سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغی سیرت

سید حسن رضا رضوی ( فاضل جامعۃ الکوثر، متعلم حوزہ علمیہ نجف)
استاد رہنما: علامہ افتخار حسین جعفری ؒ
(یہ مقالہ جامعۃ الکوثر کےشعبہ "تفسیر و علوم قرآن ” کے زیر اہتمام ” علوم القران )کفایہ اوّل (” کے نصاب کو تکمیل کرنے کے لئے لکھا گیا ہے،سال تحصیلی 2018)
مقدمہ
جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے تو کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیتوں و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔حتیٰ کہ ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں۔ تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پر نور ہو جاتے ہیں.۔ چنانچہ جب سے انسان اس دنیا میں آ باد ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہر دور میں کسی نہ کسی خطے میں کوئی انسان ایسا ضرور پیداہوتا رہا ہے جس نے انسانوں کو سیرت و کردار کی تعمیر کی دعوت دی اور اخلاق و اعمال کی درستگی کا درس دیا۔ ان اخلاقی رہنماؤں نے ہمیں بنیادی انسانی صفات پر قائم رہنے، حیوانوں سے ممتاز زندگی گزارنے اور بلند ترین اخلاقی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی تعلیم دی۔ ان ہی رہنماؤں میں سے ایک مقدس و پاک ذات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جزیرہ نمائے عرب میں اس وقت پیداہوئے جب پورا عرب شدید اخلاقی بحران کا شکار تھا اور دنیائے انسانیت میں عجیب ہیجان سا برپا تھا۔ اخلاقی اصول بے محابا توڑے جارہے تھے اور انسانیت کی برسرعام تذلیل کی جارہی تھی۔ انسان سیرت و کردار کی تعمیر سے غافل اور عزت و ناموس کی تخریب کاری میں مشغول تھا۔ وہ ساری انسانی صفات سے بے پرواہ اور بلند اخلاقی اصولوں سے نابلد تھے کھلے عام بدکاری کرنا ، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، دوسروں کی عزت و جان پر حملہ آور ہونا۔ یہ عام سی بات تھی۔ ایسے میں اخلاق و کردار کی بات کرنا کچھ ایسا ہی تھا جیسے صحرا میں صدا لگانا، مگر اس نبی امی نے اپنی ساری عمر اخلاقی اصولوں کی تبلیغ اور الٰہی قوانین کی اشاعت میں گزاردی اور ایک دن کے لئے بھی وہ اپنے ماحول کی تیرگی سے مایوس نہ ہوئے۔ آخر کار وہ دنیائے انسانیت سے اخلاقی باختگی کی انسانیت سوز فضا کو ختم کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محنت شاقہ نے ایک مردہ وافسردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دی۔ باہم برسرپرخاس قبیلوں کے مجموعہ متفرقات کو وحدت بخش کر ایک ایسی قوم بنادیا، جس کا محرک عمل حیات ابدی کی امید تھی۔ روشنی کی جو منتشر شعائیں اس وقت علیحدہ علیحدہ دل انسانی پر پڑی تھی انہیں لے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نقطہ پر مرکوز کردیا۔ معاشرہ کو نہ صرف ایک مثالی معاشرہ میں تبدیل کیا، بلکہ اس معاشرہ کے افراد کو انسانیت کا علمبردار بناکر پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں روحانی واخلاقی پاکیزگی، فرد کی آزادی، فرد اورمعاشرہ کے مابین ایک توازن قائم کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔دور حاضر میں سیرت رسولؐ کی پامالی کے متعلق بہت زیادہ ناکام کوششیں کی جارہی ہیں لہٰذاہمارا فریضہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ کے احیاء میں ‘رات دن’ کوشاں رہیں تاکہ محشر میں حضورؐ کے سامنے خجالت وشرمندگی سے محفوظ رہ سکیں اور فخر کے ساتھ حضرت سے کہیں کہ یا رسول اللہؐ ہم پر بھی ایک نظر کرم کیجئے، ہماری شفاعت فرمائیے ہم آپؐ کی سنت کے احیاء میں زندگی بسر کرکے آئے ہیں ۔
خدا وند عالم کے فرستادہ نمونہ اور آئیڈیل حضرت ختمی مرتبتؐ نے اپنے اخلاق کے ذریعہ دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ شمشیر ظلم سے سروں پر تو حکومت ہو سکتی ہے ،دلوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی ۔
