خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:117)

موضوع: امام برحق از قرآن و حدیث
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 08 اکتوبر 2021ء بمطابق 30 صفر المظفر 1443 ھ)
ترتیب و تحقیق: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

خطبہ کے متعلق اپنی قیمتی آراء اور تبصروں کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کریں:
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت بظاہر دو گروہوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک گروہ جس نے سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کے ذریعے خود اپنا خلیفہ منتخب کر لیا جبکہ دوسرا گروہ رحلت سے اڑھائی مہینے قبل میدان غدیر میں نبی کے اعلان کو نہیں بھولے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے امام علی ؑ کو اپنا امام ، رہبر اور نبی کا بلافصل خلیفہ مان لیا۔اور یہیں سے نبی کے بعد اللہ کے منتخب کردہ آئمہ کا سلسلہ امامت شروع ہوتا ہے۔آج کی گفتگو اسی موضوع پر ہوگی اور چونکہ ماہ صفر کی آخری تاریخ کو امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کی روایات موجود ہیں لہذا ہم کوشش کریں گے کہ امامت کے حوالے سے امام علی رضا ؑ کے فرامین پیش کرسکیں۔
قرآنی آیات اور منابع روایات معتبرہ سے استفادہ ہوتاہے کہ امت اسلامی کو دیگر تمام امتوں پر جو فضیلت و فوقیت اور برتری ملی ہے تو وہ خلاف شرع کاموں سے دفاع اور غلط کاموں سے مبارزہ اور مقابلہ کرنے کی وجہ سے ملی ہے ۔لیکن اس عہدہ کے دفاع اور دین اسلام اور امت اسلامی کو کو محفوظ رکھنے اور بچانے کی اصل وجہ اہلبیت اور عترت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے اور یہ ہستیاں ہی تھیں جنہوں نے اس میدان عمل میں سب سے بالاتر اور بلند ترین امتیاز و منزلت حاصل کی اور تمام امتوں سے افضل و برتری کی سند پائی۔
عالم آل محمد حضرت امام رضا علیہ السلام کی زبان مبارک سے امامت عترت اور اہل بیت کے مقام و منزلت کو بیان کرنے سے پہلے خود امام رضا علیہ السلام کی زبان مبارک سے و ارثان علم و برگذیدگان کے مصداق کو بیان کرینگے۔
ایک دفعہ عراق و خراسان کے کچھ علماء جمع ہوئے اور ان کے درمیان اس آیت مجیدہ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے۔(سورہ فاطر :32)
اس کے متعلق گفتگو ہوتی کہ وارثان کتاب الہی اور خداکے پسندیدہ افراد کون ہیں؟
اور عراق و خراسان کےجو علماء مامون کی محفل میں تھے وہ سب اہلبیت علیہم السلام کے مکتب سے جاہل اور نابلدتھے ہر ایک نے اظہار نظر اور رائے پیش کی کہ اس آیت مجیدہ کاحقیقی مصداق امت اسلامی ہی ہے جس کو خدانے وارثان کتاب الہی اور پسندیدہ و برگذیدہ قرار دیا ہے۔
عالم آل محمد امام رضا علیہ السلام بھی وہاں اس مجلس میں تشریف فرماتھے ان جہلاء کی آراء و تحلیل کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ان علماء عراق و خراسان کی باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور صحیح نہیں مانتاہوں۔
چونکہ اس آیہ مجیدہ کا حقیقی اور اصل مصداق وارثان کتاب الہی اور برگذیدہ اور خدا کےچنے ہوئے افراد ہی عترت طاہرہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہیں نہ امت اسلامی ۔ اور امام رضا علیہ السلام نے اس کی دلیل کے طور پر خود قرآن سے دوسری آیت کو پیش فرمایا:
چنانچہ اسی آیت کے بعد ارشاد ہے: جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَہا (2)یعنی وارثان کتاب الہی اور برگذیدگان تمام کے تمام اہل جنت و بہشت تھے اور تمام بہشت ان کے لے فراوان ہونگے۔
جبکہ اس آیت مجیدہ سے پہلے خداوندعالم نے امت اسلامی کو تین گروہ میں تقسیم کیا ہے۔
فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿ؕ۳۲﴾
پس ان میں سے کچھ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بڑا فضل ہے۔
یعنی تین گروہ ہیں:
1- خود اپنے اوپر ظلم کرنے والے
2- میانہ رو نیکی اور ظلم کرنے والے۔
3- اور نیک و صالح لوگ ۔
پس کسی کو شک کی گنجائش نہیں کہ ان تینوں گروہ میں سے کوئی بھی دوسرے کے برابر نہ تھے اور سب بغیر حساب و کتاب اور بے چون و چرا اہل بہشت بھی نہیں ہونگے ۔بلکہ اہل تقوی و متقی اور سچے ہی دوسروں سے افضل و برتر اور امتیاز الہی کے مستحق قرار پاینگے اس حدیث کے تسلسل میں امام علیہ السلام نے قرآنی دلائل دہیے کہ اہلبیت علیہم السلام میں ہر ایک امت اسلامی کا رہبر ، رسول خدا کے مشن کو تکمیل کرنے والے ہیں۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا : کہ ان میں سے ہر کوئی عترت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرآمد امت اسلامی ہونا، پاکیزہ و اہل ترہونا اور شایستہ ترین امت ہونا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ کو جاری و ساری اور تعلیمات نبوی کو دوام بخشنے والے اور وارثان کتاب الہی و تبین و تفسیر کلام الہی کرنے والے ہونے کی حیثیت سے اہل ایمان و اسلام کے لئے معرفی اور پہچنوایا تھا۔
امام کون ہے؟
اس سوال کا جواب گوہر نایاب کلام امام رضا علیہ السلام سے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام علی ابن موسی الرضاعلیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
الْإِمَامُ كَالشَّمْسِ الطَّالِعَةِ الْمُجَلِّلَةِ بِنُورِهَا لِلْعَالَمِ۔
امام چمکتا آفتاب و خورشید کی مانندہے جس کے نور سے پوراجہان روشن و منور ہے۔
وَ هِيَ فِي الْأُفُقِ بِحَيْثُ لَا تَنَالُهَا الْأَيْدِي وَ الْأَبْصَارُ۔
امامت ایسی جگہ پر موجود ہے جہاں تک کسی کے ہاتھ اور آنکھیں نہیں پہنچ سکتیں (یعنی مقام ِامام اوفق اعلی ہے) ۔
الْإِمَامُ الْمَاءُ الْعَذْبُ عَلَى الظَّمَإِ۔
امام ایسے پانی اور آب کی مثال ہے جس کے پینے کے بعد کوئی پیاس اورعطش باقی نہیں رہتی۔
امام کی زبانی امامت کی ایسی تعاریف کوئی لغوی و عبث اور شاعرانہ تعابیر یا ادبی و مبالغہ امیز کلام نہیں ہے بلکہ امام کے حقیقی مقام و منزلت اور جایگاہ کو بیان کرنا مقصود ہے ۔اسی لئے امام رضاعلیہ السلام ان جملات کے بعد مخاطبین کے اذہان میں موجود سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : امام کی نور افشانی کس حوالے سے ہے، امام کونسی پیاس کے تشنگی کو ختم کرنے کے لئے ہیں؟۔
وَ الدَّالُّ عَلَى الْهُدَى وَ الْمُنْجِي مِنَ الرَّدَى۔
امام وہ ہے جو نجات اور ہدایت کی طرف بشریت کا ہادی و رہنما اور پستی و گمراہی سے نجات دینے والا ہوتا ہے۔
الْإِمَامُ الْأَنِيسُ الرَّفِيقُ وَ الْوَالِدُ الشَّفِيقُ والْأَخُ الشَّقِيقُ۔ امام بندگان خدا کے لئے ایک ہمدرد دوست، رفیق مہربان وشفیق باپ اور ا چھے بھا ئی کی کی طرح ہے ۔
