متفرق مقالات

عمومی اور ذاتی پہلوؤں سے عاشورا سے استفادہ کے طریقے

حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد العاملی

ہم کس طرح امام حسین (علیہ السلام) سے اپنے تعلق کی حرارت کو ناپ سکتے ہیں؟
جیسا کہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله) کی حدیث ہے:

"میرے بیٹے حسین کے قتل پر مؤمنوں کے دلوں میں ایک حرارت ہے جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔”
کیا یہ حرارت صرف محرم و صفر کی چند ایام میں ہی محسوس ہوتی ہے؟
یا اسے پوری زندگی کے دنوں تک پھیلایا جا سکتا ہے؟
اسی بات سے جڑا ہوا سوال یہ ہے:
کچھ ملکوں میں تشیع مضبوط کیوں رہا، جبکہ بعض جگہوں پر کمزور کیوں ہوا، باوجود اس کے کہ اہل بیتؑ کے ماننے والے ہر جگہ موجود ہیں؟
اس کا جواب تین بنیادی امور میں ہے جو ان معاشروں میں تشیع کو زندہ رکھتے ہیں:
1۔مدرسہ امام حسینؑ — روحانی و جذباتی مدرسہ
یہ مجالس عزا، گریہ، ماتم، اور حسینی خدمات کا مرکز ہے۔
مجالس کی کثرت، ان میں شرکت، ان کے احیاء نے امام حسینؑ کی یاد کو تازہ رکھا ہے۔
یہ وہ روحانی منبع ہے جہاں سے اہل بیتؑ کے پیروکار روحانیت حاصل کرتے ہیں۔
اور یوں ہر سال ایسا محسوس کرتے ہیں گویا امامؑ کا واقعہ ابھی ابھی ہوا ہو۔
یہی روحانی مدرسہ تشیع کی قوت کا پہلا ستون ہے۔
عقیدت اور محبت لوگوں کو اس رہنما سے جوڑتی ہے، جس نے ان کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
اسی لیے ہر سطح کے لوگ، مختلف علمی، سماجی اور نفسیاتی درجوں سے تعلق رکھنے والے، محرم و صفر میں امام حسینؑ کی ذات کے گرد جمع ہوتے ہیں، اور اسی خدمت کو اپنا افتخار سمجھتے ہیں۔

2۔مدرسۂ عقل — امام صادقؑ کی علمی تحریک
یہ وہ علمی نظام ہے جو امام صادقؑ کی زیرِ سرپرستی وجود میں آیا، اور جس میں حوزات، دینی مدارس، جامعات، تحقیقی ادارے اور علمی مراکز شامل ہیں۔
یہ تمام اہل بیتؑ سے منسلک ہو کر فکری و نظریاتی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔
علم اگر جذبہ و عقیدت سے خالی ہو تو پائیدار نہیں ہوتا۔
یہ مدرسہ تشیع کی دوسری قوت ہے۔

3۔ مدرسۂ عمل — امام مہدیؑ کا منتظر مدرسہ
یہ مدرسہ عمل، اصلاح، امید، خودسازی، اور معاشرتی بیداری کا پیغام دیتا ہے۔
یہ وہ مکتب ہے جو ایک صالح و مہدوی معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے۔
یعنی علم، روح، اور جذبہ — یہ تینوں مدرسے مل کر
تشیع کو زندہ، پائیدار اور مؤثر بناتے ہیں۔
ہم کیسے محرم و صفر کو اپنی زندگی کا دائمی جز بنا سکتے ہیں؟
یہ ایام محض کچھ دنوں کے نہیں، بلکہ پوری زندگی کا لائحہ عمل بننے چاہئیں۔
مثال کے طور پر:
شب عاشور، جب دشمن حملہ کے لیے تیار تھا،
تو حضرت عباسؑ امام حسینؑ کے پاس آئے۔
امامؑ نے فرمایا:
"ان سے کہو کہ ایک رات کی مہلت دیں، تاکہ ہم اپنے رب سے مناجات کریں، نماز ادا کریں، قرآن پڑھیں، اور استغفار کریں،
کیونکہ خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت، دعا اور استغفار سے خاص محبت ہے۔”
امامؑ کے اصحاب کی بھی یہی حالت تھی ۔
ان کی مناجات کی آوازیں ایسی تھیں جیسے شہد کی مکھیوں کا گونج۔
دعا اور استغفار ایک مسلسل روحانی عمل ہے،
یہ انسان کے دل کی کیفیت، توبہ کی راہ، روح کی طہارت
اور انسان کی تکامل کی جانب پیش رفت کا ذریعہ ہے۔
دعا بندے کی طرف سے رب کے حضور اپنی کمزوری کا اعتراف ہے۔
یہ عبدیت کا اظہار ہے اور بندے کو اس بات کا احساس دلاتی ہے
کہ وہ خدا کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
خدا ہم سب کو علم اور عمل کی توفیق دے،
ہمیں حسنِ خاتمہ عطا کرے،
ہمارے امام زمانہؑ کے ظہور میں تعجیل فرمائے،
اور ہماری زندگیوں کو اپنی رضا کے مطابق قرار دے۔
خاص نصیحت:
> یہ ایام خاص طور پر خدا کے لیے گزارے جائیں،
اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے تعزیت کے طور پر۔

عاشورائی زینبی راستے میں انسان اپنے مقام کو کم نہ سمجھے، بلکہ خود کو اس عظیم کارواں کا ایک حصہ سمجھے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button