اگر دلوں پر حکومت کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی اسلحہ ہے اور وہ ہے ‘اخلاق’

حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغی سیرت
یوں تو حضرت محمدؐ کا کوئی بھی ایسا عمل نہیں مل سکتا کہ بغیر انجام دیئے کسی دوسرے کو حکم دیا ہو لیکن حضورؐ کے دو کام ایسے ہیں جو بہت ہی آشکار ہیں کہ سب کو معلوم ہو گیا کہ حضرتؐ نے یہ عمل انجام دیئے ہیں۔
آپ ؐ کا پہلا کام: مدینہ منورہ میں مسجد بنوائی، مسجد بنانے میں آپؐ خود بھی کام انجام دیتے تھے اور مسلمان خواتین کے لئے بھی ایک وقت مقرر فرمادیا تھا تاکہ اس ثواب سے خواتین بھی محروم نہ رہیں اور انھیں احساس کمتری نہ ہو۔
آپؐ کا دوسرا کام:لوگوں کے درمیان اخوت وبرادری اور بھائی چارگی قائم کی جیسا کہ خدا وند عالم نے حکم دیا تھا۔
(انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم تر حمون) (سورہ حجرات، آیۃ 10)
یعنی مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس بھائیوں کے درمیان صلح وآشتی برقرار رکھو اور تقویٰ اختیار کرو امید ہے کہ تم مشمول رحمت الٰہی قرار پاؤگے۔
اس آیت میں دو مؤمنوں کے درمیان تعلقات کو دو بھائیوں کے درمیان رابطہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔
١۔دو بھائیوں کی دوستی، محکم اور عمیق و پائیدار ہے۔
٢۔دو بھائیوں کی دوستی ،دو طرفہ ہے نہ کہ ایک طرفہ۔
٣۔دو بھائیوں کی دوستی، فطرت وطبیعت کا تقاضہ ہے(جس کا مادی دنیا سے کو ئی تعلق نہیں ہے)
٤۔دشمن کے مقابل، دو بھائی ، ایک دوسرے کے لئے قوت بازو ہیں۔
٥۔دونوں بھائیوں کی اصل ایک ہے۔
٦۔اگر ایک مؤمن دوسرے مومن کو بھائی تسلیم کرے گا تو عفو وبخشش کا جذبہ زیادہ ہوگا اور اس کی خطاؤں سے چشم پوشی کرے گا (چونکہ دو بھائیوں کے درمیان ایسا ہی ہوتا ہے)۔
٧۔ایک بھائی دوسرے بھائی کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین و رنجیدہ ہوتا ہے، اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنا بھائی نہیں سمجھتا تو بالکل اس کے بر خلاف نظر آئے گا، اگر ایک مومن خوش ہے تو دوسرا اس کی خوشی سے رنجیدہ ہوگا اور اگر ایک رنجیدہ ہے تو دوسرا اس کے دردوالم سے خوشحال ومسرور ہوگا، اگر ایک بھائی ترقی کے زینوں کو طے کر رہا ہے تو دوسرا بھائی اسے تنزلی کی طرف کھینچتا نظر آئے گااور اگر ایک بھائی پستی کی جانب جا رہا ہے تو بجائے اس کے کہ اسے سہارادیکرترقی کی طرف لا کر اس کا مددگارو معاون ثابت ہو ، گڑھے میں ڈھکیلتا نظر آئے گا۔
روایت میں آیا ہے کہ ‘دو بھائی دو ہاتھوں کی مانند ہیں کہ دھوتے وقت ایک دوسرے کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
( المحجة البیضائ: ج٣،ص٣١٩)
اس روایت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بھائی اسی کوکہتے ہیں جو دوسرے بھائی کے لئے معاون ومددگار ثابت ہو ، اگر ایسا نہیں ہے تو کچھ بھی ہو، بھائی کہلانے کاحقدارنہیں ہے ۔
آغازاسلام میں، رسول اسلامؐ ،سات سو چالیس افراد کے ساتھ ‘نخیلہ نامی مقام پر’ قیام پذیر تھے کہ جبرئیل امین یہ پیغام لے کر نازل ہوئے کہ خدا وند عالم نے فرشتوں کے درمیان برادری قائم کردی ہے یعنی ایک کودوسرے کا بھائی قرار دیا ہے، آپؐ نے بھی اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور ایک کو دوسرے کا بھائی بنا دیا جن میں سے چند افراد کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:۔
حضرت ابوبکروعمر، عثمان و عبد الرحمن، سلمان و ابوذر، طلحہ وزبیر،مصعب وابو ایوب انصاری، حمزہ و زید بن حارثہ۔
ابو درداء وبلال، جعفر طیارو معاذ بن جبل، مقدادوعمار، عائشہ وحفصہ، ام سلمیٰ و صفیہ۔
اور خود کو حضرت علیؑ ؑ کا بھائی قرار دیا۔( بحار الانوار:ج٣٨،ص٣٣٥)
جنگ احد میں دو شہید بنام عبداللہ ابن عمر اورعمر ابن جموح ، کہ جن کے درمیان آپؐ نے رشتۂ اخوت قائم کیا تھا ، حضور نے حکم دیا کہ ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کرو۔
