خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:219)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک22 ستمبر 2023ء بمطابق 5 ربیع الاول 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: شیعہ کی صفات
ماہ ربیع الاول کے پہلے عشرے میں چند اہم مناسبات ہیں۔8 ربیع الاول کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔یہ دن عام طور پر محرم سے شروع ہونے والے ایام عزاء کا آخری دن سمجھا جاتا ہے۔ اس سے اگلے دن یعنی 9 ربیع الاول کو 2 مناسبتوں کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ایک بڑی وجہ اس دن سے ہمارے آخری امام اور ہمارے وقت کے امام حضرت حجت عج کی امامت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس دن جناب مختار ثقفی نے دشمن اہلبیت اور کربلا میں یزیدی لشکر کے کمانڈر عمر ابن سعد ملعون کو واصل جہنم کرکے اس کا سر امام زین العابدین ؑ کے پاس بھیجا۔اس دشمن اہلبیت کے فی النار ہونے پر بظاہر اہلبیت کے چہرے پر مسرت دیکھی گئی۔(زادالمعاد ص ۵۸۵ )
ہمارے گیارہویں امام‘ حضرت امام حسن عسکریؑ، ٢٣٢ ہجری میں شہر مدینہ میں پیدا ہوئے۔
لقب عسکری کی وجہ:
آپ کو عسکری اس لیے کہا جاتا ہے کہ متوکل عباسی نے  سنہ 233 ہجری قمری میں امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا بلایا اور کیونکہ اس کے جاسوس اسے یہ رپورٹ دے رہے تھے کہ لوگ روز بروز امام علیہ السلام کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں حکومت وقت امام علیہ السلام کی طرف سے حکومت کے خلاف قیام کرنے سے خوف محسوس کرتی تھی اسلئے امام علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا بلایا تاکہ اپنی زیر نگرانی میں رکھا جائے اور امام علیہ السلام سے لوگوں کی رفت و آمد پر بھی نظر رکھی جا سکے۔سامرا شہر کے جس محلہ میں آپ کو رکھا گیا اس کا نام محلہ عسکر تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ علاقہ گویا ایک فوجی چھاؤنی تھا اور متوکل چاہتا تھا کہ امام سے کوئی ان کا شیعہ ملنے نہ پائے تو اس لیے اس جگہ امام کو پابند رکھا گیا۔ اس محلے کے نام کی وجہ سے ان دو اماموں کو عسکریئین اور امام حسن عسکری کو عسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے۔متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد پھر وہاں سے سامرا بلوایا اور 20 سال 9 ماہ تک امام علیہ السلام کو وہاں رکھا گیا یہاں تک کہ معتز عباسی کے دور حکومت میں اس نے امام علیہ السلام کو زہر سے مسموم کیا اور اسی سے امام علیہ السلام شہید ہوئے اور اسی شہر میں ہی دفن ہوئے جہاں آج حرم عسکریین کے نام سے امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا روضہ مبارکہ شیعیان جہاں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔(تاریخ بغداد)
آج کے اس خطبے میں ہم امام حسن عسکری علیہ السلام کی زبانی شیعوں کی صفات بیان کریں گے۔ تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ اہل بیت علیھم السلام کی نظر میں شیعہ کیسا ہوتا ہے اور کیسا ہونا چاہیے ۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد فقط معلومات حاصل کرنا یا پہنچانا نہیں بلکہ اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں اور اپنے اندر ان صفات کو پید ا کریں تاکہ بروز محشر ہم ان کے حقیقی شیعہ کہلائے جائیں اور پھر ہمیں ان کی شفاعت نصیب ہو سکے۔
شیعہ بابصیرت ہوتا ہے:
امام حسن عسکری علیہ السلام اسحاق بن اسماعیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
