خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:209)

موضوع: واقعہ مباہلہ اور اس کا پیغام

(بتاریخ: جمعۃ المبارک14 جولائی 2023ء بمطابق 25 ذی الحج1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: واقعہ مباہلہ اور اس کا پیغام
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش سوا لاکھ انبیاء بھیجے اور سب انبیاء کی دعوت کا مرکز و محور توحید تھا۔ ہر نبی اپنی قوم کو ایک وحدہ لا شریک رب کی طرف بلاتے رہے اور اسی کی عبادت و بندگی اختیار کرنے کا درس دیتے رہے۔ یعنی تمام انبیاء کی دعوت کا نعرہ و شعار لا الہ الا اللہ تھا۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ٰ ہے:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ
اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، بتحقیق میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو۔ (الانبیاءآیۃ 25)
قرآن مجید نے یکتا پرستی اور خدائے واحد کی عبادت کو تمام آسمانی شریعتوں کے درمیان مشترک بنیاد قرار دیتے ہوئے اسی پر جمع ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ
کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔ (آل عمران آیۃ64)
یہاں قرآن جس مشترک بنیاد پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ "ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں”۔پس عیسائیوں کو دعوت ہے کہ وہ مسیح و روح القدس وغیرہ کی پرستش ترک کر کے صرف خدائے واحد کی عبودیت کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ کیونکہ توحید تمام ادیان کا نقطۂ اتفاق ہے۔ چنانچہ توریت، توحید کی تعلیمات اور شرک کی ممانعت سے بھری پڑی ہے اور انجیل میں بھی توحید کی تعلیم پائی جاتی ہے۔البتہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان میں انحراف اور غیر اللہ کی پرستش عام ہونے کے بعد اب توحید پرستی صرف دین اسلام کا خاصہ ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی پرستش کرنے والے دائرہ توحید سے نکل کر شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔
انبیاء کرام نے توحید کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔اس سلسلے میں ہمارے آخری پیغمبر نبی اکرم ﷺ کی قربانیاں اور کوششیں بے مثال ہیں۔دین اسلام اور پیغام توحید کے پرچار کے لیے اگر مباہلے کی نوبت آگئی تو آپ وہاں بھی میدان میں ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ تاریخ انبیاء میں مباہلے کے ذریعے دین اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کا عمل نبی کریم ﷺ کا ایک انتہائی منفرد اور بے مثال عمل ہے۔ آج ہماری گفتگو تاریخ اسلام کے اسی اہم واقعے کے بارے میں ہے۔
واقعہ مباہلہ اسلام کی حقانیت کی ایک واضح و ناقابل انکار دلیل ہے۔غدیر اور مباہلہ دونوں تاریخ اسلام کے عظیم واقعات ہیں مگر ہماری محافل و مجالس میں ان پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو ان واقعات کے بارے میں وسیع معلومات نہیں پہنچ پاتیں اس لیے ضروری ہے کہ جمعہ کےخطبے میں اور دیگر محافل و مجالس میں ان موضوعات پہ گفتگو کی جائے۔
مباہلہ نہ صرف حضور سرور کائنات ﷺکے لئے ایک تاریخی فتح قرار پایا بلکہ رہتی دنیا تک آیہ مباہلہ کے ذریعہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام سے مراد کون لوگ ہیں۔24ذی الحجہ وہ مبارک و مسعود تاریخ ہے جس میں پیغمبر اسلام و اہلبیت اطہار علیھم السلام کو نصارٰی نجران پر تاریخی فتح حاصل ہوئی اور اسے روز مباہلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں سچائی کی جھوٹ پر واضح فتح ہونے کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں سچے کون ہیں اور ایسے سچے کون ہیں جنہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ لے کر گئے اور ان کی صداقت کا کلمہ نصارٰی نجران کے علماء و دانشوروں نے یہ کہہ کر پڑھا کہ ہرگز ان سے مباہلہ نہ کرنا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ پہاڑوں کو اشارہ کر دیں تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں۔
"مباہلہ” کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ اسی کےمادہ ابتہال کے معنی میں دو اقوال ہیں: 1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
واقعہ مباہلہ:
فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ﷺ) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔ اہل مدینہ کا کہنا ہے:
ما رأینا وفداً اجمل من ھؤلاء
ہم نے ان سے زیبا ترین وفد نہیں دیکھا تھا۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے ۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی علیہ السلام نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور ﷺ نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی ﷺ کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی ﷺ کے منکر تھے۔ عقیدے کے معمولی اختلاف پر دیگر مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والے دہشت گردوں کی پالیسی اور رسول رحمت ﷺ کی پالیسی میں کس قدر فاصلہ نظر آتا ہے۔
میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت ﷺ کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔
-اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
-اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
– اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
– آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :
-عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اس کا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (آل عمران /59)
"بیشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے پہلے اسے مٹی سے خلق کیا، پھر اسے حکم دیا: ہو جا اور وہ ہو گیا۔”
اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے۔نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت حضور (ﷺ) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور وحی نازل ہوئی:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آل عمران:61﴾
ترجمہ: ” آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ: علم آ جانے کے بعد بھی جو لوگ آپ (ﷺ) سے جھگڑا کریں۔ فِيْہِ ، یعنی فی الحق۔ دلیل و برہان اور قطعی و یقینی دلیل قائم ہونے کے بعد بھی اگر نصارائے نجران جان بوجھ کر اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہیں تو نجران کے وفد کے عقیدے کو باطل ثابت کرنے اور ان کے مذہب کی قلعی کھولنے کا واحد حل یہ ہے کہ مباہلہ اور ملاعنہ کر کے جھوٹوں پر عذاب کے نزول کی دعا کی جائے۔ پس وہ دعا کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوںمیں اسلام کی حقانیت اور نصرانیت کی گمراہی ثابت ہو جائے گی۔
فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ: ہم قرار دیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ یعنی نَجۡعَلۡ، نَبۡتَہِلۡ کا نتیجہ قرار دیاگیا ہے کہ مباہلے کے نتیجے میں اللہ کی لعنت کا مرحلہ آئے گا۔ یہ نہیں فرمایا: نَبْتَھِل اَن یَجْعَل ۔ یعنی ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ لعنت کرے۔ دوسرے لفظوں میں لعنت کا سوال نہیں ہو رہا ہے، بلکہ مباہلے کے بعد لعنت کے خود بخود وقوع اور قرار پانے کی بات ہو رہی ہے۔ کیونکہ سوال میں قبولیت کا سوال پیدا ہوتا ہے، لیکن نَجۡعَلۡ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے داعیٔ اسلام کے مرتبۂ ایقان و اطمینان کا اندازہ ہوتا ہے۔
عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ: جھوٹوں پر لعنت ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مباہلے کے فریقین اپنا اپنا دعویٰ رکھتے ہیں، جس میں ایک فریق صادق اور دوسرا کاذب ہو گا۔ نَجۡعَلۡ صیغہ جمع سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے ساتھ دیگر افراد بھی ہیں، جو اس دعویٰ میں شریک اور دعوائے حقانیت میں حصہ دار ہیں۔ یہ ان ہستیوں کے لیے بڑی فضیلت ہے جو اس مباہلے میں رسالت مآب ﷺ کے ساتھ شریک تھیں۔
حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔
وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔ اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔
دوسری طرف رات بھر مسلمان آپس میں قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ کل رسول خدا ﷺ  اَبۡنَآءَنَا(ہمارے بیٹے) نِسَآءَنَا(ہماری عورتیں) اور اَنۡفُسَنَا (ہمارے نفسوں) میں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟
۲۴ ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا ﷺ نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔
نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔
دوسری طرف رسول اللہ ﷺ حسنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور ان کے پیچھے علی علیہ السلام تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور ﷺ نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ﷺ) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ﷺ) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔
یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پادری نے کہا: انی لأری وجوھاً لوسئل اللہ بہا ان یزیل جبلاً من مکانہ لازالہ ۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔ (سید ابن طاؤسؒ کی الاقبال)
محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور (ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین، فاطمہ اور علی علیہم السلام کو ساتھ لیا۔ چنانچہ چوتھی صدی کے مقتدر عالم ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:
رواۃ السیر و نقلۃ الاثر لم یختلفوا فی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ (و آلہ) وسلم اخذ بید الحسن و الحسین و علی و فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ثم دعا النصاری الذین حاجوہ الی المباہلۃ ۔
(احکام القرآن ۲:۱۵)
"سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم نے حسن، حسین، فاطمہ اور علی کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔”
اگرچہ اَبۡنَآءَنَا ، نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں جمع ہونے کی وجہ سے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت اور بڑی گنجائش تھی کہ حضور (ص) اصحاب و انصار بلکہ خود بنی ہاشم کے بہت سے بچوں کو اَبۡنَآءَنَا کے تحت اور جلیل القدر خواتین کو نِسَآءَنَا کے تحت اور بہت سی قدآور شخصیات کو اَنۡفُسَنَا کے تحت اس تاریخ ساز مباہلے میں شریک فرما تے، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں صرف حسنین علیہما السلام، نِسَآءَنَا میں صرف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اَنۡفُسَنَا میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو شامل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت اسلام کا ان ہستیوں کے ساتھ ایک خاص ربط ہے اور یہی ہستیاں ارکان دین میں شامل ہیں۔
نہایت قابل توجہ امر یہ ہے کہ زمخشری نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نِسَآءَنَا اور اَنۡفُسَنَا میں تو ایک ایک ہستی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حضرت علی علیہ السلام پر اکتفا کیا، لیکن اَبۡنَآءَنَا میں ایک ہستی پر اکتفا نہیں کیا۔ کیونکہ نساء اور انفس میں چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور علی علیہ السلام کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی، لہٰذا ان کے وجود کے بعد کسی اور کے وجود کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن حسنین علیہ السلام میں سے کسی ایک کے وجود کی صورت میں بھی دوسرے کا وجود ضروری تھا، لہٰذا ان دونوں ہستیوں کو بلایا۔ (زمخشری، الکشاف۔)
اگر ان افراد کے علاوہ کسی اور فر دکے لیے کوئی گنجائش ہوتی تو حضور ﷺ نجرانی وفد کی تعداد کے برابر افراد مباہلے میں شامل کر لیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نجران کا وفد چودہ افراد پر مشتمل تھا۔
اعتراض:
صاحب ِتفسیر المنار نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے:
مباہلے میں حضور ﷺ نے صرف علی، فاطمہ اور حسنین (علیہم السلام) کو ساتھ لیا۔ یہ متفقہ روایت ہے مگر شیعوں کی عادت یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے خاص مقصد کے لیے اس کو ہوا دی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے اہل سنت میں بھی یہ بات رائج ہو گئی اور اس حدیث کے گھڑنے والوں نے آیت کی تطبیق کا خیال بھی نہیں رکھا۔ کیونکہ عربی محاورے میں نساء کہ کر اپنی بیٹی مراد نہیں لی جاتی۔(المنار ۳: ۳۲۲)
جواب:
کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ نساء کا مفہوم بیٹی ہے اور روایات کا مفہوم بھی یہ نہیں ہے، بلکہ روایات اس بات کو بالاتفاق بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ نے عملی طور پر مباہلے کے لیے نِسَآءَنَا کی جگہ صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اور اَنۡفُسَنَا کی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیا۔ لہٰذا یہ حضرات ان الفاظ کے مصداق قرار پائے، نہ کہ مفہوم۔ ورنہ مفہوم کے اعتبار سے ان الفاظ میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت اس بات سے زیادہ اجاگر ہو جاتی ہے کہ مفہوم و معنی میں گنجائش کے باوجود ان کے علاوہ کسی کو مباہلے میں شریک نہیں کیا گیا۔
بعض اہل تحقیق نے خوب کہا ہے: قرآنی استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں نسآء کا لفظ اَبۡنَآءَ کے ساتھ ذکر ہوا ہے، وہاں نِسَآءَ کا مفہوم بیٹیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں متعدد مقامات پر یہ استعمال موجود ہے: یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ۔۔۔۔(۲ بقرۃ: ۴۹) تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ ملاحظہ ہوں آیات: الاعراف: ۱۲۷۔ ابراھیم: ۶۔ قصص: ۴۔ غافر: ۲۵۔ آیہ مباہلہ میں بھی نسآء کا لفظ اَبنآء کے ساتھ ہے، لہٰذا یہاں نسآء سے مراد بیٹیاں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم تھا کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر مباہلہ کریں۔
واقعہ مباہلہ کا پیغام:
واقعہ مباہلہ دین کی فتح مبین ہے. یہ واقعہ اپنے اندر بہت سے قیمتی پیغامات سموئے ہوئے ہیں. ذیل میں واقعہ مباہلہ سے حاصل ہونے والے چند نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.
