متفرق مقالات

عزاداری مزاحمتی تحریک کا لائحہ عمل

تحریر: سجاد حسین مفتی
ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ محرم اور صفر کی مرہون منت ہے۔ (امام خمینیؒ)
عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے۔( شہید قائدؒ)
عزاداری مزاحمتی تحریک کا لائحۂ عمل
جھکے بکے بغیر قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق باطل شکن غیر لچکدار مزاحمتی تحریک کو مکمل فتح تک آگے بڑھانے کے لیے پانچ عناصر پر مشتمل عزاداری ڈیزائن ہوئی ہے ۔ عموما عزاداری کی ایک مجلس مندرجہ ذیل پانچ مرحلے پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر مرحلے کا اپنا مخصوص اثر ، ہدف اور پیغام ہوتے ہیں۔
پہلا مرحلہ:آگاہی اور ابتدائی جذبات: سوزخوانی مرثیہ کے ذریعے آزاد انسانوں اور محبان اہل بیت کو مجلس اور اہل حق پر آنے والی مصیبت سے آگاہ کیا جاتا ہے اور ان کے عاطفہ و جذبات کو بیدار کیا جاتا ہے لیکن ابھی یہ جذبات ابتدائی مرحلے میں ہیں اور ناپختہ۔
دوسرا مرحلہ:شعور،آگہی اور بصیرت : تقریر و خطابت کے ذریعے انسانی معاشرے میں موجود حق و باطل کے محاذ اور ان کے موقف، استدلال اور طریقہ کار کو مدلل انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ عصر امام حسینؑ اور معاصر دنیا پر اس کی تطبیق کی جاتی ہے ۔ اس طرح قرآن و سنت کی روشنی میں منطقی و معقول استدلال اور موعظہ کے ذریعے شعور و آگہی، احساس ذمہ داری اور جذبہ عمل کو مہمیز کیا جاتا ہے۔ یوں معرفت،بصیرت، الٰہی صالح قیادت کے حامل ہم فکر، ہم جہت، منظم اور نظریاتی جماعت وجود میں لائی جاتی ہے۔
تیسرا مرحلہ:نظریاتی جنگ کی آمادگی: ذکر مصائب کے ذریعے معرکہ حق و باطل میں انبیاء، اوصیاء، صدیقین، صلحاء اور شہداء پر ہونے والے مظالم اور ان کے صبر و استقامت نیز ایثار و قربانی کو سوز و گداز، غم و اندوہ اور انقلابی جوش کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔ جس سے سامعین کے دل میں طاغوتی قوتوں سے ٹکرانے اور اللہ کی راہ میں جہاد و شہادت کے جذبات شعلہ ور ہوتے ہیں۔ اس طرح مکتبی غم جذبہ ٔ جہاد و شہادت کے عروج پر پہنچ جاتا ہے ۔ اب یہ نظریاتی گروہ میدان جنگ میں اترنے کے لیے مکمل تیار ہو گیا ہے۔

چوتھا مرحلہ : جنگ کا عملی مشق : نوحہ و سینہ زنی کے کے ساتھ عملی طور پر جنگ لڑی جاتی ہے۔
مرثیہ اور نوحہ کے مطالب عموما ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ان کے شعری وزن اور اثر بالکل مختلف۔ مرثیہ المیہ طرز پر ادا کیا جاتا ہے جبکہ نوحہ رزمیہ انداز میں۔ اس مرحلے میں اسلامی اور الٰہی بنیادوں پر حاصل ہونے والی آگہی و شعور، بصیرت ، جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی بنیاد پر اعلان جنگ ہوتا ہے۔ الٰہی فوج جنگی رجز اور شہدا ء کے کارناموں کے تذکرے کے ساتھ باطل فوج پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ یوں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ لڑی جاتی ہے۔ نوحہ کے رزمیہ طرز ، اتار چڑھاؤ، نوحہ خوان کے آواز کی شدت و ضعف ، چہرے کے تأثرات اور بدن کی حرکات و سکنات، سینہ زنی کی کمیت اور کیفیت پر گہرا اثر رکھتے ہیں ۔ساتھ ہی سینہ زنی کے انداز پر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سینہ زنی شدت غم کی نفسیاتی بےچینی کا اثر نہیں ہے بلکہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا ایک شعوری عمل ہے۔ جس کے ذریعے پہلے زمانوں میں تلوار کے ذریعے ہونے والی لڑائی کی عملی مشق اور تربیت دی جاتی تھی۔
۵۔ولایت و برائت کا اعلان: معرکہ حق و باطل کے اختتام پر زیارت پڑھی جاتی ہے ۔ اسلامی علمی ورثے میں بہت ساری زیارتیں منقول ہیں ۔
درج ذیل چار ارکان تمام زیارتوں کے بنیادی عناصر ہیں۔
الف ۔سلام عقیدت: جنگ میں شریک مجاہدین اور شہیدوں کی خدمت میں سلام عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
ب۔اعتراف خدمات: دین کی نصرت اور مظلوموں کے حقوق کی بازیابی کی خاطر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
ج۔ مستقبل کے لیے موقف کا تعین: ماضی اور حال کی طرح مستقبل میں بھی اپنے محاذ،موقف اور قیادت کے ساتھ دینے اور باطل محاذ ، اس کی قیادت اور موقف سے برائت کا اعلان کیا جاتا ہے۔
د۔ تجدید بیعت اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان: الٰہی قیادت کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید کی جاتی ہے اور جب بلائے، جہاں بلائے، جو حکم دے اس پر بلاچون و چرا لبیک کہتے ہوئے بروقت،برمحل اور مطلوبہ مدد و نصرت کا عہد کیا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ عزاداری معرکہ حق و باطل کے تمام مراحل پر مشتمل ایک تربیتی آزاد یونیورسٹی ہے ۔ جس میں دل،جگر، گردہ رکھنے والے پاک فطرت انسانوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔جہاں طالب علم حسین ابن علی سمیت تمام انبیاء، اوصیاء، صدیقین، صلحاء اور شہداء کا خطاب سنتا ہے، سمجھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ شرکت کنندگان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی مختصر وقت میں جامع تربیت دی جاتی ہے۔
عزاداری کی اس حقیقت کو جاننے کے بعد
یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ امام خمینیؒ اور شہید قائدؒ نے عزاداری کے حوالے سے یہ کلمات کیوں بیان فرمائے تھے۔
ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ محرم اور صفر کی مرہون منت ہے۔ (امام خمینیؒ)
عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے۔( شہید قائدؒ)
ذرا نہیں مکمل سوچ لیجئے! اگر عزاداری کی مروجہ مجالس کے منبر سے حسینؑ کا خطاب سننے کو نہ ملے یا جھکے بکے اور تھکے بغیر حق کی نصرت کرنے والی فوج تیار نہ ہو جائے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ مجلس و منبر تو وہ مجلس المیہ تہوار اور منبر فراموش خانے کا سٹیج ہو سکتے ہیں لیکن حسین کی مجلسِ عزا اور منبر نہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button