رمضان المبارکسلائیڈرمقالہ جات و اقتباسات

ماہ رمضان بندگی کا مہینہ

مترجم : محمد عیسی روح اللہ
دیباچہ
الحمد لله الذي انزل القرآن في شهر رمضان هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان و انزله في ليلة مبارکة یفرق فيها کل امر حکیم و الصلاة و السلام على رسوله المصطفى و سفيره المجتبى، و على وصيه و خليفته المرتضى، و على آله خير الورى. سيما ناموس الدهر و امام العصر صاحب زماننا و مالك رقابنا الحجة بن الحسن العسكري عليه السلام اللهم عجل فرجه الشريف و سهل مخرجه المنيف، و اجعلنا من أعوانه و أنصاره.
ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے اور عبادتوں، قرآن اور دعاؤں کی بہار ماہ رمضان ہے، اسی لئے امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
لِكُلِّ شَيْ‌ءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ
ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔(1) قرآن کریم میں اس ماہ کی بہت زیادہ فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ ماہ رمضان کو جو فضیلت ملی ہے وہ کئی وجوہات کی بنا پر ہے
(1) اس ماہ میں قرآن اترا ہے۔
(2)روزہ اسی ماہ میں واجب ہوا ہے۔
(3)ہزار مہینو ں سے بہتر رات ؛ شب قدر اسی مہینہ میں واقع ہوئی ہے۔
(4) تاریخ اسلام کے کئی اہم واقعات منجملہ جنگ بدر اور شہادت امام علی علیہ السلام اسی ماہ میں رونما ہوئے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ماہ مبارک رمضان فضائل کا حامل مہینہ ہے، دعا نماز عبادتوں کے لئے سب سے بہتر ماہ ہے۔اس مقالہ میں بندگی کے اس مہینہ میں طریقۂ بندگی، راہ و رسم سالکان اور خدا کی طرف سفر کرنے والے مسافر کے زاد راہ کے بارے میں چند اہم باتیں بیان کریں گے، اس مقدس مہینہ میں مومنین کو کن کن امور کے انجام دینے کی ضرورت ہے؟ تاکہ وہ خدا کا تقرب حاصل کرسکیں، ذیل میں بندگی کے ان سات اہم اہم منزلوں کو بیان کریں گے جن کو طے کرکے انسان مقام "عبدیت” پر فائز ہو سکتا ہے۔ ان اہم منازل کو خلاصہ کی شکل میں پیش کریں گے اگر کسی جگہ وضاحت کی ضرورت پڑی تو مختصر وضاحت بھی کریں گے۔
ہمیشہ سے عظیم انسانوں نے اس پاک مہینے کو قرب خدا کا وسیلہ سمجھا ہے، اور اسی کی فرصتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی اصلاح اور ہدایت کا سامان پیدا کیا ہے۔جو کوئی درگاہ خدا میں مقرب ہوا ہے تو اس نے اس مہینہ سے اس کی فرصتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔پس اتنے عظمتوں اور فضیلتوں کے حامل مہینہ کے لئے ہر انسان کو تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی اس مہینہ کے آنے سے پہلے تیار رہے۔ اپنی اوقات کو مختلف عبادتوں اور کاموں کے لئےتقسیم کر کے رکھیں۔ٹائم ٹیبل بنا کر اوقات کو اس ٹیبل میں قید کریں اس لئے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے ۔ اگر اسے نہ پکڑ لیں تو گزر جائے گا اور انسان صرف تکتے رہ جائیں گے۔ ندامت ہی ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اس مختصر تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس ٹائم ٹیبل کے خانوں کو کن چیزوں اور پروگراموں سے پر کرنا ہے۔ ان پروگراموں میں سے ہرایک تفصیل طلب ہے لیکن اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے فہرست وار انداز میں انہیں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔تاکہ ارباب علم و دانش، طالب علم، اور ہر پڑھے لکھے انسان کے لئے اشارہ ہو ، عوام کے لئے مفید اور خواص کے لئے تذکر کا سبب بنے۔اور اس پر عمل کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائے۔
ہم نے اپنی اس کاوش میں بعض ایسے امور کو سپرد قرطاس کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر ہم اس عظیم مہینے کے حقوق میں سے کچھ ادا کر سکیں گے۔ سب سے پہلے خود سازی، تزکیہ نفس کے بارے میں عام فہم الفاظ میں دوستوں کے لئے ایک دو نصیحتیں بیان کی ہیں، اس میں توبہ سے متعلق بات کو کچھ تفصیل سے بیان کیا ہے کیونکہ یہی روح خود سازی اور تزکیہ نفس ہے۔اس کے بعد دین شناسی اور مسائل شناسی سے متعلق کچھ سطریں تحریر کرنے کی کوشش کی ہے اور اگلے مرحلے میں مسجد کی حیثیت، ماہ رمضان میں مسجد کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی ہے، اس لئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق مسجد اسلام کی چھاؤنی ہے۔ یہاں سے قرآنی محفلو ں کے انعقاد کی اہمیت اور ثواب کے بارے میں بھی چند سطروں میں خلاصہ کرنے کو کوشش ہوئی ہے۔ان کے بعد ایک اقتصادی انسانی دینی و سیاسی مسئلہ کی طرف آپ کی توجہات کو مبذول کرانا چاہا وہ اس ماہ میں فقیروں، بے نواؤوں کو افطاری دینے، اور صدقہ دینے کے حوالے سے ہے اور پھر آخر میں دعا و نماز اور خدا سے راز و نیاز سے متعلق دوستوں سے سرگوشی کی ہے ان دوستوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو اس ماہ میں دعا و نماز سے خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔
ان سات مرحلوں پر مشتمل یہ پروگرام ماہ رمضان کے اہم پروگرام ہے اس پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف اپنی آخرت کو سنوار سکتے ہیں بلکہ دنیا میں بھی انسان سربلندی سے جی سکے گا وہ مقام رضا پر فائز ہو جائے گا۔
یہ مقالہ در واقع ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جو "ہفت گام تا حضور” کے نام سے جناب سنا برق نے رقم کیا تھا اور الحسنین کی فارسی سائٹ کو دیا تھا یہاں اس کاترجمہ ترمیم و اضافات کے ساتھ سپرد قرطاس کرنے کی کوشش ہوئی ہے، دلسوز دوستوں سے اصلاح کی امید ہے۔
خود سازی
انبیاء انسان کی فطرت کو جگانے کے لئے آئے ہیں، دین ، شریعت، قرآن اور احادیث انسانی فطرت کو بیدار کرنے والے قوانین کا نام ہے۔یہ وہ فطرت ہے جو انسان کو خدا تک پہنچا دیتی ہے ، اور فطرت انسان کی بیداری تہذیب نفس میں ہے ، وہ نفس جس کی قیمت جنت کے سوا کچھ بھی نہیں اسی سے انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کی قیمت جنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں بن سکتی ۔
مولا امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے:
إِنَّهُ لَيْسَ لِأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا
تمہارے جانوں کی قیمت جنت کے سوا کچھ بھی نہیں بن سکتی پس اسے جنت کے سوا کسی اور چیز کے عوض نہ بیچنا۔(2) یہی وہ چیز ہے جسے بیان کرنے لئے خدا نے قرآن نازل کیا، انبیاء بھیجے، ائمہ مقرر فرمائے اور عقل جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔
اب ماہ رمضان ہمیں اس فطرت کی طرف متوجہ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے جسے قرآن نے فطرۃ اللہ سے تعبیر کیا ، یہ فطرت پاک جو کہ فطرت اسلام ہے جب مختلف عوامل و اسباب کی بنا پر مغلوب ہو کر ہوا و ہوس اور نفس امارہ کے ہاتھوں اسیر ہو جاتی ہے تو ماہ رمضان انسان کو وہ روشندان دکھاتا ہے جہاں سے وہ دوبارہ اس فطرت کی وادی میں جھانک سکتا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ شیطان اور نفس کی سال بھر کی محنت ایک لمحہ میں ضائع ہو جاتی ہے ،شیطان پورا سال انسان کو گمراہ کرتا ہے اور جب ماہ رمضان آتا ہے تو ایک "ربنا”” الہی العفو” اس کی تمام محنتوں پر پانی پھیر دیتا ہے،اسی کا نام مغفرت اور رحمت ہے۔
سال بھر انسان شہوت پرستی، شکم پرستی، اور بہت سی بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے لیکن جب رمضان کا پورا مہینہ وہ روزہ رکھتا ہے تو اسے تمام بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔وہ انسان جو تین گھنٹے کی بھوک برداشت نہیں کر سکتا تھا اب وہ پورے پندرہ گھنٹے بھوکا رہتا ہے تو خود بخود اس کے معدے کو سکون ملتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ پرخوری سے جھیلنے والے درد و الم سے چھٹکارا پاتا ہے۔ان بیماریوں میں سے ایک بیماری جو زیادہ کھانے کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے قساوت قلبی یا سنگدلی ہے، زیادہ کھانے والا انسان سنگدل ہوتا ہے اسی لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے :
مَنْ تَعَوَّدَ كَثْرَةَ الطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ قَسَا قَلْبُهُ‌
جو کوئی زیادہ کھانے اور پینے کی عادت کرے اس کا دل پتھر بن جا تا ہے۔( 3)
اسی طرح ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَسَادُ الْجَسَدِ فِي كَثْرَةِ الطَّعَامِ
زیادہ کھانے سے جسم خراب ہو جاتا ہے۔(4)
ماہ رمضان میں انسان آہستہ آہستہ عادت کرتا ہے کہ بھوکا رہے، اس سے وہ اپنے آپ کو زیادہ تندرست محسوس کرتا ہے اور جب وہ اپنی تندرستی کا احساس کرتا ہے تو عبادت کی طرف بھی رغبت بڑھتی ہے۔اور جب وہ عبادت و بندگی کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی طرف رحمت سے نگاہ فرماتا ہے۔
جب اللہ نظر رحمت اس کی طرف مبذول فرماتا ہے تب انسان اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خود کو خدا کی نعمتوں، رحمتوں کے مقابلے میں گناہ گار پاتا ہے یہی وہ احساس ہے جو اسے وادی بندگی میں پہنچا سکتا ہے، اس کے تاریک ضمیر کو نور ایمان سے منور کر سکتا ہے۔اب جب وہ خود کو خدا کے حضور مقصر اور ذلیل محسوس کرتا ہے تو تب اسے اس دروازے کا خیال آتا ہے جو اسے معبود سے ملا دے گا وہ دوروازہ توبہ کا دروازہ ہے ،امام سجاد علیہ السلام دعائے توبہ میں فرماتے ہیں:
أَنْتَ الَّذِي فَتَحْتَ لِعِبَادِكَ بَاباً إِلَى عَفْوِكَ سَمَّيْتَهُ التَّوْبَةَ فَقُلْتَ «تُوبُوا إِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَصُوحاً» فَمَا عُذْرُ مَنْ أَغْفَلَ دُخُولَ الْبَابِ بَعْدَ فَتْحِهِ إِلَهِي إِنْ كَانَ قَبُحَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ
تو تو وہ ذات ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے اپنی مغفرت کی جانب ایک دروازہ کھولا اور اس کا نام توبہ رکھا پھر حکم دیا کہ ” لوگو خدا کی طرف دل کی گہرائیوں سے پشیمان ہوکر پلٹ آئیں”(5) پس دروازہ کھلنے کے بعد جو انسان اس دروانے سے داخل نہ ہوجائے اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے، میرے معبود! اگر اپنے بندے سے گناہ برا عمل ہے تو تجھ سے عفو و بخشش زیبا ہے۔(6)
ان روح افزا جملوں کے بعد امام سجاد علیہ السلام ہمیں رسم بندگی سکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں:
میں پہلا شخص نہیں ہوں جو گناہ کرنے کے بعد تیری رحمت کی طرف پلٹ آیا ہوں اور تیرے کرم کا منتظر رہا ہوں، تو تو بڑے بڑے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے بخش دیتا ہے۔(7) اب بندہ ایسے مقام پر کھڑا ہے کہ جہاں سے معراج انسانیت اور تہذیب نفس کی ابتداء ہے۔یہی توبہ ہے جس کے سہارے مومنین زندہ رہتے ہیں، اگر توبہ جیسا کوئی پلٹنے کا راستہ نہ ہوتا تو انسان شقی ہو جاتا اور نا امید ہوکر طغیان گری کے کنویں میں گر جاتا ، لیکن ہم انسانوں کو خدا کی اس عظیم نعمت کی قدر قیمت کا ادراک وقت بیت جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
توبہ کی حقیقت دل و جان سے پلٹنا ہے ، یہی پلٹ کر آنا خدا کو بہت پسند ہے، یہی وہ مقام ہے جس پر انسان جب فائز ہوتا ہے تو وہ اس دن کی طرح پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا، ذرا سوچیں اتنے سارے گناہ کرنے کے بعد بھی توبہ کرنے سے نہ صرف گناہ بخش دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ان گناہوں کو نیکیوں میں بدل بھی دیتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد رب العزت ہے:
إِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَ كَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَاباً(8)
یہ سورہ مبارکہ فرقان کی دو آیتیں ہیں ان دو آیتوں سے پہلے خدا شرک اور زنا کا انجام بیان فرماتا ہے اور ان کے لئے جہنم کا وعدہ کرتا ہے پھر ارشاد فرماتا ہے کہ ” جوکوئی خدا کے علاوہ کسی اور کو خدا مانتا ہے یا زنا جیسا برا کام انجام دیتا ہے تو خدا اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا، مگر جو کوئی ان گناہوں کے انجام دینے کے بعد توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک کام بجا لائیں تو خدا( نہ صرف ان کی توبہ کو قبول فرماتا ہے بلکہ ) ان کے گناہوں اور برے کاموں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ اور جو کوئی خدا کی طرف پلٹ کر جاتا ہے اور عمل صالح بجا لاتا ہے تو خدا بھی (دامن رحمت پھیلائے ) اس کی طرف پلٹ آتا ہے” (اور اسے آغوش رحمت میں جگہ دیتا ہے)۔
جب خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو جا تی ہے اور اس کی گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں تو اب اس کا دل نورانی ہو جاتا ہے تو ایسے انسان کے لئے ایک رات میں سو سالوں کی مسافت طے کرنا بڑی بات نہیں۔ اب وہ عبد خدا بن جاتا ہے وہ خدا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے تو خدا بھی اس کی التجا ء کو قبول کرتا ہے پھر تو پتھر کا سونابنانا، چھت سے گرتے بچے کو ہوا میں معلق رکھنا اور آرام سے زمیں پر اتارنا، پانی پر چلنا، زمینی فاصلے کو کم کرنا، اور بہت سے کرامت نما افعال اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ، اگر ایسا انسان بارش کے لئے دعا کرے، مریض کی شفا کے لئے دعا کرے، سیلاب کو رکنے کا حکم دے تو خدا فورا اس کی التجاء کو سن لیتا ہے،اسی کا نام ہے توبہ۔
ماہ رمضان آپ کے سامنے ہے ، ذرا خدا کی رحمت کی لذت کو تو دیکھو، یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر کام عبادت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں:
أَنْفَاسُكُمْ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَةٌ
لوگو! وہ مہینہ تمہاری طرف آنے والا ہے جس کی راتیں بہترین راتیں اور دن بہترین دن ہیں، یہ وہ مہینہ جس میں تمہاری سانسیں تسبیح اور سونا عبادت ہے۔(9) کیوں نہ ملیں یہ عظمتیں، شب قدر وہ قدر و منزلت والی راتیں بھی تو اسی مہینہ میں ہے جن کے بارے میں فرمایا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر، اس رات حکمت والے امور مقدر ہوجاتے ہیں، فرشتوں کا نزول امن و سلامتی کی گارنٹی سے لیکر تمام عظمت والے امور کا مجموعہ ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ توبہ اس عظیم عمارت، عالی شان قصر، مضبوط بنگلے کا نام ہے جس میں داخل ہونے والا دونوں جہانوں میں کامیاب ہے، جو اس میں داخل ہوگا وہ امن میں رہے گا لیکن اتنی عظمت والی عمارت کے تین اہم ستون ہیں ایک ستون کا نام حقوق خدا اور حقوق الناس کا ادا کرنا ہے، دوسرے ستون کو ندامت، استغفار،پشیمانی کہا جاتا ہے اورتیسرا ستون آپ کا وہ عزم ارادہ ہے جو آپ گناہ کو چھوڑنے کا کرتے ہیں۔ ان تینوں ستونوں کے بغیر اس عمارت کا وجود نہیں، ان تین شرائط کے بغیر توبہ صحیح نہیں پس ان تین ستونوں کو کھڑا کریں، تین شرائط کو پورا کریں یہی توبہ ہے۔
پس اگر کوئی نماز ، روزہ، حج، خمس، زکوات، وغیرہ آپ کے ذمہ باقی ہے تو اسے ادا کریں، نماز اور روزے کی قضا کریں، خمس و زکوات دے دیں، یا کوئی حق الناس آپ کے پاس ہو کسی سے قرض لے کر ادا نہیں کیا ہو، ادھار آپ کے کھاتے میں ہو تو ان سب کو ادا کریں پھر توبہ کریں۔ ماہ رمضان میں اپنا حساب صاف کرکے خدا کو دے دیں، اور پھر توبہ کریں تو وہ حقیقی توبہ، تونہ نصوح ہے۔یہ مہینہ ایک بہترین فرصت آپ کو دے دیتا ہے کہ اپ اس سے فائدہ اٹھاکر اپنی اصلاح کریں، خود کو گناہوں کے بوجھ سے ہلکا کریں اور خدا سے قریب ہو جائیں۔
دین کی معرفت
خود سازی کے بعد یہ دوسرا مرحلہ ہے جو راہ خدا کے مسافروں کو اس مقدس مہینے میں انجام دینے کی ضرورت ہے، یہ مہینہ دین سیکھنے کا مہینہ ہے،اس میں انسان دین کے بلند مرتبہ گہروں اور بے بہا موتیوں سے آشنا ہوتا ہے۔ ہر انسان کے لئے دین سیکھنا واجب ہے لیکن ماہ رمضان میں دین سیکھنے کی خاص تاکید ہوئی ہے۔