٭پنجتن پاک دین مبین کی حقانیت پر دلیل بن کے جاتے ہیں لہذا ہر دینی معاملہ میں ان سے تمسک کیا جائے.
٭دین خدا جب بھی خطرے کی زد میں آیا تو اہل بیت نے جان کی بازی لگا دی.
٭مقام و مرتبہ کے لحاظ سے امت میں کوئی بھی اہل بیت کے ہم پلہ نہیں ہے.
٭ابناءنا , نساءنا اور انفسنا جمع کے صیغے ہیں لیکن رسول کا ابناءنا کی جگہ حسن و حسین علیھما السلام , نساءنا کی جگہ فقط سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اور انفسنا کی جگہ فقط امام علی علیہ السلام کا انتخاب کرنا دلیل ہے کہ عورتوں میں سیدہ کے برابر اور نفس رسول ہونے میں علی کے ہم پلہ اور کوئی نہیں لیکن اولاد رسول ہونے میں حسن و حسین علیھما السلام برابر تھے لہذا دونوں کو لے گئے.
٭دین انہی چند معصوم ہستیوں کی خاطر قائم اور زندہ ہے، ورنہ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لعنت کرسکتے تھے۔
٭جو رسول کی زندگی میں ہی نفس رسول ہونے کا اعزاز پائے تو بعد از نبی جانشین نبی ہونے کا اہل بھی صرف وہی ہے.
٭جب مباہلہ سے اہل بیت کا سچا ہونا ثابت ہوگیا تو آیت "وکونوا مع الصادقین اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ” کے تحت اہل بیت کی پیروی واجب قرار پاتی ہے.
٭مخالف کے ساتھ دلیل سے بات کی جائے اور اس کی بات چاہے اپنے عقیدے کے صریح خلاف ہو پھر بھی صبر و تحمل سے سنی جائے.
٭مخالف کو دلیل سے قانع کرنے کی کوشش کی جائے اور ضد و ہٹ دھرمی سے گریز کیا جائے اور اس کی زات یا اس کے مقدسات کی توہین نہ کی جائے.
٭کسی پر زور و زبردستی کے زریعہ اپنا نظریہ مسلط نہ کیا جائے.
٭اگر آپ حق و صداقت پر ہیں لیکن مخالف دلائل نہیں مان رہا تو اس کی توہین یا گالم گلوچ(جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) کی بجائے مباہلہ کا چیلنج دے کر اپنی حقانیت ثابت کی جائے.
٭اگر کوئی مخالف بھی آپ سے بات چیت کرنا چاہے اور چل کر آئے تو اس کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے اور اس کی عزت و تکریم کی جائے.
٭غیب سے مدد حاصل کرنا، معمول اور ظاہری توانائیوں کے استعمال کے بعد۔
٭جس کو اپنے عقیدے اور مقصد پر ایمان ہو تو حتی خود اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی خطرہ کی زد میں لے آتا ہے۔
٭کبھی افراد کی کثرت کی اہمیت ہوتی ہے اور بعض اوقات افراد کی کثرت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ کم تعداد افراد کی شان و عظمت اور ہدف کی اہمیت مقصود ہوتی ہے۔
٭دعا کی محفلوں میں بچوں کو بھی لانا چاہیے۔
٭اگر حق کا پیروکار انسان، اپنی حقانیت پر مضبوطی اختیار کرے تو باطل پر چلنے والے شخص کی شکست یقینی ہے۔
٭اگر رسول خدا غیر مسلموں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے کا اقدام فرما سکتے ہیں تو مسلمان آپس کے مسائل مل بیٹھ کر کیوں حل نہیں کر سکتے… ؟؟؟

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button