خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:280)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 13دسمبر2024ء بمطابق 10 جمادی الثانی 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: خوش اخلاقی
اخلاقی کتب میں حسن خلق یا خوش اخلاقی کے دو معنی ذکر ہوئے ہیں:
ایک:ایسے اخلاقی کمالات اور صفات کا مجموعہ کہ جنہیں انسان اپنی تربیت کے لیے اپناتا ہے۔
دو:نرم لہجے اور خوشگوار چہرے کےساتھ گفتگو کرنا۔
ان دو معنی کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ خوش اخلاق وہ ہے کہ جس کا لہجہ نرم ہو اور کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ پیش آئے۔
امام صادق (علیہ السلام) نے خوش اخلاقی کی تعریف میں فرمایا:
”تُلين جانبك وتطيّبُ كلامك وتلقى ا خاك ببشر”(منتہى الآمال، ج3 ، ص 5)
"حسن خلق اسے کہتے ہیں کہ گفتگو میں نرمی ہو ، کلام سچا ہو ،خوش گوار اور کھلے چہرے کے ساتھ پیش آئے ۔”
عام طور پر اخلاق و حديث کی کتابوں میں حسن خلق سے یہی معنی مراد لیا جاتاہے۔
اچھے اخلاق کی اہمیت
دین اسلام میں حسن خلق اور نرم مزاجی کی بہت تاکید کی گئی ہے اور انسان کی زندگی کی کامیابی کے اصولوں میں سے اہم موضوع حسن خلق ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیاء آئے سب میں یہ صفت پائی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس صفت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو حسن خلق کا مصداق قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ:
وَ إِنَّکَ لَعَلى خُلُقٍ عَظیم؛[ سورہ قلم، 4] اور بےشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائزہیں۔
اور ایک اور جگہ فرمایاکہ یہی صفت ہے کہ جس کی وجہ سے تم لوگ کامیاب ہوئے ہو اور انہوں نے تمہاری دعوت کو قبول کیا ہے: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ (سورہ آل عمران، 159)
اسی طرح پیامبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ:
الْاسْلامُ حُسْنُ الْخُلْقِ،اسلام یعنی وہی حسن خلق۔یعنی اسلام ہی حسن خلق ہے۔
حضرت امام علی(علیہ السلام) کا ارشاد ہے کہ : عُنْوَانُ صَحِیفَةِ الْمُؤْمِنِ حُسْنُ خُلُقِه،
با ایمان انسان کے عمل کو حسن خلق کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔یعنی اعمال میں حسن خلق ایک ایسا عمل ہے کہ جسے بہترین اور اہم ترین عمل کہا گیا ہے۔
خوش اخلاقی کے دُنیاوی فوائد:
خوش اخلاقی ایسی عظیم صفت ہے کہ جس کا آخرت میں اجر و ثواب تو ہے ہی لیکن دنیا میں بھی اس سے انسان کو کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن میں سے چند یہاں بیان کرتے ہیں:
دوستانہ تعلقات مضبوط ہوتے ہیں:
چنانچہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”حُسن خلق يُثبت المَوَدَّةَ”
” حسن خلق، دوستی اور محبت کو مستحکم کرتا ہے”(تحف العقول، ص 38)
اسی طرح ایک مقام پہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
’’إنَّكُمْ لَنْ تَسَعُوا النَّاسَ بِأَمْوَالِكُمْ فَسَعُوهُمْ بِأَخْلَاقِكُمْ‘‘(من لا يحضره الفقيه، ج4، ص: 394)
"تم اپنی دولت کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف نہیں رکھ سکتے (ان کو خوش نہیں رکھ سکتے) تو اپنے (نیک) اخلاق کے ذریعہ ان کے دلوں کو جذب کرو۔”
یعنی تمہارے اندر اتنی صلاحیت اور ظرفیت نہیں ہے کہ تمام لوگوں کی محبتوں کو اپنی دولت کے ذریعہ جذب کرسکو؛ دولت و ثروت کے ذریعہ ایسا نہیں کرسکتے لیکن ایک چیز ہے جس کے ذریعہ اکثر لوگوں کو خود سے قریب رکھ سکتے ہو۔
وہ حسن وہ اخلاق ہے۔
اس سے زمین آباد اور عمریں طولانی ہوتی ہیں:
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
” انّ البرَّ و حُسن َ الخلق يَعمر ان الدّيارَ و يزيدان فى الاعمار”
”نیکی اور اچھے اخلاق سے زمینیں آباد اور عمریں طولانی ہوتی ہیں”
رزق و روزی میں بركت پیدا ہوتی ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”حُسن الخلق منَ الدين و ہو يزيدُ فی الّرزق”