دین سکھانے کے لئے اگر چہ کوئی خاص وقت معین نہیں ہے لیکن ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ایک طرف سے اس مہینے کی برکت ، قرآن کا نزول، ائمہ کی سفارشیں اور دوسری طرف سے علما ء و مبلغین اپنے اپنےدرسوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے خاص اہتمام کے ساتھ رخت سفر باندھ کر مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔ دینی درسگاہوں میں تبلیغ کی خاطر چھٹی ہو تی ہے۔
پس ہر وہ انسان جو سال بھر دین سیکھنے سے محروم رہا ہو اس ماہ میں ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس زمانے میں جگہ جگہ دین سیکھنے سکھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، مسجدوں کو ماہ رمضان کی آمد سے پہلے تیا ر کیا جاتا ہے، اشتہارات، اس ایم اس کے ذریعے ہر انسان کو اطلاع دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اسلامی میڈیا بھی اس ماہ میں خاصا سرگرم ہو جاتا ہے اور ریڈیو ٹی وی چینلز کے ذریعے مختلف پروگرامز نشر کرتا ہے۔ کہیں پہ تفسیر کی درس ہو تو کہیں احکام کی کلاسوں کو نشر کرتا ہے، کہیں تقریریں نشر ہوتی ہے تو کہیں قصیدے مناقب اور مختلف شعری پروگرامز بھی ٹائم ٹیبل کے ساتھ نشر کیئے جا تے ہے۔
اب اگر کسی کو مسجد جاکر درس اخلاق سننے کی توفیق نہ ہو تو گھر بیٹھ کر بسترے میں لیٹ کر یا خواتیں گھر کے کام کرتے ہوئے ریڈیو، ٹی وی سے پروگراموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
یہ سب سہولیتیں ہمیں بتا رہی ہے کہ خدا کی طرف سے اتمام حجت ہو چکا ہے اور اس کے نمائندوں نے پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب یہ ہم پر ہے کہ اس مبارک مہینے میں دیں سیکھ کر راہ سعادت پر چلیں یا ہمیشہ کی طرح غفلت میں، لہو و لعب میں فضول کاموں میں اپنی قیمتی اوقات کو ضائع کریں۔ خدا نے تو ہر دو راستہ انسان کے سامنے رکھا ہے اب وہ شکر گزار بنیں یا کفران نعمت میں مبتلا ہو کر دنیا و آخرت میں گھاٹا کھانے والوں میں سے ہوجائیں۔
ہر انسان کو چاہئیے کہ وہ دین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات رکھیں،تا کہ اس شک و شبہات کی جنگ میں کامیاب ہو جائیں، ماہ رمضان آپ کو وہ اسلحہ فراہم کرتا ہے جو آپ کو دین میں شک میں ڈالنے والوں کی گزند سے ، شبہہ پھیلانے والوں کی شر سے امان میں رکھے گا۔
اور یاد رکھنا شبہہ ایجاد کرنے والے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں ہر انسان سے اس کی طبیعت اور ذوق کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے ہرایک میں ایک ہی قسم کا شک ڈال دیں، کسی کو عزاداری میں شک ڈالتے ہیں، کسی کو علماء سے بد ظن کرتے ہیں، کسی کو نماز سے دور کرکے ، کسی کو اس کے دوست، مامو، چچا ، اور دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے ذریعے سے ورغلا کر دین اور دینی امور و احکام میں شک میں مبتلا کرتے ہیں،آپ چاروں آنکھوں کو کھلا رکھیں، بڑا کٹھن دور ہے، بڑے سے بڑے نامور لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں، دشمن کے ہاتھوں بک جاتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں۔
اسی لئے اس دور میں دین پر قائم رہنے کو نوک تلوار پر ٹکے رہنے سے بھی سخت قرار دیا، اور ہمیں حکم دیا کہ دین پر ثابت رہنے کے لئے خدا سے مدد مانگیں ، زیادہ دعا کریں ، خصوصا صبح و شام اس دعا کو کثرت سے پڑھیں:
یا اللّهُ یا رَحْمنُ یا رَحیمُ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبی عَلی دِیِنکَ.
اے اللہ اے رحمان و رحیم مجھے تیرے دین پر ثابت قدم رکھ(11)
پس ماہ مبارک رمضان کی فرصتوں میں دروس کے پروگراموں، قرآنی محفلوں اور دینی اجتماعات میں شرکت فرما کر اپنے دین کو مضبوط کریں۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دوران سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے، اس لئے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کرنے کے بعد ہر اس بیس سالہ جوان سے سختی سے پیش آئے گا جس نے دین نہیں سیکھا ہو۔
اس ماہ کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے دعا کی محفلوں کو زیادہ سے زیادہ رونق دیں چونکہ دین شناسی میں دعا کا اہم کردار ہے، خاص کر دعائے مبارکہ افتتاح جو بہت سے اعتقادی مسائل، امامت جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہے،اگر کسی جگہ دعا کا پروگرام نہیں ہے تو لوگوں میں سے دین کے درد رکھنے والوںمیں سے بعض مومنین اٹھیں اور اس نیک کام کا اہتمام کریں۔
اس ماہ میں دین سے زیادہ آشنائی حاصل کرنے کے لئے جوانوں کو ایک مشورہ دینا منا سب سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ مختلف علاقوں میں جوانوں کو جمع کرکے کسی عالم دین یا دین کے بارے میں زیادہ معلومات رکھنے والی کسی متدین شخصیت کو بلا کرسوال جواب، قرآن و حدیث کا ترجمہ ، اعتقادی آیتوں کی تفسیر، شبہات اور ان کے جوابات، وغیرہ کا اہتمام کریں۔
اگر کوئی سوال پیچیدہ ہو تو اس کا حل ڈھونڈنے لے لئے کسی اور علاقے میں سفر کرنا بھی پڑے تو بھی زحمت برداشت کر کے اس کو حل کریں جواب ڈھونڈیں۔ جو کوئی اس عظیم الہی مقصد کے لئے اٹھ کھڑا ہوجائے اسے دو فائدہ ہوں گے ایک وہ خود شبہات سے محفوظ رہ سکتا ہے، اور دوسرا اسےخدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا اجر بھی خدا عنایت کرتا ہے۔ اگر ایک دو جوان اٹھ کھڑے ہو ں تو خدا مدد کرے گا اوردوسرے جوانوں کو بھی شوق ہوگا کہ اس نیک راہ میں آکر الہی قافلے میں شریک ہونگے ۔ بقول شاعر:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
فقہی مسائل سیکھنا
مسائل اور احکام اگر چہ دین شناسی کا ایک حصہ ہے اور دین شناسی میں اس سے متعلق گفتگو کی جاتی ہے لیکن زیادہ اہمیت کی خاطر اسے الگ ذکر کرتے ہیں۔ اور چو نکہ اس میں حلال و حرام، پاک نجس سے متعلق گفتگو کی جاتی ہے اس لئے اسے ایک الگ عنوان سے ذکر کرنے کو مفید سمجھا۔
ہر انسان کو دیندار ہونا چاہئیے ایک گریڈ ون اور روڈ کی صفائی کرنے والے سے لیکر بڑے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات میں کوئی بھی احکام سیکھنے سے بے نیاز نہیں ہے۔ تمام مراجع تقلید کے مطابق روز مرہ پیش آنے والے مسائل کا یاد کر لینا واجب ہے۔(12) اس لئے کہ انسان کو اپنے ہر کام، رفتا کردار اور باتوں کا خدا وند عالم کے ہاں جواب دینا ہے اس کے پاس اس کے تمام افعال کی دلیل ہونی چاہئیے ،اگر دلیل کے بغیر انجام دیا تو اس نے اپنے مولا کی نا فرمانی کی ہے ۔ یہی مسائل اور احکام ہیں جو کل خدا کے ہاں دلیل ہیں۔ اسی توضیح المسائل پر عمل کرکے ہر انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اسی لئے ہر مجتہد اپنی اپنی توضیح المسائل کے آخر میں اس جملہ کو لکھتا ہے کہ اس کتاب پر عمل کرنے سے انسان کی ذمہ داری ساقط ہو جا تی ہے ۔ (13)
ماہ مبارک رمضان انسان کو یہ سنہری موقع دیتا ہے کہ مسائل سیکھ لے۔اگر چہ سال بھر انسان کے لئے ضروری ہے کہ مسائل سیکھتا رہے لیکن اس ماہ میں قدیم زمانے سے علماء خاص اہتمام کرتے تھے ۔ حوزہ ٔ علمیہ،مدارس اور باقی درسگاہوں سے مختلف علاقوں کے رخ کرتے تھے اس دور میں بھی ایران اور عراق سے یا باقی جگہوں سے علماء اس ماہ میں تبلیغ کے لئے آتے ہیں اس لئے ان سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مومنین کو چاہئیے کہ تیار رہیں ،بہت سے مسائل ایسے ہیں جنہیں سیکھنے سکھانے کی ضرورت ہے، نماز، روزہ سمیت فروع دین کے باقی مسائل کو سیکھنے کا اہتمام کریں۔ جہاں انسان اس ماہ میں روزہ کے مسائل سےآشنائی حاصل کرتے ہیں وہاں وہ نماز بھی سیکھ لیں ہمارے ہاں بہت سے لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن احکام سے نا واقف ہیں ۔ وہ قرائت جو ارکان نماز میں سے ہے جس میں ایک لفظ بھی جا بجا ہوجائے تو نماز باطل ہے اسے سیکھنے کی طرف توجہ کم ہے۔ بہت سے لوگوں کی قرائت دین کی مطلوب قرائت نہیں ہے لیکن وہ اسے سیکھتے بھی نہیں ہیں۔اس ماہ میں جب علماء آتے ہیں تو ان سے اپنی قرائت کو ٹھیک کرانے کا موقع ملتا ہے۔