( شرح نہج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی،ج١٤،ص٢١٤۔ بحارالانوار:ج٢٠،ص١٢١)
اخوت و برادری کا رابطہ صرف مردوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ خواتین کے لئے بھی وارد ہوا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے (وان کانوا اخوة رجالاونساء)( سورہ نساء 176)
یعنی اخوت و برادری قائم کرو چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
برادری اور ہمبستگی فقط اور فقط فی سبیل اللہ ہونی چاہیئے ، اگر کوئی انسان کسی کو دنیا کے لئے بھائی بنائے تو اسے اس کی مراد حاصل نہیں ہو سکتی اور قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین) (سورۂ زخرف، آیۃ ٦٧)
ہوشیار ہوجاؤ! (جو لوگ دنیاوی غرض سے بھائی اور دوست بنتے اور بناتے ہیں وہ) قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیز گارں گے(یعنی جن لوگوں نے خدا کے لئے دوستی وبرادری قائم کی تھی وہی فائدہ میں ہیں)۔
امام جعفرؑ صادق فرماتے ہیں: ‘مومن، مومن کا بھائی ہے، یہ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک جسم کا ایک حصہ بھی اذیت وتکلیف میں ہوتا ہے تو پورے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔( اصول کافی:ج٢،ص١٣٣)
یعنی بھائی وہی ہے جو اپنے بھائی کی تکلیف کا احساس کرے ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں حقوق برادری:
جب ایک مومن نے دوسرے مومن کو بھائی مان ہی لیا ہے تو اب ظاہر ہے کہ اس کے حقوق کی بھی رعایت کرنی پڑے گی۔
رسول اسلا م ؐ فرماتے ہیں: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کی گردن پر تیس حق ہیں کہ جن کا ادا کرنا واجب ہے، ان میں سے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:۔
١۔اس کے ساتھہ عفووبخشش اور مہربانی کے ساتھہ پیش آئے۔
٢۔اس کے رازوں کو مخفی رکھے۔
٣۔اس کی خطاؤں کا جبران کرے۔
٤۔اس کے عذرو معذرت کوقبول کرے۔
٥۔اس کے دشمنوں اور بد خواہوں سے اس کا دفاع کرے۔
٦۔اس کے بارے میں اچھا سوچے۔
٧۔اس سے کئے وعدوں کی وفا کرے۔
٨۔اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی مزاج پرسی کرے۔
٩۔اگر وہ مر جائے تو اس کی تشییع جنازہ میں شرکت کرے۔
١٠۔اس کی دعوت اور اس کے تحفہ کو قبول کرے۔
١١۔اس کے تحفہ کے بدلہ میں اس سے بہترین تحفہ دے۔
١٢۔اس کی خدمتوں کا شکریہ ادا کرے۔
١٣۔اس کی مدد کرنے کی کوشش کرے۔
١٤۔اس کی عزت وناموس کی حفاظت کرے۔
١٥۔اس کی حاجت روائی کرے۔
١٦۔اس کی مشکل حل کرنے میں وسیلہ بنے۔
١٧۔اس کے سلام کا جواب دے۔
١٨۔اس کی قسم قبول کرے۔
١٩۔اس کے دوست کو بھی دوست رکھے۔
٢٠۔اس کی گفتگو کا احترام کرے۔
٢١۔اس کو حوادثات میں تنہا نہ چھوڑے۔
٢٢۔جو کچھ اپنے لئے چاہے وہ اس کے لئے بھی چاہے۔( بحار الانوار:ج٧٤،ص٢٣٦)
زندگی کے ابتدائی سال:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب مکہ کے اطراف میں سرزمین ” اجیاد” میں چوپانی کرتے تھے تو خلوت اور تنہائی سے مانوس ہو جاتے تھے، صحراوں کے سناٹوں میں گھنٹوں محوِ تفکر رہتے تھے اور اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں سوچتے تھے۔ آپ اپنے قوم و قبیلہ کی دنیا سے ہٹ کر ایک دوسری دنیا میں جیتے تھے، کبھی بھی ان کے لہو ولعب کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور ان پروگراموں میں جو بتوں کی مناسبتوں سے منعقد ہوتے تھے کبھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ اور اس قربانی کے گوشت کو چکھتے تک نہیں تھے جسے بتوں کے لیے قربانی کیا جاتا تھا۔( سیرہ احمد زینی،ص۹۵)
آپ کے طائر تفکر کی سیر توحید حق کی فضا میں ہوتی اور اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی پر تمام ہوتی۔ آپ بتوں سے متنفر رہتے تھے اور فرماتے تھے:” کسی چیز سے میں اتنی دشمنی نہیں رکھتا جتنی ان بتوں سے رکھتا ہوں۔( سیرہ حلبی، ج۱،ص۲۷۰)
مؤمن سے ملاقات کے وقت:
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دولت خانہ پر ایک شخص آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص سے ملاقات کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے پانی کا ایک برتن سامنے رکھا اپنے بالوں کو مرتب کیا اس کے بعد اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔
جناب حضرت عائشہ نے آپ کے اس عمل سے تعجب کیا اور واپس آتے ہی آپ سے پوچھا: یا رسول اللہؐ ! ملاقات سے پہلے کیوں آپ پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوئے اور بالوں اور چہرے کو مرتب کیا؟
فرمایا: اے عائشہ! خداوند عالم دوست رکھتا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائے تو اپنے آپ کو مرتب اور مزین کرے۔(120 درس زندگی از سیرۃ پیغمبرؐ ،ص16)
کھانا کھاتے وقت:
منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تواضع اور انکساری کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اپنا وزن اپنے بائیں پہلو پر ڈالتے تھے اور کھانا کھاتے وقت کسی چیز سے ٹیک نہیں لگاتے تھے، اللہ کے نام سے شروع کرتے اور لقموں کے درمیان بھی اللہ کو یاد کرتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔
آپ کا یہ عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ نعمتیں عطا کرنے والے کی یاد میں رہنا چاہیے۔
آپ کھانا کھانے میں زیادہ روی نہیں کرتے تھے، جب کسی کھانے کو ہاتھ لگاتے تھے تو فرماتے تھے: "بسم اللہ، پروردگارا! اس میں برکت عطا فرما”۔ آپ کسی بھی کھانے کو خراب نہیں کہتے تھے اگر دل چاہتا تھا تو کھاتے تھے ورنہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ آپ کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے آپ چاہتے تھے کہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ دسترخوان پر آپ سب سے پہلے شروع کرتے تھےاور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے تاکہ دوسروں کو کھانا کھانے سے شرم محسوس نہ ہو اور بھوکے دسترخوان سے نہ اٹھ جائیں۔ آپ ہمیشہ کھانا اپنے سامنے سے کھاتے تھے اور گرم کھانا نہیں کھاتے تھے، آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا جیسے جو کی روٹی اور نمک۔ آپ نے کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ کھانے میں خرما زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۶ سے ۲۴۶ تک)
بیٹھتے وقت:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کا انتخاب نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی وہاں بیٹھ جاتے چاہے دروازے کے پاس ہی جگہ مل جائے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اٹھتے یا بیٹھتے وقت کوئی آپ کے احترام کے لیے اٹھے۔ آپ اس بارے میں فرماتے تھے: "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے احترام میں کھڑے ہوں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔( بحار الانوار، ج۱۶،ص۱۵۲)
جنگ پر لشکر بھیجتے وقت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنگ کے لیے لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تھے تو لشکر کو اپنے پاس بلاتے تھے اور ان سے فرماتے تھے: اللہ کے نام سے اس کی راہ میں اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے راستے سے جنگ پر جانا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ خیانت نہ کرنا، انہیں مثلہ(ناک،کان کاٹنا) نہ کرنا، ان کے ساتھ مکاری اور دغا بازی نہ کرنا۔ بوڑھے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔ درختوں کو مت کاٹنا مگر یہ کہ جہاں مجبوری ہو۔ مسلمانوں میں سے ہر کوئی چھوٹا بڑا مشرکین کو پناہ دینے کا حق رکھتا ہے اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو وہ اس کی پناہ میں رہے گا تاکہ پیغام اسلام کو سن سکے اور اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو تم مسلمان بھائیوں میں سے ہو جائے گا اور اگر اس نے انکار کر دیا تو اس کو اس کے گھر تک پہنچا دینا اور خدا سے مدد چاہنا۔( وسائل الشیعہ، ج ۱۱، ص۴۲۴)
