سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

حسین (ع) اور وارث حسین (ع) کا جہادِ کبیر سے جہاد اصغرتک کا سفر

تحریر :حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ شیخ محمد علی شریفی
یوں تو جہاد کالفظ سنتے ہی ہر کسی کا ذہن فورا اسلحوں جیسے تلوار اور آج کل کی ٹیکنالوجی سے لڑی جانے والی جنگوں کی طرف چلاجاتا ہے۔ جی ہاں اسے اپنی شرعی شرائط اورقواعد وضوابط کے تحت جہاد کہاجاتاہے۔ جسے دینی اور اسلامی اصطلاح میں جہاد اصغر کہاگیا ہے۔
اور تزکیہ نفس اور تقویٰ الہٰی اختیار کرنے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جہاد اکبر سے تعبیر ہوا ہے۔ جہاد اصغر اور جہاد اکبر کا استعمال بہت زیادہ اور مشہور ہے ۔
لیکن ایک اور جہاد کا تذکرہ قرآن کے سورہ فرقان آیت نمبر 52 میں قرآن میں ملتا ہے۔ جسے جہاد کبیر سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس آیت میں موجود ایک ضمیر کے مرجع کو مدنظر رکھ کر اسلام دشمن قوتوں کی اطاعت نہ کرنے کو جہاد کبیر کہا گیا ہے ۔۔اکثر مفسرین کے نزدیک آیت ،، فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاھِدۡهمۡ بِہٖ جِهادًا کَبِیۡرًا(فرقان، 52)
میں موجود ضمیر ،، بِهِ ،، ایک اسم ظاہر (قرآن ) تقدیر میں رکھکراس کی طرف لوٹایاہے۔۔
یعنی لہٰذا آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔
چند سال پہلے آیت اللہ خامنہ ای رہبر انقلاب اسلامی نے اس آیت کی تفسیر کچھ اس طرح فرمائی ہے ۔
عربی متن میں کسی بھی ضمیر کا مرجع ( جس کی طرف یہ ضمیر پلٹتی ہے) یا جملے میں موجود کوئی اسم ظاہر ہے یا قرینہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اسم ظاہر تقدیر میں رکھناہوگا( جیسے کہ اسی آیت میں بہت سے مفسرین نے لفظِ قرآن کو تقدیر میں رکھ کر اسے مرجع قرار دیا ہے ۔ مرحوم علامہ طباطبائی صاحب تفسیر المیزان کی نظر بھی یہی ہے۔
لیکن رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں ضمیر کا مرجع یہاں قرآن نہیں ہے بلکہ کبھی اسی جملے میں موجود فعل کے مصدر کی طرف لوٹتی ہے جیسے کہ ادبیات کی کتابوں میں یہ مثال شاہد کے طور پر بیشتر آئی ہے۔
اعدلوا ھو اقرب للتقوا ،، یہاں ،،ھُوَ،،
اسی اعدلوا ،، کے مصدر عدل کی طرف لوٹ رہی ہے۔ جھاد کبیر والی آیت میں موجود ،، وجاھدھم بہ ،، ،، بہ،،کی ضمیر
بھی ،، ولاتطع ،، کے مصدر کی طرف لوٹنی چاہئے سیاق آیت اور مفہوم تربیتی کی طرف اکثر مفسرین اور مترجمین نے توجہ نہیں فرمائی ہے ۔ ادبیات کے قانون کےمطابق کسی چیز کو تقدیر میں رکھنے سے نہ رکھنا بہتر ہے ( عدم التقدیر اولی من التقدیر) لہٰذا ،، وَلَا تُطِعْ ،،عالم کفر، دشمنان اسلام و مسلمین اور منافقین کی طرف سے مسلط کی گئی ہر چیز کا انکار کرنے کا حکم دے رہاہے ، اس انکار اور عدم اطاعت کو جہاد کبیر سے تعبیر کیا ہے۔ کافر اور دشمن کی طرفسے اسلام اور مسلمین کے خلاف پیش کردہ ہر پروگرام اور فارمولے کا انکا اور اطاعت نہ کرنے کو جہاد کبیر کہاگیا ہے ۔
