لائبریریمتفرق مقالات

حج،عشق کا سفر

تحریر: ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی
انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتاً نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی شروع سے ہی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے:
(بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية)۔۱
اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت ۔حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرمﷺ اور اہل بيت (عليھم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روايت ہے:
(الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم)۔۲
حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت طلب کريں تو قبول کرتاہے، اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اوروابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورتحال اس کے بنیادی مقصد اورالہٰی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اور سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منیٰ میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں ہزار ہا رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حیثیت و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستائش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹھہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسکے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ)۔ ۳
اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
(من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً)۔۴
جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیھم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتاً اللہ تعالیٰ کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعے قرب الہٰی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوٰۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر بغیر سلے کپڑے اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام میں اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کی ہیں۔مقام منیٰ میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارتا ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ اک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔
حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم ؑکی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان ہے۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے۔حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیان ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میں سے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہونا چاہیے۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے۔ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، (أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ)۵۔کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔
رہبر معظم حجاج کے نام پیغام میں فرماتے ہیں :آج عالم اسلام کا ایک اہم ترین مسئلہ، مسئلہ فلسطین ہے جو کسی بھی مسلک، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے تمام مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں سر فہرست ہے۔ حالیہ صدیوں کا سب سے بڑا ظلم فلسطین میں ہوا ہے۔ اس دردناک قضیے میں ایک قوم کی سرزمین، گھر، کھیت، مال و اسباب، ناموس اور تشخص، سب کچھ چھین لیا گيا۔ توفیق خداوندی سے اس قوم نے ہار نہیں مانی، خاموش ہوکر بیٹھ نہیں گئی بلکہ وہ آج ماضی سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ اور زیادہ شجاعانہ انداز میں میدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔ غزہ کے سانحات جن کی ہماری عصری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور ظالم حکومت کے استکبار، جو ظلم و بربریت اور صیہونیت کے زوال کا مظہر ہے، کسی فرد، جماعت، ریاست یا مسلم فرقے کے لیے کسی قسم کی غور و فکر یا تسکین کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکی حکومت کی اس بریت کو قوموں اور حکومتوں کے قول و فعل سے ظاہر کرنا چاہیے اور جلادوں کے لیے میدان تنگ کرنا چاہیے۔فلسطین اور غزہ کے صبر و استقامت کے مظلوم عوام جن کے صبر و استقامت کی وجہ سے دنیا بھر میں پذیرائی اور احترام حاصل ہوا ہے، کی ہر طرف سے حمایت کی جانی چاہیے۔۶
حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے دعا کریں کیونکہ مسلمان ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے بھی دعا کریں۔

حوالہ جات:
۱۔اصول کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔اصول کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔
۳۔ آل عمران، آیت ۹۷۔
۴۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔
۵۔سورۃ الفتح ،۲۹۔
۶۔ رہبر معظم انقلاب کا حجاج کے نام پیغام

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button