والامّ البرّة بالولد الصغير، ومفزع العباد في الداہية النَّآد۔ اور امام وہ ہے جو محبت اور ہمدردی میں ایک ماں کی مانند ہے جو اپنے فرزندپر کس انداز سے مہربان اور نیک ہوتی ہے۔
الامامُ امينُ اللّہ فِي خَلْقهِ و حُجَّتُہ علي عبادهِ و خليفَتُہ في بلادهِ والدّاعي الي اللّہ ِ، والذّابّ عَنْ حُرُمِ اللّہ۔
امام مخلق کے درمیان خدا کا امین، بندگان خدا پر حجت پروردگار اور انسانی معاشرے میں خدا کا خلیفہ ہوتا ہے۔امام لوگو ں کو خدا کی طرف بلانے والا ہے اور اقدار الہی کا پاسبان ہوتا ہے۔
الْإِمَامُ الْمُطَهَّرُ مِنَ الذُّنُوبِ وَ الْمُبَرَّأُ عَنِ الْعُيُوبِ۔ امام تمام گناہوں سے دور اور تمام عیب و عیوب سے منزہ و پاک ہے۔
الْمَخْصُوصُ بِالْعِلْمِ الْمَوْسُومُ بِالْحِلْمِ نِظَامُ الدِّينِ۔ امام صاحب علم و حلم او کمال و برد باری کا مالک ہے اور امام کا وجود نظام دین او ردین کی استواری امامت پر موقوف ہے۔
وَ عِزُّ الْمُسْلِمِينَ وَ غَيْظُ الْمُنَافِقِينَ وَ بَوَارُ الْكَافِرِينَ۔ امام مایہ عزت و سربلندی مسلمانان عالم جبکہ کافرین و منافقین کے لئے باعث نگرانی اور حقارت ہے۔
الْإِمَامُ وَاحِدُ دَهْرِهِ لَا يُدَانِيهِ أَحَدٌ وَ لَا يُعَادِلُهُ عَالِمٌ وَ لَا يُوجَدُ مِنْهُ بَدَلٌ وَ لَا لَهُ مِثْلٌ وَ لَا نَظِيرٌ۔ امام اپنے زمانے وعصر کا یگانہ اور یکتا ہوتا ہے؛ کو ئی عالم اس کی برابری نہی کرسکتا،اس کا کو ئی جایگزین نہی ہوتا اور نہ ہی کو ئی مثال۔
لِلْإِمَامِ عَلَامَاتٌ يَكُونُ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْكَمَ النَّاسِ وَ أَتْقَى النَّاسِ وَ أَحْلَمَ النَّاسِ وَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَ أَسْخَى النَّاسِ۔ امام کے لئے چند علامات اور نشانیاں ہیں۔امام تمام لوگوں سے اعلم جبکہ حلم و تقوی اور حکم میں اور اسی طرح شجاعت و عبادت الہی او ر سخاوت میں بلندترین مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔(الکافي , جلد۱ , صفحه۱۹۸)
مختلف آیات و روایات میں امام کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں ان خصوصیات کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1- امام کی منزلت و مقام خداکے نزدیک
2- امام کا عوام سے رابط
3- امام کی معنوی اور علمی شخصیت
منزلت امام
امام کی منزلت خدا کے نزدیک بہت زیادہ ہے؛ چونکہ امام، عوام الناس کے درمیان امین الہی، حجت و دلیل خدا وندی، جامعہ بشری میں خلیفہ الہی، خدا کی طرف بندگان خداکو دعوت حق دینے والے پاسدار حریم الہی اور مظہر و تجلی پروردگار ہیں۔
عوام سے ارتباط
امام لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرنے والا، عوام الناس سے انس محبت رکھنے والا دلسوز باپ کی مانند سختیوں دشواریوں اور مشکلات میں لوگوں کے پناہگاہ ہے، مسلمانوں کے لئے باعث عزت جبکہ منافقین اور کافرین کے لئے باعث ننگ و عار اور رسوائی و ذلت و خواری ہیں۔
شخصیت معنوی و علمی
امام تمام انسانوں سے اعلم و افضل ہوتاہے، تمام گناہوں اور برایوں سے پاک و منزہ ہوتا ہے امام یعنی مجسمہ علم و کمال ہوتا ہے۔
شجاعت، تقوی، پرہیزگاری، حلم و بردباری اور سخاوت میں بے نظیر ہو سکتا ہے عبادت میں بندگان کا سردار و رہنما ہوتا ہے۔
جب امام علیہ السلام مدینة الرسول سےخراسان کے سفر شہر مرو وارد ہوگئے تو لوگوں کے درمیان امام کے بارے میں چہ میگویاں اور بحث و گفتگو شروع ہوئی اور وہ اختلاف کاشکار ہوگئے تو اس وقت عبدالعزیز نامی شخص نے امام کی خدمت اقدس میں آکر امامت کے بارے میں اختلافات کا ذکر کیا۔امام علیہ السلام نے تبسم فرماکر ارشاد فرمایا:
اے عبدالعزیز! یہ گروہ اور جماعت گمراہی اور نا آگاہی میں گرفتارہے اور اپنے ناقص نظریات سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔اس کے بعد امام علیہ السلام نے (امامت کو عوام انتخاب کرنا چاہیے )اس نظریہ کے بارے میں فرمایا:
هَلْ يَعْرِفُونَ قَدْرَ الْإِمَامَةِ وَ مَحَلَّهَا مِنَ الْأُمَّةِ فَيَجُوزَ فِيهَا اخْتِيَارُهُمْ۔
آیا یہ لوگ امامت کی اصل حقیقت اساس و بنیاد اور مقام امامت امت اسلامی کیاہے؟ جانتے ہیں اور امامت کی صفات و خصوصات سے آگاہ ہیں، تو کس نے اور کس بنیاد پر ان کو امام انتخاب کرنے کا حق دیا ہے؟
إِنَّ الْإِمَامَةَ أَجَلُّ قَدْراً وَ أَعْظَمُ شَأْناً وَ أَعْلَى مَكَاناً وَ أَمْنَعُ جَانِباً وَ أَبْعَدُ غَوْراً مِنْ أَنْ يَبْلُغَهَا النَّاسُ بِعُقُولِهِمْ۔
بے شک امامت کی اہمیت اور قدر وقیمت زیادہ ہے اور بلند مقام رکھتی ہے۔ امامت کی شان و شوکت اور جائیگاہ و منزلت ارفع ہے، امامت کے اعلی و ارفع مقام تک انسانوں کی عقول کی پہنچ نہیں اور نہ ہی عقل اس کا اندازہ لگاسکتی ہے،(الکافي , جلد۱ , صفحه۱۹۸ )
امامت کیسے ثابت کریں؟
امامت ثابت کرنے کے کچھ راہ اور طریقے موجود ہیں ۔ پوری دنیا حق و باطل، الہی و شیطانی دعوت پر ہے چونکہ پیغمبران الہی، اور آئمہ طاہرین علیہم السلام نے تمام خلق خدا کو اپنی طرف بلایا تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف ہدایت کریں جبکہ ان کے ادوار اور زمانوں میں بھی جھوٹے دعوی دار ہر وقت موجود تھے جو اپنے آپ کو پیشواء، رہنما اور بعنوان ہادی پہچان کرتے تھے اور لوگوں کو دعوت دورغ و جھوٹ کے ذریعے اپنا پیرو بناتے اور گمراہی و ضلالت کے لامتناہی سمندر میں چھوڑ دیتے تھے۔
خداوندعالی نے گروہ اول کو بعنوان پیشوا و رہنما و ہادی حق سے یاد کیا ہے جو لوگوں کو حق کی ہدایت و رہنمائی فرماتے ہیں۔
گروہ دوم جو لوگوں کو جہنم اور آتش کی طرف دھکیل رہاہے ان کو باطل پیشواء کانام دیا ہے۔
وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّار اور ہم نے ان لوگوں کوجہّنم کی طرف دعوت دینے والا پیشوا قرار د ے دیا ہے۔
پس اس وجہ سے جوکوئی جس معاشرے میں پیشوا اور امامت کا دعوی کرے اس کو بغیر کسی ثبوت، دلائل اور نشانی قبول کرکے ان کے پیروکار نہیں بن سکتے بلکہ لازم اور ضروری ہے کہ مدعی امامت و نبوت کے پاس مدلل ، متقن اور قانع کنندہ دلیلیں اور ثبوت ہونے چاہیے تاکہ اس پر اعتماد و یقین کیا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اہلبیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے بھی دلائل کی ضرورت ہیں یا نہیں؟
جواب: اس سوال کا مختصراً جواب یہ ہوگا جی ہاں ، امامت کے اثبات کے لئے بھی تمام شدہ دلائل سواے نزول وحی الہی کے، ہونے چاہیے چونکہ یہ ہستیاں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی جانشین اور پیشواء خاص الہی و دینی ہیں تو ان کے اندر بھی ان تمام خصوصیات کا ہونا لازم ہے۔
امام رضا علیہ السلام اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:
لَمَّا كَانَ الْإِمَامُ مُفْتَرَضَ الطَّاعَةِ لَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ دَلَالَةٍ تَدُلُّ عَلَيْهِ وَ يَتَمَيَّزُهُ بِهَا مِنْ غَيْرِهِ۔
کیونکہ امام وہ ہوتاہے جس کی اطاعت کرنا واجب ہو پس لازمی ہے کہ امامت کو واضح دلیل و برہان سے ثابت کیا جا ے کہ اس دلیل و ثبوت کے ذریعے امام حقیقی کو غیر حقیقی سے تشخیص دے سکیں۔
علامہ مجلسی نے اپنی گرانبہا کتاب بحارالانوار میں تقریباً ستر(70) آیات قرآنی نقل کی ہیں جو سب کے سب مسئلہ امامت کو بیان کرتی ہیں۔ان تمام آیات کو مختصر وقت میں بیان کرنا ممکن نہیں صرف تین آیتوں کو بیان کرتے ہیں:
پہلی آیت:
امام رضاعلیہ السلام نے اپنے کسی مناظرے کی مجلس میں ارشاد فرمایا:هُمُ الَّذِينَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَقَال‏: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً
یعنی اہل بیت وہی ہستیاں ہیں جن کی خدانے قرآن میں توصیف بیان کی ہے اور ان کی شان میں ارشاد فرمایا:
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ (الاحزاب:33)
اس آیت مجیدہ کی تلاوت کے بعد امام علیہ اسلام نے اس میں ذکر شدہ اہلبیت علیہم السلام کے مصداق اتم کوواضح اور روشن طریقے سے بیان فرمایا کہ یہ افراد پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلبیت ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا

پہلی آیت
:وَ هُمُ الَّذِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنِّي مُخَلِّفٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ۔
یعنی سابقہ آیت مجیدہ میں ذکر شدہ اہلبیت سے مراد وہ ہستیاں ہیں جن کی شان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمانو! میں تمہارے درمیان دو گرانبہا اور قیمتی چیزیں چھوڑ ے جارہاہوں ایک کتاب خدا( یعنی قرآن مجید) دوسری میری عترت و اہلبیت علیہم السلام یادر کھنا! یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچے ۔
دوسری آیت:
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔۔۔
اگر کوئی اس آیہ مجیدہ میں صحیح غور و فکر نہ کرے اور معارف دین مبین اسلام و روایات سے استفادہ نہ کرے تو ممکن ہے اشتباہ و گمراہی کا شکار ہوجائے۔
کیونکہ اولی الامر، سے مراد وہ افراد نہیں کہ جو صرف حکمرانی اور سلطان و بادشاہ کے طور پر لوگوں پر حکم نافذ کریں چونکہ تاریخ بشر میں ہم دیکھتےہیں کہ گذشتہ امتوں پر ظالم و جابر حکمران مسلط رہے ہیں ان میں فرعون جیسے افراد قابل ذکر ہیں جو حوا وحوس اور قدرت طلبی کے خواہان تھے۔ اسی لیے خدانے ان کو طاغوت کے نام سے یاد کیاہے ، اور مسلمانوں کو حکم الہی ہے کہ ان کی اطاعت نہ کریں اور عدل الہی کے لئے راہ فراہم کریں۔
امام رضاعلیہ السلام نے اس بات کی ضرورت اور اہمت کوسمجھ کر لفظ "اولی الامر” کی حقیقی و واقعی مصداق کے طور پر ان اشخاص کی معرفی کی ہے۔
چانچہ ارشاد فرمایا
:الَّذِينَ أَوْرَثَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ حَسَدُوا عَلَيْهِمَا بِقَوْلِهِ- أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنا آلَ إِبْراهِيمَ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً يَعْنِي الطَّاعَةَ لِلْمُصْطَفَيْنَ الطَّاهِرِينَ وَ الْمُلْكُ هَاهُنَا الطَّاعَةُ لَهُمْ۔
اس قول میں اولی الامر سے مراد وہ ہستیاں ہیں جن کو قرآن نے ( وارث کتاب و حکمت اور دوسروں کے مورد حسد قرار دینے سے) یاد کیا یعنی اولی الامر وہ افراد ہیں جو وارث کتاب وحکمت ہیں اور دوسرے افراد ان سے حسد و حسادت کرینگے۔
پس ارشاد رب العزت ہے: یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے تو پھر ہم نے آلِ ابراہیم علیہم السّلام کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم سب کچھ عطا کیا ہے۔(تحف العقول , جلد۱ , صفحه۴۲۵)
اس جملے کے بعد امام علیہ السلام مزید وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اس آیت میں ملک عظیم سے مراد اہل زمین پر حکمرانی کرنا مقصود نہیں بلکہ اس سے مراد لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنا ہے جولوگوں پر واجب ہوچکا ہے اور یہ افراد خدا کی طرف سے چنے ہوے اور منتخب شدہ) کی اطاعت کریں۔
تیسری آیت:
قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏
کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے،
امام رضاعلیہ السلام اس آیت کی ذیل میں آیت کی دلالت اور مقام و منزلت اہلبیت علیہ السلام کی توضیح فرماتے ہیں۔قرآن کریم میں اس جیسی آیت مختلف انبیاء الہی جیسے حضرت نوح ، ہود، صالح، لوط، اور شعیب علیہم السلام و غیرہ کے لئے بھی ذکر ہوا ہے لیکن فرق صرف اتناہے کہ ان آیات میں پاداش و عوض رسالت انبیاء خدا پر قرار دیاہے اور مسألہ دوستی و محبت ذوی القربی ذکر نہیں ہوا ہے۔جیسے:
وَ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلى‏ رَبِّ الْعالَمينَ اور میں اس تبلیغ کاکوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میری اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
قرآن میں حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں ارشاد الہی ہے: لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى الَّذي فَطَرَني‏ اے لوگو! میں تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا میرا اجر تو اس پروردگار کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔
قرآن مجید نے صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ اجر رسالت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اور صرف دوستی و محبت اہل بیت ہے۔
اس کے بعد امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
وَ لَمْ يَفْرِضِ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمَ أَنَّهُمْ لَا يَرْتَدُّونَ عَنِ الدِّينِ أَبَداً وَ لَا يَرْجِعُونَ إِلَى ضَلَالَةٍ أَبَداً۔
یعنی خداوندعالمت نے اہلبیت علیہم السلام کی دوستی و محبت کو اس لئے فرض اور واجب قرار دیا چونکہ خدا جانتاتھا کہ ااہل بیت علیہم السلامت کبھی دین مبین اسلام سے روگردانی نہیں کرینگے اور ہرگز گمراہی و کج روی کی طرف واپس نہیں پلٹینگے۔
اس وقت امام علیہ السلام نے مزیدفرمایا:
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اور لوگوں کو اس آیت کی تلاوت سنانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چاہنے والوں کے درمیان وارد ہوکر حمد وثناالہی کی و ردکے بعد فرماتے ہیں:
اے لوگو! خداوندعالم نے تم لوگوں پر ایک تکلیف (شرعی ذمہ داری) واجب کی ہے کیا تم اس وظیفے کو انجام دوگے؟
اس وقت مجمع میں موجود لوگوں سے کسی نے بھی جوا ب نہیں دیا!
