اصحاب امام علیؑ کی علمی و سماجی خدمات(حصہ دوم)

محمد عابدین
سماجی خدمات
میثم تمار کی سماجی خدمات میں سے یہ بھی بہت زیادہ عیاں ہے کہ آپ ایک کھجور فروش تھے جس کی وجہ سے آپ کو” تمار” کا لقب بھی ملا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ مظلوموں کی آواز تھے جس کی مثال پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ (رجال کشی، ص۸۶)
عمار یاسر
حضرت علیؑ کی صحبت اور ان سے کسب فیض کے شرف پانے والوں میں عمار یاسر کانام بھی سر فہرست شامل ہے۔عمار یاسر بھی حضرت علیؑ کے ان باوفا اور نور علم سے آرستہ، قوت ایمانی سے سرشار،حق و باطل کی پہچان،اصحاب میں سے ایک ہیں جن کی کنیت ابایقظان ہے جو چوتھے ارکان میں سے ہیں۔ تمام اصحاب امام علیؑ میں سے آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیا تو دشمن کے لئے اپنے باطل پر ہونے کا ثبوت رسول اکرمؐ کی عمار کے بارے میں موجود حدیث کی وجہ سے واضح اور آشکار ہوگیا اور دشمن کے درمیان بھی کافی شور و غل پیدا ہوا اگر چہ ظلم و جبر اور جھوٹ اور فریب کاری پر گامزن لوگوں نے اس میں بھی مختلف تاویلات پیش کرکے لوگوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آپ کےبارے میں پیغمبر کی حدیث مبارکہ ہے: وَ رَوَى اَلْمُحَدِّثُونَ فِي مَسَانِيدِهِمُ اَلصِّحَاحِ: أَنَّهُ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَالَ لِعَمَّارٍ تَقْتُلُكَ اَلْفِئَةُ اَلْبَاغِيَةُ: وَ فِي آخَرَ تَقْتُلُ عَمَّاراً اَلْفِئَةُ اَلْبَاغِيَةُ وَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ أَنَّهُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ لِعَمَّارٍ أَبْشِرْ تَقْتُلُكَ اَلْفِئَةُ اَلْبَاغِيَةُ۔
محدثین نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے عمار کے بارے میں فرمایا کہ ایک باغی گروہ آپ کو قتل کرےگا اور کسی دوسری روایت میں ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ایک اور حدیث میں فرمایا عمار کےلیے بشارت ہو تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
سماجی خدمات
آپ کی سماجی خدمات میں آپ کا یہ کارنامہ زبان زد عام ہے کہ آپ نے اپنے مولا کی مدد اور دین کی ترویج کےلیے مینار حق بن کر جنگ صفین میں شریک ہوئے اور آپ کا اس معرکہ حق و باطل میں شرکت کرنااور جام شہادت نوش کرنا تمام مسلمانان عالم کے لیے قیامت کے لیے جنگ صفین میں علیؑ کی حقانیت کے دلیل بن گئی ہے کیونکہ رسول خداؐ کی یہ حدیث تمام مسلمانوں نے سن رکھی تھی اور تمام محدث اور مورخ نے بھی لکھا تھا کہ رسول خداؐ نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا کہ "قَالَ عَمَّارٌ رَضِيَ اَللّٰهُ عَنْهُ يَوْمَ صِفِّينَ اِئْتُونِي بِشَرْبَةِ لَبَنٍ فَأُتِيَ فَشَرِبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَالَ إِنَّ آخِرَ شَرْبَةٍ تَشْرَبُهَا مِنَ اَلدُّنْيَا شَرْبَةُ لَبَنٍ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ فَلَمَّا قُتِلَ أَخَذَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ بِسَيْفِهِ فَقَاتَلَ وَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اَللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَقُولُ يَقْتُلُ عَمَّاراً اَلْفِئَةُ اَلْبَاغِيَةُ وَ قَاتِلُهُ فِي اَلنَّارِ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ مَا نَحْنُ قَتَلْنَاهُ إِنَّمَا قَتَلَهُ مَنْ جَاءَ بِهِ”
عمار رضی اللہ عنہ نے صفین کے دن کہا کہ میرے لیے دودھ پلاؤ ، تو دودھ لایاگیا اوراس نے پیا اور پھر عرض کیا کہ رسول اللہؐ اور آپ کی آل پر درود و سلام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کا بہترین مشروب جو تم پی سکتے ہو وہ دودھ کا پینا ہے، پھر وہ آگے بڑھے اور مارے گئے، جب وہ مارے گئے تو خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار لے کر لڑائی کی اور کہا: میں نے رسول خداؐ کو سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ عمار کو فاسق گروہ قتل کرے گا اور اس کا قاتل جہنم میں جائے گا، معاویہ نے کہا کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ جو اسے لایا اس نے قتل کیا۔
یہ وجہ تھی کہ آج بھی تمام تر تاویلات اور رد و بدل کے باوجود ہر منصف مزاج اور عقل بشری سے متحمل شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علیؑ حق پر تھےاور معاویہ باطل پر تھا۔
اور اس کے علاوہ عمار خلافت عمر کے دور میں ایک شجاع اور بہادر گورنر بنے اور اس شہر میں مسلمانوں کی فوج کا سپہ سالار بنے۔ عمار کی کمان کے دوران نہاوند جنگ ہوئی اور ایران کے اندرونی علاقوں کا ایک حصہ فتح ہو گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد انہیں اس عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ بعض رپورٹوں میں لوگوں کی عدم اطمینان اور عمر بن خطاب سے عمار کو ہٹانے کی درخواست کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک رپورٹ میں لوگوں کے احتجاج کو عمار کی کمزوری اور سیاست سے لاعلمی قرار دیا گیا تھا۔
اور اس کے علاوہ بعض روایات کے مطابق مسجد قبا کی تعمیر میں آپ نے شرکت کی اور آپ نے ہی مسجد کی تعمیر کا مشورہ دیا تھا۔
مالک اشتر
امام علیؑ کے اصحاب میں سے ایک مشہور اور معروف صحابی مالک بن حارث النخعی (جو کہ مالک اشتر سے مشہور ہیں)ہیں۔ آپ امامؑ کے مشہور اور باوفا صحابی او ر آپ کے جان نثار، عالم، بہادر، شجاع اور نڈر سپاہ سالاروں میں سے تھے۔ آپ بہت سارے اخلاق حسنہ سے متصف تھے اور جن میں سے سب سے مشہور صفت صفت شجاعت اور بہادری ہے جس میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جس میں آپ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا او راس کے علاوہ آپ عاشق محمد و آلہ تھے اور ان کےلیے اور دین کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے جس کی مثال کتابوں میں درج ہے۔ اور آپ کی شجاعت کا اعتراف دوستوں سے زیادہ دشمنوں نے کئے ہیں۔
آپ کی فضیلت کے لیے صرف ایک روایت کافی ہے جس کو امام علیؑ نے آپ کی شہادت کی خبر سن کرفرمایا تھا۔
قَالَ حَدَّثَنَا عَوَانَةُ قَالَ: لَمَّا جَاءَ هَلاَكُ اَلْأَشْتَرِ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِ صَعِدَ اَلْمِنْبَرَ فَخَطَبَ اَلنَّاسَ ثُمَّ قَالَ أَلاَ إِنَّ مَالِكَ بْنَ اَلْحَارِثِ قَدْ مَضَى نَحْبَهُ وَ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَ لَقِيَ رَبَّهُ فَرَحِمَ اَللّٰهُ مَالِكاً لَوْ كَانَ جَبَلاً لَكَانَ فَذّاً وَ لَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً لِلّٰهِ مَالِكٌ وَ مَا مَالِكٌ وَ هَلْ قَامَتِ اَلنِّسَاءُ عَنْ مِثْلِ مَالِكٍ وَ هَلْ مَوْجُودٌ كَمَالِكٍ قَالَ فَلَمَّا نَزَلَ وَ دَخَلَ اَلْقَصْرَ أَقْبَلَ عَلَيْهِ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالُوا لَشَدَّ مَا جَزِعْتَ عَلَيْهِ وَ لَقَدْ هَلَكَ قَالَ أَمَا وَ اَللّٰهِ هَلاَكُهُ فَقَدْ أَعَزَّ أَهْلَ اَلْمَغْرِبِ وَ أَذَلَّ أَهْلَ اَلْمَشْرِقِ قَالَ وَ بَكَى عَلَيْهِ أَيَّاماً وَ حَزِنَ عَلَيْهِ حُزْناً شَدِيداً وَ قَالَ لاَ أَرَى مِثْلَهُ بَعْدَهُ أَبَداً۔(سید علی اصدق نقوی، کتاب الممدوحین والمقبوحین، ج 3 ص 349 ، ناشر موسسۃ الذکر لاہور۔ پاکستان)
جب اشتر کی وفات کی خبر امام علیؑ تک پہنچی تو وہ منبر پر آئے اور انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور پھر فرمایا: جان لو مالک بن حارث رضی اللہ عنہ وفات پاچکے ہیں اور انہوں نے اپنا عہد پورا کیا ہے اور اپنے رب سے جاملے ہیں، تو اللہ رحم کرے مالک پر، اگر وہ پہاڑ ہوتے تو منفرد ہوتے اور اگر پتھر ہوتے تو اللہ کی خاطر سخت ہوتے۔ مالک اور کیا عورتوں نے مالک جیسا جنا ہے؟ اور کیا مالک جیسا کوئی موجود ہے؟ راوی نے کہا جب امامؑ منبر سے اترے تو محل میں داخل ہوئے اور ان کے پاس قریش کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا: آپ کو بہت سخت دکھ ہواہے ان پر جبکہ وہ فوت ہوچکے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: جان لو خدا کی قسم ان کی فوتگی سے، اللہ نے اہل مغرب کوعزت دی ہے اور اہل مشرق کو ذلت دی ہے۔ راوی نے کہا: کچھ دن ان پر گریہ کرتے رہے اور امامؑ کو شدید غم ہوا اور انہوں نے فرمایا: میں کبھی اس جیسا اس کے بعد نہیں دیکھوں گا ”
سماجی خدمات
مالک اشتر کی سماجی خدمات بھی بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے ان کی مولا علیؑ کی مدد میں کی جانے والی جنگیں زیادہ مشہور ہیں۔
جنگ جمل
جیسا کہ کہا گیا ہے جب طلحہ، زبیر اور عائشہ خون عثمان کا بدلہ لینے کے نام پر اور قاتلوں کی اصلاح کے لیے نکلے تو مالک کو امام علیؑ کے بہت سے اہم ساتھیوں کے ساتھ کوفہ بھیجا گیا تاکہ کوفہ کے لوگوں کو امام علیؑ کی حمایت پر آمادہ کیا جا سکے۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور امام علیؑ تک مدد پہنچائی۔ مالک جنگ جمل (36 ہجری / 656 عیسوی) میں موجود تھےاور ذرائع میں ان کے اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ مالک کی بہادری کے دیگر اقدامات کا ذکر مختلف کتب میں موجودہے۔
جنگ صفین
مالک اشتر جنگ صفین میں امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کے لشکر کے سپہ سالار تھے اور جب آپ معاویہ بن ابو سفیان کے لشکر کو چیرتے ہوئے معاویہ بن ابو سفیان کے آخری ٹھکانے پر حملہ آور ہوئے تو اس وقت معاویہ بن ابو سفیان کو اپنی شکست اورامیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کی کامیابی کے آثار نمایاں دکھائی دینے لگے تو اس نے علی بن ابی طالب کے سادہ لوح سپاہیوں کو فریب دینے کی خاطر قرآن کو نیزوں پر اٹھایا اور قرآن کی حاکمیت کی طرف دعوت دیا۔ حضرت علی بن ابی طالبؑ کے سپاہیوں میں سے تقریباً 20000 سپاہی امام کے گرد جمع ہو گئے اور آپ سے مالک اشتر کو واپس بلانے کی درخواست کی اور نہ ماننے کی صورت میں امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔امام علی بن ابی طالبؑ نے ان کو معاویہ بن ابو سفیان اور عمرو عاص کی فریب کاری سے باخبر کرایا اور کچھ لمحوں کی مہلت مانگی تاکہ برائی اور فتنہ و فساد کے آخری ٹھکانے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے لیکن انہوں نےآپ کی بات نہ سنی اور مالک اشتر کو واپس بلانے پر اصرار کرنے لگے یوں حضرت علی بن ابی طالبؑ نے مجبور ہوکر مالک کو واپس بلا لیا۔
