خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:276)
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 15 نومبر 2024ء بمطابق 12 جمادی الثانی 1446ھ)
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایام فاطمیہ
سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تاریخ شہادت میں مختلف اقوال ہیں۔ مشہور قول کےمطابق آپ کی شہادت 3 جمادی الثانی کو ہوئی۔ البتہ دوسرے اقوال میں سے ایک کے مطابق آپ کی شہادت 13 جمادی الاول کو ہوئی۔ یہ قول اس روایت کی بناء پہ ہے کہ جس کے مطابق آپ اپنے بابا کی رحلت کے بعد 75 دن زندہ رہیں۔اسی وجہ سے جمادی الاول سے تین جمادی الثانی تک کے ایام کو ایام فاطمیہ کہا جاتا ہے۔
صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ، نبوت اور وصایت کے درمیان پیوند دینے والی کڑی کا نام ہے ،چونکہ آپ رسول کی بیٹی اور وصی کی زوجہ ہیں اور دیگر اوصیاء آپ ہی کے بیٹے ہیں کہ جن پر میراث نبوت تمام ہوتی ہے ۔
( بصائر الدرجات ۸۳، حدیث ۱۰۔ امالی صدوق ۳۸۳، حدیث ۴۸۹)
فاطمہ وہ نور ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلب سے چمکا اور پھر اس نور سے جا ملا کہ جو ابوطالب کی صلب سے تھا ، اس طرح علی و فاطمہ اس نور کے ملاپ کے مرکز ہیں کہ جو خلقت آدم سے پہلے وجود میں آیا ، چونکہ اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ : ۲ ۶۶۲ میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور کے دو ٹکڑے ہیں ہم خلقت آدم سے پہلے خلق ہوئے اور خداوندعالم نے جب آدم کو پیدا کیا تو ہمارے نور کو ان کی صلب میں رکھا ، یہاں تک کہ ہم ایک ساتھ چلتے رہے اور عبدالمطلب کی صلب میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ، پس اس نور کا ایک جزء عبداللہ کی صلب میں قرار پایا اور دوسرا جزء صلب ابی طالب میں مستقر ہوا۔
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے اپنے خطبوں میں ان حقائق کی طرف اشارہ فرمایا ہے لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتی ہیں :
میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہ یں ان کو مبعوث کرنے سے پہلے منتخب فرمایا اور منتخب کرنے سے پہلے اپنا رسول کہا اور ان کو مبعوث بہ رسالت کرنے سے پہلے دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ، میرے والد محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک ی پیغمبری کا انتخاب اس وقت ہوا کہ جب لوگ عالم ذر میں پوشیدہ تھے ، عدم کے تاریک و ہولناک پردوں میں تھے اور وجود کی نعمت ان کو عطا نہ ہوئی تھی ۔
خداوندعالم نے کائنات کے علم اور تمام و قائع و حوادث کی معلومات اور مقدرات کی معرفت کے سبب اپنے اتمام امر کی خاطر، اپنے حکم کی تعمیل اور اپنے مقدرات حتمی کے جریان کی خاطر آپ کو مبعوث بہ رسالت فرمایا ۔
( احتجاج طبرسی :۱ ۱۳۳۔ السقیفہ و فدک (جوہری) ۱۴۰۔ بلاغات النساء (ابن منظور) ۱۵)
بنابرایں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا لوگوں کو اصل نبوت پر تذکر نہیں دیتیں چونکہ امت نے ظاہرا قبول کرلیا ہے کہ محمد ،اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ کے نزدیک آپ کی منزلت و مقام کو بیان کرنا مقصود ہے چونکہ بہت سے لوگ رسالت کے عمیق معنی کو درک نہیں کرتے اور مقام پیغمبری کو نہیں سمجھ پاتے بلکہ ایک عام انسان کی طرح اس کے متعلق بھی سطحی نظر رکھتے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے سمجھانا چاہا کہ معرفت واقعی ہمارے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور چونکہ انسان روئے زمین پر الہٰی خلیفہ ہے لہذا امت کا رہبر اور قائد کوئی کامل انسان ہو۔
جیساکہ انبیاء و رسل اور منتخب اوصیاء سب انسان کامل تھے یہ وہی افراد ہیں کہ جن کو خداوندعالم نے اپنے بندو ں کے درمیان منتخب فرمایا ہے اور وہ لائق ترین افراد ہیں ، تمام مخلوقات زمین وآسمان میں سب سے بلند و بالا مقام و درجہ پر فائز ہیں ، اور یہی افراد نص قرآنی کے اعتبار سے مطہر و پاک و پاکیزہ ہیں ۔