بہت سے علاقوں میں ماہ رمضان میں خاص اہتمام کے ساتھ مسائل سیکھنے سکھانے کے پروگرامز ہوتے ہیں اگر کہیں ایسا اہتمام نہیں ہے تو مومنین اہتمام کریں۔ باقی تمام کاموں سے یہ اہم ہے۔ اسی پر دین کے حلال و حرام موقوف ہیں دنیا کی کوئی بھی چیز انسان کو دین سیکھنے سے باز نہ رکھے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
لَا يَشْغَلُكَ طَلَبُ دُنْيَاكَ عَنْ طَلَبِ دِينِكَ فَإِنَّ طَالِبَ الدُّنْيَا رُبَّمَا أَدْرَكَ وَ رُبَّمَا فَاتَتْهُ فَهَلَكَ بِمَا فَاتَهُ مِنْهَا‌
طلب دنیا تمہیں دین حاصل کرنے سے نہ روکے کہ طالب دنیا کو کبھی دنیا نصیب ہوتی ہے کبھی اس سے چھوٹ جاتی ہے پس جو چیز انسان سے چھوٹ جاتی ہے اس سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔(13) اسی طرح امام باقر علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:
تَفَقَّهُوا فِي الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ إِلَّا فَأَنْتُمْ أَعْرَابٌ‌
حلال اور حرام میں غور و فکر کرو ورنہ بدھو ہو(14)
آج کل کے دور میں مسائل سیکھنا مشکل نہیں علماء کے پاس تمام مجتہدوں کی توضیح المسائل اور جدید فتوؤں کے مجموعے موجود ہیں بازار میں اردو میں ترجمہ شدہ دستیاب ہیں، ان سب کے با وجود اگر کسی مسئلہ کا جواب نہ ملے یا استفتاء کی ضرورت پیش آئے تو آپ وہ مسئلہ لکھ کر زبانی یا کسی اور طریقے سے علماء تک پہنچائیں وہ کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو صحیح اور آپ جس مجتہد کی تقلید کرتے ہیں اسی کے مطابق آپ کو جواب دے گا اس کے علاوہ بھی انٹرنیٹ تو ہر وقت ہے تمام مجتہدوں کے ویب سائٹس ہیں وہاں جدید سے جدید فتوے موجود ہیں اس کے علاوہ اپنے استفاءات کو ای میل کے ذریعے بھی دریافت کر سکتے ہیں پس آپ کے پاس کوئی عذر باقی نہیں بچتا۔
دوستو! خدا کے لئے اس مہینے کو ہاتھ سے جانے نہ دیں! ایک ماہ میں تمام مسائل بھی سیکھ سکتے ہیں اپنی کاروباری دنیا سے ڈیلی ایک گھنٹہ دینی مسائل سیکھنے کے لئے مختص کریں ۔ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے انسان کے لئے اسی شعبہ کے مسائل سے اگاہی واجب ہے۔ آئیے ! اس ماہ میں سیکھیں ۔
ایک ضروری نکتہ ہے کہ مسائل دینی صرف اور صرف دینی راستوں سے حاصل کریں ، یا مجتہد اور اسکے دفتر سے یا دینی علماءسے ۔ اگر کسی اور طریقے سے حاصل کی مثلا عالم نما لوگوں سےحاصل کیا اور بعد میں وہ مسئلہ غلط نکلا تو پھر آپ کا ذمہ بری نہیں ہوگا۔
یہاں پر میں تمام مومنین سے درخواست کرتا ہوں کہ احکام پوچھیں جب تک آپ نہ پوچھیں جواب نہیں ملے گا پوچھنا خود ایک علم ہے۔ خواتین اگر پوچھنے میں شرم کا احساس کریں تو نام و نشان کے بغیر لکھ کرعالم کودیں اور جواب وصول کریں۔علماء اور واعظین بھی ہر مناسبت پر تقریر کے شروع میں ایک دو شرعی مسئلہ بیان کریں تو بہت اچھا رہے گا۔اس کی تأثیر بہت زیادہ ہے۔
مسجدوں کو آباد کرنا
اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن اور احادیث کی رو سے مسجد اس پاک مقدس جگہ کا نام ہے جہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے؛ اسی لئے اسے بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ دین مقدس اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت ہے،اس کے خاص احکام ہیں؛ مجنب، حائض اور نفساء وہاں نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر فضول باتیں نہیں کی جا سکتیں۔ کافروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے، احترام واجب ہے، نجس نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر نجس ہوا تو فورا پاک کرنا واجب ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ ہجرت کر گئے تو سب سے پہلے مسجد بنائی اور اسلامی فوجوں کو اسی مسجد میں ٹرینینگ دی جاتی تھی۔تمام ائمہ مساجد میں ہی درس دیا کرتے تھے اپنے اختلافات کے حل کے لئے مسجد میں ہی مراجعہ کرتے تھے۔ مسجد کوفہ میں وہ جگہ آج بھی نمایاں اور مشخص ہے جہاں امام علی علیہ السلام لوگوں کے اختلافات حل فرماتے تھے۔
امام خمینی جو ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی اور لیڈر تھے انقلاب کو مساجد کی مرھون منت سمجھتے تھے؛ اسی لئے آپ فرماتے تھے کہ مساجد اسلام کی چھاؤنی ہیں ان کی حفاظت کریں۔(16)
ماہ رمضان اور مسجد کا گہرا رابطہ ہےحقیقت میں یہی وہ ماہ ہے جس میں مسجدیں آباد ہوتی ہیں۔ اور یہیں سے دین پھیل جاتا ہے اس لئے اس عظمت والی جگہ کو جتنا ہو سکے بہتر انداز میں بنائیں۔ ایران میں ماہ رمضان کی آمد سے ایک ہفتہ پہلے مساجد کی صفائی، وغیرہ کا کام انجام پاتا ہے۔( 17) مسجد کی خوبصورتی،انتظامات کا صحیح ہونا، ہمسایوں کا خوش اخلاق ہونا، ہر وقت پابندی سےنماز جماعت کا قائم ہونا، احکام اور معارف کا بیان ہونا وغیرہ جوانوں اور مومنین کو جذب کرنے میں نہایت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے ۔ماہ رمضان میں لوگ زیادہ تر وقت گزارنے کے لئے مختلف کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ اگر ان اوقات میں کوئی قرآنی اور دینی پروگرام مسجد میں منعقد کیا جائے تو لوگ بڑے شوق اور رغبت سے شرکت کریں گے۔
شب قدر دعا اور نماز کی رات ہے اس رات کے تمام اعمال مسجد میں بجالانے کے لئے خاص اہتمام کریں، شب قدر میں جہاں دعا، قرآن، نماز اور زیارت کا حکم ہے وہاں علمی گفتگو کرنا بھی بہت زیادہ اجر و ثواب کا حامل ہے۔ ان راتوں میں کچھ وقت علمی گفتگو اعتقادی سوال جواب کے لئے بھی مختص کریں۔
اسی طرح ماہ رمضان کے دن اور رات میں پڑھی جانے والی دعاوں کو اجتماعی شکل میں مسجد میں بجا لائیں۔افطاری کا بندوبست کرنا بھی بہت موثر ہے ماہ رمضان میں اگر دو مرتبہ جماعت کا اہتمام ہو جائے افطار سے پہلے اور افطاری کے ایک گھنٹہ بعد تو زیادہ سےزیادہ مومنین کو اس سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے بعض مومنین کوافطاری سے پہلے نماز پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ان کے لئے دوسری نماز جماعت میں پہنچنا سعادت ہے جو مومنین اول وقت نماز ادا کرنا چاہتے ہیں وہ پہلی نماز میں شریک ہو سکتے ہیں ۔
اس کے ساتھ اگرافطاری کا بھی پروگرام ہو جائے تو نور علی نور مسجد کی رونق کو چار چاند لگ سکتا ہے۔ مساجد میں افطاری دینا نہ صرف کئی گنا اجر و ثواب کا باعث ہے بلکہ تمام نمازیوں کے ثواب میں بھی صاحب افطار برابرکا شریک ہے۔
یہ ایک مہینہ ایک خاص رنگ و بو کا حامل ہے۔ جہاں ایک طرف مبلغین جوق در جوق مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں وہاں ان علاقے کے لوگوں کی رغبت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پس ہر علاقے کے جوان اور با صلاحیت افراد زحمت کرکے مسجد وں کو تیار کریں قرآنی محفلوں کا اہتمام، اعتقادی بحث و گفتگو کی کلاسیں، سوال و جواب کا سلسلہ بچوں کی کلاسوں کا اہتمام، پہلی مرتبہ روزہ رکھنے والے لڑکے لڑکیوں کے لئے خصوصی پروگرامز کا اہتمام کرکے اس عظیم دینی درسگاہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ان اہداف کے لئے جوانوں اور مومنین میں بعض خدا کی رضایت کے لئے اٹھ کھڑے ہو جائیں اور مسجدوں کی صفائی، مساجد سے متصلہ راستوں کا معقول انتظام، نذورات اور تبرکات کا اہتمام،دیواروں پر آیات اور احادیث لکھنے یا ان پر مشتمل بینرز لگانے کا اہتمام کریں، دیواروں پر آیات و احادیث پر مشتمل بینرز کا بہت زیادہ اثر ہے۔مسجد کے لیٹرین تک کی صفائی اور نظام کا نمازیوں اور مومنین پر اثر ہےاسی طرح بجلی سے لیکر بخاری اور گیس تک، جوتا رکھنے والی جگہ سے لیکر محراب و منبر تک تبلیغ دین میں موثر ہیں۔پس ان سب کا اچھی طرح سے انتظام کرنا بھی جہاد ہے۔ اس وقت مساجد میں افطاری کا بھی پروگرام بنایا جاتا ہے ان میں بچوں کو آنے سے نہ روکیں یہ بچے بھی مجاہد ہیں بچے اگر شور شرابہ کریں انہیں نرم لہجے میں سمجھائیں کبھی بھی انہیں نہ ڈرائیں ان کا مسجد میں بیٹھنا ہی ان کی تربیت ہے۔