کیونکہ وہ لوگ گمان کررہے تھے کہ یہ تکلیف اور وظیفہ مادی اور مالی امور سے متعلق ہوگا!
روز دوم اور سوم بھی یہی مسئلہ مسلسل تکرار ہوا لیکن پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا اور خاموشی طاری رہی تو اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یہ وظیفہ و تکلیف کوئی سونے، چاندی یا کھانے پینے سے مربوط نہیں ہے!
تو لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ اگر یہ امور مراد نہیں تو کیاہے؟
تواس وقت رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر نازل شدہ آیت مجیدہ سنائی دوبارہ لوگوں کو نیز فرمایا میری رسالت کا اجر و پاداش صرف اور صرف میرے اہلبیت سے دوستی و محبت ہے۔
اس آیت مجیدہ کی دوبارہ تلاوت اور توضیح کے بعد سب نے یک زبان ہوکر کہا: اس فرمان الہی کو قبول کرتے ہیں اور اس واجب کو انجام دینگے ۔ امام رضاعلیہ السلام نے مزید فرمایا: لیکن بہت سارے لوگوں نے اس پیغام الہی اور وظیفہ الہی پر عمل نہیں کیا اور اس پیمان اور وعدے کو وفا بھی نہیں کیا۔
محبت اہلبیت علیہم السلام کس لیئے؟
مذ ہب تشیع امامیہ کے نزدیک قرآن اور روایات پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اہلبیت علیہم السلام کی روشنی میں کوئی بھی حکم الہی اور دستور پروردگار دلیل اور مصلحت سے خالی نہیں ہے۔
اس لحاظ سے قرآن مجید میں خداوند متعال مؤمنین سے چاہتاہے کہ وہ اہلبیت علیہم السلام سے دوستی و محبت رکھیں چونکہ حتماً ویقیناً یہ حکم و دستور الہی کسی بھی مصلحت و حکمت اور دلیل سے خالی نہیں ہوسکتا۔
اس آیت پر گفتگو کرکے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خدانے بغیر کسی شرط و قید اور استثناء کے مؤمنین کو اہلبیت علیہم السلام سے محبت کا دستور دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا و ندعالم بھی ان کو دوست رکھتاہے اور خدا کے نزدیک ان افراد کا خاص مقام و مرتبہ اور منزلت و کرامت ہے اور ان کی دوسرے انسانوں سے برتری کا سبب، مقام ارفع اہلبیت علیہم السلام اور تقوی الہی، خداشناسی، معنویت و شرافت علمی وعملی و غیرہ تھا اور جب خدانے مؤمنین سے محبت اہلبیت علیہم السلام کا تقاضا کیا تو اس کا معنی یہ تھا کہ خدانے خود ان کی تأئید کی ہے کہ یہ ہستیاں مقام عصمت اور بلند مقام و منزلت کی مالک ہیں۔

 

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button