حقیقی عالم دین کون؟

تحریر: سید امتیاز علی رضوی
عالم دین کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے اسلامی تعلیمات اور معیارات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک حقیقی عالم دین وہ ہوتا ہے جو نہ صرف دینی علوم میں گہری مہارت رکھتا ہو، بلکہ اس کا عمل، اخلاق اور خدمتِ خلق بھی دین کے مطابق ہو۔ ذیل میں اس کی چند اہم خصوصیات بیان کی جاتی ہیں:
1۔ علم کی گہرائی اور سند
عالم دین وہ ہے جس نے قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، عقیدہ اور دیگر دینی علوم میں باقاعدہ تعلیم معتبر مدارس یا یونیورسٹیز سے مستند اساتذہ کے تحت حاصل کی ہو، نہ کہ صرف خود مطالعہ یا انٹرنیٹ سے معلومات اکٹھی کی ہو۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
"وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ” (التوبہ:122)
ترجمہ: "تمام مومنوں کے لیے ممکن نہیں کہ سب کے سب نکل پڑیں، تو کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔”
اسی طرح شیعہ و سنی احادیث میں علماء کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جیسے پیغمبر اسلام (ص) کا فرمان ہے:
"العلماء ورثة الأنبياء” (سنن ابی داؤد، مشکوٰۃ)
ترجمہ: "علماء انبیاء کے وارث ہیں” ۔
نیز امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے:
"من تعلّم العلم وعمل به وعلّمه لله دُعي في ملكوت السماوات عظيماً” (بحار الانوار)
ترجمہ: "جو علم سیکھے، اس پر عمل کرے اور اللہ کے لیے سکھائے، آسمانوں میں اسے عظیم پکارا جاتا ہے۔”
لہٰذا، عالم دین وہی ہے جو معتبر ذرائع سے مکمل تعلیم یافتہ ہو، نہ کہ غیر مستند طریقوں سے۔
2۔ تقویٰ اور پرہیزگاری
ایک حقیقی عالم کا سب سے بڑا امتیاز اس کا تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ” (سورۃ فاطر: 28)
یعنی بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ یہاں علماء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ذات، اس کی صفات، اس کے احکام اور کائنات کی نشانیوں کو سمجھتے ہیں۔ علم کی گہرائی اور معرفتِ الٰہی ہی انسان میں خشیتِ الٰہی پیدا کرتی ہے۔ اللہ کی عظمت اور اس کی نافرمانی کے نتائج کا ادراک رکھنے والے ہی حقیقی تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک عالم دین کی شناخت کے لئے یہ معیار ہی کافی ہے۔
علماء کی حقیقی عظمت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ دنیاوی لالچ، شہرت اور طاقت کے بجائے آخرت کی فکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی رضا اور اپنے علم کی ذمہ داری کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت میں اللہ کے ہاں مقبولیت ہے۔ شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر کی روایات میں علماء کی اس صفت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ شیعہ روایت میں ہے:
"العالمُ مَن زَهِدَ فِي الدُّنْيَا، وَرَغِبَ فِي الآخِرَةِ، وَاتَّبَعَ سُنَّةَ نَبِيِّهِ۔” (بحار الأنوار، ج 2، ص 43)
ترجمہ: "عالم وہ ہے جو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے، آخرت کی طرف راغب ہو اور اپنے نبی کی سنت کی پیروی کرے۔”
عامہ کی روایت میں آیا ہے:
"مَن أَرَادَ الدُّنْيَا فَعَلَيْهِ بِالعِلْمِ، وَمَن أَرَادَ الآخِرَةَ فَعَلَيْهِ بِالعِلْمِ۔” (سنن ابن ماجہ، حدیث 223)
ترجمہ:”جو دنیا چاہتا ہو، اسے علم حاصل کرنا چاہیے، اور جو آخرت چاہتا ہو، اسے بھی علم حاصل کرنا چاہیے۔”
یہ روایات واضح کرتی ہیں کہ علماء کا اصل مقصد دنیاوی فوائد نہیں، بلکہ اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی ہے۔
3۔ عمل اور علم کا توازن
صرف علم رکھنا کافی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:
"إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِمٌ لَمْ يَنْفَعْهُ اللَّهُ بِعِلْمِهِ”
(سنن البيهقي الكبرى، ج 10، ص 118، حديث رقم 20283) و (بحار الأنوار، ج 2، ص 42، باب 8، ح 36)
ترجمہ: "قیامت کے دن سب سے سخت عذاب اُس عالم کو ہوگا جسے اللہ نے اس کے علم سے نفع نہ پہنچایا ہو”۔