اور ہم صادق و امین پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور آپ کے صدیق و امین وصی علی ابن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تھوڑی بہت معرفت رکھتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی معرفت تو ہماری سطح سے بہت بلند و بالا ہے لہذا ان کی شخصیت کے بارے میں ہماری نادانی و مجہولات بہت زیادہ ہیں چونکہ وہ بہت بلند وبالا مقام و مرتبہ پر فائز اور نور الہٰی سے خلق ہوئے ہیں ۔ (الامامۃ والنصرة ۱۳۳، حدیث ۱۴۔ معانی الاخبار ۳۵۱۔ الفضائل (ابن شاذان) ۱۵۸)
اس وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ فاطمہ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوق الہٰی ان کی معرفت سے جدا اور عاجزہیں ۔ (تفسیر فرات کوفی ص: ۵۸۱)
اس حدیث میں امام جعفر صادق نے کلمہ خلق (مخلوقات الہٰی) کا استعمال کیا جب کہ خلق اور ناس میں بہت زیادہ فرق ہے ، خلق و مخلوقات الہٰی ناس وانسان سے بہت وسیع مفہوم والا لفظ ہے چونکہ مخلوقات الہٰی میں تمام انسان و جن و ملائکہ بھی شامل ہیں ۔
بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مخلوقات الہٰی کیوں معرفت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے دور ہیں کیا ان کی کوتاہ فکری کی وجہ سے ؟ یا فاطمہ کا مقام بہت بلند و بالا ہے ؟ یا ان کے اعمال کی وجہ سے ہے کہ وہ ہوا پرستی ، و خواہشات نفس کے سبب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے خلاف مرتکب ہوئے ؟ یا یہ تمام اسباب اس امر میں دخیل ہیں ؟ ۔
جی ہاں، منزلت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بہت بلند و بالا ہے ہم ان کی معرفت کما حقہ حاصل نہیں کرسکتے ، لیکن علی ان کی منزلت کو سمجھتے ہیں چونکہ آپ کا وجود مبارک بھی اسی نور سے ہے کہ جس سے وہ خلق ہوئی ہیں:
حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کا خط عثمان بن حنیف انصاری کے نام کہ جوآپ کی جانب سے بصرہ کا گورنر تھا ، اس میں مذکور ہے کہ میری رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ایک جڑ سے دوشاخوں کی حیثیت ہے جیسے کہنی سے بازو کی نسبت۔(نہج البلاغہ :۳ ۷۳ ، خط ۴۴)
اس تشبیہ سے اتحاد و امتزاج کی شدت و انتہا بتانا مقصود ہے کہ جو پیغمبر و علی کے درمیان ہے ۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ ” انامن احمد کالصنو من الصنو” یعنی اصل علی اور اصل پیغمبر ایک ہے جیسے دو خرما کے درخت ایک جڑ سے وجود میں آئے ہوں۔
یہ کلام ، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے تائید ہوتاہے کہ آپ نے فرمایا : اے علی جس نے تجھے قتل کیا گویا مجھے قتل کیا اور جو تجھ سے دشمنی رکھے گویا میرا دشمن ہے ، اور جو تجھے برا بھلا کہے گویا مجھے برا بھلا کہا، چونکہ آپ میری جان کی طرح ہو اور آپ کی روح میری روح ہے اور آپ کی طینت و سرشت میری طینت ہے ۔(عیون اخبار الرضا :۲ ۲۶۶۔ اقبال الاعمال :۱ ۳۷۔ بحارالانوار :۱۹۴۲۔)
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا مختلف کمالات کی مالکہ تھیں۔ آپ کی شخصیت کے مختلف کمالات کا اظہار آپ کے نام اور دیگر القابات سے بھی عیاں ہے۔روایات میں ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے نو نام ہیں۔
اس ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
وَ رُوِيَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰهِ أَنَّهُ قَالَ: لِفَاطِمَةَ تِسْعَةُ أَسْمَاءٍ عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَ- فَاطِمَةُ وَ الصِّدِّيقَةُ وَ الْمُبَارَكَةُ وَ الطَّاهِرَةُ وَ الزَّكِيَّةُ وَ الرَّضِيَّةُ وَ الْمَرْضِيَّةُ وَ الْمُحَدَّثَةُ وَ الزَّهْرَاء
(كشف الغمة في معرفة الأئمة ج1، ص: 463)
اللہ تعالیٰ کی نزدیک جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نو نام ہیں ۔فاطمہ ،صدیقہ ،مبارکہ ،طاہرہ ،زکیہ ،راضیہ ،مرضیہ ،محدثہ اور زہرا۔
ان میں سے چند القابات کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے کچھ فضائل و کمالات روایات میں یوں ملتے ہیں:
١:۔فاطمہ
فاطمہ ”فطم”سے ہے جس کی معنی چھڑانا ہے ۔یا”چھڑا دینے والی ”کی ہے ۔
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) يَقُولُ: إِنِّي سَمَّيْتُ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ وَ ذُرِّيَّتُهَا مِنَ النَّارِ، مَنْ لَقِيَ اللَّهَ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيدِ وَ الْإِيمَانِ بِمَا جِئْتُ بِهِ.
