سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں کے ساتھ سیر وسلوک

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کو رحمت اور آرام کا ذریعہ قرار دیا۔سرزمین عرب پر بچوں کے قتل کی جو ظالمانہ رسم رائج تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شفقت’ محبت اور انسیت کا اظہار یوں فرمایا:
"وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹو ں پر شفقت نہ کرے۔”
ظہور اسلام سے قبل دنیا ئے عرب میں جہاں اور بہت سی برائیاں تھیں وہاں بچوں پر ظلم و ستم کا بے رحم سلسلہ بھی قائم تھا۔ دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے معصوم بچوں کو قربان گاہوں پر ذبح کردیا جاتا۔ غربت و افلاس سے چھٹکارا پانے کی خاطر بھی گلاب جیسے ننھے مننے پھولوں کو ذبح کر دیتے۔ نام و ناموس اور وقار کےتحفظ کے لیے کمسن بچیوں کو زندہ دفن کرنا باعث فخر تصور کیا جاتا۔ اہل عرب اپنے بچوں پر جس طرح مظالم ڈھاتے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جو ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سنایا تھا:
”میری ایک چھوٹی سی بچی تھی جب وہ سات سال کی ہو گئی تو اسے میں نے ایک دن عمدہ لباس پہنایا جیسے کسی دعوت میں شریک ہونا ہو۔ میں اسے لے کر گھر سے باہر نکلا۔ وہ بچی مستقبل سے بے نیاز خوش و خرم دوڑی چلی آئی اس اُمید پر کہ میں اسے سیر و تفریح کے لیے لے جا رہا ہوں۔ میں اس بچی کو قصبے سے دور ایک ویرانے میں ایسی جگہ لے گیا جہاں پہلی ہی ایک گڑھا کھدوا رکھا تھا۔ جب ہم دونوں اس گڑھے کے کنارے پر پہنچے تو میں نے اچانک اس بچی کو دھکا دے کر گڑھا میں گرا دیا۔ وہ بابا کہہ کر پکارتی رہی اور میں اسے پتھر مار کر کچلتا رہا۔ حتی کہ وہ تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئی۔ تب میں نے گڑھے کو مٹی سے بند کردیا اور تنہا واپس آگیا۔یہ سن کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منور میں انسانوں کے لیے بے پناہ محبت تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح اس بری رسم کو برداشت کرسکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل عرب کو ان کے اس ظالمانہ فعل کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان سنا کر یوں ان کا احتساب فرمایا:
”یاد کرو جب (قیامت کے دن) زندہ دفن ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائیگا تو کس جرم میں ماری گئی؟”
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا حرام کیا ہے۔ یہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی جن کی بدولت دنیائے عرب سے اس سفاکانہ اور وحشیانہ فعل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ بچیوں کو نہ صرف تحفظ ملا بلکہ انہیں معاشرے میں ایسا بلند مقام ملا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
جو والدین اپنے بچوں کو کھلانے پلانے کے خوف سے قتل کردیتے تھے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ رزق اللہ دیتا ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ وہ بڑوں کو بھی کھلاتا ہے اور بچوں کو بھی جو متنفس اس دنیا میں آتا ہے۔ وہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔ ایسے ظالم والدین کو اللہ کا پیغام دیا کہ
”اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ہی ہیں جو ان کو اور تم دونوں کو روزی دیتے ہیں۔ ان کا مار ڈالنا بلا شبہ بڑا گناہ ہے۔”
بنی اسرائیل:31
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے بچوں پر خرچ کرنا بھی ثواب اور عبادت کے درجے میں ہے۔ اس لیے ان پر تنگی نہ کی جائے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
”مسلمانو! اللہ چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتائو کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔”
(طبرانی)
”مسلمانو! اپنی اولاد کی اچھی تربیت کیا کرو۔”
(صحیح مسلم)
ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گناہ کبیرہ سے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
”یہ بھی بڑا گناہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔”
سرزمین عرب پر بچوں کے قتل و خون کی جو ظالمانہ رسم رائج تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شفقت محبت اور انسیت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچوں سے تھی اس کا اظہار یوں فرمایا:
”وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹو ں پر شفقت نہ کرے۔”
رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کو ”ہمارا” کہہ کر جس محبت’ شفقت اور انسیت کا اعلان کیا وہ معصوم بچوں کے مقام و مرتبہ اور ہمیت و افادیت کے تعین کے لیے مشعل راہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچوں سے بڑی محبت تھی۔ بچے جہاں بھی ملتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں محبت سے گود میں اٹھا لیتے چومتے پیار کرتے اور ان سے کھیلتے۔ نیا میوہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتا تو سب سے کم عمر بچے کو جو اس وقت موجود ہوتا عطا فرماتے۔ راستے میں جو بچے مل جاتے تو خود ان کو سلام کرتے اور ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے۔
ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ میرا دل بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو ان سے پیار کیا کرو اللہ تمہارا دل نرم کردے گا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ فرمارہے تھے کہ اچانک دونوں صاحبزادے دوڑتے ہوئے آگئے۔ ان دونوں نے سرخ قمیص پہنی ہوئی تھی چونکہ دونوں بہت ہی کم عمر تھے اس لیے بھاگتے ہوئے بار بار آجاتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ کر خطبہ بند کردیا منبر سے اُترے اور ان دونوں کو اٹھا کر پاس بٹھا لیا اور فرمایا:
”اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ہے’ واقعی اولاد بڑی آزمائش والی چیز ہے۔ میں ان دونوں کو دیکھ کر نیچے اُترے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے ان کی خاطر خطبہ ترک کردیا اور انہیں اٹھا لیا۔”

ایک عربی حاضر خدمت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کسی بچے کو پیار کررہے تھے۔ اس کو یہ بات عرب کے قدیم رسم و رواج کے خلاف معلوم ہوئی۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کو پیار کرتے ہیں؟ میرے دس بچے ہیں میں نے ان میں سے کسی کے سر پر ہاتھ تک نہیں پھیرا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کی طرف نظر اٹھا پھرفرمایا:
”اگر اللہ تیرے دل سے رحم و شفقت نکال لے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔”
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید کی نماز پڑھنے عید گاہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور رو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے والدین فوت ہوچکے ہیں میرے پاس کھانے پینے کے لیے کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اچھے کپڑے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار سے اسے اٹھایا اور واپس گھر تشریف لے آئے۔ اسے اچھے کپڑے پہنائے کھانا کھلایا اور اپنے ساتھ عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے وقت میں بچوں کو رحمت اور آرام کا ذریعہ قرار دیا تھا جب مرادیں مانگنے کے لیے ذبح کرنے اور ناک اونچی کرنے کے لیے بچوں کو زندہ دفن کردینے کا رواج عام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت ان پر تحفظ و سلامتی اور شفقت و محبت کی ایک ایسی چادر سی تان دی تھی جب دنیا کے دوسرے حصوں میں بچوں کے تحفظ و سلامتی کے لیے کوئی قانون نہ بنا تھا۔
https://erfan.ir/urdu/32199.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button