بُرے پڑوسی کے ساتھ سلوک:
ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور آپ سے اپنے ہمسایہ کی طرف سے پہنچنے والی اذیت و آزار کی شکایت کی رسول خداؐ نے فرمایا :اگر وہ اذیت کرتا ہے تو تم صبر کرو۔ دوسرے دن پھر آیا اور دوبارہ اس کی شکایت کی۔ آپ نے پھر صبر کرنے کی تلقین کی۔ تیسری بار پھر وہ شخص اپنے ہمسایہ کی شکایت لے کر آن پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: جمعہ کے دن جب لوگ نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو اپنے گھر کا سامان نکال کر گلی میں رکھ دینا اور جب لوگ تم سے وجہ معلوم کریں تو سارا قصہ ان سے بتانا۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ وہ اذیت دینے والا پڑوسی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: سامان کو واپس گھر میں رکھ دو میں خدا کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اس کے بعد تمہیں اذیت نہیں کروں گا۔( سفینۃ البحار، مادہ جور، ص ۱۹۰)
علم و دانش کی اہمیت:
انصار کا ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہو آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اگر ایک طرف جنازہ رکھا ہو اور دوسری طرف علماء کی مجلس ہو تو میں کس کو ترجیح دوں اور کس میں شرکت کروں؟ [ یعنی نماز جنازہ میں شرکت کروں یا علماء کی بزم میں بیٹھوں؟] رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر جنازے کو کفن و دفن کرنے والے اتنے لوگ ہوں کہ تمہاری گردن سے تکلیف ساقط ہو جائے تو علماء کی بزم میں شرکت کرنا ہزار جنازوں کی تشییع کرنے، ہزار مریضوں کی عیادت کرنے، ہزار شب و روز نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے، ہزار فقیروں کو صدقہ دینے، ہزار مستحبی حج بجا لانے اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے ہزار جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ یہ سب چیزیں ایک عالم کے حضور میں شرفیاب ہونے کی فضیلت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ کیا نہیں سنا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور بندگی علم اور معرفت سے وابستہ ہے؟ دنیا اور آخرت کی خیر و خوبی علم کی مرہون منت ہے؟ اور دنیا اور آخرت کی بدبختی جہالت کی وجہ سے ہے۔( بحار الانوار،ج۱،ص۲۰۴)
دوسروں کا احترام کرنا:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے تو جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرلے آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پیچھے نہیں کھینچتے تھے۔ کوئی بھی اگرکوئی کام آپ کے سپرد کرتا تھا تو آپ اس کو فورا انجام دیتے تھے مگر یہ کہ وہ خود اس سے منصرف ہو جائے۔ جب آپ کسی سے گفتگو کرتے تھے تو جب تک سامنے والا خود خاموش نہ ہو جائے آپ سے محو گفتگو رہتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ کسی دوسرے کے پاس پاوں پھیلا کر بیٹھے ہوں۔(120 درس زندگی از سیرۃ پیغمبرؐ ،ص 20)
کام کی اہمیت:
ابن عباس کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص سے ملاقات کرتے تھے تو سب سے پہلے اس سے اس کے مشغلے اور کام کے بارے میں سوال کرتے تھے، اگر وہ کہتا تھا کہ بیکار ہوں تو آپ فرماتے تھے: میری نظروں سے گر گئےہو۔ اور جب اس کی وجہ معلوم کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: جب مومن بیکار ہو جاتا ہے تو مجبورا اپنے دین کا اپنے معاش سے سودا کرتا ہے۔( بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۹)
اصول کی پابندی:
عبد اللہ بن ابی، منافقین کا سردار جس نے بظاہر کلمہ شہادت پڑھ کر امان حاصل کر رکھی تھی لیکن باطنی طور پر وہ رسول خدا کی مدینہ ہجرت اور اپنی حکومت کی بساط سمٹنے سے سخت رنجیدہ تھا اور اپنے دل میں رسول خدا اور اسلام کی نسبت عداوت پال رہا تھا۔ اور اسلام کے دشمن یہودیوں کے ساتھ مل کر، اسلام کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ صرف اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے اصحاب اسے اس کے عمل کی سزا دیں بلکہ مکمل احترام کے ساتھ اس کے ساتھ برتاو رکھتے تھے اور بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنے جاتے تھے۔
غزوہ تبوک سے پلٹتے وقت بعض منافقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان لینے کی سازش کی اس طرح سے ایک گھاٹی سے گزرتے وقت آپ کی سواری کو گرایا جائے۔ اس کے باوجود کہ سب منافقین نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے پیغمبر اکرمؐ نے سب کو پہچان لیا لیکن اپنے اصحاب کے درمیان ان کا راز فاش نہیں کیا اور انہیں کسی قسم کی سزا دینے سے صرف نظر کرلیا۔( صحیح بخاری، ج۵،ص۱۵۲)

سماج کے لئے نمونہ عمل:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لباس خود سیتے تھے، اپنے کپڑوں کو خود ٹانکتے تھے، اپنی گوسفند کو خود دوہتے تھے غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ اور بازار جانے سے شرم نہیں کرتے تھے خود گھر میں ضرورت بھر کی چیزوں کو خرید کر لاتے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے اور جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرے آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔ سب کو سلام کرتے تھے اور جب کوئی آپ کو دعوت کرتا تھا چاہے خرما پر ہی کیوں نہ ہوتو آپ اس کی دعوت کو کبھی ٹھکراتے نہیں تھے۔ آپ اسراف اور فضول خرچی سے شدید پرہیز کرتے تھے اور ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کا چہرہ حشاش بشاش ہوتا تھا اور آپ کا رنج و غم غصہ کے ساتھ آمیختہ نہیں تھا۔ تواضع و انکساری میں ذلت و رسوائی نہیں تھی، آپ بخشش کرنے والے اور مہربان دل انسان تھے، سب مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرتے تھے۔ کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کر نہیں اٹھتے تھے اور کسی چیز کی طرف طمع کا ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔( صحیح بخاری، ج۵، ص ۳۳۰)
امتیاز کا قائل نہ ہونا:
نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ ایک سفر پر تھے کھانے کے لیے آپ نے ایک گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ ! گوسفند کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: اس کی کھال اتارنا میری ذمہ داری ہے۔ تیسرے نے کہا: اس کو پکانا میرا کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے فرمایا: لکڑیاں جمع کر کے لانا میرا کام ہے۔ اصحاب نے کہا: رسول اللہؐ ! ہم ہیں نا، لکڑیاں خود اکھٹا کریں گے۔ آپ زحمت نہیں اٹھائیں۔ فرمایا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے آپ کو تمہارے درمیان ممتاز سمجھوں۔ یقینا خداوند عالم کو بھی اس بات سے نفرت آتی ہے کہ اس کا بندہ اپنے دوستوں کے درمیان خود کو ممتاز سمجھنے لگے۔( منتھی الامال، ج۱، ص۲۳)
بچوں کو اہمیت دینا:
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ نماز ظہر جماعت سے پڑھ رہے تھے، لیکن معمول کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخری دو رکعتوں کو بہت جلدی تمام کر دیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہؐ ! کیا ہوا ؟ کوئی حادثہ پیش آیا ہے کہ اتنا جلدی نماز تمام کر دی؟ آپؐ نے فرمایا: ” ما سمعتم صراخ الصبی” تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی تھی؟۔( فروغ کافی، ج ۶، ص۴۸)
کنجوسی کی مخالفت:
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبے کے طواف میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کعبے کا پردہ پکڑ کر کہہ رہا ہے: خدایا! تجھے اس گھر کی حرمت کی قسم مجھے بخش دے۔
آپ نے اس سے پوچھا: کیا گناہ کیا ہے؟
کہا: میں ایک مالدار آدمی ہوں۔ جب کوئی فقیر میری طرف آتا ہے اور مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔
آپ نے اس سے فرمایا: مجھ سے دور ہو جا، مجھے اپنی آگ میں مت جلا۔
اس کے بعد فرمایا: اگر تم رکن اور مقام کے درمیان دو ہزار رکعتیں نماز پڑھو اور اتنا گریہ کرو کہ اشکوں سے نہریں جاری ہو جائیں لیکن کنجوسی کی خصلت کے ساتھ مر جاؤ تو اہل جہنم کے ساتھ محشورہو گے۔( جامعۃ السعادات، ج2، ص 154)
قرض کی ادائیگی:
ایک دن ایک شخص کا جنازہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور میں لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ ادا کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم لوگ اس پر نماز پڑھو ں میں نہیں پڑھوں گا۔
اصحاب نے کہا: یا رسول اللہؐ ! آپ کیوں نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے؟
فرمایا: اس لیے کہ یہ آدمی لوگوں کا مقروض ہے۔
ابو قتادہ نے آگے بڑھ کر کہا: میں اس کے قرض کا ضامن ہوں ۔
فرمایا: تم اس کا سارا قرض ادا کرو گے؟
ابو قتادہ نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہؐ میں اس کا پورا قرض ادا کروں گا۔ اس کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے اس شخص کی میت پر نماز جنازہ ادا کی۔
ابو قتادہ کا کہنا ہے: اس شخص کا قرض سترہ یا اٹھارہ درہم تھا۔( مستدرک الوسائل: ج۱۳، ص۴۰۴)
اولاد کے ساتھ مساوی سلوک:
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ ایک آدمی نے اپنے ایک بیٹے کا بوسہ لیا اور دوسرے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
پیغمبر اکرم ؐنے ناراضگی کی حالت میں اس سے فرمایا: کیوں تم نے دونوں بیٹوں کے درمیان امتیازی سلوک کیا اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤنہیں کیا؟۔ (بحار الانوار، ج۱۰۴،ص۹۷)
گالیوں کے مقابلے میں خاموشی:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں کا ایک شخص بہت بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھلا رہا تھا اور لوگ اس کے اطراف میں جمع ہو کراس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا: یہ آدمی بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت دکھلا رہا ہے۔ فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو میں تمہیں ایک شخص کی خبر دوں جو اس سے زیادہ شجاع ہے۔ عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! فرمایا: وہ شخص جس کو سامنے والا گالیاں دے رہا ہو اور وہ خاموشی سے سنتا رہے، اسے برداشت کرے اور اپنے نفس اور شیطان پر قابو پا لے وہ اس سے زیادہ شجاع ہے۔( مجموعہ ورام،ص ۳۴۰)
مؤمن کے احترام کے لئے کھڑا ہونا:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وارد ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ؐ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہؐ جگہ کافی ہے آپ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اس کے پاس بیٹھنے کے لیے آئے تووہ اپنی جگہ اس کو دے دے۔( بحار الانوار،ج ۱۶،ص۲۴۰)
مزدوروں کے ہاتھ کا بوسہ دینا:
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کے لیے گئے، نبی اکرمؐ نے انکے ساتھ مصافحہ کیا اور جب اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: تمہارے ہاتھ اتنے کھردھرے کیوں ہیں؟ کہا : یا رسول اللہؐ !میں کلہاڑی اور بیلچے سے کام کرتا ہوں اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی مہیا کرتا ہوں۔ رسول خداؐ نے سعد کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور فرمایا: یہ وہ ہاتھ ہے جس تک آتش جہنم کی حرارت نہیں پہنچے گی۔( اسد الغابہ؛ ج ۲،ص۲۶۹)
دنیا کی نسبت بے رغبتی:
سہل بن سعد ساعدی کا کہنا ہے: ایک آدمی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: یا رسول اللہؐ ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیجئے جب میں اسے انجام دوں تو خدا اور اس کی مخلوق کا محبوب قرار پاؤں۔ رسول خداؐ نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاو تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور جو کچھ مال دنیا تمہارے پاس ہے اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو تاکہ لوگ تم سے راضی ہو جائیں۔( سنن ابن ماجہ، ج۲، ص ۱۳۷۴)

عورتوں کا جہاد:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن جہاد اور مجاہدین کے ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ایک عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہؐ! کیا عورتوں کے لیے بھی یہ فضیلتیں ہیں ؟ رسول خداؐ نے فرمایا: ہاں، اس دن سے لے کر جب عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اس دن تک جب تک بچہ دودھ پیتا رہتا ہے عورتوں کو خداوند عالم مجاہدین کا ثواب عنایت کرتا ہے اور اگر اس درمیان ان کو موت آ جائے تو ان کا مقام شہید کے مقام جیسا ہے۔( من لا یحضر الفقیہ، ج۳،ص۵۶۱)
مؤمن کی نماز کا ثواب:
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف نگاہ کر رہے تھے ایک آدمی نے اس کی وجہ پوچھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں فرمایا: میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی، دیکھا کہ دو فرشتے زمین کی طرف آ رہے ہیں، تاکہ ایک اللہ کے مومن بندے کی دن و رات کی نمازوں اور عبادتوں کو لکھیں۔ لیکن اس کو نماز کی جگہ نہیں پایا، بلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا، وہ آسمان کی طرف واپس چلے گئے اور بارگاہ خدا وندی میں عرض کیا: ہم معمول کے مطابق اس بندہ مومن کی عبادت گاہ میں اس کی عبادتوں کا ثواب لکھنے گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایا بلکہ وہ بستر بیماری پر آرام کر رہا تھا۔ خداوند عالم نے ان فرشتوں سے فرمایا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے اس کے لیے وہی ثواب لکھو جواس کے لیے اس وقت لکھتے تھے جب وہ صحت کے عالم میں اپنی عبادتگاہ میں نمازیں پڑھتا تھا اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے نیک اعمال کا ثواب اس وقت تک لکھتا رہوں جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے۔( فروع کافی، ج۱، ص۳۱)
نماز کی تاثیر:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز کی انتظار میں مسجد میں پیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہؐ! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو وہ آدمی دوبارہ اٹھا اور اس نے اپنا سوال تکرار کیا۔ رسول خدا ؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم نے ابھی نماز ادا نہیں کی، کیا اس کے لیے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا؟ عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہؐ! فرمایا: یہی نماز، تمہارے گناہوں کا کفارہ اور ان کی بخشش کا سبب ہے۔( بحار الانوار، ج ۷۲، ص۳۱۹)
منابع و مآخذ
1. قرآن مجید
2. من لا یحضر الفقیہ، شیخ الصدوق، ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ قمی
3. اصول الکافی، شیخ الکلینی، ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق
4. بحارالانوار، علامہ مجلسی،الشیخ محمد باقر
5. منتھی الامال، ثقۃ المحدثین حاج شیخ عباس قمی
6. سفینۃ البحار، ثقۃ المحدثین حاج شیخ عباس قمی
7. مستدرک الوسائل، محدث نوری، المیرزا الشیخ حسین
8. جامعۃ السعادات، ملا النراقی، الشیخ محمد مھدی بن ابی زر
9. وسائل الشیعہ، الشیخ حر العاملی، محمد بن الحسن
10. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبۃ اللہ بن ابی الحدید
11. صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری
12. سنن ابن ماجہ، محمد بن یزید بن ماجہ القزوینی
13. اسد الغابہ، ابوالحسن علی بن محمد بن عبدالکریم بن الاثیر الجزری
14. روضۃ الاحباب، امیر جلال الدین محدث شیرازی

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button