اگر اتفاق سے مسجد کو نجس بھی کریں تو بچوں کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے ان کے والدین سے معقول انتظام کرنے کو کہیں اور دو جوان اٹھ کر مسجد کو پاک کریں؛ چونکہ بچہ عمدا ًجان بوجھ کر مسجد کو نجس نہیں کرتا ہے بلکہ کبھی کبھار غلطی سے ، سردی کی وجہ سے، شرم سے، لیٹرین دور ہونے کی وجہ سے، بیماری یا کسی اور علت سے وہ پیشاب کرتا ہے، اسے اگر نہ ڈرائیں تو اس کی دل جوئی ہو ، اسے سمجھایا جائے کہ بیٹا آئندہ ایسا مت کرنا یہ پاک و مقدس جگہ ہے ،ابھی تو کوئی مسئلہ نہیں تو توبچہ ہے پرواہ نہیں، تو وہ بچہ آئندہ سے خلوص اور رغبت کے ساتھ مسجد میں آئے گا لیکن اگر ڈرائیں تو وہ نہ صرف ڈرانے والے سے بلکہ مسجد سے بھی نفرت کرنے لگے گا اس لئے کہ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔انہیں محبت اور پیار سے نرم کرنا نفرت سے کچلنے سے زیادہ مؤثر ہے۔
قرآنی محافل
قرآن پاک ماہ رمضان میں نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور جس میں حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں ہے ۔( 18) اور اس قرآن کو اس مبارک رات میں نازل کیا گیا ہے جس میں تمام باحکمت امور مقدر ہو جاتے ہیں؛(19) یعنی لیلۃ القدر ۔(20)وہ قرآن جو اگر پہاڑ پر اترتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا،(21) اسے قلب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل فرمایا تاکہ وہ اس کے سہار ے سے مومنین کو بشارت دینے والا اور مجرموں کو جہنم سے ڈرانے والا بنے۔(22)یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں دلوں کی بیماری کے لئے شفا ہے،(23) متقین کے لئے ہدایت ہے،(24) ایسی کتا ب جس میں شک کی گنجائش نہیں،( 25)کسی طرح سے بھی باطل اس کتاب تک نہیں پہنچ سکتا،(26) اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ دار وہی بابرکت ذات ہے جس نے اسے نازل فرمایا، (27)وہ اس کتاب کے ذریعے سے ہر باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے۔( 28)
اہل دل جب اس کتاب کی تلاوت کریں یا ان کے سامنے تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔(29) اسی لئے خدا کے صالح بندے اس کتاب کی تلاوت اور آیتوں میں غور و فکر پر مداومت کرتے تھے،ان کے نزدیک قرآن سے دل لگانے کا سب سے بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے اگر چہ قرآن کی تلاوت ان کے لئے روز مرہ کا معمول بن جاتی ہے لیکن جب ماہ مبارک رمضان آتا ہے تو خاص اہتمام سے اس کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
ماہ رمضان قرآن کی بہارہے؛ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
لِكُلِّ شَيْ‌ءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ
ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔(30)
پس مومنین کو چاہیئے کہ اس ماہ میں قرآن سے دل لگائیں، تمام مشکلات کا حل اسی قرآن میں ہے، مومنوں کے لئے اس میں شفاء اور رحمت اور کافروں کے لئے نقصان ہے۔(31)ہمارے علاقے میں بھی مومنین اس ماہ میں خاص اہتما کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں بعض لوگ تو کئی کئی بار قرآن ختم کرتے ہیں، اکثر مومنین کم سے کم ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
خدا کے فضل و کرم سے جگہ جگہ قرآنی ماحول ہے ، یہ ماہ رمضان کی برکتوں میں سے ہے کہ ایک عالم اور فاضل سے لے کر ان پڑھ جاہل تک اس مہینے میں قرآن سے دل لگاتے ہیں۔ جو لوگ کاروبار میں ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے قرآن پڑھتے یا سنتے ہیں۔دکاندار حضرات دکانوں پہ بیٹھے قرآن پڑھتے ہیں، بعض دکاندار تو دن میں کئی کئی پارے پڑھ لیتے ہیں ان کو اللہ نے توفیق عنایت فرمائی ہے کہ یہ لوگ اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ کی خاطر دکانداری بھی کرتے ہیں اور خدا کے محبوب بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ کسب حلال کرنے والا حبیب خدا ہےاور ایک طرف سے وہ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں جو ان کی تنہائیوں کا رفیق بھی ہےساتھ ہی وہ روزہ داربھی ہے، ایسا انسان حقیقت میں خدا کے ساتھ لین دین میں مصروف ہے اب اس کا مال با برکت ہوگا، صحت و سلامتی کی نعمت اسے نصیب ہوگی، بالکل ایک ڈرائیور کی طرح کہ جب وہ اپنی گاڑی میں تلاوت چلاتا ہے تو نہ صرف اسے اجر و ثواب ملے گا بلکہ جتنے لوگ سنیں گے ان کے اجر و ثوب میں بھی برابرکا شریک ہوگا جس طرح کوئی گانا میوزک آن کرتا ہے تو نہ صرف وہ گناہ گار ہوتا ہے بلکہ جو بھی اسے سنے تو ان کے گناہوں میں بھی یہ ڈرایور برابر کا شریک ہے۔
ہمارے علاقے میں قدیم الایام سے یہ سلسلہ چلا آیا ہے ماہ رمضان کے داخل ہوتے ہی قرآن پڑھنے والے مومنین مسجد میں اکھٹا ہوکر مقابلہ کرتے ہیں اس میں ایک شخص ادھ صفحہ ایک صفحہ کی تلاوت کرتا ہے اور باقی مومنین اسے سنتے ہیں اگر کہیں غلط پڑھ لیا تو یا اللہ کہ کر اسے روک کر تصحیح بھی کرتے ہیں، اور یہ کام اکثر نماز صبح کے بعد کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر ایک دو قاری پڑھتے ہیں اور باقی مومنین صرف سنتے ہیں۔ دونوں سنتیں خدا پسند سنتیں ہیں جو بھی میسر ہو وہی انجام دیں اگر چہ قاری کے پڑھنے اور مومنین کے سننے میں زیادہ فائدہ ہے۔
اگر کسی جگہ یہ نظام نہ ہو اور مقابلہ بھی میسر نہ تو مومنین زحمت کر کے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ہر روز ایک پارہ نشر کریں البتہ اگر مومنین کے لئے ڈسترپ نہ ہو، چونکہ کسی کو اذیت کرنا جائز نہیں ہے اگر چہ وہ قرآن کی تلاوت ہی کیوں نہ ہو۔
جو لوگ اس با برکت مہینے میں قرآن کی محفلوں میں شرکت نہ کر سکیں تو ریڈیو یا ٹی وی سے تلاوت سنیں، اور اس تلاوت سننے کو اپنے روٹین میں شامل کریں اس طرح وہ اس با برکت مہینے کی برکتوں سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اس ماہ میں مختلف ٹی چینلوں سے اردو میں تفسیر کی کلاسیں نشر ہوتی ہیں، خواتین و حضرات اس نعمت سے بھی استفادہ کریں ، یہ ایک ایسی سہولیت ہے جس کا ماضی قریب میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔
فقیروں سے ہمدردی
ماہ رمضان بھوک اور پیاس کا امتحان ہے اور روزے کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ بھی ہے کہ امیروں کو بھوکے رہنے والے فقیروں کا احساس ہو جائے ، اس مہینے میں جہاں انسان کو بھوک اور پیاس کی شدت کا امتحان در پیش ہے وہاں اسے فقیروں بینواؤں کو کھلانے اور پلانے کا امتحان بھی دینا ہو گابعض لوگ اس قدر فقیر ہیں کہ گھر میں کھانےکے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ افطاری کس چیز سے کرنا ہوگی ۔ ان میں سے بعض لوگ شرم و حیا کئے بغیر مانگتے ہیں اورخدا والوں کو ان پر ترس آتا ہےاور کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں لیکن ایسے فقراء بھی پائے جاتے ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں۔
امراء اور مالداروں کے اموال میں فقیرکے لئے حق ہےقرآن میں خدا ارشاد فرماتا ہے:
وَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ – وَ الَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ
اور ان کے اموال میں مانگنے اور نہ مانگنے والوں کے لئے حق ہے۔(32) اور وہ لوگ جن کے اموال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کے لئے معین حق ہے۔(33)
ان آیتوں میں دونوں قسم کے فقیروں کے لئے مالداروں کے اموال میں موجود معین حق کے بارے میں تاکید ہوئی ہے ۔
