معنویات

خداوندعالم کا لطف و کرم اور رحمت

قرآن کریم اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ: خدا وندعالم اپنے تمام بندوں پر لطف و کرم اور احسان کرتا ہے، اسی وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا ہے،اس نے اپنے بندوں کو نعمت عطا کرنے میں کسی طرح کے بخل سے کام نہیں لیا ہے اور نہ ہی اُس سے کام لے گا۔
یہ تو بعض انسان ہیں جو مادی اور معنوی نعمتوں کے حصول میں سستی اور کاہل ی سے کام لیتے ہیں، اور خدا کے لطف و کرم اور احسان سے خود منہ موڑلیتے ہیں، اور خود بخود محرومیت کے کنویں میں گر پڑتے ہیں، اور خدا کی تمام تر نعمتوں سے مستفید ہونے کی لیاقت کو ختم کرلیتے ہیں۔جو شخص بھی چاہے وہ جائز طریقہ سے کوشش کرکے خداوندعالم کی نعمتوں کو حاصل کرسکتا ہے بغیر کسی ممانعت کے، اور اپنی خالصانہ سعی و کوشش کے ذریعہ اور اپنے صحیح ایمان و اعتقاد کے ذریعہ خداوندعالم کی معنوی عنایات تک پہنچ سکتا ہے، اور دنیا و آخرت میں خدا کی خصوصی رحمت اس کے شامل حال ہوگی جس کے جلوے دنیاوی زندگی اور بہشت بریں میں ملاحظہ کرے گا۔ خدا وندعالم کے لطف و کرم اور احسان کے حیرت انگیز جلوے یہ ہیں کہ: خداوندعالم تھوڑے سے نیک کام پر بہت زیادہ اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔
جناب سلیمان علیہ السلام اور ایک دیہاتی
خداوندعالم کے منتخب رسول جناب سلیمان اپنے تمام تر شاہی شان و شوکت کے ساتھ ایک راستہ سے چلے جارہے تھے، راستہ میں ایک دیہاتی بھی سفر کررہا تھا، اس نے جناب سلیمان(ع) کو دیکھ کر کہا:
پالنے والے! جناب داود کے بیٹے سلیمان کو کیا بادشاہت اور سلطنت عطا کی ہے، ہوا نے اس آواز کو جناب سلیمان تک پہنچادیا، حضرت سلیمان(ع) اس آواز کو سن کر اس کے پاس آئے اور کہا:
جس چیز کی طاقت اورذمہ داری کو پورا کرنے کی قدرت تم میں نہیں ہے اس کی آرزو نہ کرو اگر خداوندعالم تیری ایک تسبیح کو قبول کرلے تو سلیمان کی حکومت سے بہتر ہے، کیونکہ تسبیح کا ثواب باقی رہ جائے گا اور سلیمان کی حکومت فناہوجائے گی!!
(ربیع الآثار)
مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی گرانقدر کتاب ”ثواب الاعمال“ میں ایک بہت اہم روایت نقل کرتے ہیں:
”عَن اِسماعِیلَ بنِ یَسارٍ قَالَ:سَمِعْتُ ابا عبدِ اللّٰهِ علیه السلام یَقُولُ:اِیّاکُم وَالکَسَلُ اِنَّ رَبَّکُم رحیمٌ یَشْکُرُ القَلیلَ،اِنَّ الرَّجُلَ لیُصلِّی الرَّکْعَتَیْنِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِما وَجْهَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فَیُدخِلُهُ اللّٰهُ بِهِما الجَنَّةَ، وَاِنَّهُ لِیَتَصَدَّقُ بِالدِّرْهَمِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِ وَجهَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ فَیُدْخِلُهُ اللّٰهُ بِهِ الجَنَّةَ،وَاِنَّهُ لَیَصُومُ الیَوْمَ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِهِ وَجهَ اللّٰهِ فَیُدْخِلُهُ اللّٰهُ بِهِ الجَنَّةَ!!“
(ثواب الاعما ل:۳۹؛بحار الانوار :۲۵۳۹۳،باب۳۰،حدیث۱۹)
”اسماعیل بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سناہے:
سستی اور کاہل ی سے پرہیز کرو، کیونکہ تمہارا پروردگار مہربان ہے، تھوڑے عمل پر بھی اجر کثیر عطا فرماتا ہے۔
جو شخص دو رکعت مستحب نماز پڑھے اور اس کا قصد رضائے پروردگار کا حصول ہو تو خداوندعالم اس کو ان دورکعت کے بدلے بہشت میں داخل کردے گا۔ اور اگر اپنی مرضی سے صدقہ دے اور اس صدقہ سے بھی رضائے الٰہی کا قصد ہو تو خداوندعالم اس کی وجہ سے اس کو بہشت میں داخل فرمادے گا، او راگر اپنی مرضی سے کسی ایک روز(مستحب) روزہ رکھے جبکہ خوشنودی پروردگار اس کے پیش نظر ہو تو خداوندعالم اسی ایک روزہ کے سبب بہشت میں جگہ عنایت فرمادے گا!!
