شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا پر تاریخ اسلام کی فریاد
کتاب ” منتھی الآمال ” سے اقتباس (مؤلف : ثقۃ المحدثین شیخ عباس قمی ؒ )
اردو ترجمہ ” احسن المقال ” (مترجم : علامہ سید صفدر حسین نجفی ؒ)
سیدہ طاہرہ (س) کی وفات کے سلسلے میں بہت اختلاف ہے احقر کے نزدیک آپؑ کی وفات تین جمادی الثانیہ کو ہوئی ہے جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کا خیال ہے میرے پاس اس کے کئی دلائل ہیں۔ مگر ان کے ذکر کا یہ مقام نہیں بہر کیف پدر بزرگوار کے بعد آپ ؑپچانوے دن زندہ رہیں۔ اگر چہ یہ بھی روایت ہے کہ وہ مخدّرہ باپ کے بعد پ پچھتر دن دنیا میں زندہ رہیں۔ بہتر ہے کہ دونوں طریق پر اس بی بی کی مصیبت و عزاداری قائم کی جائے جیسا کہ آج کا معمول ہے۔ بہرحال آپ ؑ پدر بزگوار کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں اور ہمیشہ نالاں و گریاں رہیں۔ اس تھوڑی سی مدت میں اتنی اذیت آپ کو پہنچی کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اگر کوئی شخص ان کلمات پر غور کریں جو امیر المومنین علیہ السلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو مخاطب کرکے کہے ہیں تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس مخدّرہ پر کتنے صدمے گزرے ہیں۔ وہ کلمات یہ ہیں۔
"و یستنبک ابنتک بتظافر امتک علی ھضمھا فاحضھا السوال واستخبرھا الحال نکم غلیل معتلج بصدرھا لم یجد الی بثیہ سبیلًا وستقول ویحکم اللٰہ وھو خیر الحاکمین۔”
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کر رہے ہیں کہ بہت جلد آپ کی صاحبزادی آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت نے ان پر میرے حق کے غصب کرنے میں ایک دوسرے کی کتنی مدد کی پس اس سے اصرار کرکے حالات پوچھئے کیونکہ دل کو جلانے والے کتنے غم فاطمہ (س) کو پہنچائے گئے ہیں۔ ان کا وہ کسی سے اظہار بھی نہیں کرسکتی تھیں اور بہت جلد وہ سب کچھ آپ کے سامنے بیان کریں گی۔ خدا اس کا فیصلہ کرے گا اور وہ بہتر حکم کرنے والا ہے۔
ابن بابویہ نے سند معتبر سے نقل کی ہے کہ زیادہ گریہ کرنے اور رونے والے پانچ اشخاص گزرے ہیں۔ آدم ؑ ، یعقوبؑ، یوسفؑ ، فاطمہ (س) بنت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور علیؑ ابن الحسینؑ۔ جناب آدم فراق جنت میں اتنا روئے کر ان کے رخساروں پر رونے سے دو لکیر یں پڑ گئیں تھیں اور یعقوبؑ یوسفؑ کے فرق میں اتنا روئے کہ نا بینا ہو گئے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ان سے کہا خدا کی قسم آپ ہمیشہ یوسفؑ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ قریب ہے کے آپ اپنے آپ کو مریض اور اپنے بدن کو غم میں گھلادیں گے یا ختم ہوجائیں گے اور یوسف ؑیعقوبؑ کی جدائی میں اتنا روئے کہ اس قید خانے کے لوگ جس میں جناب یوسف ؑقید تھے ان کے رونے سے اذیت و تکلیف میں تھے وہ کہتے تھے رات کو گریہ کرو اور دن کے وقت خاموش رہو یا دن کوگریہ کرو اور رات کو خاموش رہو۔ آپ نے ان سے مصالحت کی کہ ان میں سے ایک وقت روئیں گے اور دوسرے میں خاموش رہیں گے۔ اور جناب فاطمہ زھرا علیہا السلام اپنے باپ رسول خدا ؐکی وفات پر اتنا روئیں کہ آپ ؑکے رونے سے اہل مدینہ پریشان رہنے لگے اور کہنے لگے آپ کے زیادہ رونے سے ہمیں بہت دکھ پہنچتا ہے پس وہ بی بی مقبرہ شہداء احد میں چلی جاتی تھیں اور جتنا چاہتیں گریہ کرتیں اور پھر مدینہ واپس چلی جاتیں۔