(الأمالي (للطوسي)، النص، ص: 570)
ترجمہ:راوی کہتا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ فرمایا: میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کا نام فاطمہ سلام اللہ علیھا رکھا ہے کیونکہ وہ اور ان کی ذریت آگ سے محفوظ ہیں ،وہ کہ جو اس توحید و ایمان کے ساتھ اللہ کے پاس پہنچے جو میں لے کے آیا ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسیدہ سے فرمایا: يَا فَاطِمَةُ ! أَ تَدْرِينَ لِمَ سُمِّيتِ فَاطِمَةَ ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: لِمَ سُمِّيَتْ يَا رَسُولَ اَللَّهِ ؟ قَالَ: لِأَنَّهَا فُطِمَتْ هِيَ وَ شِيعَتُهَا مِنَ اَلنَّارِ
اے فاطمہ کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟ تو امام علی علیہ السلام نے پوچھا : کیوں رکھا گیا یا رسول اللہ ؟ تو فرمایا: کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے بچا لیا گیا ہے۔(المحتضر, ج 1 ص 233)
٢:۔زہرا
زہرا کے لغوی معنی پھول کی کلی ،گل ناشگفتہ کے ہیں ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :
قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ فَاطِمَةَ لِمَ سُمِّيَتْ زَهْرَاءَ فَقَالَ لِأَنَّهَا كَانَتْ إِذَا قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا يَزْهَرُ نُورُ الْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ.
(معاني الأخبار: شیخ صدوق ؒ النص، ص: 64)
راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا نام زہرا کیوں رکھا گیا تو فرمایا: اس لیے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا محراب عبادت میں کھڑی ہو تیں تو آپ سلام اللہ علیھا کا نور آسمان والوں کو ایسے درخشاں و روشن کرتا جیسے ستاروں کی روشنی زمین والوں کو روشن کرتی ہے۔
٣:۔بتول
جناب سیدہ (س)کی بلند پا صفات اور پسندیدہ اطوار کی بنا پر آپ کی متعدد القابات میں سے ایک اہم لقب بتول ہے ۔بتول لفظ ”بتل ”سے ہے جس کی لغوی معنی ”ترک کرنے والی”کے ہیں۔رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) يَقُولُ: إِنِّي سَمَّيْتُ البتول لانْقِطاعِها عن نِساءِ زَمانِها و عن نِساءِ الأُمَّةِ فَضْلًا و ديناً و حَسَبَاً و عَفَافا
(بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج14، ص: 300)
میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کا نام بتول رکھا کیونکہ وہ اپنے دین وشرف کی وجہ سے تمام عورتوں سے منفرد ویگانہ حیثیت کی حامل ہیں۔
٤:۔سیدہ
لفظ ”سید”ساد، یسود اور سیادة سے مشق ہے ۔بمعنی شریف ،کریم ،حلیم ،رئیس ومطاع اور سردار ہے۔
أَنَّ النَّبِيَّ ص قَالَ لِفَاطِمَةَ أَ مَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ؟ قَالَتْ فَأَيْنَ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ؟ قَالَ لَهَا أَيْ بُنَيَّةِ تِلْكِ سَيِّدَةُ نِسَاءِ عَالَمِهَا وَ أَنْتِ سَيِّدَةُنِسَاءِ الْعَالَمِينَ
(بشارة المصطفى لشيعة المرتضى : طبرى آملى (ط – القديمة)، النص، ص: 70)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار پائیں؟ آپ نے پوچھا پھر مریم بنت عمران کا کا کیا مقام ہے؟ فرمایا اے بیٹی وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔
٥:۔طاہرہ
طاہرہ لفظ ”طہر ”سے مشتق ہے بمعنی پاکی وطہارت کے ہیں۔ ( فرھنگ جدید ص 340)
