خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:303)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 16 مئی 2025 بمطابق 18 ذیقعد 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:وحدتِ امت
آج کا خطبہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک بنیادی موضوع "امت کی وحدت” پر ہے۔ یہ موضوع ہر دور میں اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ وحدت ہی وہ طاقت ہے جو امت کو مضبوط بناتی ہے۔آج کی گفتگو میں ہم قرآن و حدیث سے اتحاد و وحدت کی ضرورت و اہمیت بیان کریں گے۔
1. وحدت کی قرآنی بنیاد
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں وحدت کو ایمان کی علامت قرار دیا اور تفرقے سے منع کیا۔ سورۃ آلِ عمران میں ارشاد ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا(سورۃ آلِ عمران: 103)
ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
تفسیر الکوثر: اللہ سے متمسک ہونے سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسولﷺسے متمسک ہونا ہے۔ اللہ سے متمسک ہونے کا حکم دینے کی بجائے اللہ کی رسی سے متمسک ہونے کا حکم دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی اس کی کتاب اور اس کے ر سول ﷺ ہیں۔
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا۔ گویا اللہ کی طرف سے خطرے کااعلان ہو رہا ہے اور لگتاہے کہ کوئی سیلا ب آنے والا ہے اور غرق آب ہونے کا خطرہ ہے یا کوئی طوفان آنے والا ہے، جس سے اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے یا کوئی آندھی آنے والی ہے، جو اس انجمن کو منتشر کر دے گی یا کوئی آفت آنے والی ہے، جو اس باعظمت امت کو قعر مذلت میں گرا دے گی۔ لہٰذا بچنا ہے تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
وَ لَا تَفَرَّقُوۡا: اس جملے سے مذکورہ خطرے کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے کہ یہ کس قسم کا سیلاب، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے کہ اگر یہ امت اس خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے اور حَبْل اللّٰہ سے متمسک بھی نہیں ہوتی تو اس کا شیرازہ کس طرح بکھر سکتا ہے اور اس کی عظمت کس طرح مذلت میں بدل سکتی ہے۔
خطرہ یہ ہے کہ امت مسلمہ قرآن و ر سول ﷺکی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دستور حیات کو چھوڑ کر جزئیات اور فروعات میں منہمک نہ ہوجائے۔ دین سے زیادہ مسلک عزیز نہ ہو جائے۔ ایمان پر قومی عصبیت غالب نہ آ جائے۔ قرآن پر نسلی و لسانی رجحانات کا غلبہ نہ ہوجائے اور سنت رسول ﷺ پر گروہی مفادات غالب نہ آ جائیں، اس آنے والے خطرے کے پیش نظر قرآن متعدد مقامات پر اس امت کو تنبیہ کرتا ہے:
i۔ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ۔ ۔۔۔ (۸ انفال: ۴۶)
آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی(یعنی دشمن پر تمہارا رعب و دبدبہ ختم ہوجائے گا)۔
ii۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ۔ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۵۹)
جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بے شک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے۔
Iii۔ وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ۔ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۵۳)
اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے۔۔۔۔
Iv۔ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ۔ ۔۔ (۳ آل عمران: ۱۰۵)
اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔۔۔۔
v۔ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا۔ ۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۵۶)
پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا۔
2. وحدت کی نبوی تعلیمات
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحدت کو امت کی بقا کے لیے ضروری قرار دیا۔ ایک مشہور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللّٰهِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَكْذِبُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ”
ترجمہ: "نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ دھوکہ دہی کرو، نہ نفرت کرو، نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع کرے(یعنی کسی کا خرید و فروخت کا معاملہ خراب کرکے اس پر خود فروخت نہ کرے) اللہ کے بندوں کے طور پر بھائی بن کر رہو۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اسےدھوکہ نہیں دیتا، اس سے جھوٹ نہیں بولتا اور اسے حقیر نہیں سمجھتا۔”
یہ حدیث وحدت کے عملی تقاضوں کو بیان کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفرت، حسد، اور دھوکہ دہی سے منع کیا اور اخوت کو فروغ دینے کی تلقین کی۔
3. اہلِ بیت کی روایات میں وحدت
اہلِ بیت علیہم السلام نے بھی وحدت کی اہمیت پر زور دیا۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْاَعْظَمَ، فَاِنَّ یَدَ اللهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ، وَ اِیَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ! فَاِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطٰنِ، كَماۤ اَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 125)
ترجمہ: اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔
اسی طرح، شیعہ کتاب الکافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ: "إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ كَجَسَدٍ وَاحِدٍ، إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى”
ترجمہ: "مؤمن ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔”
یہ روایات واضح کرتی ہیں کہ وحدت ایمانی تقاضہ ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث بنتا ہے۔
4. وحدت کے لیے عملی اقدامات
وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
ا. اختلافات کو احترام سے حل کرنا
اختلاف رائے فطری ہے، لیکن اسے نفرت میں نہیں بدلنا چاہیے۔ بلکہ اسے احترام کے ساتھ حل کرنا چاہیے اور کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے تاکہ ہر ایک اپنے عقیدے و نظریے کے اختلاف کو ایک حد میں رکھتے ہوئے دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
ب. مشترکات پر توجہ دینا
ہمارے درمیان قرآن، سنت، اور اہلِ بیت کی محبت جیسے مشترکات ہیں۔ ان پر توجہ دینے سے وحدت مضبوط ہوتی ہے۔
ج. نفرت انگیز گفتگو سے اجتناب
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَكُونُوا إِخْوَانًا”
ترجمہ: "نہ ایک دوسرے سے نفرت کرو، نہ حسد کرو، بلکہ بھائیوں کی طرح رہو۔”
د. اجتماعی خیر کے لیے تعاون
ایک دوسرے سے اجتماعی تعاون کی راہ ہموار کرنی چاہے کیونکہ اتحاد میں طاقت ہے۔ روایت میں منقول ہے:
"إِنَّ النَّاسَ إِذَا اتَّحَدُوا عَلَى الْخَيْرِ، كَانُوا أَقْوَى مِنْ أَنْ يُغْلَبُوا”
ترجمہ: "جب لوگ خیر پر متحد ہوتے ہیں تو وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔”
5. تاریخی واقعہ: مواخاتِ مدینہ
رسول خدا ﷺ اور مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد مواخاتِ مدینہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم اقدام تھا جس نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ یہ واقعہ ہجرت کے تقریباً چند ماہ بعد پیش آیا۔ اس وقت مدینہ میں جو صحابہ موجود تھے ان میں مکہ سے آنے والے مہاجرین اور مدینہ میں رہائش پذیر انصار شامل تھے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن اصحاب سے فرمایا:
"تَآخَوْا فِي اللّٰهِ أَخَوَيْنِ أَخَوَيْنِ”
ترجمہ: "خدا کی راہ میں دو دو افراد ایک دوسرے کے بھائی بن جاؤ۔”
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جوڑیاں بنائیں۔
خاص طور پر، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی منتخب کیا۔ ایک روایت کے مطابق، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی علیہ السلام روتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
"يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَدْ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ؟”
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"يَا عَلِيُّ، أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ” (الغدیر، علامہ امینی)
ترجمہ: "اے علی! تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔”
یہ اخوت صرف زبانی دعویٰ نہیں تھی بلکہ عملی قربانیوں کا مظہر تھی۔ اس واقعے سے اخوت کی گہرائی اور ایثار کا جذبہ عیاں ہوتا ہے۔ مواخات نے نہ صرف مہاجرین اور انصار کے درمیان معاشی اور سماجی تفاوت ختم کیا بلکہ امت کو ایک مضبوط اکائی بنایا۔
6. وحدت کے فوائد
• دینی طاقت: قرآن فرماتا ہے: "وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ” (سورۃ الانفال: 46) یعنی ” اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ”
• سماجی استحکام: وحدت سے معاشرے میں امن و امان اور استحکام قائم ہوتا ہے۔
• دشمن کے مقابلے میں کامیابی: متحد امت دشمن کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہے۔
7. امت کی وحدت کے لیے چیلنجز
• فرقہ واریت: مختلف فرقوں کے درمیان غلط فہمیاں وحدت کے لیے خطرہ ہیں۔
• سیاسی تقسیم: سیاسی مفادات امت کو کمزور کرتے ہیں۔
• میڈیا کی منفی مہمات: بعض میڈیا ادارے نفرت پھیلاتے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے علماء، لیڈرز، اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
نتیجہ
پس! آج ہمیں اپنی امت کی وحدت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دلوں سے نفرت اور حسد نکالنا ہوگا، اختلافات کو احترام سے حل کرنا ہوگا، اور قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ مواخاتِ مدینہ ہمارے لیے ایک عظیم مثال ہے کہ کس طرح ایثار اور اخوت سے امت متحد ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں وحدت کی نعمت عطا فرمائے اور ہمیں ایک مضبوط امت بنائے۔ آمین!
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