باقی رہے علی بن الحسین علیہ السلام تو وہ اپنے باپ کی مصیبت پر بیس سال تک اور ایک روایت کے مطابق چالیس سال تک روئے کبھی آپ کے سامنے کھانا نہیں رکھا گیا کہ آپ نے گریہ نہ کیا ہو اور بھی پانی نہیں پیا کہ روئے نہ ہو۔ یہاں تک کہ آپ کے ایک آزاد کردہ غلام نے حضرت سے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں اے فرزند رسول ؐمجھے خوف ہے کہ کہیں آپ رو رو کر اپنے آپ کوختم نہ کر دیں ۔ حضرت ؑنے فرمایا کہ میں اپنی مصیبت کی شکایت خداسے کرتا ہوں اور میں خدا کی طرف سے اس چیز کو جانتا ہوں کہ جسے تم لوگ نہیں جانتے یاد رکھو کہ میں اولاد فاطمہ ؑکی شہادت کو جب یاد کرتا ہوں تو گریہ میرا گلو گیر ہوجاتا ہے۔
شیخ طوسیؒ نے ابن عباس سے سند معتبر کے ساتھ روایت کی ہے کہ جب رسول اکرمؐ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ اتنا روئے کہ آپؐ کے آنسو ریش مبارک پر جاری ہو ئے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ کے رونے کا سبب کیا ہے فرمایا میں اپنی اولاد پر جو میری امت کے برے لوگ میری وفات کے بعد ان سے سلوک کریں گ، اس پر روتا ہوں۔ گویا میں اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو دیکھ رہا ہوں کہ لوگ میری وفات کے بعد اس پر ظلم کر رہے ہیں۔ اور وہ (ابتاہ) اے بابا کہہ کے پکارتی ہے اور میری امت میں سے کوئی شخص اس کی مدد نہیں کرتا۔جب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے یہ بات سنی تو رونے لگیں۔ حضرت رسولؐ نے فرمایا کہ میری بیٹی گریہ نہ کرو، عرض کیا بابا میں اس پر نہیں روتی کہ آپؐ کے بعد یہ مجھ سے کیا سلوک کریں گےبلکہ میں آپ ؐکی جدائی پر گریہ کرتی ہوں۔ آپ ؐنے فرمایا:”بیٹی تمہیں بشارت ہوکہ تم جلدی مجھ سے آ ملو گی اور تم میرے اہلبیت کی پہلی فرد ہوگی جو مجھ سے آکر ملحق ہوگی۔
کتاب روضۃ الواعظین وغیرہ میں روایت کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سخت بیمار ہوئیں۔ ان کی بیماری چالیس دن تک طول کھینچا جب آپؐ نےاپنی وفات کو محسوس کیا تو ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کو بلایا اور انہیں بھیجا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ کو بلائیں۔ جب حضرت امیرالمؤمنینؑ تشریف لائےتو عرض کیا کہ اے پسر عم (چچا کے بیٹے)آسمان سے میری وفات کی خبر آچکی ہے اور میں سفر آخرت کرنے والی ہوں۔ آپؑ کو چند چیزوں کی وصیت کرتی ہوں جو میرے دل میں ہیں۔ آپؑ نے فرمایا اے رسول ؐ کی بیٹی جو چاہو وصیت کرو۔ پس آپؑ جناب زھرا (س) کے سرہانے بیٹھ گئے اور جو کوئی اس حجرے میں تھا اسے باہر بھیج دیا پھر عرض کیا اے پسر عم !کبھی آپ ؑ نے مجھے دروغ گو اور خائن نہیں پایا ہوگا، اور جس دن سے آپ نے مجھ سے معاشرت کی ہے میں نے آپ کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا معاذاللہ تم خدا کو زیادہ پہچانتی ہو۔ زیادہ نیکو کار،پرہیز گار اور زیادہ کریم ہو اور تم تو خدا سے بہت زیادہ ڈرتی ہو اس سے کہ میں تمہیں اپنی خلاف ورزی پر سرزنش کروں۔ تمہاری جدائی مجھ پر بہت گراں ہے لیکن موت ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی چارہ نہیں۔ خدا کی قسم تم نے میرے لیے رسول خدا ؐکی مصیبت کو تازہ کردیا اور تمہاری جدائی میرے لیے عظیم مصیبت ہے۔ پس ہم انا للہ وانا وانا الیہ راجعون ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس مصیبت پر جو زیادہ تکلیف پہنچانے والی زیادہ جلانے والی اور مجھے محزون کرنے والی ہے۔ خدا کی قسم یہ ایسی مصیبت ہے جس پر کوئی تسلی دینے والا نہیں اور ایسی بڑی مصیبت ہے کہ جس کا کوئی عوض نہیں پس کچھ دیر تک دونوں روتے رہے پھر حضرت امیرالمؤمنین ؑنے فرمایا ، جو چاہو وصیت کرو اور جو کچھ کہو گی میں اس پر عمل کروں گا اور تمہارے معاملہ کو اپنے معاملہ پر ترجیح دوں گا۔ جناب فاطمہ زھرا (س) نے عرض کیا؛ خداآپ کو جزائےخیر دے۔ اے رسول خدا کے پسر عم ؛ میں آپ کو پہلی وصیت یہ کرتی ہوں کہ میرے بعد امامہ کے ساتھ عقد کرکیونکہ مرد کے لیے بیوی کے بغیر چارہ کارنہیں ۔ وہ میری اولاد کے لیے میری طرح ہوگی ۔ پھر عرض کیا میرے لیے تابوت بنانا ۔ میں نے ملائکہ کو دیکھا ہے کہ انہوں نے تابوت کی شکل میرے لیے بنائی ہے۔ آپ ؑنے فرمایا اس کی شکل وصورت بیان کرو۔ سیدہ (س) نے بیان کیا اور آپ عنے وہ تابوت جناب سیدہ (س) کے لیے بنایا۔ یہ پہلا تابوت تھا جوزمین پر ان کے لیے بنا گیا ۔ فرمایا مزید آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کو میرے جنازے پرنہ آنے دینا جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میر احق غصب کیا ہے کیونکہ وہ میرے اور رسولؐ کےدشمن ہیں اور ان میں سے اور ان کے پیرو کاروں میں سے کسی ایک کو میرے جناز ہ پر نماز نہ پڑھنے دینااور مجھے رات کے وقت دفن کرنا اور کشف الغمہ وغیرہ میں روایت ہے کہ جب جناب فاطمہ (س) کی وفات قریب آگئی تو آپ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا کہ پانی لے آو تا کہ میں غسل کروں پس آپ ؑنے وضو کیا اور ایک روایت ہے کہ بہترین طریقہ سے غسل کیا اور خوشبو منگوا کر لگائی نیا لباس منگوا کر پہنا اور فرمایا اے اسماء میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل چالیس درہم کا فور بہشت سے لائے تھے حضرت نے اسے تین حصوں میں تقسیم فرمایا۔ ایک حصہ اپنے لیے رکھ لیا تھا۔ ایک میرے لیے اور ایک حصہ علیؑ کے لیے ۔ وہ کافور لے آ و تا کہ مجھے اس سے حنوط کریں۔ جب وہ کافور نے آئی تو فرمایا اسے میرے سرہانے رکھ دو ۔ پھر آپ ؑنے اپنے پاؤں قبلہ کی طرف دراز کئے اورلیٹ گئیں اور اوپر کپڑا ڈال لیا اور فرمایا اے اسما ء ایک لحظہ صبر کرنا پھر مجھے آواز دینااگر میں جواب نہ دوں تو علی ؑ کو بلانا اور سمجھ لینا میں اپنے پدر عالی قدر کے پاس چلی گئی ہوں۔ اسماء نے کچھ دیر توقف کیا اس کے بعد اس مخدرہ کو آواز دی تو جواب نہ ملا۔ پس کہنے لگی ، اے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی؛ اے اولاد آدم میں سے بہترین کی شہزادی، اے زمین پر چلنے والوں میں سے بہترین کی بیٹی، اے اس کی بیٹی جو شب معراج قاب قوسین اور ادنیٰ کے مقام پر پہنچا۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو آپ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ روح پر فتوح ریاض جناں کی طرف پرداز کر چکی ہے۔(انا للہ و انا الیہ راجعون) پس وہ ان کے بوسے لیتی تھی اور کہتی تھی کہ جب رسول خدا ؐکی خدمت میں جاؤ تو اسماء بنت عمیس کا سلام عرض کرنا۔ اس اثناء میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ گھر میں داخل ہوئے اور کہنے لگے اے اسما ء اس وقت ہماری ماں کیوں سوئی ہوئی ہیں ۔ اسما ء نے عرض کیا سوئی ہوئی نہیں بلکہ وہ تو رحمت رب الارباب میں جا چکی ہیں پس امام حسنؑ نے اپنے آپ کو ماں کے اوپر گرا دیا اور ان کے چہرہ انور کے بوسے لینے لگے اور کہتے کہ اے مادر گرامی مجھ سے بات کریں۔ اس سے پہلے کہ میری روح بدن سے نکلے اور امام حسینؑ ماں کے پاؤں پرگرے بوسے لیتے تھے اور کہتے مادر گرامی! میں آپ کا بیٹا حسین ؑ ہوں مجھ سے بات کریں۔ ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا پس اسماء نے کہا اسے رسول خدا کے جگر گوشوجاؤ اور اپنے پدرگرامی کو بلا لاؤ اور ماں کی موت کی خبرانہیں سناؤ۔ پس شہزادے گھر سے باہر نکلے جب مسجد کے قریب پہنچے تو بلند آواز سے رونے لگے ۔ صحابہ ان کے استقبال کودوڑے اور کہنے لگے آپ کس لیے روتے ہیں ۔ رسول خدا ؐکے فرزند و !خدا تمہاری آنکھوں کو کبھی نہ رلائے کیا ان کی جگہ خالی دیکھ کر ان کی ملاقات کے شوق میں رونے لگے ہو۔ شہزادے کہنے لگے ہماری ماں دنیا سے کو چ کر گیا ہے۔ جب حضرت امیرالمومنین ؑ نے یہ خبر وحشت اثر سنی تو آپ ؑ صدمہ سے بیہوش ہو گئے ۔ لوگوں نے آپ ؑکے چہرہ پر پانی چھڑکا تو آپ ؑ ہوش میں آئے اور فرماتے تھےتمہارے بعد اپنے آپ کوکس سے تسلی دوں گا۔ پس اس مخدّرہ کی مصیبت میں یہ دو اشعار کہے۔
لکل اجتماع من خلیلین فرقۃ
وکل الّذی دون الفراق قلیل
(فاطما بعد احمد)
وان افتقادی واحد بعد واحد
دلیل علی ان لا یدوم خلیل
( یعنی ہر دو دوستوں کا اجتماع جدائی پر جا کر ختم ہوتا ہے اور ہر مصیبت جدائی اور موت کے مقابلہ میں کم ہے۔ رسالتمآبؐ کے بعد فاطمہؑ کا چلا جانا میرے لیے دلیل ہے کہ کوئی دوست باقی نہیں رہتا)۔
روضۃ الواعظین کی روایت کے مطابق جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کی خبر مدینہ میں منتشر ہوئی تو مرد اور عورتیں اس مخدرہ کی مصیبت میں رونے لگے۔ نالہ و شیون مدینہ کے گھروں سے بلند ہوا اور لوگ آنحضرت ؐ کے گھر کی طرف دوڑے۔ بنی ہاشم کی عورتیں آپ کے گھر میں جمع ہوگئیں اور قریب تھا کہ ان کے گریہ و زاری سے مدینہ لرز نےلگے۔ وائے سیدہ (س) اے عورتیں کی سردار، اے پیغمبر آخرالزمانؐ کی شہزادی کہہ کہہ کر آپ کو پکارتی تھیں۔ لوگ گروہ در گروہ تعزیت کے لیے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں آنے لگے۔ حضرت ؑ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے حسینؑ بیٹھے رو رہے تھے اور لوگ ان کے رونے سے روتے تھے۔ جناب ام کلثوم ؑرسول خدا ؐ کی قبر کے پاس آئیں اور ان کی ہچکی بندھ گئی۔وہ کہتی تھیں اے بابا اے رسول خدا ؐآپ ؑکی مصیبت ہمارے لیے تازہ ہوگئی گویا آپ ؑآج ہی دنیا سے گئے ہیں۔ آپ ؑ اپنی بیٹی کو اپنے پاس لے گئے ہیں۔ لوگ جمع تھے اور رورہے تھے کہ اس انتظار میں تھے کہ جنازہ باہر آئے گا۔ پس حضرت ابوزر ؑ باہر آئے اور کہنے لگے جنازہ کے باہر آنے میں تاخیر ہے۔ یہ سن کر لوگ منتشر ہوگئے اور واپس چلے گئے ۔ جب کا کچھ حصہ گزر اور لوگ سوگئے تو جنازہ باہر لایا گیا۔ حضرت امیرالمؤمنینؑ ، حسنؑ و حسینؐ، عمار و مقداد، عقیل و زبیر سلمان و بریدہ اور بنی ہاشم کے ایک گروہ اور آنحضرتؐ کے خواص نے آپ ؑ کی تدفین کی تاکہ لوگ یہ معلوم نہ کر سکیں کہ اس مخدرہ کی قبر کونسی ہے ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مزید چالیس قبروں پر آپ ؑنے پانی چھڑکا تاکہ اس مظلومہ کی قبر ان میں مشتبہ ہوجائے۔ اور ایک روایت ہے کہ ان کی قبر کی زمین ہموار کردی تاکہ علامت قبر معلوم نہ ہوسکے۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ آپ ؑ کی قبر معلوم نہ ہو اور سیدہ (س) کی قبر نماز پڑھیں اور آپ ؑ کی قبر اکھاڑنے کا خیال نہ لائیں۔ اسی سے آپ ؑکے مقام قبر میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے قبور آئمہ علیہم السلام کے پاس بقیع میں اور بعض کہتے ہیں حضرت رسالت مآبؐ کی قبر اور ان کی منبر کے درمیان مدفون ہیں کیونکہ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ انہیں ان کے گھر میں ہی دفن کیا گیا۔ یہ قول زیادہ صحیح ہے جیسا کہ روایت صحیح اس پر دلالت کرتی ہے۔
ابن شہر آشوب اور دوسرے علماء نے روایت کی ہے کہ جب اس مخدرہ کو قبر میں رکھنے لگے تو قبر سے دو ہاتھ ظاہر ہوئے جو رسول خداؐ کے ہاتھوں سے مشابہ تھے۔ انہوں نے اس بی بی کو لے قبر میں رکھ دیا۔
اور شیخ طوسی اور کلینی نے معتبر اسناد کے ساتھ حضرت امام زین العابدینؑ اور امام حسینؑ سے روایت کی ہے کہ جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بیمار ہوئیں تو امیرالمؤمنینؑ سے وصیت کی کہ ان کی بیماری کو پوشیدہ رکھیں اور لوگوں کو ان کے حالات سے مطلع نہ کریں۔ اور کسی کو ان کی بیماری سے آگاہ نہ ہونے دیں۔پس حضرت ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے خود ان کی تیمارداری میں لگے رہے اور اسماء بنت عمیس ان امور میں حضرت کی معاون رہیں اور اس موت میں لوگوں سے ان کے حالات کو چھپائے رہیں۔ جب آپ ؑکی وفات قریب تر ہوئی تو وصیت کی کہ امیر المومنین ؑ خودان کوغسل و کفن دیں اور رات کے وقت انہیں دفن کریں۔ ان کی قبر کی زمین ہموار کر دیں پس امیرالمومنین ؑ خودان کے غسل و کفن اور دوسرے امور کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں رات کو فون کیا اور نشان قبر مٹادیا جب قبرکی مٹی اپنےہاتھ سے پھیلائی توحزن و اندوه جوش میں آیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے۔ حضرت رسولؐ کی قبر کی طرف رخ کر کے کہنے لگے۔