خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:305)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 30 مئی 2025 بمطابق 02 ذی الحجہ 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:فلسفہ حج
ماہ ذی الحجہ اسلامی تقویم کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔ یہ ان حرام مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و جدال حرام ہے۔ احادیث میں اس مہینے کے پہلے عشرے میں کئی اعمال بیان ہوئے ہیں جن میں سے سب سے نمایاں عمل ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز ہے جو نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔
یہ مہینہ سال کے اہم اور بافضیلت مہینوں میں سے ایک ہے جس کی فضیلت پر قرآن و سنت میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ ائمہ معصومین اس مہینے ـ بالخصوص اس کے پہلے عشرے ـ کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ سورہ فجر کی پہلی آیات "وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ؛” ترجمہ: قسم ہے صبح کی اور دس راتوں کی۔اس میں خداوند متعال نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے وہ ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں؛ اور یہ قسم اس مہینے کی عظمت کی دلیل ہے۔حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ۔ (بحار الانوار، جلد 55، صفحہ 92)
"کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو اس قدر محبوب ہو جتنا کہ عشرہ ذی الحجہ کے ایام میں۔”
یہ حدیث ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی عظمت کو بیان کرتی ہے، جن میں عبادت، استغفار، اور نیک اعمال کی خاص فضیلت ہے۔
ماہ ذی الحجہ کی اہم مناسبات:
یکم ذی الحجہ 2 ہجری: حضرت امام علیؑ اور سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شادی
7 ذی الحجہ 114 ھ: شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
8 ذی الحجہ 60 ھ: حضرت امام حسین ؑ کا احرام حج کھول کر مکہ سے عراق کی طرف سفر
9 ذی الحجہ: یوم عرفہ
9 ذی الحجہ 60 ھ: شہادت حضرت مسلم بن عقیل اور ہانی بن عُروہ در کوفہ
10 ذی الحجہ: عید الاضحیٰ عید قربان
18 ذی الحجہ 10 ھ: عید غدیر، مولا علیؑ کی ولایت کا اعلان
22 ذی الحجہ 60 ھ: شہادت حضرت میثم تمار
24 ذی الحجہ 9 یا 10 ھ: عید مباہلہ
فلسفہ حج:
ماہ ذی الحجہ کا سب سے افضل اور اہم عمل فریضہ حج کی ادائیگی ہے۔ حج اسلام کے عملی عبادات میں سے ایک واجب عبادت ہے جس کے معنی ذی الحجہ کے مہینے میں مکہ جا کر خانہ کعبہ کی زیارت اور اس سے متعلق مخصوص اعمال کو انجام دینا ہے۔ حج کا اجتماع مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لوگ مکہ میں جمع ہو کر اکھٹے حج کے اعمال بجا لاتے ہیں۔ قرآن میں بہت ساری آیات میں حج کا تذکرہ آیا ہے اور ایک سورت کا نام بھی "سورہ حج” ہے۔
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
الْحَجُّ تَقْوِيَةُ الدِّينِ وَرَفْعَةُ الْمُسْلِمِينَ وَإِظْهَارُ الْوَحْدَةِ وَالْإِيمَانِ (الکافی، جلد 4، صفحہ 252)
"حج دین کو مضبوط کرتا ہے، مسلمانوں کی عزت کو بلند کرتا ہے، اور وحدت و ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔”
یہ حدیث حج کے چند اہم مقاصد کو واضح کرتی ہے: دین کی تقویت، امت کی عزت، اور وحدت کا مظاہرہ۔
امام علیؑ نے فرمایا:
الْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيفٍ (وسائل الشیعہ، جلد 11، صفحہ 13)
"حج ہر کمزور کا جہاد ہے۔”
یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج ایک عظیم عبادت ہے جو ہر شخص کے لیے، خواہ وہ جسمانی یا مالی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