: "فَأَتَمَّ اَللَّهُ عَلَيْكَ يَا إِسْحَاقُ وَ عَلَى مَنْ كَانَ مِثْلَكَ مِمَّنْ قَدْ رَحِمَهُ اَللَّهُ وَ بَصَّرَهُ بَصِيرَتَكَ نِعْمَتَهُ … فَاعْلَمْ يَقِيناً يَا إِسْحَاقُ أَنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنْ هَذِهِ اَلدُّنْيَا أَعْمَى – فَهُوَ فِي اَلْآخِرَةِ أَعْمىٰ وَ أَضَلُّ سَبِيلاً  يَا إِسْحَاقُ لَيْسَ تَعْمَى اَلْأَبْصَارُ – وَ لٰكِنْ تَعْمَى اَلْقُلُوبُ اَلَّتِي فِي اَلصُّدُورِ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اَللَّهِ فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ حِكَايَةً عَنِ اَلظَّالِمِ إِذْ يَقُولُ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمىٰ وَ قَدْ كُنْتُ بَصِيراً – `قٰالَ كَذٰلِكَ أَتَتْكَ آيٰاتُنٰا فَنَسِيتَهٰا وَ كَذٰلِكَ اَلْيَوْمَ تُنْسىٰ۔
اے اسحاق! خداوند متعال نے تم پر اور تم جیسوں پر، جو رحمت الہیہ اور خداداد بصیرت سے بہرہ مند ہوچکے ہیں، اپنی نعمت تمام فرمائی ہے … اے اسحاق! پس یقین کے ساتھ جان لو کہ جو شخص دنیا سے اندھا اور بے بصیرت ہوکر اٹھے گا اس کو آخرت میں بھی گمراہ اور نابینا اٹھایا جا‏ئے گا۔ یا اسحق! (اس موضوع میں) آنکھیں نہیں ہیں جو اندھی ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اور یہ در حقیقت کتاب محکم میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے اس ظالم سے حکایت کرتے ہوئے جو "کہے گا پروردگار! کیوں تو نے مجھے حشر میں اندھا اٹھایا حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ * ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری نشانیاں تیرے پاس آئیں تو تو نے انہیں بھلاوے میں ڈالا اور اسی طرح اب آج تو بھلایا جا رہا ہے”. (تحف العقول، ص 484) (سورہ طہ آیات 125 و 126)
پس امام فرما رہے ہیں کہ شیعہ بصیرت والا ہوتا ہے کیونکہ جو شخص بصیرت نہیں رکھتا یعنی معاملات کی درست سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اور دشمن کی پہچان نہیں رکھتا وہ بے بصیرت ہے اور جو بصیرت نہ رکھتا ہو وہ ایسے ہے جیسے اندھا ہو کہ اسے کچھ نظر نہیں آتا ۔
شیعہ کی عبادت غور و فکر سے بھرپور ہوتی ہے:
امام حسن عسکری علیہ السلام کبھی اس خطرے سے خبردار فرماتے ہیں کہ عبادت کو صرف مستحب نمازوں اور روزوں میں منحصر قرار دیا جاتا ہے اور عبادات الہی کے لئے مقررہ اوقات، عبادات کی کیفیت و کمیت اور زمان و مکان اور رمز و راز میں غور و تفکر نہیں کیا جاتا۔ فرماتے ہیں: لَيْسَتِ اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةَ اَلصِّيَامِ وَ اَلصَّلاَةِ وَ إِنَّمَا اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةُ اَلتَّفَكُّرِ فِي أَمْرِ اَللَّهِ
نماز و روزوں کی کثرت ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت اللہ کے امور میں غور و تفکر کرنے سے عبارت ہے۔(بحار الانوار جلد۷۵  , صفحه۳۷۳)
بے شک عبادت تفکر ہی کی دعوت دیتی ہیں چنانچہ اگر عبادت فکر کے لئے راستہ ہموار نہ کرے یا فکر و تدبر کا پیش خیمہ ثابت ہو تو وہ عبادت بے روح کہلائے گی لیکن اگر عبادت تفکر کے ہمراہ ہو تو ممکن ہے کہ دنیا میں بھی انسانوں کی فلاح کا سبب بن جائے چنانچہ ایسی عبادت سے دنیا اور آخرت کا اجر بھی ملے گا اور اس عبادت کو ہی زندہ عبادت کہا جاسکے گا۔
شیعہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے:
اور ہاں فکر اور تدبر بھی صرف اسی وقت مفید ہے کہ ایمان، عمل اور کردار و کوشش کی بنیاد فراہم کرے ورنہ جس فکر و تدبر کے بعد امیان عمل نہ ہو وہ پسندیدہ اور کارساز نہیں ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
” خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ اَلْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ نَفْعُ اَلْإِخْوَانِ 
دو خصلتیں ہیں جن سے بہتر و برتر کوئی خصلت نہیں:
1۔ اللہ تعالی پر ایمان
2۔ دینی برادران کو فائدہ پہنچانا۔
(مستدرک الوسائل جلد۱۲  ,  صفحه۳۹۱  )
شیعہ خدا، موت اور قیامت اور نبی پر درود نہیں بھولتا:
تفکر و تدبر اور ایمان و عمل بہت ضروری ہے اور جب انسان فکر و تدبر کے نتیجے میں امیان و عمل کے مرحلے پر پہنچتا ہے وہ عبادت بھی کرتا ہے اور اللہ کو بھی یاد کرتا رہتا ہے اور قیامت اور حساب و کتاب کو بھی نہيں بھولتا چنانچہ وہ آخرت کے لئے تیاری بھی کرتا ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
"أَكْثِرُوا ذِكْرَ اَللَّهِ وَ ذِكْرَ اَلْمَوْتِ وَ تِلاَوَةَ اَلْقُرْآنِ وَ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَإِنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى رَسُولِ اَللَّهِ عَشْرُ حَسَنَاتٍ ". (تحف العقول،ص 488)
خدا کو زیادہ یاد کرو، اور موت کو زیادہ یاد کرو، قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرو اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بہت زیادہ درود و صلوات بھیجو، پس بتحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات کے لئے دس حسنات ہیں۔
شیعہ اپنے دینی بھائیوں کو خود پر اہمیت دیتے ہیں:
دعوے کرنے کے لئے کسی زحمت و تکلیف کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دعؤوں سے شیعہ بننا ممکن نہیں ہے بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے، گناہوں اور نافرمانیوں سے دوری کرنی پڑتی ہے ایثار و قربانی دینی پڑتی ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
 شِيعَةُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ هُمُ اَلَّذِينَ يُؤْثِرُونَ  إِخْوَانَهُمْ عَلىٰ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كٰانَ بِهِمْ  خَصٰاصَةٌ  وَ هُمُ اَلَّذِينَ لاَ يَرَاهُمُ اَللَّهُ حَيْثُ نَهَاهُمْ وَ لاَ يَفْقِدُهُمْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ وَ شِيعَةُ عَلِيٍّ هُمُ اَلَّذِينَ يَقْتَدُونَ بِعَلِيٍّ عَلَيهِ السَّلاَمُ فِي إِكْرَامِ إِخْوَانِهِمُ اَلْمُؤْمِنِينَ  ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: شیعیان علی ؑ وہ ہیں جو اپنے دینی برادران کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں چاہے وہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں،
شیعیان علی ؑ وہ ہیں جو دوری کرتے ہیں ان اعمال سے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اور انجام دیتے ہیں  ان اعمال کو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے،
شیعیان علی ؑ وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کی تکریم وعزت کرنے میں علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں۔
(بحار الانوار  جلد۶۵  ,  صفحه۱۶۰  )
شیعہ اپنے برادران کے حقوق ادا کرتا ہے:
امام حسن عسکري عليہ ‌السلام  نےفرمایا:
"أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً”.
جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے؛ اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کی نسبت سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کے حقیقی شیعوں میں سے ہے۔ (بحارالأنوار  ,  جلد۴۱  ,  صفحه۵۵)
واضح رہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حقیقی شیعہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام اور سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد بنی ابی بکر اور مالک اشتر تھے۔ جنھوں نے ولایت کی پیروی کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے ولی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شک و تردد سے کام نہیں لیا اور کبھی بھی اپنی رائے ولی امر کی رائے پر مقدم نہیں رکھی بلکہ کبھی بھی ولی اللہ علیہ السلام کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ حتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم جاری ہونے کے باوجود اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی اعلانیہ مخالفت تک کیا کرتے تھے! اور یہ ولایت پذیری کے بالکل خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں پر ولایت و حکومت رکھتے تھے۔