آپؐ پر سلام ہو اے رسول خدا ؐمیری طرف سے اور آپ ؐکی بیٹی آپ ؐکی حبیبہ آپ ؐ کی نور چشم اور آپ ؐکی زیارت کرنے والی (آپ کی زیارت کے لیے آ رہی ہیں) کی طرف سے جو مٹی میں آپ کے سامنے لیٹی ہوئی ہے خدا وند عالم نے اہل بیت میں سے انہیں منتخب کیا کہ وہ جلدی آپ سے مل جا ئیں ۔ اے رسول خدا کی لخت جگر آپ نے میر اصبر چھین لیا اور بہترین خاتون کی جدائی سے میری طاقت کمزور ہوگئی۔ آپ ؐکی مصیبت میں صبر کرنے اور آپ ؐ کی جدائی کے غم و اندوہ کو برداشت کرنے میں یہ گنجائش ہے کہ اس مصیبت پربھی صبر کرلوں۔ بتحقیق آپ کو اور اپنے ہاتھ سے میں نے آپ کی آنکھیں بند کیں اور آپ کے امور میں خودکفیل ہوا۔جی ہاں خدا کی کتاب میں ہے وہ چیز کہ جسے قبول کرنا پڑتا ہے جو حق قبول ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
آپ ؐ نے اپنی امانت واپس لے لی ہے اور اپنی رہن شدہ چیز پلٹالی ہے۔ آپ ؐ نے اپنی زہراسلام اللہ علیہا کو مجھ سے لے لیا ہے اے رسول خدا ؐسبز آسان اور گرد آلودز مین مجھے کس قدر برے لگ رہے ہیں میراغم واندوہ ہمیشہ رہے گا اور میری راتیں بیداری میں کٹیں گی اور یہ غم و اندوہ مجھ سے نہیں جائے گا۔ جب تک خدا میرے لیے اس گھر کو پسند نہ کرے جس میں آپ قیام پذیر ہیں میرے دل میں ایسا زخم ہے جس میں پیپ پڑ گئی ہے اور میرے سینے میں ایساغم ہے جو باہر آ جاتا ہے۔ کتنا جلدی ہم میں جدائی پڑگئی۔ میں خدا کی بارگاہ میں اپنی حالت کی شکایت کرتا ہوں ۔ بہت جلدی آپ ؑکی بیٹی آپ کو بتائیں گی کہ آپ ؑ کی امت نے میرا حق غصب کرنے اور ان کے حق میں ظلم کرنے میں ایک دوسرے کی کتنی اعانت کی ہے۔
پس ان سے حالات پوچھئے گا۔ کتنے زیادہ غم ان کے سینے پر تہہ در تہہ بیٹھ چکے ہیں کہ جنہیں وہ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتی تھیں ۔ بہت جلدی وہ آپ کو بتادیں گی ۔ اور خدا ان کے حق میں کام کرے گا اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے۔ اے رسول خدا ؐوداع کرنے والے کا آپ پر سلام ہو، جو کسی دشمنی کی وجہ سے جدا نہیں ہورہا۔ اگر آپ کی قبر سے چلا جاؤں توکسی رنجش کی بناء پر نہیں اور اگر آپ کی قبر کے پاس بیٹھا رہوں تو یہ بدگمانی کی وجہ سے نہیں ان ثو ابوں سے متعلق کہ جن کا خدا نے صبر کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔ اگر اس گروہ کا غلبہ نہ ہوتا جو ہم پر غالب آگئے ہیں تو میں آپ کی قبر کے پاس بیٹھنا اپنے اوپر لازم قرار دیتا اور آپ ؐ کی ضریح کے پاس معتکف ہو جا تا ۔ اور اس بڑی مصیبت پر اس طرح فریاد بلند کرتا جس طرح پسر مردہ عورت فریاد کرتی ہے۔
پس خدا دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ میں آپ ؐکی بیٹی کو اس کے ان دشمنوں کے خوف سے کہ جنہوں نے اس کا حق قہر وغلبہ سے غصب کیا۔ ان سے چھپا کر دفن کر رہا ہوں ۔ علانیہ اس کی میراث کو روک لیا حالانکہ آپ ؐ کے زمانہ کو زیادہ وقت نہیں گزرا اور آپ ؐ کا نام پرانا نہیں ہوا پس اے خدا کے رسول آپ ؐسے میں شکایت کررہا ہوں اور آپ ؐکی اطاعت میں بڑی تسکین ہے پس خدا کی صلوات ورحمت اور اس کی برکتیں اس پر اور آپ ؐ پر ہو۔