مالک اشتر لیلۃ الہریر کی صبح معاویہ بن ابو سفیان کے لشکر کے آخری ٹھکانے پر حملہ آور ہو رہے تھے اس لیے قاصد کو واپس بھیجا اور کہا کہ اب میرے واپس آنے کا وقت نہیں ہے مجھے اور تھوڑی بہت مہلت دے دیں تو شاید خدا آج میرے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح نصیب کرے گا لہٰذا مجھے واپس نہ بلایا جائے۔
قاصد علی بن ابی طالب کی خدمت میں آیا اور مالک اشتر کا پیغام پہنچایا اس وقت معترضین حضرت علیؑ سے بھی بدبین ہو گئے اور کہا کہ کیا آپ نے مالک اشتر کو بلایا بھی ہے کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا میں نے تمہارے سامنے اسے پیغام بھیجا ہے اور تم نے خود میری باتوں کو سنا بھی ہے۔ انہوں نے آپ کو دوبارہ مالک اشتر کی طرف پیغام بھیجنے پر مجبور کیا اور کہا کہ اگر تم واپس نہیں آؤگے تو ہم آپ کی خلافت سے عزل کریں گے۔ اس وقت علی بن ابی طالب نے قاصد سے کہا کہ مالک اشتر سے کہو واپس آجائیں کیونکہ فتنے نے سر اٹھایا ہے۔ قاصد نے مالک اشتر کے پاس جا کر جب یہ پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ آیا یہ فتنہ اس قرآن کے نیزوں پر بلند ہونے کی وجہ سے ہے؟ قاصد نے جواب دیا ہاں۔ اس وقت مالک اشتر نے کہا خدا کی قسم جب قرآن نیزوں پر بلند ہوا تو میں سمجھ گیا تھا کہ یہ چیز ہمارے درمیان اختلاف کا سبب بنے گا لیکن کیا اس سنہرے موقع(فتح) کو ہاتھ سے جانے دینا عقل مندی کا کام ہے؟ قاصد نے مالک اشتر سے کہا اچھا کیا تمہیں پسند ہے کہ تم یہاں معاویہ بن ابو سفیان پر جیت جاؤ اور وہاں امیر المومنینؑ اپنے لشکریوں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں؟ مالک اشتر نے کہا سبحان اللہ ہرگز مجھے ایسا پسند نہیں ہے۔ قاصد نے کہا انہوں نےامیر المومنینؑ سے کہا ہے کہ یا مالک اشتر واپس آئے یا ہم آپ کو شہید کر دیں گے جس طرح عثمان بن عفان کو قتل کیا ہے یا یہ کہ آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں گے۔
یوں مالک اشتر میدان جنگ سے واپس آئے۔ جنگ سے واپس آکر آپ نے مخالفین سے مذاکرات کیے اور ان کی سرزنش کی اور ایک دوسرے سے لڑنے لگے یہاں تک کہ حضرت علی بن ابی طالبؑ نے ان کو ٹوکا اور اس کام سے انہیں باز رکھا۔ مالک اشتر حاکمیت کے مخالف تھے لیکن چونکہ امیر المومنینؑ نے اسے قبول کیا تھا اس لیے آپ نے امام کی پیروی کی۔(الامین، اعیان الشیعہ، ج 9، ص 39)
خلاصہ
امام علیؑ کے باوفا اصحاب کی تعداد اگر چہ علما ء کرام نے متعدد ذکر کئے ہیں لیکن ان میں سے بعض زیادہ مشہور اور ان کے کارنامے نہایت ہی قابل ذکر ہیں۔ ان کارناموں اور ان کے کردار و رفتار اور ان کے امام کے ساتھ موجود والہانہ محبت کی وجہ سے امامؑ کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر بھی ہمیشہ ہر عاشق امام علیؑ اور رسولؐ کے زباں سے جاری ہوتاہے۔
ان کے ان کارناموں میں سے جو قابل ذکر کارنامے ہیں مختلف اصحاب کی جیسا کہ اصبغ بن نباتہ کا شرط الخمیس کا رکن ہونا اور امام کے ساتھ ہمیشہ جان نثاری کا مظاہر ہ کرنا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا اور اسی طرح میثم کادرخت کی ٹہنیوں پر بھی ذکر مولا کرنااور دشمن او ران سبھی قید و بند اور مشکلات کے باوجود امام کا ساتھ دینا اور آخری سانس تک امام کو یاد کرنا نہایت ہی قابل ذکر ہیں۔ اور اسی طرح دیگر اصحاب کا احادیث ائمہ اور رسول خدا کی احادیث پر مکمل پابندی کے باوجود امام کی باتوں اور احادیث مبارکہ کو اس پر آشوپ دور میں دوسروں تک پہنچانا اور خود اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی تلقین کرنا واقعاً ایک مشکل کام تھا لیکن ان اصحاب باوفا اور مومنین نے یہ کام کر کے صدیاں بعد میں آنے والوں کے لیے نمونہ عمل چھوڑا دیا۔