جہاد کبیر کا میدان بہت وسیع ہے اقتصادی میدان میں جہاد کبیر، ثقافتی میدان میں جہاد کبیر ، سیاسی میدان میں جہاد کبیر ، تعلیم و تربیت کے مئدان میں جہاد کبیر ووو ان تمام میدانوں میں اسلام دشمن قوتوں کی طرفسے پیش کئے گئے نسخوں کا انکار اور مقابلہ اور اس کے لئے متبادل راہ ڈھونڈنا اور حل پیش کرنا ہی عظیم جہاد کبیر ہے ۔ابوالاحرار سالار شہیدان اباعبداللہ الحسین کی اس عظیم قربانی میں جہاد اکبر ، جہاد اصغر ؛ جہاد کبیر ، اور جہاد تبیین ، سب نظر آتے ہیں ۔
علماے اسلام اور دانشوروں نے اس عظیم قیام کی مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ تفسیر اخلاقی ، تفسیر اتفاقی ، تفسیر طبقاتی، تفسیر فدا، تفسیر احیاء ضمیر، تفسیر طلب شہادت ؛ تفسیر غیبی، تفسیر سیاسی،
تفسیر حصولِ حکومت، حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نظر میں ہدف قیام سید الشہداء ان میں سے کوئی بھی نہیں ہوسکتا ۔
امام نہ حکومت کی غرض سے گئے اور نہ ہی شہادت کی طلب میں اور نہ ہی دیگر مقاصد کےلئے بلکہ امام کا ہدف نفسِ قیام ، نفسِ حرکت کا وقوع پذیر ہونا تھا یعنی امر بہ معروف و نہی از منکر جسے واضح تو پر اپنے بھائی محمد حنفیہ کےلئے لکھے گئے خط میں دیکھا جاسکتا ہے انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ۔۔۔۔۔ارید ان آمر باالمعروف وانھی عن المنکر۔۔۔۔۔تاکہ یہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ، اسوہ اور رول ماڈل بنے جو اس دور میں زندگی کررہےتھے اور بعد میں آنے والوں کے لیے۔
اس عظیم قیام نے اس حرکت نے ایک سنت حسنہ کی بنیاد ڈال دی یہ وہی چیز تھی جس کی پیغمبر اکرم ص نے تعلیم دی تھی اور فرمایا تھا جب بھی دنیا ویرانی کی طرف جارہی ہو اور اسلامی نظام کو فساد کی طرف لےجارہا ہوتو ضروری ہے قیام کریں حرکت کریں ایک ایسافریضہ تھا کہ جس پر خود رسول اکرم بھی عمل نہیں کرسکے تھے چونکہ اپنے دور میں یہ صورتحال پیدا ہی نہیں ہوئی تھی ایسے حالات وقوع پذیر نہیں ہوئے تھے خود رسول کی زندگی میں یہ انحرافات ممکن نہیں تھے کہ یہ فریضہ انجام پائے ۔پیغمبر نے زکوات بتائی تھی حج و جہاد بھی سکھائے تھے تمام واجبات کو خود نے بنفس نفیس انجام دیاتھا تمام ارکان پر خود عمل کرکے گئے تھے لیکن ایسا وظیفہ و فریضہ کہ جس پر عمل ضروری تھا کہ ان کے اوصیاء میں سے کسی ایک نے انجام دینا تھا ۔