علامہ مجلسی نے مصباح الانوار سے نقل کیا اور انہوں نے حضرت صادقؑ سے اور انہوں نے اپنے آبا و اجداد سے کہ امیرالمؤمنین ؑنے جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قبر میں رکھا تو فرمایا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بسم اللہ و باللہ وعلیٰ ملّۃ رسول اللہ محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلمتک ایتھا الصدّیقۃ الٰی من ھو اولٰی بک منی وجنیت لک بما رضی اللہ تعالٰی لک۔
پھر آپؑ نے یہ آیت تلاوت کی۔
مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی
پھر جب آپ ؑنے ان پر مٹی ڈالی تو حکم دیا کہ اس پر پانی ڈالا جائے۔ پھر اس مخدّرہ کی قبر کے پاس چشم گریاں اور دل محزوں و بریاں کے ساتھ بیٹھ گئے تو آپ ؑ کے چچا عباس نے آپ ؑ کا ہاتھ پکڑا اور قبر کے پاس سے اٹھا کے لے گئے۔ شیخ شہید نے کتاب دروس کے باب ہزار میں فرمایا ہے کہ حضرت فاطمه سلام اللہ علیہا دختر رسولؐ خدا زوجہ امیرالمومنین ؑ والدہ حسن ؑ وحسینؑ کی زیارت مستحب ہے۔
روایت ہے کہ اس محذرہ ؑنے فرمایا کہ میرے پدر بزرگوار نے مجھے خبردی ہے کہ جو ان پر اور مجھ پر تین دن سلام کرے تو خدا س کے لیے جنت واجب قرار دیتا ہے۔ جناب فاطمہ (س) سے عرض کیا گیا؛ آیا آپ کی زندگی میں ؟ فرمایا ہاں اوراسی طرح ہمارے وفات پانے کے بعد بھی ۔ جب زائراس محذرہ کی زیارت کرنا چاہے تو تین مقامات پر زیارت کرے آپ کے گھرمیں، روضہ میں اور بقیع میں۔
آپ ؑ کی ولادت بعثت کے پانچ سال بعد واقع ہوئی اور اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے تقریبا سودن بعد آپ ؑ رحمت خدا سے واصل ہوئیں۔ انتہی
علامہ مجلسی ؒ فرماتے ہیں کہ سید ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے روایت کی ہے کہ جوشخص ان محذرہ کی زیارت کرے۔ اس زیارت کے ساتھ وہ کہے۔
السلام عليك ياسيدة نساء العالمين السلام عليك ياوالدة الحجج على الناس اجمعین السلام عليك أيتها المظلومة الممنوعة حقها
پھر کہے۔
اللهم صل على أمتك وابنة نبيك وزوجة وصي نبيك صلوة تزلفها فوق زلفی عبادك المكرمين من اهل السؤت واھل الأرضين
پھر اپنے گناہوں کی خداوند عالم سے بخشش طلب کرے تو خدا اسے بخش دے گا اور جنت میں داخل کرے گا اور یہ مختصرزیارت ہے جو ہر وقت پڑھی جاسکتی ہے۔
مولف کہتا ہے کہ ہم نے کتاب الجناں اور ہدیۃ الزائرین میں آپ ؑ کی زیارت کا ثواب اور قبر کا اختلاف اور زیارت کی کیفیت بیان کر دی ہے او اس جگہ اسی پر اکتفا کر رہے ہیں۔
واضح ہو کہ آپ کی چاراولادیں ہیں ۔ امام حسن و امام حسین ۔ زینب کبری اور زینب صغری کہ جن کی کنیت ام کلثوم تھی سلام اللہ علیہم اجمعین ۔ اور آپؑ ایک فرزند سے حاملہ تھیں جس کا نام پیغمبر اکرم نے محسن رکھا تھا جو رسول خدا کی وفات کے بعد سقط ہوگیا تھا۔ شیخ صدوق نے حدیث نبوی (جو آپ نے امیر المومنین سے فرمائی تھی کہ” ان لك كنز في الجنة وانت زوقرنیها” کہ جنت میں تمہارے لیے ایک خزانہ ہے اور تم اس امت کے زوالقرنین ہو) کے معنی میں کہا ہے کہ میں نے اپنے بعض اساتذہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خزانہ جو پیغمبر اکرم نے حضرت امیر مومنین کے لیے جنت میں فرمایا یہ وہی محسن ہیں تو گھر کے دروازے کے فشار میں سقط ہوئے تھے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون