Uncategorized

الله کی محبت

الله تعالیٰ کی محبت تمام عناصر سے افضل اور قوی ترہے ،یہ انسان کو الله سے دللگا نے کيلئے آمادہ کرتی ہے اور الله سے اس کے رابطہ کو محکم ومضبوط کرتی ہے ۔
محبت کے علاوہ کوئی اور طریقہ اتنا محکم اور بليغ نہیں پایا جاتا ہے جو خدا اور بندے کے درميان حقیقی رابطےکا ذریعہ بنے اور خدا وند عالم سے یہ رابطہ اسلامی روایات ميں بيان ہواہے جن ميں سے ہم بعض روایات کا تذکرہ کررہے ہيں :
روایات ميں آیا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤ دکی طرف وحی کی :
یاداود ذکري للذاکرین وجنتي للمطيعين وحبي للمشتاقين وانا خاصة للمحبين
(بحا الانوار ج٩٨ ص٢٢۶)
اے داود ذاکرین کےلئے ميرا ذکر ہے،ميری جنت اطاعت کرنے والوں کےلئے ہے اور ميری محبت مشتاقين کےلئے ہے اور ميں محبت کرنے والوں کےلئے مخصوص ہوں۔
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
الحبّ افضل من الخوف
محبت ،خوف سے افضل ہے ۔
(بحار الا نوار ج ٧٨ص٢٢۶)
محمد بن یعقوب کلينی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :
العبّاد ثلا ثة:قوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ خوفاًفتلک عبادة العبيد،وقوم عبدوا اللّٰه تبارک وتعالیٰ طلب الثواب،فتلک عبادة التجار،وقوم عبدوا اللّٰه عزّوجلّ حبّاً،فتلک عبادةالاحرار،وهي افضل عبادة
(اصول کافی ج ٢ ص٨۴)
عبادت تين طرح سے کی جاتی ہے یا عبادت کرنے والے تين طریقہ سے عبادت کر تے ہيں ایک قوم نے الله کے خوف سے عبادت کی جس کو غلاموں کی عبادت کہاجاتا ہے ،ایک قوم نے الله تبارک وتعا لیٰ کی طلب ثواب کی خاطر عبادت کی جس کو تاجروں کی عبادت کہاجاتا ہے اور ایک قوم نے الله عزوجل سے محبت کی خاطر عبادت کی جس کو احرار(آزاد لوگوں) کی عبادت کہاجاتاہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے۔
جناب کلينی نے رسول اسلام (ص)سے نقل کيا ہے :
افضل الناس مَن عشق العبادة،فعانقها،واحبّهابقلبه،وباشرهابجسده، وتفرّغ لها،فهولایبالي علیٰ مااصبح من الدنيا علی عسرام یسر
(اصول کافی ج٢ص٢٨٣)
لوگوں ميں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کرتے ہوئے اس سے معانقہ کيا ،اس کو اپنے دل سے دوست رکهااور اپنے اعضاء و جوارح سے اس سے وابستہ رہے ، اس کو پرواہ نہيں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی سے گزرے گا یا غم کے ساتھ گذرے گا ۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
نجویٰ العارفين تدورعلیٰ ثلاثة اصول:الخوف،والرجاء والحبّ فالخوف فرع العلم،والرجاء فرع اليقين،والحبّ فرع المعرفة فدليل الخوف الهرب،ودليل الرجاء الطلب،ودليل الحبّ ایثارالمحبوب،علیٰ ماسواه فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف هرب،واذاهرب نجاواذا اشرق نوراليقين فی القلب شاهد الفضل واذاتمکن من رویة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد واذا تجلّیٰ ضياء المعرفة فی الفواد هاج ریح المحبة،واذاهاج ریح المحبة استانس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواه،وباشر اوامره ومثال هذه الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم امن من الخلق،ومن دخل المسجد امنت جوارحه ان یستعملهافيالمعصية،ومَن دخل الکعبة امن قلبه من ان یشغله بغيرذکراللّہ
(مصباح الشریعہ ص ٢،٣)
عارفوں کی مناجات تين اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،اميد اور محبت ۔خوف علم کی شاخ ہے ،اميد یقين کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے خوف کی دليل ہر ب (فرار اختيار کرنا) ہے ،اميد کی دليل طلب ہے اور محبت کی دليل محبوب کو دوسروں پر ترجيح دینا ہے ،جب سينہ ميں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف ہوتا ہے اور جب صحيح طریقہ سے خوف پيداہوتاہے توفراروجود ميں آتاہے اورجب فراروجودميں آجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل ميں یقين کا نور چمک اٹهتا ہے تو عارف انسان فضل کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکه ليتا ہے تو اميد وار ہو جاتا ہے ،جب اميد کی شرینی محسوس کر ليتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب طلب کی تو فيق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرليتا ہے ،جب دل ميں معرفت کی ضياء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ ميں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے علاوہ انسان ہر چيز سے لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع فرمان ہو جاتا ہے ۔
ان تين اصول کی مثال حرم ،مسجداور کعبہ جيسی ہے جو حرم ميں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو جاتا ہے ،جو مسجد ميں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصيت ميں استعمال ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہيں جو کعبہ ميں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا کے علا وہ کسی اور چيز ميں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔
حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے:
بکی شعيب من حبّ الله عزّوجلّ حتّیٰ عمي اوحیٰ الله اليه: یاشعيب،ان یکن هذاخوفاًمن النار،فقداجرتک،وان یکن شوقاالی الجنة فقد ابحتک فقال:الهي وسيدي،انت تعلم انی مابکيت خوفامن نارک،ولاشوقاالی جنتک،ولکن عقدحبک علی قلبی،فلست اصبرا واراک،فاوحی الله جلّ جلاله اليه:امااذاکان هذاهکذافمن اجل هذاساخدمک کليمي موسی بن عمران
(بحارالانوار جلد ١٢ صفحہ ٣٨٠)
الله سے محبت کی وجہ سے گریہ کرتے کرتے حضرت شعيب عليہ السلام کی آنکھوں سے نور چلا گيا ۔تو الله نے حضرت شعيب عليہ السلام پر وحی کی :
اے شعيب اگر یہ گریہ وزار ی دوزخ کے خوف سے ہے تو ميں نے تم کو اجردیا اور اگر جنت کے شوق کی وجہ سے ہے تو ميں نے تمہارے لئے جنت کو مباح کيا ۔
جناب شعيب عليہ السلام نے عرض کيا :
اے ميرے الله اور اے ميرے سيد وسردار تو جانتا ہے کہ ميں نہ تو دوزخ کے خوف سے گریہ کررہاہوں اور نہ جنت کے شوق ولالچ ميں ليکن ميرے دل ميں تيری محبت ہے الله نے وحی کی اے شعيب! اگر ایسا ہے تو ميں عنقریب تمہاری خدمت کيلئے اپنے کليم موسیٰ بن عمران کو بهيجو ں گا ۔
حضرت ادریس عليہ السلام کے صحیفہ میں آیا ہے :
طوبیٰ لقوم عبدوني حبّاً،واتخذوني الٰهاًوربّاً،سهرواالليل،ودابواالنهار طلباًلوجهي من غيررهبة ولارغبة،ولالنار،ولاجنّة،بل للمحبّة الصحيحة،والارادة الصریحة والانقطاع عن الکل اليَّ
(بحار الا نوار ج ٩۵ ص ۴۶٧)
اس قوم کيلئے بشارت ہے جس نے مير ی محبت ميں مير ی عبادت کی ہے ،وہ راتوں کو جا گتے ہيں اور دن ميں بغير کسی رغبت اور خوف کے ، نہ ان کو دوزخ کا خوف ہے اور نہ جنت کا لالچ ہے بلکہ صحيح محبت اور پاک وصاف اراد ہ اور ہر چيز سے بے نياز ہو کر مجه سے لولگا تے ہيں ۔
اور محبت کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں :
عميت عين لاتراک عليهارقيباًوخسرت صفقةعبدلم تجعل له من حبّک نصيباً
(بحار الا نوار ج ٩٨ ص ٢٢۶)
وہ آنکھ اندهی ہے جوخود پر تجھ کونگران نہ سمجھے ،اور اس انسان کا معاملہ گهاٹے ميں ہے جس کےلئے تو اپنی محبت کا حصہ نہ قرار دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button