پس ہدف امام حسین علیہ السلام اس قیام سے اس حرکت اور انقلاب کو ایجاد کرنا تھا تاکہ اس قیام اور حرکت کی بدولت انسانیت اور مسلمانوں کے آگے جب بھی ایسی فضا قائم ہوجائے اسلامی معاشرے میں ایسا ماحول بنايا جائے تو اپنے وظیفے اور زمہ داری کے بارے میں جان سکیں کہ جب کفر وظلم کی حکومت قائم ہوجائے اور نظام اسلامی کو فساد اور انحراف کی طرف لےجائے اسلام کی ٹرین کو اس کی پٹری سے اتار دی جائے تو امت مسلمہ کی کیا زمہ داری بنتی ہے ؟ پس آپ کی نظر میں ہدف قیام عاشورا نہ طلبِ شہادت تھا اور نہ ہی حصول اقتدار ، بلکہ یہ دونوں اس حرکت کے نتیجے تھے نفسِ حرکت نفسِ قیام ہدف تھا اس کے نتیجے میں یاحکومت ملنی تھی یا شہادت کے درجے پر فائز ہونا تھا۔
جب امیرشام کی طرفسے یزید کی ولیعہدی کااعلان ہوا اور یہ خبر آپ علیہ السلام تک پہنچی تو آپ نے کلمہ استرجاع پڑھ کر اپنے موقف کااعلان فرمایا۔یہ جملہ انتہائی دہشت اور آنے والے خطرات کی نشاندہی کررہاہے کلمہ استرجاع بے انتہا اظہار افسوس کےلئےاور پریشانی کے وقت پڑھاجاتا ہے۔
چاروں جہاد کے میدان میں آپ ایک درخشان ستارہ کے طور پر نظر آتے ہیں جہاد اکبر یعنی اپنی انفرادی زندگی میں تہذیب نفس اور تقوا الہی اختیار کرنا ، اللہ تعالی سے راز نیاز کا اندازہ صرف دعائے عرفہ کی طرف نگاہ کریں تو ہوتا ہے کہ معرفت الہی اور پاکیزگی نفس کا کیا عالم تھا ۔
اس عظیم قیام کی ابتداء جھاد کبیر سے شروع ہوا جب حاکم مدینہ نے آپ سے یزید کے لیے بیعت مانگی تو آپ نے اس کی اطاعت سے انکار کرکے جہاد کبیر انجام دیا اور اور مدینہ سے لیکر کربلا تک جہاد تبیین کا فریضہ برابر انجام دیتے رہے دین اور اسلام کی درست تفسير اور تبیین کرکے بنوامیہ کے اسلام اور حقیقی اسلام کو پہنچاتے رہے۔ اسلام کی درست تصویر پیش کرتے رہےاور روز عاشورا آپ نے جہاد اصغر کے ذریعے دین اسلام کی تاابد آبیاری کی اسلام کے اس سوکھے درخت کےلئے آپ نے اپنے اور اپنے جوانوں کے خون پیش کئے جس کی بدولت آج تک اسلام سرفراز ہے۔ عاشورا اور فکر حسینی کے حقیقی وارث ولی فقیہ نے اپنے مولی وآقا کی پیروی کرتے ہوئے ایک بار پھر وقت کے یزید کےہاتھوں بیعت کرنے سے انکار کرکے جہاد کبیر والی آیت کی عملی تفسیر کر ڈالی اور زمانے کے یزید اور ابن زیاد ( ٹرمپ اور نتانیاہو) کے آگے سرتسلیم خم ہونے سے انکار کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال کر حسین کے حقیقی اور نظریایی اور مکتبی فرزند ہونے کاثبوت دیا پوری دنیا کی باطل قوتیں ایک طرف تھیں اور ایران ایک طرف۔ یہ جنگ بھی جہاد کبیر (بیعت اور تسلیم سے انکار ) سے شروع ہوئی اور دوسپر پاورز ہونے کے دعویداروں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کرکے پوری دنیا میں ذلیل کردیا اور اسلام و مسلمین کو فتح مبین کی نوید سنادی اور ایک بار پھر عزت اور وقار بخشا۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button