حج کے روحانی و معاشرتی پہلو:
حج ایک ایسی عبادت ہے جو روحانی تزکیہ اور معاشرتی ہم آہنگی دونوں کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1. اللہ سے تعلق کی مضبوطی
حج بندے کو اللہ کے قریب لاتا ہے۔ احرام باندھنے سے لے کر طواف، سعی، اور عرفات کے میدان میں دعا تک، ہر عمل بندے کو اللہ کی بندگی اور اس کی عظمت کے احساس سے سرشار کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتے ہیں:
وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا
(سورہ آل عمران، آیت 97)
"اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔”
2. خود سازی اور گناہوں سے پاکی
حج بندے کو اپنے گناہوں سے توبہ اور خود سازی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ عرفات کے دن کی دعائیں اور منیٰ میں رمی جمرات شیطان کے مقابلے میں اپنے نفس کی مضبوطی کا عکاس ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ
(بحار الانوار، جلد 99، صفحہ 25)
"جس نے حج کیا اور نہ فحش کلامی کی اور نہ گناہ کیا، وہ اس طرح واپس لوٹتا ہے جیسے اس دن جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔”
3. امت کی وحدت اور مساوات
حج تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے، جہاں رنگ، نسل، یا طبقاتی فرق مٹ جاتے ہیں۔ سب ایک جیسے احرام میں ملبوس ہو کر ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں۔ امام رضا (ع) فرماتے ہیں:
إِنَّمَا جُعِلَ الْحَجُّ لِيَجْتَمِعَ النَّاسُ مِنْ كُلِّ بَلَدٍ فَيَتَعَارَفُوا وَيَتَآخَوْا
(وسائل الشیعہ، جلد 11، صفحہ 16)
"حج اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ ہر خطے کے لوگ جمع ہوں، ایک دوسرے کو جانیں، اور بھائی چارہ قائم کریں۔”
4. قربانی اور ایثار
حج میں قربانی کا عمل ہمیں حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت اسماعیل (ع) کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ ہمیں ایثار، اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے، اور دوسروں کے لیے اپنے مفادات قربان کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
قربانی کی ضرورت و اہمیت:
حج کا ایک اہم رکن قربانی ہے۔ جو شخص حج انجام دے رہا ہو اس کے لیے قربانی واجب ہے جبکہ اس کے علاوہ پوری دنیا میں باقی سب کے لیے قربانی مستحب ہے۔ قربانی حج کا واحد عمل ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان شریک ہو سکتے ہیں جبکہ حج کے باقی اعمال فقط حاجی نے انجام دینے ہوتے ہیں۔ اس طرح حج کے ساتھ قربانی ایک عالمگیر اجتماعی عمل بن جاتا ہے۔اور یہ اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حج کے ایک اہم عمل قربانی میں شریک ہونے کا موقع دیا ہے۔
قربانی کے بارے میں ارشاد ربی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ(سورہ الکوثر، آیت 2)"پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”
ایک اور مقام پہ فرمایا:لَن يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ(سورہ الحج، آیت 37)"نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ تمہارا تقویٰ اس تک پہنچتا ہے۔”
یہ آیت قربانی کے روحانی فلسفے کو واضح کرتی ہے کہ اس کا اصل مقصد اللہ کے لیے تقویٰ اور اطاعت کا مظاہرہ کرنا ہے۔
امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے:
إِنَّ الْقُرْبَانَ يَقْرُبُ الْعَبْدَ مِنَ اللّٰهِ وَيُطَهِّرُهُ مِنَ الذُّنُوبِ (وسائل الشیعہ، جلد 14، صفحہ 114)"بے شک قربانی بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے اور اسے گناہوں سے پاک کرتی ہے۔”
ایک روایت میں ہے:
ذَبَحَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَبْشًا بِإِذْنِ اللَّهِ فَكَانَ ذَلِكَ فِدَاءً لِإِسْمَاعِيلَ، فَمَنْ ذَبَحَ بِنِيَّةٍ خَالِصَةٍ كَانَ ذَلِكَ فِدَاءً لَهُ مِنَ النَّارِ(بحار الانوار، جلد 99، صفحہ 242)
"حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ کے حکم سے مینڈھا (دنبہ)ذبح کیا جو حضرت اسماعیل (ع) کا فدیہ بنا۔ پس جو شخص خالص نیت سے قربانی کرے، وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا فدیہ بنتی ہے۔”
یہ حدیث قربانی کی عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے کہ خالص نیت سے کی گئی قربانی عذاب سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔
قربانی کے اہم فقہی احکام
چونکہ آنے والے چند ایام میں ہم سب قربانی کے جانور خریدتے ہیں اس لیے مناسب ہے کہ قربانی کے اہم احکام آج ہی بیان کردیں تاکہ جانور خریدتے وقت یہ چیزیں ذہن میں رکھی جائیں۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ کے مقلدین توجہ فرمائیں کیونکہ آغا سیستانی دام ظلہ کے بعض فتاویٰ مشہور علماء کے فتاویٰ سےمختلف ہیں:
٭مستحب قربانی میں واجب قربانی (جو کہ حج کے دوران کی جاتی ہے)کی شرائط و اوصاف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
پس لنگڑا، بھینگا،جس کا کان کٹا ہو، جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا بہت کمزور جانور ان سب کی قربانی ہوسکتی ہے اگرچہ افضل و احوط یہ ہے کہ جانورموٹا اور نقائص سے سلامت ہونا چاہئے۔
٭جانور کے اندر عمر کے لحاظ سے درج ذیل عمروں کا ہونا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے:
الف: اونٹ اگر پانچ سال سے کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی۔ (پانچ سال کو پورا کرنا ضروری ہے )
ب: گائے بھینس اور بکرا یا بکری وغیرہ اگر دو سال سے کم ہوں تو ان کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ (دو سال کا پورا کرنا ضروری ہے )
ج: بھیڑ یا دنبہ اگر سات ماہ سے کم کی ہوتو اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی۔(سات ماہ کاپورا کرنا ضروری ہے)
٭جس حیوان کو انسان خود پالے اس کی قربانی کرنا مکروہ ہے۔
٭جانور کی قربانی میں شراکت جائز ہے خصوصا اس صورت میں کہ جب جانور کا ملنا مشکل ہو یا اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں ۔
(نوٹ: عام طور پر بہت سے علاقوں میں قربانی کے بیل کے 7 حصے کیے جاتے ہیں جبکہ اس کی شریعت میں کوئی پابندی نہیں ہے۔یہ فقط ایک رسمی چیز بن چکی ہے۔ موجودہ مہنگائی میں بہت سے لوگ قربانی میں شراکت کی حیثیت نہیں رکھتے لہٰذا بہتر ہے ایک بیل میں زیادہ حصے شراکت کے شامل کیے جائیں۔ جتنے زیادہ حصے ہوں گےاتنے زیادہ لوگوں کو اس ثواب میں شرکت کا موقع ملے گا اور سب کا خرچ بھی کم ہوگا۔ نیز قربانی کا مقصد ثواب ہے ناکہ زیادہ گوشت کا حصول)
٭کھال کوبطور صدقہ دینا مستحب ہے اور قصائی کو بطور اجرت دینا مکروہ ہے۔
اور یہ جائز ہے کہ کھال کو انسان اپنے لئے جائے نماز بنائے یا اس سے گھر کا سازو سامان خریدے۔
٭قربانی کا افضل ترین وقت 10 ذی الحج سورج طلوع ہونے کے بعد سے عید نماز کی مقدار کے برابر وقت گزرنے کے بعد ہے اور تین دن تک کر سکتے ہیں اگرچہ پہلے دن کرنا زیادہ افضل ہے۔
٭قربانی کے گوشت کا ایک حصہ خود رکھے، ایک حصہ مسلمان کو دے اور تیسرا حصہ غریب مسلمانوں کو صدقہ کرے۔
٭ذبح جانور کے دو گردے اور شریانین کھانا مکروہ ہے۔
٭ قربانی میں عقیقہ کی نیت کرنے سے عقیقہ بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن ضروری ہے کہ جس کی طرف سے قربانی ہو اسی کی طرف سے عقیقہ کی نیت ہو اور اس میں اشتراک بھی نہ ہو۔
(بمطابق فتاویٰ آیۃ اللہ سید سیستانی دام ظلہ العالی)
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