شیعہ کسی کی ناموس پر نظر نہیں رکھتا:
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ایک مرد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: فلاں شخص اپنے پڑوسی کے حرم (زوجہ) کو گھورتا ہے اور اگر ناجائز فعل ممکن ہوسکے تو وہ دریغ نہیں کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اس شخص کو حاضر کرو۔
اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ آپ کے پیروکاروں میں سے ہے اور علی علیہ السلام کا شیدائی ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔
فرمایا: مت کہو کہ ایسا شخص ہمارے شیعوں میں سے ہے۔ وہ جھوٹا ہے کیونکہ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے راستے پر گامزن ہوں اور اعمال میں ہمارے پیروکار ہوں۔(لئالي الاخبار، ج ۵، ص ۱۵۷)
 شیعہ مہمان کا احترام کرتا ہے:
شیعیان محمد و آل محمد کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مہمام کا اکرام و تعظیم ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: دو دینی برادران (باپ اور بیٹا) امیرالمؤمنین علیہ السلام کے گھر میں مہمان ہوئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر مہمانوں کا استقبال کاد اور ان کی تکریم فرمائی اور انہیں صدرِ مجلس میں بٹھایا اور خود بھی ان کے بیچ میں تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کا حکم دیا اور ان دونوں نے کھانا کھالیا۔ قنبر ایک برتن میں پانی لائے اور ایک خالی برتن نیز تولیہ ساتھ لائے اور خالی برتن مہمان کے سامنے رکھا تا کہ مہمان ہاتھ بڑھا دیں اور قنبر ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالیں۔ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر پانی کا برتن قنبر سے لے لیا تا کہ مہمان کے ہاتھ خود دھلا دیں۔ مہمان نے اپنے آپ کو خاک پر گرادیا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! خدا مجھے دیکھ رہا ہے کہ آپ مر ے ہاتھوں پر پانی ڈالنا چاہتے ہیں!
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹھ جاؤ اور اپنے ہاتھ دھولو، خداوند متعال تمہیں بھی دیکھتا ہے اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھتا ہے جو بالکل تمہاری مانند ہے اور تم میں اور تمہارے بھائی میں کوئی فرق نہیں ہے  اور تمہارا یہ بھائی اپنے آپ کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا بلکہ تمہاری خدمت کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جنت میں اس کے خدمتگذاروں کی تعداد دنیا کے لوگوں کی پوری تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہو۔ وہ آدمی بیٹھ گیا۔
(نکتہ: مہمان کی خدمت کرو گے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ تم جنتی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں اللہ تعالی اس کو لاکھوں خدمتگذاروں سے بہرہ مند فرمائے گا)
فرمایا: تجھے اس خدا کی قسم دیتا ہوں میرے اس حق عظیم کے صدقے، جس کو تم نے پہچان لیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے، اور اللہ کے سامنے تیرے خضوع و انکسار کے صدقے، کہ اس نے مجھے خدمت مہمان کی دعوت دی ہے اور اس کے ذریعے تم کو شرف بخشا ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں، اپنے ہاتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ دھولو بالکل اسی طرح کہ اگر قنبر تمہارے ہاتھوں پر پانی ڈالتا، اور تم سکون کے ساتھ ہاتھ دھولیتے۔ چنانچہ مہمان نے ایسا ہی کیا۔
امیرالمؤمنین ؑ مہمان کے ہاتھ دھلانے سے فارغ ہوئے تو بیٹے محمد بن حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: بیٹا! اگر یہ لڑکا یہاں تنہا ہوتا اور اپنے والد کی معیت کے بغیر آیا ہوتا میں خود ہی اس کے ہاتھوں پر پانی ڈالتا لیکن خداوند متعال نہیں چاہتا کہ جب باپ بیٹا ساتھ ہوں تو دونوں برابر ہوں اور ان کے ساتھ ایک ہی انداز سلوک اپنایا جائے۔ چنانچہ باپ نے باپ کے ہاتھ دھلائے اور بیٹے نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔ یہ داستان سنانے کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: "فمن اتبع عليا على ذلك فهو الشيعي حقا”۔ جس نے اس سنت میں علی علیہ السلام کی پیروی کی وہ حقیقتاً شیعہ ہے۔
(بحار الأنوار ج 41 ص55 حدیث 5 بحوالہ المناقب ابن شہر آشوب ج1 ص310 )
شیعہ ہوشیار ہوتا ہے مگر کس طرح:
قیامت اور حساب و کتاب اور میزان کے لئے تیاری ہوشیاری اور زیرکی کی علامت ہے کیونکہ زیرک شخص وہی ہے جو اپنی قیامت کو سنوارے اور قیامت کو سنوارنے اورہوشیاری کے اثبات کے لئے کن اوصاف کی ضرورت ہے؟ دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری، امیرالمؤمنین اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرماتے ہیں:
 أَكْيَسُ اَلْكَيِّسِينَ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ، وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ اَلْمَوْتِ، وَ إِنَّ أَحْمَقَ اَلْحَمْقَى مَنِ اِتَّبَعَ نَفْسُهُ هَوَاهَا، وَ تَمَنَّى عَلَى اَللَّهِ تَعَالَى اَلْأَمَانِيَّ
امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی تفسیر میں اپنے آباء طاہرین علیہم السلام سے روایت کرکے کہ علی علیہ السلام نے علی علیہ السلام کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "سب سے زیادہ کَيِّس اور سب سے زیادہ زیرک و ہوشیار فرد وہ ہے جو اپنے اعمال کا محاسبہ اور احتساب کرے اور موت کے بعد کی حیات کے لئے محنت و کوشش کرے۔
فَقَالَ اَلرَّجُلُ: يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ كَيْفَ يُحَاسِبُ اَلرَّجُلُ نَفْسَهُ
کسی نے امیرالمؤمنین ؑ سے دریافت کیا: یا امیرالمؤمنین! ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے؟
قَالَ: إِذَا أَصْبَحَ ثُمَّ أَمْسَى رَجَعَ إِلَى نَفْسِهِ فَقَالَ: يَا نَفْسِ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَضَى عَلَيْكِ لاَ يَعُودُ إِلَيْكِ أَبَداً، وَ اَللَّهُ تَعَالَى يَسْأَلُكِ عَنْهُ فِيمَا أَفْنَيْتِيهِ
فرمایا: جب وہ صبح کرتا ہے اور رات تک کا دن گذار دیتا ہے تو وہ اپنے نفس کی طرف لوٹتا ہے (اپنے گریباں میں جھانک لیتا ہے) اور کہتا ہے: اے میرے نفس! بے شک یہ دن جو تجھ پر گذر گیا ہرگز لوٹ کر نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالی تجھ سے ان چیزوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا جو تو اس دن کھو چکا ہے۔
اَلَّذِي عَمِلْتِ فِيهِ أَ ذَكَرْتِ اَللَّهَ أَمْ حَمِدْتِيهِ
پس تو نے اس دن کے دوران کیا کیا؟ کیا تو نے خدا کو یاد کیا یا اس کی حمد و ثناء میں مصروف ہوا؟
فَمَا أَ قَضَيْتِ حَوَائِجَ مُؤْمِنٍ
کیا اس دن تو نے کسی مؤمن کی حاجت روائی کا اہتمام کیا؟
أَ نَفَّسْتِ عَنْهُ كُرْبَةً
کیا تو نے کسی مؤمن بھائی کا رنج و غم رفع کیا؟
أَ حَفِظْتِيهِ بِظَهْرِ اَلْغَيْبِ فِي أَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ
کیا تو نے اس کی غیر موجودگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کے خاندان اور اولاد میں اس کا تحفظ کیا [اور اس کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا حق ادا کیا؟]،
أَ حَفِظْتِيهِ بَعْدَ اَلْمَوْتِ فِي مُخَلَّفِيهِ کیا تو نے موت کے بعد اس کے وارثوں اور پسماندگان کے حوالے سے اس کا حق ادا کیا؟
أَ كَفَفْتِ عَنْ غِيبَةِ أَخٍ مُؤْمِنٍ بِفَضْلِ جَاهِكِ کیا تو نے اپنے مؤمن بھائی کی غیبت سے اجتناب کیا؟
أَ أَعَنْتِ مُسْلِماً
کیا تو نے کسی مسلمان کی مدد کی؟