”حسن خلق دین کا جزو ہے اور روزی میں اضافہ کا سبب ہے” ( بحارالانوار ج 71، ص 395)
عزّت اور بزرگی کا موجب بنتا ہے:
چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
”كَم من وَضيع رَفَعہ حُسن خُلقہ”
”کتنے ہی پست لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں اُن کے نیک اخلاق نے بلند کیا ” (تحف العقول ، ص37)
اخروی فوائد:
رسول اللہ ﷺ :إنّ العَبدَ لَيَبلُغُ بحُسنِ خُلقِهِ عَظيمَ دَرَجاتِ الآخِرَةِ وشَرَفِ المَنازِل ، و إنَّهُ لَضَعيفُ العِبادَةِ. (المحجّه البيضاء : ۵ / ۹۳ )
بندہ عبادت میں کمزور ہونے کے باوجود اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ آخرت کے عظیم درجات اور منازل کے شرف کوپالیتاہے۔
رسول اللہ ﷺ :إنّ صاحِبَ الخُلقِ الحَسنِ لَهُ مِثلُ أجْرِ الصّائمِ القائم۔(الكافي : ۲ / ۱۰۰ / ۵)
اخلاقِ حسنہ کے مالک کو روزے دار نمازی کااجرملتاہے۔
رسول اللہ ﷺ :إنّ أحَبّكُم إلَيَّ وأقرَبَكُم مِنّي يَومَ القِيامَةِ مَجلِسا أحْسَنُكُم خُلقا ، وأشَدُّكُم تَواضُعا۔ (بحارالانوار : ۷۱ / ۳۸۵ / ۲۶)
تم میں میراسب سے زیادہ محبوب اور بروز قیامت منزل کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق سب سے اچھے اور تواضع زیادہ ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ :أكمَلُ المؤمنينَ إيماناً أحْسَنُهُم خُلقاً۔ (أمالي الطوسي : ۱۴۰ / ۲۲۷ )
مومنین میں سے ان لوگوں کا ایمان زیادہ کامل ہے جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔
زندگی میں خوش اخلاقی کو کیسے اپنایا جائے:
کچھ لوگوں کی طبیعت میں ہی خوش اخلاقی ہوتی ہے جو شاید بچپن ہی سے توجہ، تربیت اور خوش اخلاق ماحول کا اثر ہوسکتاہے جبکہ بہت سے لوگ محنت و کوشش کرکے اپنے مزاج میں خوش اخلاقی پیدا کر سکتے ہیں۔
اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا کام تو وہ آیات اور روایات ہیں کہ جن میں حسن خلق کا ذکر ہوا ہے ان کو توجہ سے پڑھا جائے اور انہیں سمجھا جائے۔
دوسری بات مسلسل تمرین اور مشق ہے؛ یعنی ہر انسان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے اور جب بھی کسی انسان سے ملتا ہے تو اس کے بعد یہ سوچےکہ اس نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا، کیا دین اسلام کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں، مسلسل توجہ کرنے کے بعد خودبخود یہ صفت آ جائے گی۔
امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ:کسی چیز کا مسلسل انجام دینا ہی عادت کہلاتا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا کہ: انسان کے اعضاء و جوارح انسان کی عادت کے محتاج ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انسان اچھے کام کو باربار انجام دے گا تو وہ اس کی عادت بن جائے گا اور اسی طرح اگر برے کام کو انجام دے گا تو وہ بھی اس کی عادت بن جائے گا پس کوشش کرنی چاہیے کہ اچھی صفت کو اپنائے تاکہ اس کی اچھی عادتوں میں اضافہ ہو۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ ہر وقت کیسے انسان خوش اخلاقی کا مظاہرہ کر سکتا ہے جبکہ کبھی تو وہ غمگین اور پریشان بھی ہوتا ہے۔
تو اس صورت میں بھی وہی حکم بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہی صفت اس کا ساتھ دے گی تاکہ وہ غم اس سے دور ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ:
مؤمن ہمیشہ خوش اخلاق ہو گا اگرچہ اس کے دل میں غم کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو۔یعنی غم کا پہاڑ ہوتے ہوئے بھی اس کی صفت باقی رہے گی۔
پس کوشش کرنی چاہیے کہ خوشی و غمی ہو یا پریشانی ہو ہر حال میں خود بھی خوش رہنے کی کوشش کرے اور دیگر لوگوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے کیونکہ زندگی کی پریشانیاں تو چلتی رہتی ہیں لیکن عظیم انسان وہ ہے جو پریشانیوں کے باوجود بھی خوش رہنا سیکھ لے اور اچھے اخلاق کے ساتھ لوگوں میں بھی خوشیاں بانٹتا رہے۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