یعنی جو شخص علم رکھتا ہو، لیکن اس پر عمل نہ کرے یا اس سے فائدہ نہ اٹھائے، وہ اللہ کے ہاں شدید عذاب کا مستحق ہوگا۔ ایک عالم دین کا اپنا کردار اس کے علم کی تصدیق کرتا ہو۔ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے کیونکہ علم بغیر عمل کے قیامت کے دن عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
https://tinyurl.com/4auv4ne6
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ (الصف: 2)
ترجمہ: “اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟”۔
امام علیؑ نے بھی فرمایا:
"اَلْعِلْمُ بِلا عَمَلٍ جَهْلٌ” (غررالحکم)
ترجمہ: "علم بغیر عمل کے جہالت ہے۔”
لہٰذا، عالم کا کردار اس کے علم کی سچائی کو ظاہر کرنا چاہیے کیونکہ علم کی قدر عمل ہی سے ہے۔
4۔ خدمتِ خلق اور رحم دلی
حقیقی علماء لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے مسائل حل کرتے ہیں اور معاشرے میں امن و انصاف کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ وہ تنگ نظری، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ نہیں دیتے، بلکہ اعتدال اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا" (البقرہ: 269)
ترجمہ: اور جس کو حکمت دی گئی، اسے بہت بڑی بھلائی عطا کی گئی۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
"العُلَمَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ یَدْخُلُوا فِی الدُّنْیَا” (بحار الانوار، ج 2، ص 36)
ترجمہ: علماء انبیاء کے امین ہیں، جب تک وہ دنیا میں داخل نہ ہوں۔
قرآن و حدیث دونوں میں علماء کی ذمہ داری کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو صحیح راستہ دکھائیں اور معاشرے کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جائیں۔
5 ۔حق بات کرنے کی ہمت
ایک سچا عالم دین ہر حال میں حق بات کہتا ہے، خواہ اسے حکمرانوں کی ناراضی ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا” (المائدہ: 44)
ترجمہ: "اور تم لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو، اور میری آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو”۔
امام علی (ع) فرماتے ہیں:
"لَا تَتْرُکُوا الْحَقَّ خَوْفًا مِنَ النَّاسِ، فَإِنَّهُ لَا یُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ وَلَا یُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ” (غرر الحکم، حدیث 4561)
ترجمہ: “حق کو لوگوں کے خوف سے ترک نہ کرو، کیونکہ نہ تو یہ موت کو قریب کرتا ہے اور نہ ہی رزق کو دور۔”
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
"أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ” (سنن ترمذی، کتاب الفتن)
ترجمہ: "سب سے بہتر جہاد ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے”۔
قرآن و احادیث میں واضح ہدایت ہے کہ علماء کو کسی کے خوف یا دنیوی مفاد کی وجہ سے حق کو نہیں چھپانا چاہیے، بلکہ عدل و صداقت کے ساتھ اللہ کی رضا کو ترجیح دینی چاہیے۔ خواہشاتِ نفس یا طاقتوروں کے دباؤ کے آگے جھکنا ایمان کی کمزوری ہے، جبکہ حق گوئی ہی حقیقی علماء کا شیوہ ہے۔
6۔جدید دور کے چیلنجز کا ادراک
آج کے دور کا عالم دین صرف روایتی علوم تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ جدید مسائل (سائنس، معیشت، سماجیات وغیرہ) کو بھی دینی تناظر میں سمجھتا اور لوگوں کو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ آج کے دور میں ایک کامیاب اور مؤثر عالم دین کی ذمہ داری صرف روایتی دینی علوم تک محدود نہیں رہی، بلکہ زمانے کے جدید تقاضوں، سائنسی ترقی، معاشی چیلنجز، سماجی مسائل اور دیگر عصری علوم کو سمجھنا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ لہٰذا، ایک عالم دین کو چاہیے کہ وہ جدید مسائل کو دینی اصولوں کی روشنی میں سمجھے اور ان کا حل پیش کرے۔ آج کے دور میں ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن، بینکاری، ماحولیات، خاندانی نظام کے مسائل جیسے موضوعات پر شرعی نقطہ نظر واضح کرنا ضروری ہے۔ اگر علماء ان میدانوں میں آگاہ نہیں ہوں گے، تو غیر مستند ذرائع سے غلط معلومات پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔ جدید نسل کے ذہن میں سائنس، فلسفہ اور معاشیات سے متعلق سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر علماء ان کے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائیں گے، تو نوجوانوں کا اعتماد کم ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، دینی راہنمائی کو مؤثر بنانے کے لیے عصری علوم سے آگاہی ضروری ہے۔ جب علماء جدید زبان اور عصری مسائل کو سمجھتے ہوئے لوگوں کو رہنمائی دیں گے، تو ان کی بات زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچے گی۔ مثلاً سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات، ذہنی صحت، یا کاروباری اخلاقیات جیسے موضوعات پر رہنمائی۔آج کے عالم دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ "روایت اور جدت کا حسین امتزاج” برقرار رکھے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی دسترس رکھنا چاہیے، تاکہ وہ معاشرے کے ہر شعبے میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کر سکے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر عمل کر کے علماء کرام امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
جھوٹے علماء کی نشانیاں اور حقیقت
بعض اوقات لوگ ظاہری لباس اور داڑھی دیکھ کر کسی کو عالم سمجھ لیتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ علماء نہیں بلکہ دین کے نام پر اپنے مفادات پورے کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے جھوٹے علماء کی کچھ واضح نشانیاں ہیں جنہیں پہچاننا ضروری ہے۔
1۔ دکھاوے کے لیے دین کی باتیں کرنا
جھوٹے علماء لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے تقویٰ کا لبادہ اوڑھتے ہیں، لیکن ان کا مقصد صرف شہرت اور دنیاوی فائدہ ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ﴾ (البقرة: 9)
ترجمہ: "وہ اللہ اور اہل ایمان کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں۔”
2۔ فرقہ واریت پھیلانا
بعض علماء اپنے گروہ کو حق اور دوسروں کو باطل قرار دے کر امت میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً” (مسلم)
ترجمہ: "جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت سے الگ ہو جائے، پھر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا”۔
امام علیؑ نے اپنے خطبات میں فرمایا:
“إِيَّاكُمْ وَالتَّفَرُّقَ فَإِنَّ الْفَرِيقَ الْوَاحِدَ يَغْلِبُ الْفَرِيقَ الْكَثِيرَ إِذَا كَانَ مُتَفَرِّقًا” (نهج البلاغة، حکمت 146)
ترجمہ: "تفرقے سے بچو، کیونکہ اگر متحد رہو تو ایک چھوٹا گروہ بھی بڑے گروہ پر غالب آسکتا ہے، لیکن اگر تمہارے اندر پھوٹ پڑ جائے تو تم کمزور ہو جاؤ گے۔”
3۔ مال و دولت کی حرص اور حکمرانوں کی خوشامد
جھوٹے علماء دنیا کی طمع میں حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے ہیں اور ان کے ظلم پر خاموش رہتے ہیں۔
امام علیؑ فرماتے ہیں:
"أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ: اتِّبَاعُ الْهَوَى وَطُولُ الْأَمَلِ” (نہج البلاغہ)
ترجمہ: "مجھے تم پر دو چیزوں کا سب سے زیادہ خوف ہے: خواہشات کی پیروی اور لمبی امیدیں۔”
4۔ جہالت پر مبنی فتوے دینا
کچھ لوگ بغیر علم کے فتوے دیتے ہیں، جس سے عوام گمراہ ہوتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾ (الإسراء: 36)
ترجمہ:”جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے مت پڑو۔”
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی عالم وہ ہے جو اللہ کے لیے علم سیکھے اور سکھائے، لوگوں کو اتحاد کی تلقین کرے، اور دنیا کی طمع سے بچے۔ ہمیں چاہیے کہ علماء کو ان کے علم، تقویٰ اور کردار سے پہچانیں، نہ کہ صرف ظاہری شکل و صورت سے۔ علماء سوء یعنی بُرے علماء کی شناخت بھی رکھیں، جو دنیا کا حریص ہو، فرقہ واریت اور تفرقہ کی بات کرے، جاہلانہ فتوے صادر کرے اور ریا کاری کرے وہی جھوٹا عالم ہے۔
30-05-2025