربعین پڑھی جائے گی لہذا مومنین موجود رہیں اور زیارت پڑھ کر جائیں اور اس سے پہلے دو رکعت نماز زیارت بھی پڑھنے کا کہا جائے تو بہتر ہے)
اختتامیہ
پس اربعین فقط ایک غم کا دن ہی نہیں بلکہ ایک پیغام، ایک تحریک اور ایک عزم کا نام ہے۔ عزاداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، اربعین میں شرکت کریں، اور اس سے بڑھ کر کربلا کے پیغام کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں۔ اپنی اولاد کو امام حسین (ع) کی سیرت اور پیغام سے روشناس کرائیں تاکہ یہ تحریک نسل در نسل جاری رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں امام حسین (ع) کے غم میں شامل فرمائے، ان کی زیارت کا شرف عطا فرمائے اور ہمیں ان کے سچے پیروکاروں میں سے بنائے۔آمین
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