خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:311)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 11 جولائی 2025 بمطابق 15 محرم الحرام 1447ھ)
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے واٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: کربلا کے بعد امام زین العابدینؑ اور سیدہ زینبؑ کا کردار
عاشورا کا قیام زندہ جاوید اسلامی تحریک ہے کہ جو محرم سن 61 ہجری کو انجام پائی۔ یہ تحریک دو مرحلوں پر مشتمل تھی:
پہلا مرحلہ تحریک کا آغاز، جہاد و جانبازی اور اسلامی کرامت کے دفاع کے لیے خون و جان کی قربانی دینے کا مرحلہ تھا جس میں عدل کے قیام کی دعوت بھی دی گئی اور دین محمد (ص) کے احیاء کے لیے اور سیرت نبوی و علوی کو زندہ کرنے کے لیے جان نثاری بھی کی گئی، پہلا مرحلہ رجب المرجب سن 60 ہجری سے شروع اور 10 محرم سن 61 ہجری پر مکمل ہوا۔
جبکہ دوسرا مرحلہ اس قیام و انقلاب کو استحکام بخشنے، تحريک کا پیغام پہنچانے اور علمی و تہذیبی جدوجہد نیز اس قیام مقدس کے اہداف کی تشریح کا مرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے کی قیادت امام سید الشہداء علیہ السلام نے کی تھی تو دوسرے مرحلے کی قیادت سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام کو سونپ دی گئی۔
امام زین العابدین کے کردار کے اہم پہلو:
1. خطبات کے ذریعے پیغام کی ترویج:
امام زین العابدینؑ نے کوفہ اور دمشق کے دربار یزید میں خطبات دیے جنہوں نے لوگوں کو اہل بیت کی عظمت اور یزید کے ظلم سے آگاہ کیا۔ ان کے خطبات نے عوام کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور کربلا کے پیغام کو زندہ رکھا۔
2. صحیفہ سجادیہ:
امام علیہ السلام نے حکومت وقت کے ظلم اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کو اپنی دعاؤں میں بیان کرنا شروع کیا اور ان دعاؤں میں لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیں۔ امامؑ کی وہ دعائیں آج ہمارے پاس صحیفہ سجادیہ کی شکل میں موجود ہیں، چنانچہ امام علیہ السلام کی یہ دعائیں مؤمنین میں رائج ہوتی چلیں گئیں۔ ان دعاؤں میں حاکم وقت کی حقیقت اور اس کے ظلم و جور کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور لوگوں کے ذہن کو ان سازشوں کی طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت تعلیمات دین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مقام اولیاء اللہ و اصفیاء اللہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے نیز حلال و حرام میں تحریف کرنا چاہتی ہے اور سنت رسول کو نابود کرنا چاہتی ہے۔
چنانچہ امام سجاد علیہ السلام نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ کیا ، امام (ع) کی ان دعاوٴں کے مجموعہ کو "صحیفہ سجادیہ” کہا جاتا ہے، امامؑ کی یہ عظیم میراث ہمارے لیے بلکہ ہر زمانے کے لیے حقیقت کو واضح کر دیتی ہے۔یہ امام سجاد (علیہ السلام) کے عظیم علمی اور عرفانی کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں ۵۷ دعائیں اور مناجات ہیں۔ ان دعاؤں میں توحید کے علاوہ سماجی اور اخلاقی موضوعات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اسے "زبور آل محمد ( ص )” کہا جاتا ہے۔
3. امامت کی حفاظت:
کربلا کے بعد امام سجادؑ نے شیعہ امامت کو جاری رکھا اور اپنی بیماری کے باوجود اموی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر اہل بیت کے ماننے والوں کی رہنمائی کی۔ اس طرح امام حسینؑ کی شہادت کے بعد بھی امامت و رہبری کا سلسلہ جاری رہا۔
4. اہلبیت کی عظمت بیان کرنا:
ایک عمر رسیدہ شامی جو حقیقت حال سے بالکل نا واقف تھا اور بنی امیہ کے غلط پرو پیگنڈے کا شکار تھا ،مخدرات عصمت وطہارت کے قریب آیا اور کہنے لگا:
خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں قتل کیا اور لوگوں کو تمہارے مردوں کے شر سے راحت پہنچائی اور امیر (یزید) کو تم پر فتح و نصرت عطا کی۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے علم امامت سے دیکھا کہ جو ہر قابل ہے مگر غلط فہمی کا شکار ہے لہٰذا چاہا کہ اس کے سامنے چراغ ہدایت روشن کردیں۔
فقال له علي بن الحسين عليهماالسلام :
يا شيخ، هل قرأت القرآن؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: اے شیخ! کیا تو نے قرآن پڑھا ہے؟
قال نعم
کہا: ہاں!