امیر المومنین علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت نقل کرتے ہیں:
”مَا مِنْ شَیءٍ اکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْ ابنِ آدمَ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَلاٰ الْمَلاٰئِکَةِ۔قَالَ: الْمَلاٰئِکَةُ مَجْبُورُوْنَ بِمَنْزِلَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ “
خداوندعالم کی نظر میں انسانوں سے قیمتی کوئی مخلوق نہیں ہے، لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)! کیا فرشتوں سے بھی بہتر ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
فرشتے چاند وسورج کی طرح عبادت اور دوسرے امور پر مجبور ہیں۔
یہ انسان ہی تو ہے جوصاحب اختیا ر اور نعمت آزادی سے بھرہ مند ہے وہ جب بھی ان خدا داد نعمتوں کواطاعت الٰہی میں بروئے کار لائے تو خداوندعالم ایسی خاص رحمت و کرم اور بے نھایت لطف و کرم سے نوازے گا۔
ایک بہت اہم حدیث
”قاَلَ النَّبِیُّ (صلی الله علیه و آله و سلم) الصَّلاةُ عَمودُ الدِّینِ وَفِیهَا عَشرُ خِصالٍ:زَینُ الوَجهِ،وَنُورُالقَلبِ،وَراحَةُ البَدَنِ،وَانسُ القُبورِ،وَمُنزِلُ الرَّحْمَةِ،وَمِصباحُ السَّمآءِ، وَ ثِقْلُ المیزانِ، وَمَرضاةُ الرَّبِّ،وَثَمَنُ الجَنَّةِ،وَحِجابٌ مِنَ النَّارِ،وَمَن اقامَها فَقَد اقامَ الدّینَ، وَمَن تَرَکَها فَقَد هَدَمَ الدّینَ “
(مواعظ عددیہ :۳۷۱)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:
نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس صفات پائے جاتے ہیں: چہرہ نورانی، دل میں روشنی، جسم میں راحت و سکون، مونس قبر، رحمت نازل کرنے والی، آسمان کا چراغ، روز قیامت اعمال کی ترازو میں وزن کا سبب، خوشنودی پروردگار، جنت کی قیمت اور آتش دوزخ میں رکاوٹ ہے، جو شخص نمازپڑھتا ہے (گویا) اس نے دین کو قائم کیا اور جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو (گویا) اس نے دین کو نابود کردیا“۔
واقعاً تعجب کی بات ہے کہ خداوندکریم نے دو رکعت نماز پڑھنے والے کے لئے کیا کیا ثواب اور آثار قرار دئے ہیں!! جبکہ دو رکعت نماز پڑھنا کسی کے لئے باعث زحمت و مشقت بھی نہیں ہے۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
”ما مِن صَلاةٍ یَحْضُرُ وَقتُها اِلاَّ نَادَی مَلَکٌ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ:ایُّهَاالنَّاسُ! قُومُوا اِلَی نِیرانِکُمُ الَّتِی اَوْقَدْتُمُوهَا عَلَی ظُهُورِکُم فَاطْفِوهَا بِصَلاَ تِکُم “
(من لایحضرہ الفقیہ:۲۰۸۱،باب فضل الصلاة،حدیث ۶۲۴)
”کسی بھی نماز کا وقت نہیں آتامگر یہ کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے آکر اعلان کرتا ہے:اے لوگو! (اپنے گناہوں کے ذریعہ) جس آگ کو روشن کیا ہے، قیام کرو اور اس کو نماز کے ذریعہ خاموش کردو“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اورایک وحشت زدہ قافلہ
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :
امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رہے تھے۔ اہل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ہوئے ہیں۔ اہل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ہوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
کیا ہوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ہمارے پاس (بہت) مال و دولت ہے اگر و ہ لٹ گیا تو کیا ہوگا؟! کیا آپ ہمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کیا خبر شاید وہ ہمیں ہی لوٹنا چاہتے ہوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاہتے ہو، اس وقت لوگوں نے کہا:
تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونہی برباد ہوجائے گاہوسکتا ہے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اہل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ہی بتائیں کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رہے ، اور اس میں اضافہ کرتا رہے، او رایک درہم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تمہیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمہارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!
سب لوگوں نے کہا: وہ کون ہے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ ہے”ربّ العالمین“ ہے۔ لوگوں نے کہا:
کس طرح اس کے پاس امانت رکھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں میں صدقہ دیدو۔ سب نے کہا: ہمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر نہیں ہے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
اس مال کے ایک تہائی صدقہ دینے کی نیت کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کہا: ہم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
”فَانْتُمْ فِی امَانِ الله فَامْضُوْا “
”پس (اب) تم خدا کی امان میں ہو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔
جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی پڑا، اہل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
اب) تم کیوں ڈررہے ہو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ہو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ہاتھوں کو چومنے لگے اور کہا:
ہم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا:
کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پہنچاؤ۔ لہٰذا اب ہم آپ کی خدمت میں ہیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رکھیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے جس نے تم لوگوں کے شر کو ہم سے دور کیا ہے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ہم سے دور کرے گا۔ اہل قافلہ صحیح و سالم شہر میں پہنچ گئے؛ سب نے ایک حصہ مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بہت زیادہ برکت ہوئی، ہر ایک درہم کے دس درہم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کہا:
واقعاً کیا برکت ہے؟
امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:
”اب جبکہ تمھیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ہوگئی ہے تو تم اس کام کو آگے بڑھانا“۔
(عیون اخبار الرضا ج۲ص ۴ باب ۳۰ حدیث۹؛ بحار الانوار :۹۳ ۱۲۰،باب۱۴،حدیث۲۳)
(شرح دعاکمیل سے اقتباس)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button