مَا اَلَّذِي صَنَعْتِ فِيهِ فَيَذْكُرُ مَا كَانَ مِنْهُ
تو نے اس دن، کیا کیا؟
فَإِنْ ذَكَرَ أَنَّهُ جَرَى مِنْهُ خَيْرٌ، حَمِدَ اَللَّهَ تَعَالَى، وَ كَبَّرَهُ عَلَى تَوْفِيقِهِ، پس وہ یاد کرے گا ان تمام اعمال کو جو اس نے پورے دن میں انجام دیئے ہیں، اگر اس کو یاد آجائے کہ اس نے جو کیا ہے وہ سب خیر و نیکی ہے تو اس توفیق پر اللہ کی حمد و شکر کرے اور اس کی تکبیر و تسبیح کرے
وَ إِنْ ذَكَرَ مَعْصِيَةً أَوْ تَقْصِيراً، اِسْتَغْفَرَ اَللَّهَ تَعَالَى، وَ عَزَمَ عَلَى تَرْكِ مُعَاوَدَتِهِ
اور اگر اس کو یاد آجائے کہ اس سے کوئی نافرمانی یا تقصیر (یعنی ارادی طور پر معصیت) سرزد ہوئی ہے تو استغفار کرے اور عزم کرے کہ اس گناہ کو ترک کرے گا  اور اس کو دہرانے سے اجتناب کرے گا۔
( وسائل الشیعة  ,  جلد۱۶  ,  صفحه۹۸ )
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اہل بیت ؑ کا حقیقی شیعہ بننے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
رسالۃ الحقوق:
ہم نے پچھلے چند ہفتوں سے اپنے خطبے میں ایک نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں ہم امام زین العابدین ؑ کے بیان کردہ رسالۃ الحقوق میں سے ایک حق بیان کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کے تحت آج پاؤں کا حق بیان کریں گے۔
پاؤں کا حق: امام زین العابدین ؑ پاؤں کا حق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ رِجْلَيْكَ فَأَنْ لَا تَمْشِيَ بِہِمَا إِلَى مَا لَا يَحِلُّ لَكَ
تمہارے پیروں کا حق یہ ہے کہ ان سے اس چیز کی طرف نہ جاو جو تمہارے لیے حلال نہیں ہے
وَ لَا تَجْعَلَہَا مَطِيَّتَكَ فِي الطَّرِيقِ الْمُسْتَخِفَّةِ بِأَہْلِہَا فِيہَا
اور انہیں اس راستہ کے لیے اپنی سواری نہ بناو جو چلنے والے کے لیے باعث شرم ہو،
فَإِنَّہَا حَامِلَتُكَ وَ سَالِكَةٌ بِكَ مَسْلَكَ الدِّينِ وَ السَّبْقِ لَكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ
کیونکہ وہ تمہیں اٹھاتے ہیں اور دین کی طرف لے جاتے ہیں اور تمہارے آگے بڑھنے کا سبب ہوتے ہیں
اور خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔

عربی متن
امام حسن عسکری علیہ السلام اسحاق بن اسماعیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
: "فَأَتَمَّ اَللَّهُ عَلَيْكَ يَا إِسْحَاقُ وَ عَلَى مَنْ كَانَ مِثْلَكَ مِمَّنْ قَدْ رَحِمَهُ اَللَّهُ وَ بَصَّرَهُ بَصِيرَتَكَ نِعْمَتَهُ … فَاعْلَمْ يَقِيناً يَا إِسْحَاقُ أَنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنْ هَذِهِ اَلدُّنْيَا أَعْمَى – فَهُوَ فِي اَلْآخِرَةِ أَعْمىٰ وَ أَضَلُّ سَبِيلاً  يَا إِسْحَاقُ لَيْسَ تَعْمَى اَلْأَبْصَارُ – وَ لٰكِنْ تَعْمَى اَلْقُلُوبُ اَلَّتِي فِي اَلصُّدُورِ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اَللَّهِ فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ حِكَايَةً عَنِ اَلظَّالِمِ إِذْ يَقُولُ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمىٰ وَ قَدْ كُنْتُ بَصِيراً – `قٰالَ كَذٰلِكَ أَتَتْكَ آيٰاتُنٰا فَنَسِيتَهٰا وَ كَذٰلِكَ اَلْيَوْمَ تُنْسىٰ۔
لَيْسَتِ اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةَ اَلصِّيَامِ وَ اَلصَّلاَةِ وَ إِنَّمَا اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةُ اَلتَّفَكُّرِ فِي أَمْرِ اَللَّهِ
خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ اَلْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ نَفْعُ اَلْإِخْوَانِ 
أَكْثِرُوا ذِكْرَ اَللَّهِ وَ ذِكْرَ اَلْمَوْتِ وَ تِلاَوَةَ اَلْقُرْآنِ وَ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَإِنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى رَسُولِ اَللَّهِ عَشْرُ حَسَنَاتٍ ".