قال: فهل عرفتَ هذه الآية:
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ؟
کیا آیت مودت کو پہچانتے ہو؟
قال الشيخ: قد قرأت ذلك۔
شیخ نے کہا: ہاں پہچانتا ہوں۔
فقال له عليّ عليهالسلام :
نحن القربىٰ يا شيخ
فرمایا: وہ قرابتداران رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم ہیں ۔
فهل قرأت في بني إسرائيل وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ ؟
پھر فرمایا اے شیخ کیا تو نے سورہ بنی اسرائیل میں یہ آیت پڑھی ہے کہ ” اے رسول قرابتداروں کو ان کا حق دے دو”
فقال الشيخ: قد قرأت ذلك
شیخ نے کہا: ہاں ضرور پڑھی ہے۔
فقال: فنحن القربىٰ
فرمایا: وہ قرابتدار ہم ہیں ۔
يا شيخ، فهل قرأت هذه الآية وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ ؟
پھر فرمایا اے شیخ! کیا یہ آیت پڑھی ہے جس میں خدا فرماتا ہے کہ” جب تمہیں کسی قسم کی غنیمت حاصل ہو تو اس کا پانچواں حصہ خدا ، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے ہے ۔
قال: نعم
کہا: ہاں پڑھی ہے
فقال عليهالسلام : فنحن القربىٰ
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ اقرباء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم ہیں۔
يا شيخ، وهل قرأت هذه الآية:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ؟
پھر فرمایا اے شیخ! کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟
قال الشيخ: قد قرأت ذلك۔
شیخ نے عرض کی ہاں یہ آیت بھی پڑھی ہے۔
فقال عليهالسلام : نحن أهل البيت الذين خصّنا الله بآية الطهارة يا شيخ
امام علیہ السلام نے فرمایا اے شیخ ! ہم ہی وہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جن کو خدا نے آیت تطہیر کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔
قال الراوي: بقي الشيخ ساكتاً نادماً علىٰ ما تكلّم به، وقال تالله إنكم هم؟
راوی کہتا ہے شامی امام علیہ السلام کا یہ کلام سن کر اپنے گستاخانہ کلام کی وجہ سے بالکل ساکت و صامت ہوگیا ۔
اور تھوڑی دیر بعد بولا: خدا کے لئے سچ بتاو کیا آپ حقیقتاً وہی لوگ ہو؟
فقال علي بن الحسين عليهماالسلام : تالله إنا لنحن هم من غير شكّ، وحقّ جدّنا رسول الله صلىاللهعليهوآله إنّا لنحن هم۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم بلا شک و ریب ہم ہی وہ لوگ ہیں ۔ اپنے جد نامدار کے حق کے ساتھ ہم ہی وہ لوگ ہیں۔
قال: فبكىٰ الشيخ ورمىٰ عمامته، ثمّ رفع رأسه إلىٰ السماء وقال:
اللّهم إنّي أبرء إليك من عدوّ آل محمّدصلىاللهعليهوآله من الجن والإنس۔
یہ سنتے ہی شامی نے زار و قطار رونا شروع کیا اور عمامہ سر سے اتار کر زمین پر پھینک دیا پھر آسمان کی طرف سر بلند کرکے کہا:
یا اللہ! ہم دشمنان آل محمد علیہم السلام سے بیزار ہیں خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جن میں سے۔
ثم ّ قال: هل لي من توبة؟
امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟
فقال له: نعم، إن تبتَ تاب الله عليك وأنت معنا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں اگر تم سچے دل سے توبہ کرو تو ضرور خدا تمہاری توبہ قبول فرمائے گا اور تمہارا حشر و نشر ہمارے ساتھ ہوگا ۔
فقال: أنا تائب
یہ مژدہ سن کر شیخ نے دل کی گہرائیوں سے کہا میں تائب ہوں ۔
فبلغ يزيد بن معاوية حديث الشيخ، فأمر به فقتل
جب اس واقعہ کی اطلاع یزید کو ملی تو اس نے اس شیخ کو قتل کرادیا۔
(الملهوف على قتلى الطفوف، ص؛158، سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام: 512)
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا کردار
سیدہ زینب بنت علی، جو اپنی فصاحت، شجاعت اور استقامت کی وجہ سے "عقیلہ بنی ہاشم” اور "ثانی زہرا” کے القاب سے مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد اہل بیت کے خواتین کے قا فلے کی سربراہ تھیں۔انہوں نے کوفہ اور دمشق میں اپنے خطبات کے ذریعے یزید کے ظلم کو بے نقاب کیا اور کربلا کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا۔
1. امام زین العابدین کی حفاظت:
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے بعد امام سجادؑ کی جان بچائی جب ابن زیاد نے ان کے قتل کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا: "اے ابن زیاد! کیا ہمارا خون بہانا کافی نہیں؟ اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی اس کے ساتھ قتل کر دو۔”
2. خطبات کی تاثیر:
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کوفہ اور دمشق میں خطبات دیے جنہوں نے عوام کو اہل بیتؑ کے حق میں کھڑا کر دیا۔ ان کے خطبے نے یزید کے دربار میں موجود لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور اموی سلطنت کے خاتمے کی بنیاد رکھی۔
3. کربلا کے پیغام کی ترویج:
انہوں نے کربلاکے واقعہ کو ایک تحریک کی شکل دی اور اسے ابدی حیات بخشی۔ ان کے خطبات نے ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بنایا۔
امام زین العابدینؑ کا عظیم خطبہ:
دربار یزید میں امام کا خطبہ بہت مشہور ہے۔جس کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک خطیب دربار منبر پر گیا اور حضرت علی (علیہ السلام) اور اہل بیت اطہار کے سلسلے میں (نعوذ باللہ) بد کلامی کرنے لگا اور یزید اور بنی امیہ کی تعریف میں قصیدے پڑھنے لگا۔
امام زین العابدین(علیہ السلام) نے یزید کو مخاطب کر کے کہا مجھے بھی منبر پر جاکر کچھ کہنے کا موقع دے، جس سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو اور یہاں موجود افراد کو ثواب حاصل ہو۔ یزید خاندان عصمت و طہارت کے علم و معرفت اور فصاحت و بلاغت سے واقف تھا اس لیے خوفزدہ تھا اور امامؑ کو اجازت دینے سے ہچکچا رہا تھا، لیکن لوگوں کے اصرار پر مجبور ہوا اور امام کو منبر پر جانے کی اجازت دی۔
امام زین العابدین(علیہ السلام) رونق افروز منبر ہوئے اور ایسی تقریر کی کہ لوگوں کے دل ان کے حلقوم میں اٹکنے لگے اور آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جاری ہونے لگے، مرد و خواتین رونے اور چلانے لگے، دربار میں ایک کہرام مچ گیا، امام(علیہ السلام) نے فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ؛
لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛
أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ۔
ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔
وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً۔
ہماری سات فضیلتیں یہ ہیں:خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا الصِّدِّيقُ ۔صدیق (امیرالمؤمنین علیؑ) ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا الطَّيَّارُ ۔جعفر طیار ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ ۔شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا خيرة نساء العالمين۔ سیدہ نساء العالمین ہم میں سے ہیں۔
وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ. اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔
اس کے بعد امام (ع) نے اپنا تعارف کرایا،
مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِي وَ نَسَبِي۔
لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا۔
لوگو ! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّكْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا۔
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَى
میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَى.
میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَى۔
میں بہترین طواف کرنے والوں اور سعی کرنے والے کا بیٹا ہوں؛
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّى۔
میں بہترین حج انجام دینے والے اور بہترین لبیک کہنے والے کا بیٹا ہوں۔
خطبے کی وضاحت:
فرزند حج
امام سجادؑ نے اس خطبے میں بعض ایسے مسائل کو بیان فرمایا ہے جو نہایت توجہ کے طلبگار ہیں؛ آپؑ نے فرمایا:
أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا۔
میں فرزند مکہ و منیٰ، زمزم و صفا ہوں۔ ان جملات کی توضیح میں درج ذیل احتمالات پائے جاتے ہیں:
1. ان جملوں کے معانی، میں فرزند مناسک حج ہوں ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کہ مناسک حج ایک توحیدی مناسک اور عبادت ہونے کے اعتبار سے آپؑ کے خون اور گوشت میں رچی بسی ہے، نہ یہ کہ آپؑ دوسرے مسلمانوں کی طرح فقط مناسک حج کو انجام دیتے ہیں بلکہ جتنا زیادہ حج اور اس کے مناسک کے ساتھ مانوس ہونا ممکن ہے وہ آپ کے وجود میں موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی چیز کے ساتھ اپنے شدید انس اور لگاؤ کو بتانے کی خاطر اپنے آپ کو اس امر کا بیٹا یا بیٹی قرار دیتے ہیں۔ یہاں امام سجادؑ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے یزید اور یزیدیو! تم ہمیں دین سے خارج سمجھتے ہو؟ میرا دین کے ساتھ اتنا لگاؤ اور انس ہے کہ گویا میں اس کا فرزند ہوں۔
2. حج کے مراسم حضرت ابراہیمؑ کی یادگار ہے اور مسلمان ان مناسک کو حضرت ابراہیمؑ کے نام سے جدا ناپذیر سمجھتے ہیں۔ امامؑ یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں فرزند ابراہیم خلیل ہوں،
3. ایک اور احتمال یہ بھی ہے کہ امامؑ یہاں پر اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت سے منسوب کرنا چاہتے ہیں جس نے مناسک ابراہیمی کو زندہ کیا یعنی میں فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں۔
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابت
پیغمبر اکرمؐ کے تعارف کا مقصد اسیران کربلا کی آنحضرتؐ کے ساتھ موجود قرابت کو لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا ورنہ شام کے لوگ پیغمبر اکرمؐ کو تو جانتے تھے اس حوالے سے آنحضرت کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ بلکہ یہاں یہ ان اسیروں کی قافلہ کی رسول خدا کے ساتھ موجود نسبت اور قرابت کو بتانا مقصود تھا جسے حکمران جماعت خارجی کے نام سے متعارف کرا رہی تھی۔
حضرت علیؑ کا تعارف
شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام سجادؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علیؑ کا تعارف کرنا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام سجادؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علیؑ کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔
حضرت علیؑ کے فضائل شام کے لوگوں کیلئے ایک نئی چیز تھی۔
امام حسینؑ کی مظلومیت
امام سجادؑ نے حضرت علیؑ کے تعارف اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ سے منسوب کرنے کے بعد امام حسینؑ کی مظلومیت اور آپؑ کی شہادت کی نوعیت بیان فرمائی۔ امام سجادؑ کی پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت ثابت ہونے اور حضرت علیؑ کے بارے میں بنی امیہ اور یزید کے جھوٹے پرو پیگنڈے اور امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت سے با خبر ہونا شام کے لوگوں پر کافی اثر انداز ہو سکتا تھا اسلئے امام سجادؑ نے اس خطبے میں اپنے والد گرامی کی مظلومانہ شہہادت پر بھی کسی حد تک گفتگو فرمائی۔
امامؑ کے خطبے کا اثر
پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کردیا۔
فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ عَلِيٌّ لَا شَيْءَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ۔
جب مؤذن نے کہا:الله أكبر الله أكبر
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
فَلَمَّا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ شَهِدَ بِهَا شَعْرِي وَ بَشَرِي وَ لَحْمِي وَ دَمِي۔
مؤذن نے کہا:أشهد أن لاإله إلا الله۔
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ الْتَفَتَ مِنْ فَوْقِ الْمِنْبَرِ إِلَى يَزِيدَ
فَقَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا جَدِّي أَمْ جَدُّكَ يَا يَزِيدُ فَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدُّكَ فَقَدْ كَذَبْتَ وَ كَفَرْتَ وَ إِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدِّي فَلِمَ قَتَلْتَ عِتْرَتَهُ
جب مؤذن نے کہا:أشهد أن محمدا رسول الله
امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمدؐکا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمدؐ میرے نانا ہیں یا تمھارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتائے کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
پھر ایک کہرام بپا ہو گیا، لوگ غش کھا کھا کر گرنے لگے۔ یہ پیغام کربلا تھا جو سب کے کانوں تک پہنچا۔ یہ حق کی وہ آواز تھی جسے تاریخ نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ یزید سے جب کوئی بات نہیں بن پڑی تو اس نے ابن زیاد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
امام سجادؑ کے خطبے سے مسجد میں موجود لوگ بہت متأثر ہوئے۔ ریاض القدس نامی کتاب میں آیا ہے کہ یزید نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر چلا گیا یوں یہ اجتماع بھی درہم برہم ہو گیا۔ جب امامؑ منبر سے نیچے اتر آئے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے سب نے اپنے کئے پر امامؑ سے معافی مانگ لی۔
دربار میں موجود ایک یہودی کی حکایت
امام سجادؑ کے خطبے کے بعد محفل میں موجود ایک یہودی نے یزید کو برا بھلا کہا اور اپنے پیغمبر کی بیٹی کے اولاد کو اس طرح مظلومانہ طور پر شہید کرنے پر اس کی یوں مذمت اور سرزنش کی:خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسی بن عمران کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتے تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمہارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالے ہو؟ افسوس ہو تم لوگوں پر!
پس امامؑ کی تقریر نے یزید کے مکروہ چہرے سے نقاب نوچ پھینکی اور وہ اتنا کمزور ہوگیا کہ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے مظالم کا دفاع کیسے کرے۔ اس نے امامؑ سے پوچھا، آپؑ شام میں رہنا چاہتے ہیں یا مدینہ جانا چاہتے ہیں؟ امام زین العابدینؑ اور جناب زینب کبریؑ نے فرمایا، ہم اپنے جد امجد کی قبر مطہر پر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔پس ان ہستیوں کو رہا کرنا یزید کی کوئی اچھائی نہیں تھی بلکہ یہ اس کی مجبوری بن گئی تھی وہ زینبؑ و سجادؑ کی تقریروں اور انقلابی اقدامات سے خوفزدہ ہوچکا تھا۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