ماہ رمضان میں یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے پس وہ لوگ جو ایسے محلہ، دیہات، شہر یا جگہ پر رہتے ہوں جہاں فقیر بھی زندگی گزارتے ہوں جب افطاری کے لئے دسترخوان لگ جاتی ہے اور رنگا رنگ کھانے اس پر سجھ جاتے ہیں تو ان فقیروں کا خیال کرنا چاہیئے۔ خدا نے اس رنگین دسترخوان پر کچھ ناداروں کا بھی حق رکھا ہے۔ لذیذ کھانے محض امتحان ہے خدا چاہے تو اسے بھی فقیر بنا سکتا ہے، ابھی تو گردش ایام سے وہ فقیر اور آپ کے ہاتھ میں مال ہے، کل ممکن ہے امتحان کا دور ختم ہو جائے اور آپ اس کی جگہ فقیر ہو جائیں ۔
آپ کے گھر میں اللہ کے فضل و کرم سے قسم قسم کے میوے موجود ہیں بچے پلیٹیں بھر بھر کے کھاتے ہیں لیکن اس فقیر کے بچے اگر کسی پھل کو ترسیں تو صرف حسرت کی آہ بھر سکتےہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی خدا پسند سنت جاری تھی کہ ماہ رمضان میں افطاری پہ دعوت کا سلسلہ تھا ابھی یہ سنت کم رنگ ہوگئی ہے۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوتے تھے؛ ایک تو افطاری کا عظیم ثواب، دوسری طرف سے اموات کے لئے فاتحہ اور تیسری طرف سےرزق و روزی میں برکت، گناہوں کی بخشش ،بیماری کی شفاء ہوتی تھی ۔ اسے دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کسی کو افطاری پہ دعوت دیں چاہے ایک کپ چائے اور دو لقمہ روٹی ہی کیوں نہ ہو ، رنگا رنگ کھانا چننا کوئی ضروری نہیں ہے۔ ہر ایک اپنی توان اور استطاعت کے مطابق اس ثواب میں شریک ہوسکتا ہے ۔ البتہ اس نیک کام میں پہلے رشتہ دار اور بعد میں باقی لوگوں کی دعوت کی جائے؛ اس لئے کہ صدقہ و خیرات، میں رشتہ دار مقدم ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَسْأَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
اے رسول! لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ راہ خدا میں کیا خرچ کریں آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ جو بھی خرچ کرو گے اسے اپنے والدین ، رشتہ داروں، یتیموں، فقیروں اور غربت زدہ مسافروں کے لئے خرچ کرو تم لوگ جو بھی نیک کام کروگے خدا اس سے آگاہ ہے۔( 34)
تو ہر قسم کے صدقات میں رشتہ دار مقدم ہےاگر رشتہ داروں میں کوئی فقیر ہو اور صدقہ دوسروں کو دے تو خدا اسے قبول نہیں کرے گا؛ اسی لئے افطاری میں بھی رشتہ دار فقیر مقدم ہے۔
اس وقت بہت سی جگہوں میں یہ سنت حسنہ بفضل خدا جاری ہے کہ مومنین نوبت کے ساتھ یا سب چندہ جمع کرکے مسجد میں افطاری کا بندوبست کرتے ہیں، اس میں کئی فوائد ہیں:
1۔ بہت سے مومنین کو اول وقت نماز کی توفیق بھی ملتی ہے اور کسی کو آنے میں شرم و حیا محسوس نہیں ہوتا ہے
2۔صدقہ میں دینے والے کا نام بھی نہیں لیا جاتا ہے جو کہ خدا کو بہت پسند ہے کہ صدقہ چھپا کر دیں اس طرح سے کسی کا کسی پر منت بھی نہیں ہوتا؛ ہاں کھل کر صدقہ دینا بھی بعض اوقات اچھی چیز ہے لیکن یہ ان موارد میں سے نہیں ہے، ہاں اگر دوسرے مومنین اور مالداروں کو تشویق دینا ہو تو کھلم کھلا صدقہ دینا بھی اچھا ہے،
3۔ نابالغ بچوں سے لیکرگلی کوچوں میں پھرنے والے پاگل تک اس افطاری میں بڑے شوق سے شریک ہوتے ہیں بعض جگہوں پر تو بچے صرف اسی افطاری کی خاطر مسجد میں آتے ہیں یہ بھی اس افطار کا ایک اہم فلسفہ ہے اور اسلامی سیاست کا اہم رکن بھی ہے۔ اس نیک کام کی تشویق ہونی چاہے۔
ماہ رمضان میں اشیائے خورد و نوش خرید کر دینا بھی بڑی عبادت ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خود پیسہ فقیر کو دے تاکہ وہ خود اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکیں یہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔
اسلامی اقتصاد میں ان چیزوں کو بڑا مقام حاصل ہے جس طرح خمس زکات سے خدا نے فقراء کا خیال رکھا اسی طرح ماہ رمضان میں افطاری کا حکم دے کر، بغیر عذر روزہ توڑنے والوں پر کفارہ رکھ کر، فطرہ واجب کرکے،صدقہ کا حکم دے کر ، رشوت کو حرام کر کے،اسلامی اقتصاد کو مضبوط بنانے کا اہتمام کیا۔ اگر سارے واجبات ادا کئے جائیں، حرام کاموں جیسے رشوت چوری ڈاک زنی وغیرہ سے روکا جائے تو معاشرے میں کوئی بھی فقیر نہیں رہے گا یہ سارے مسائل اقتصاداسلامی کی کمر کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ماہ رمضان فقیروں کا مہینہ ہے، ان سے ہمدردی کا مہینہ ہے اس کی راتوں اور دنوں میں صدقہ کا کئی گنا ثواب بھی اسی لئے رکھا ہےتاکہ لوگ اس میں رغبت پیدا کریں۔ ان کے اموال میں صدقہ کی وجہ سے برکت بھی ہو اور اسی صدقےسے فقیروں کا پیٹ بھی بھرے۔
لیکن افطاری، صدقہ دیتے وقت قصد قربت بھی ضروری ہے، ہم ان ہستیوں کے پیروکار ہیں جنہوں نے خود بھوکا رہ کر خدا کی محبت میں فقیروں، یتیموں اور اسیروں کو کھلایا ، کھلانے کے بعد ان کو فرمایا کہ ہم تمہیں خدا کی خاطر کھلا رہے ہیں، تم سے کوئی جزاء نہیں چاہتے ہیں، ہم تو اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے، اسی لئے خدا انہیں اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا اور صبر کے بدلے انہیں جنت گا۔(35)
یہاں ایک بات عرض کر یں وہ یہ ہے کہ ماہ رمضان میں چاہے افطاری دینا ہو، اشیاء تقسیم کرنا ہو، یا کفارہ و صدقہ کو مسحق تک پہنچانا ہو بعض متدین حضرات اٹھ کھڑے ہو ں اور اسی الہی خدمت کو انجام دیں گے اگر انہیں ان کاموں کے لئے معقول مزدوری بھی دینا پڑے تب بھی دے کر یہ کام کروائیں۔ اس سے جہاں نظم و نسق برقرار رہے گا وہاں حد الامکان کوئی بھی محروم باقی نہیں رہے گا۔کام کرنے والے حضرات کو بھی برابری کا لحاظ کرنا چاہیئے اور صاحب مال کے شرط و شروط کے مطابق خرچ کرنا چاہیئے۔
صدقہ دینے والا اپنے مال کی کمی کو نہ دیکھیں ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو دے دیں بہت بڑا اثر ہے، صدقہ ایک مستحب عمل ہے اس میں کم و زیادہ دونوں شریک ہیں۔ بہت سی بیماریاں رفع ہو جاتی ہیں۔ کبھی ایسی بیماری سے انسان کو نجات ملتی ہے جس کے بارےمیں وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ یا وہ بیماریاں جن کے علاج و معالجہ پر لاکھوں خرچ ہوتے ہیں صرف ایک صدقہ سے ٹل جاتی ہیں۔ بلکہ بسا اوقات کم دینے والے کا صدقہ خدا کے ہاں زیادہ دینے والے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے؛ اس لئے کہ کم دینے والا اپنی کمی کی وجہ سے شرمندگی کی حالت میں دیتا ہےاور کسی غرض و غایت کے بغیر صرف خدا کے لئے دیتا ہے۔
روز قیامت جب دیوان عمل کھلے گا تو بعض لوگ حیران رہ جائینگے وہ درگاہ الہی میں عرض کرینگے کہ ہم نے اتنے ساری نیکیاں تو انجام ہی نہیں دی تھی۔ اس وقت ان صدقات کو دکھایا جائے گا کہ کسی دن تم نے میرے خاطر کسی کو کھلایا تھا کسی کی مشکل حل کیا تھا۔ کسی کو قرضہ دیا تھا اس نے تمہارے لئے دعا کی آج تمہارے لئے جزاء ہے۔ وہ خدا جو اگر چاہے تو بہت کچھ ہمیں دے سکتا ہے اور اگر چاہے تو لے بھی سکتا ہے مال اسی کا دیا ہوا ہے۔بسا اوقات انسان کنجوسی سے مال جمع کرتا ہےایک پیشہ بھی محتاج کو نہیں دیتا ، پھر اچانک ایک حادثہ پیش آتا ہے اور سارا پیسہ اسی میں خرچ ہوتا ہے۔ اگر اس انسان نے اس سے پہلے صدقہ دیا ہوتا تو شاید یہ حادثہ پیش نہ آتا، اس لئے صدقہ بلا کو ٹال دیتا ہے ؛اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت علی علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يَا عَلِيُّ الصَّدَقَةُ تَرُدُّ الْقَضَاءَ الَّذِي قَدْ أُبْرِمَ إِبْرَاماً
اے علی! صدقہ اٹل فیصلے کو ٹال دیتا ہے( 36) ابرام کسی مضبوطی اور سخت چیز کو کہا جاتا ہے جیسا کہ فراہیدی نے "کتاب العین” میں کہاہے۔( 37 )قضاء مبرم اس سخت اور مضبوط فیصلے کو کہا جاتا ہے جو اٹل ہو چکا ہو۔ صدقہ میں اتنی طاقت ہے اس فیصلے کو بھی ٹال دے۔ اب یہ صدقہ بیماروں کو شفا بھی دے سکتا ہے، جیسا کہ قرب الاسناد میں یہ روایت موجود ہے کہ امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے توسط سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں:
دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَ ادْفَعُوا أَبْوَابَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ
اپنے مریضوں کی صدقہ کے ذریعے دوا کرو، اور بلاؤں کو دعا سے دفع کرو۔(38 )اسی طرح ایک اور روایت میں ہے:
و الصدقة تردّ البلا
صدقہ بلا کو رد کرتا ہے۔(39) بعض روایتوں میں ہے :
أَنَّ الصَّدَقَةَ تَرُدُّ قَضَاءَ السُّوءِ وَ الْبَلَاءَ الْمُقَدَّمَ، وَ أَنَّهَا تَزِيدُ فِي الْعُمُرِ
صدقہ بری مصیبت کو ٹال دیتا ہے، آنے والی بلاء کو روک دیتا ہے اور عمر میں اضافہ کرتا ہے۔(40)
پس ماہ مبارک رمضان جس میں ہر نیک کام کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے، صدقہ بھی باقی مہینوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
لیکن مومنو! ایک التجاء ایک عرض اور ایک تمنا ہے جس کی تمام ائمہ علیہم السلام نے تاکید فرمائی ہے، وہ یہ ہے آپ جو بھی صدقہ دیں نذر و نیاز دیں چاہے ماہ رمضان میں ہو یا دوسرے اوقات میں ، یہ تمام صدقے اور نذریں امام زمان کی صحت و سلامتی کے لئے دیں! اس سے بڑھ کر کوئی ثواب ہی نہیں۔ اگر امام کے نام پر دیں تو آپ کی حاجات بھی پوری ہونگی، امام بھی خوش ہوگا۔ آج کل نذر عباس علیہ السلام، نذر علی اصغر علیہ السلام، نذر شہزادہ قاسم علیہ السلام، نذر علی اکبر علیہ السلام، اسی طرح باقی عظیم ہستیوں سے منسوب کرکے نذروں کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ ایک سنت حسنہ ہے خدا پسند کام ہے اور ان عظیم ہستیوں سے ارادت اور عشق کا اظہار ہے۔ لیکن یہی نذریں اگر نذر امام زمانہ کے عنوان سےدے دیں تو خدا کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے اور اثر بھی زیادہ ہے۔ کربلا کے مصائب دیکھ کر بی بی زینب سلام اللہ علیہا اگر زندہ رہی تو اسی امام کی امید سے زندہ رہی، اگر دست سقا قلم ہوئے تو اس کا دکھ امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کو ہے۔ زینب کوفہ کے بازار میں ننگے سر پہنچی تو ممکن تھا جسم سے جان نکل جائے لیکن جوں ہی مہدی کا خیال آیا تو وہ تاریخی خطبہ دیا کہ کسی نے کہا شاید بیس سال بعد علی مرتضی علیہ السلام دوبارہ کوفہ تو نہیں آئے۔ آج میں ان کی خطابت سن رہا ہوں، امام زمانہ کا خیال آتے ہی زینب کو زندگی ملی جسم میں جا ن آگئی، شاید وقت آخر امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی وصیت میں امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کا تذکرہ کیا ہوگا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہر مجلس میں، محفل میں، زندگی کے تمام کاموں میں امام کو شریک کیا جائے ہر جگہ ان کا تذکرہ کیا جائے۔
جملۂ آخر کے طور پر مناسب سمجھتا ہوں ایک مجرب عمل کا تذکرہ کروں۔ وہ یہ ہے کہ اپنی تنخواہوں، آمدنیوں، اور دیگر اموال میں سے ماہانہ ایک مخصوص فیصد امام زمان سے مخصوص کریں پھر جوں ہی تنخواہ ملے پیسہ ہاتھ آئے اس سے معین کیا ہوا امام کا حصہ الگ کریں اور اسے راہ امام زمان میں خرچ کریں ۔بڑے بڑے بزرگوں نے اس پر عمل کرکے ہزاروں فائدے کمائے۔ اس سے آپ کے اموال بھی با برکت ہونگے امام بھی خوش ہوگا ۔ اس وقت دینیات سنٹرز وہ جگہ ہے جہاں امام کے لئے معین شدہ رقم خرچ کی جا سکتی ہے یہ رقم خمس بھی نہیں ہے تاکہ آپ اسے مجتہد یا اس کے وکیل تک پہنچائیں اور زکات بھی نہیں ہے کہ اس کا ایک خاص مصرف ہو ۔یہ مال امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے لئے آپ کی طرف سے ایک ہدیہ ہے اسے کسی بھی کار خیر میں صرف کرسکتے ہیں۔ اگر کسی نادار بچے کی تعلیم و تربیت ، معاشرے کی نظم و نسق چلانے یا کسی دوسرے اجتماعی انسانی کام میں خرچ ہو تو بہت ہی بہتر رہے گا۔
دعا و نماز
ماہ رمضان دعاؤں اور نمازوں کی معراج کا مہینہ ہے، جتنی دعائیں ،نمازیں، اعمال اس ماہ میں وارد ہوئے ہیں کسی اور ماہ میں نہیں ہیں اس ماہ میں دن کو رات کو سحر کے وقت، افطار کے وقت غرض صبح شام اس قدر دعائیں وارد ہوئی ہیں جو کسی اور ماہ یا دن میں نہیں ہیں۔
یہی دعائیں ہیں جو انسان کے دل کو جلا بخشتی ہیں اور اسے بندگی کی حقیقت سے آشنا کراتی ہیں۔ انہیں دعاؤں سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے، انہیں کے سہارے خالق سے ہمکلام ہوتا ہے۔جس طرح نماز معبود کے ساتھ گفتگو ہے اسی طرح دعا بھی عبد و معبود کے درمیان رابطہ ہے۔ ماہ رمضان انسان کو یہ فرصت دیتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے معبود سے دل لگائے۔ یہی دعائے افتتاح جو اس ماہ میں ہر شب پڑھنا مستحب ہے، انسان کو معبود سے ملا دیتی ہے۔اسی دعا میں تمام اصول دین اور اعتقادت موجود ہیں توحید سے لے کر امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حکومت تک کا ذکر ہے، یہی دعائے سحر ہے جو عجیب فوائد کی حامل دعا ہے، یہی دعائے ابوحمزہ ہے جو امام سجاد کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے جس میں قبر کی تنہائی سے لیکر روز قیامت کے حساب و کتاب سے متعلق امام سجاد علیہ السلام خدا سے دعا کرتے ہیں ۔
یہ دعائیں شیعوں کے لئے امتیاز ہیں ،شیعوں کی پہچان ہیں، دنیا کے کتنے مذاہب اور ادیان ہوں گے جن کے پاس دعائے کمیل، اور دعائے جوشن کبیر جیسے مضبوط ہتھیار اور جہاد نفس کے لئے اسلحہ ہو،دعا ایک ایسی سیاست ہے جسے امام سجاد علیہ السلام نے پورے پینتیس سال اپنایا ، تبھی تو آج شیعہ سر بلند ہیں۔
کیا یہی دعائے جوشن کبیر نہیں ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زرہ کے بجائے پڑھنے کا حکم ہوا؟! یہی دعا ہے جسے جبریل لے کر آیا اور فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، جنگی زرہ کو اپنے بدن سے اتار دو اور اس دعا کو پڑھو یہ آپ اور آپ کی امت کے لئے زرہ کا کام کرے گی۔(41) یہی دعائیں ہیں جن کے سہارے شیعہ زندہ ہیں پوری تاریخ بشریت میں جتنے مظالم شیعوں پہ ڈھائے گئے اگر کسی اور قوم پر ڈھائے جاتے تو ابھی تک نابود ہوگئی ہوتی، شیعوں کو دیواروں میں چنا گیا، ہاتھ پاؤں قلم ہوئے، سر قلم کئے گئے، زندہ جلائے گئے، بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم سے بھی بڑھ کر شیعوں پر ظلم ہوا۔اور چونکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ان کے لئے خدا سے دعاکی اور دعاؤں کی تعلیم دے کر زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا ؛ اس لئے دنیا انہیں نہیں مٹا سکی، یہی دعائیں ہماری پہچان ہیں، آج آپ کسی درد و رنج کے بغیر مفاتیح اٹھا کر دعا پڑھ سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں ان دعاوں کو پڑھتے ہوئے دیکھ لیا جاتا تو یہی اس کی آخری مناجات ثابت ہوتی تھی۔
ماہ رمضان میں جہاں انسان ان دعاؤں کے ورد پر مداومت کرتے ہیں وہاں ان کے معانی اور معارف سے بھی آشنا ہونے کی ضرورت ہے ان دعاؤں کی عربی عبارات کا پڑھنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان معارف سے آشنائی مقصود ہے جو ان میں چھپے ہیں، دعائے جوشن کبیر جو ایک ہزار اسماء الہی پر مشتمل ہے ان میں غور و فکر سے انسان کمال تک پہنچ سکتا ہے۔
یہی دعائے کمیل انسان کو رمز بندگی سے آشنا کراتی ہے۔ یہی دعائے افتتاح جو انسان کو ظہور اما م زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اور حکومت عدل الہی کی نوید سناتی ہے۔یہی دعائے سمات جو جمعہ کےدن آخری وقت میں پڑھنا مستحب ہے انسان کو امید دلاتی ہے کامیابی حق کی ہے امام زمانہ ایک نہ ایک دن پردہ غیب سے نکل آئے گا حکومت عدل کو تشکیل دے گا۔
ماہ رمضان کے دن اور رات میں مخصوص دعاوں کا فلسفہ بھی یہی ہے انسان ہر لحظہ خدا سے متصل رہے۔ خداکی رحمت ہو مرحوم شیخ عباس قمی پر آج مفاتیح کی شکل میں ایک عظیم کتاب، قیمتی ہدیہ شیعوں کے پاس ہے۔ اس میں جس خوبصورتی سے اعمال اور دعاؤں کو جمع کیا ہے تاریخ شیعہ میں اس کی مثال نہیں ملتی،ماہ رمضان کے دن رات صبح شام اور افطار و سحر سے مربوط تمام دعاؤں کو نہایت سلیقے سے جمع کیا ہوا ہے۔
اس دورمیں خدا نے ہمیں یہ توفیق دی ہے ان دعاؤں کواجتماعی شکل میں پڑھتےہیں ہمارے ہاں مساجد میں پروگرام بنائے جاتے ہیں اور ہر کوئی ان دعاؤں سے فائدہ اٹھاسکتاہے بعض دعائیں تو آسانی سے پڑھ سکتی ہیں جیسے دعائے توسل، دعائے مجیر دعائے مشلول انہیں پڑھنے میں مشکل نہیں لیکن بعض دعاؤں کے الفاظ تھوڑاسخت ہیں جیسے دعائے سمات، ان کو پڑھنے کے لئے زیادہ دقت کی ضرورت ہےماہ رمضان میں چونکہ اکثر جگہ ان کو کوئی عالم یا اچھا پڑھنے والا پڑھتے ہیں اس لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھا کرسیکھ بھی سکتے ہیں۔
ماہ رمضان کی دعائیں مختلف قسم کی ہیں کوئی دعا مختصر ہے جیسے ہر نماز کے بعدپڑھے جانے والی یہ دو دعا "یا علی یا عظیم اور اللہم ادخل علی اہل القبور السرور” ان کے پڑھنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا، بعض دعائیں تو بہت ہی طولانی ہیں جیسے دعائے ابو حمزہ ثمالی ایک پارہ سے بھی زیادہ ہے لیکن اکثر دعائیں نہ مختصر ہیں نہ طولانی جیسے دعائے افتتاح جس کے پڑھنے میں شاید پندرہ منٹ بھی نہ لگیں دعائے سحر دس منٹ کی دعا ہےاسی طرح دن اور رات کی دعائیں۔
اس ماہ میں مخصوص نمازیں بھی مستحب ہیں ان میں سے پورے مہینے میں پڑھی جانے والی ایک ہزار رکعتیں جو تینوں شب قدر میں سو سو رکعت پڑھی جاتی ہیں۔ اور سات سو رکعتوں کو باقی ستائیس یا چھبیس راتوں پر تقسیم کرکے ادا کیا جاتا ہے۔ان میں سے جمعہ میں بھی مخصوص نمازیں ہیں۔ ان نمازوں کے پڑھنے کا طریقہ فقہی کتابوں میں مذکور ہے۔
شب قدر
اگر چہ مختلف جگہوں پر شب قدر کی فضیلت اور عمل کے بارے میں مختصر بات ہوئی لیکن یہاں اس عنوان کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان تینوں راتوں میں ہمارے علاقوں میں خاص پروگرام ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں مختصر یاد دہانی ہو جائے اور جوان ان پروگراموں میں شوق سے شرکت کریں۔
شیعہ ہمیشہ سے ان راتوں کو عبادت، دعا اورنماز میں گزارتے ہیں۔ائمہ علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے اس رات ایک جگہ اکھٹا ہوکر اجتماعی طور پر دعائیں پڑھتے ہیں علمی گفتگو کرتے ہیں اور ساتھ ہی مجلس امام حسین علیہ السلام بھی کرتے ہیں ، اگر چہ رمضان کی انیس اور اکیس کو امیر المومنین کی شہادت کے سلسلے میں خاص مجلسیں ہوتی ہیں اکثر جگہوں پر یہ مجلسیں نماز مغربین کے بعد برپا ہوتی ہیں۔ ہر صورت میں شب بیداری کے مراسم میں ذکر امام حسین علیہ السلام کیا جاتا ہے چونکہ ان تینوں راتوں میں زیارت امام حسین علیہ السلام مستحب ہے اور بہت تاکید ہوئی ہے اسی لئے اس زیارت سے پہلے ایک مختصر مجلس بھی ہو۔ہمارے علاقوں میں اکثر جگہ صرف زیارت عاشوراء پر اکتفاء کی جاتی ہےاگر چہ یہ بھی ایک بہترین عمل ہےجس سے زیارت مستحب ادا ہوجاتی ہے اگر دعائے جوشن کبیر اور قرآن سر پر رکھنے کے عمل سے پہلے مختصر وقت کے لئے ایک مجلس ہو جس میں ایک مرثیہ، پانچ منٹ مصائب اور ایک نوحہ، پھراٹھ کر مختصر سینہ زنی کے بعد اسی حالت میں زیارت امام حسین علیہ السلام جیسا کہ عام مجالس میں ہوتی ہے ہوتو بہت ہی بہتر رہے گا اس سے زیارت کا استحباب بھی ادا ہوجائے گا ذکر مصائب بھی اور ایک مجلس ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔
اس کے علاوہ اگر سورہ انا انزلنا جس کا ایک ہزار بار پڑھنا مستحب ہے کسی ایک انسان سے تو مشکل ہے اگر مومنین کی مخصوص تعداد جمع ہوکر اجتماعی شکل میں ایک ہزار کی تعداد کو مکمل کریں تو اس عظیم ثواب سے کوئی بھی محروم نہیں رہے گا۔
اس کے علاوہ شب قدر جو کو مقدرات کی رات ہے جس میں اگر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے توسل کا کوئی خاص اہتمام ہو تو بہت اچھا رہے گا ۔اس وقت تو فرشتے جو شب قدر میں نازل ہوتے ہیں(42) وہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے پاس آتے ہیں اور تمام امور کو ان کے سپرد کرتے ہیں یہ فرشتے امام کے پاس آنے پر مامور ہیں ایسا نہیں کہ یہ امام کو خبر دینے آتے ہوں امام تو ہر چیز کا عالم ہے ان کے پاس مصحف فاطمہ جیسا عظیم ذخیرہ موجود ہے جو روز قیامت تک کی تمام علوم اور خبروں کا مجموعہ ہے وہ امام علیہ السلام تو جفر کا مالک ہے۔
فرشتے انہیں کی برکت سے خدا سے رزق لیتے ہیں۔ یہ فرشتے بھی خدا کی مخلوق ہیں اور تمام مخلوق پر امام حجت مطلق ہے تمام مخلوق کے امور کی ذمہ داری امام کو سونپی گئی ہے، فرشتے شب قدر میں اس کام پر مامور ہیں کہ وہ امام کے پاس جائیں کیونکہ امام علیہ السلام زمین پر حجت خدا ہے جس کی برکت سےخدا نے زمین و آسمان کو باقی رکھا ہوا ہے وگر نہ اگر اہل زمین کو انکی گناہوں کی وجہ سے پکڑا جاتا تو کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہتا لیکن خدا چاہتا ہے کہ انہیں ایک معین مدت تک کے لئے چھوڑ دیا جائیں۔ (43)یہی وہ علت ہے جس کے باعث خدا کی رحمتیں آسمان سے زمین پر نازل ہوتی ہیں؛ اسی لئے دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں:
أَيْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَيْنَ الْأَرْضِ وَ السَّمَاءِ
کہاں ہے آسمان اور زمیں کے درمیان اتصال کا سبب؟(44) اور اسی امام کی برکت سے خداآسمان سے پانی نازل کرتا ہے اور زمین سے نباتات اگاتاہے، درختیں اگاتا ہے پہاڑ اپنی جگہ ٹکے ہوئے ہیں، ہر موجود کو رزق ملتا ہے، اسی امام کےتوسط سے خدا ہر ناحق لہو کا انقام لیتا ہے۔(45)
فلسفہ شب قدر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہے؛ اسی لئے شب قدر میں اگر امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے توسل کااہتمام ہو جس میں امام علیہ السلام سے متعلق معلومات، سوال جواب شبہات کے جواب و غیرہ کا اہتمام ہو تو حقوق امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف میں سے ایک چھوٹا سا حق ادا ہوگا۔
اور اسی بات پر دامن تحریر سمیٹ لیتے ہیں، دوستوں سےگزارش ہے کہ میری غلطیوں اور خطاؤں سے مجھے آگاہ کریں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں۔
————–
(1)اصول کافی، ج2، ص630۔
(2)اصول کافی، ج1، ص19۔
(3)مستدرک الوسائل، ج16، ص 213۔
(4) ایضا ج16، ص 214۔
( 5)سورہ تحریم، آیہ8
(6) صحیفہ سجادیہ، دعا 32، دعائے توبہ
(7) ایضا
(8) سورہ فرقان، آیت 70-71
(9 )شیخ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثۃ، ص 77۔
(11)شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ج2، ص74۔
(12)یہ تمام مجتہدوں کا بالاتفاق فتوی ہے۔
(13)یہ جملہ بھی کے تمام مجتہدوں توضیح المسائل کے شروع میں ہے۔
(14) احمد بن محم بن خالد برقی، المحاسن،ج1 ،ص 228۔
( 15)ایضا ص 227
(16)یہ جملہ ایران کے اکثر مساجد میں دیوار پر لکھا ہوا ہے۔
( 17)اس ہفتہ کا نام "ہفتہ غبار روئی مساجد” ہے۔
( 18)سورہ بقرہ، آیت 185۔
(19)سورہ دخان، آیت3۔
(20 )سورہ قدر، آیت 1۔
( 21)سورہ حشر، آیت 21۔
( 22)سورہ بقرہ ،آیت 97 اور سورہ شعراء 194۔
(23) سورہ یونس، آیت57۔
(24)سورہ بقرہ، آیت 2۔
(25)سورہ یونس، آیت 37۔
(26)سورہ فصلت، آیت 47۔
(27)سورہ حجر، آیت 9۔
(28)سورہ شوری، آیت 24۔
(29)سورہ انفال، آیت 2۔
(30)اصول کافی، ج2، ص630۔
( 31)سورہ اسراء، آیت82۔
(32 )سورہ معارج، آیت 24۔
(33)سورہ ذاریات، آیت 19-20۔
(34) سورہ بقرہ، آیت 215۔
(35)سورہ دہر (انسان)، آیت8-13۔
(36 )محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4 ص368۔
(37 )فراہیدی، احمد بن خلیل، کتاب العین، ج8 ص272۔
(38)حمیری، عبداللہ، قرب الاسناد، ص117۔
(39)َآقا حسین بن محمد، مشارق الشموس فی شرح الدروس، ج2 ص8۔
( 40)حر عاملی، محمد بن حسن،ہدایۃ لامۃ الی احکام الائمۃ، ج4 ص115۔
(41)شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، دعائے جوشن کبیر۔
(42)سورہ قدر، آیت 4۔
(43)سورہ نحل، آیت61۔
(44)مشہدی، حائری، محمد بن جعفر، مزار کبیر، ص 579۔
( 45)اصول کافی، ج4 ص574، اور مفاتیح الجنان، ماہ رجب کے مشترک دعاٰؤں میں سے پانچویں دعا۔
اس مقالہ کو الحسنین نیٹ ورک کی ویب سائٹ سے لیا ہے۔ http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button