شیعہ اپنے دینی بھائیوں کو خود پر اہمیت دیتے ہیں:
شِيعَةُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ هُمُ اَلَّذِينَ يُؤْثِرُونَ  إِخْوَانَهُمْ عَلىٰ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كٰانَ بِهِمْ  خَصٰاصَةٌ  وَ هُمُ اَلَّذِينَ لاَ يَرَاهُمُ اَللَّهُ حَيْثُ نَهَاهُمْ وَ لاَ يَفْقِدُهُمْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ وَ شِيعَةُ عَلِيٍّ هُمُ اَلَّذِينَ يَقْتَدُونَ بِعَلِيٍّ عَلَيهِ السَّلاَمُ فِي إِكْرَامِ إِخْوَانِهِمُ اَلْمُؤْمِنِينَ  ۔

شیعہ اپنے برادران کے حقوق ادا کرتا ہے:
أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً”.
شیعہ مہمان کا احترام کرتا ہے:(امام علی ؑ کا واقعہ)
: "فمن اتبع عليا على ذلك فهو الشيعي حقا”۔
شیعہ ہوشیار ہوتا ہے مگر کس طرح:
أَكْيَسُ اَلْكَيِّسِينَ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ، وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ اَلْمَوْتِ، وَ إِنَّ أَحْمَقَ اَلْحَمْقَى مَنِ اِتَّبَعَ نَفْسُهُ هَوَاهَا، وَ تَمَنَّى عَلَى اَللَّهِ تَعَالَى اَلْأَمَانِيَّ
فَقَالَ اَلرَّجُلُ: يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ كَيْفَ يُحَاسِبُ اَلرَّجُلُ نَفْسَهُ
کسی نے امیرالمؤمنین ؑ سے دریافت کیا: یا امیرالمؤمنین! ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے؟
قَالَ: إِذَا أَصْبَحَ ثُمَّ أَمْسَى رَجَعَ إِلَى نَفْسِهِ فَقَالَ: يَا نَفْسِ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَضَى عَلَيْكِ لاَ يَعُودُ إِلَيْكِ أَبَداً، وَ اَللَّهُ تَعَالَى يَسْأَلُكِ عَنْهُ فِيمَا أَفْنَيْتِيهِ
اَلَّذِي عَمِلْتِ فِيهِ أَ ذَكَرْتِ اَللَّهَ أَمْ حَمِدْتِيهِ
فَمَا أَ قَضَيْتِ حَوَائِجَ مُؤْمِنٍ
أَ نَفَّسْتِ عَنْهُ كُرْبَةً
أَ حَفِظْتِيهِ بِظَهْرِ اَلْغَيْبِ فِي أَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ
أَ حَفِظْتِيهِ بَعْدَ اَلْمَوْتِ فِي مُخَلَّفِيهِ
أَ كَفَفْتِ عَنْ غِيبَةِ أَخٍ مُؤْمِنٍ بِفَضْلِ جَاهِكِ کیا تو نے اپنے مؤمن بھائی کی غیبت سے اجتناب کیا؟
أَ أَعَنْتِ مُسْلِماً
مَا اَلَّذِي صَنَعْتِ فِيهِ فَيَذْكُرُ مَا كَانَ مِنْهُ
فَإِنْ ذَكَرَ أَنَّهُ جَرَى مِنْهُ خَيْرٌ، حَمِدَ اَللَّهَ تَعَالَى، وَ كَبَّرَهُ عَلَى تَوْفِيقِهِ، پس وہ یاد کرے گا ان تمام اعمال
وَ إِنْ ذَكَرَ مَعْصِيَةً أَوْ تَقْصِيراً، اِسْتَغْفَرَ اَللَّهَ تَعَالَى، وَ عَزَمَ عَلَى تَرْكِ مُعَاوَدَتِهِ
رسالۃ الحقوق: پاؤں کا حق: امام زین العابدین ؑ پاؤں کا حق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ رِجْلَيْكَ فَأَنْ لَا تَمْشِيَ بِہِمَا إِلَى مَا لَا يَحِلُّ لَكَ
وَ لَا تَجْعَلَہَا مَطِيَّتَكَ فِي الطَّرِيقِ الْمُسْتَخِفَّةِ بِأَہْلِہَا فِيہَا
فَإِنَّہَا حَامِلَتُكَ وَ سَالِكَةٌ بِكَ مَسْلَكَ الدِّينِ وَ السَّبْقِ لَكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button