طاہر اسمائے الٰہی میں سے ایک ہے یعنی امثال واضداد اور ممکنات وصفات مخلوقات سے پاک ومنزہ ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جناب سیدہ اخلاق ذمیمہ و رذیلہ سے پاک وطاہر ہو نے کی وجہ سے طاہرہ کہلائیں ۔یہاں پر ہم جناب جناب سیدہ کی عصمت وطہارت سے متعلق ایک حدیث مبارکہ نقل کر کے موضوع سمیٹتے ہیں۔
قال رسول اللّٰه:انا وعلی وفاطمة والحسن والحسین وتسعة من ولد الحسین وتسعة من ولد الحسین مطهرون ومعصومون ۔
(مودة القربیٰ)
رسول خدانے فرمایا :میں (محمد )،علی ،فاطمہ سلام اللہ علیہا،اور حسن وحسین ؑاور حسین ؑکے پیداہونے والے نو(ائمہ)پاک وپاکیزہ ہیں۔
٦:۔مبارکہ
مبارکہ کامعنی سعادت ،خوش بختی اور برکت کے ہیں۔ (فرھنگ جدید ص25)
آپ سلام اللہ علیہا مدینۃ العلم کی بیٹی ،باب مدینة العلم کی زوجہ اور سیدہ طاہرہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی پروردہ تھیں۔رسالت کی درخشاں فضائوں میں آنکھ کھولی، فضیلت وعصمت وطہارت کے سایوں میں تربیت حاصل کی ۔اس لئے جامع کمالات کی مالکہ تھیں ۔جن کی بزرگی و عظمت میں کسی کوشک نہیں ہو سکتا ۔ذریت میں عطائے کوثر کی حقیقت تھیں کہ قدرت نے سادات عالم کی جدّہ امجد بنایا ۔شیخ صدوق نے کمال الدین میں لکھا ہے کہ توریت میں جناب سیدہ کا لقب مبارکہ ہے۔
٧:۔صدیقہ
صدیق کی مونث ہے ۔جس کے معنی بہت سچی اور جس کی عمل اور گفتار ایک جیسا ہے۔ (فرھنگ جدید ص353)
جس سے آپ کی عصمت کا ثبوت ملتا ہے لہذا اسی وجہ سے آپ کو معصومہ بھی کہ سکتے ہیں۔
اس لقب سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو نوازا گیا ہے ۔ صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی نہایت راست گفتار ۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا (س)کو اسی لقب سے پکا را ہے ۔کیونکہ جناب سیدہ (س) کی پوری زندگی صدق وراستی پر مبنی تھی۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے: ”میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جناب سیدہ زہرا( سلام اللہ علیھا)سے زیادہ راست باز (سچا)کسی کو نہیں دیکھا۔(نورنظر خاتم النبین ص116)
٨:۔زاکیہ
زاکیہ اور بعض روایتوں میں زکیہ ہے ۔جس کے معنی چنا ہوا،پاک و پاکیزہ اور عبادت گزار کے ہیں ۔
(فرھنگ جدید ص 222)
حضرت امام صادق علیہ السلام کی مشہور حدیث جو ہم نے شروع میں ذکر کی ۔اس میں زاکیہ ہے جس کی معنی پاک وپاکیزہ نفس والی ہے ۔طاہرہ اور زاکیہ میں فرق یہ ہے کہ طاہرہ وہ جسے فطرت نے پاک طنیت پیدا کیا ہو ۔زاکیہ کسبی چیز ہے جو کوشش اور مشاہدہ سے اپنے نفس کو پاک رکھے۔ جناب زہرا سلام اللہ علیھا کو زاکیہ ان کی فطری پاکبازی کی بنا پر کہا گیا ہے کہ ہر قسم کی نفسانی برائی ، غضب ، بخل ، حسد ، کینہ اور کبر و عجب سے پاک تھیں۔ان تمام صفات کا نہ ہونا یقینا کمال کی بات ہے ،اس بنا پر آپ کو طاہرہ کے ساتھ زاکیہ یا زکیہ بھی کہا گیا ہے۔
٩:۔راضیہ و مرضیہ
راضیہ یعنی راضی رہنے والی اور مرضیہ یعنی جس پہ راضی ہوا جائے۔
جیسا کہ ان دو نوں القاب ”راضیہ اور مرضیہ ”کے بارے میں روایت موجود ہے کہ
الراضیة و هی رضیت بما اوتیت والمرضیة هی التی رضی عنا( کتاب نورنظر خاتم النبین ص 117)
ترجمہ:راضیہ وہ ہے جو رعطا ئے الٰہی پر راضی ہو اورمرضیہ وہ ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات راضی ہو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةَ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً(سورةالفجر آ یة 28)
اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