شخصیاتمحافلمناقب اولاد معصومین ؑمناقب و فضائل

حضرت عباس علیہ السلام کی صفات کمالیہ

مؤلف: سید پیغمبر عباس علیہ السلام نوگانوی
قرآن مجید کے سورہٴ مریم میں جناب زکریا علیہ السلام کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے،
حضرت فاطمہ بنت اسد علیھا السلام کی دعا اور تمنا سے حضرت امام علی علیہ السلام نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت امام علی علیہ السلام کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس علیہ السلام نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس علیہ السلام کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے
لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے،
ہندوستانی علماء نے حضرت عباس علیہ السلام کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی لثانی،کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے۲۶/جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران۴ شعبان پر متفق ہیں،جو مطابق ہے ۱۸/مئی ۶۴۷ء بروز منگل،آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس علیہ السلام نام رکھا گیا،
عباس علیہ السلام عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا،ترش رو ہونا،چیں بجبیں ہونا ہے
اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن ۴۰ ہجری میں حضرت امام علی علیہ السلام نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس علیہ السلام کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹوں حسن و حسین علیھما السلام سے منہ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس علیہ السلام کا ہاتھ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا
جیسا کہ حضرت امام علی علیہ السلام کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس علیہ السلام کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت امام علی علیہ السلام مسلسل حضرت عباس علیہ السلام سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے ،تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اورر کچھ نہیں ہے ،
ایک بار جناب ام البنین علیھا السلام مادر حضرت عباس علیہ السلام تشریف فرما تھیں اور حضرت عباس علیہ السلام کا بچپن تھا مولائے کائناتؑ نے اپنے فرزند عباس علیہ السلام کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازووٴں کو بوسے دینے لگے،ام البنین علیھا السلام نے آپؑ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کی :مولا !یہ کیسا طریقہ محبت ہے یہ بازوٴں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں ،یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے،آپ نے فرمایا:
’’ام البنین علیھا السلام !تمہارا یہ لال کربلا میں شہید ہوگا،اس کے شانے قلم ہوں گے،پروردگار اسے دوپر عنایت کرے گا جس سے یہ جعفر طیار کی طرح جنت میں پروز کرے گا‘‘۔
یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف جنت الفردوس ،مولائے کائناتؑ، حضرت عبا س علیہ السلام کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہوکر قربانی نہیں دیاکرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔
جب شب عاشور زہیر قین نے یاد دلایا اور کہا عباس علیہ السلام !آپ کو یاد ہے کہ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کو کس دن کے لئے مہیا کیاہے؟ تو حضرت عباس علیہ السلام نے اس طرح انگڑائی لی کہ رکابیں ٹوٹ گئیں اور فرمایا: اے زہیر آج کے دن شجاعت دلارہے ہو،عاشور کی رات تمام ہونے دو اور صبح کا وقت آنے دو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ بیٹے نے باپ کے مقصد کو کس انداز سے پورا کیا ہے اور عباس علیہ السلام اپنے عہد و فا پر کس طرح قائم ہے ،دشمن کو میدان میں تلوار کا پانی پلانا واقعاً شجاعت ہے لیکن جب جذبات تلوار چلانے پر پوری طرح آمادہ ہوں تو اس وقت اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے تلوار نہ چلانا اس سے بھی بڑی شجاعت ہے ،جناب عباس علیہ السلام نے صرف صفین کی جنگ میں تلوار چلائی باقی موقعوں پر آپ نے اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی تلوار نیام ہی میں رکھی ،امام حسن علیہ السلام کے جنازے کی بے حرمتی،والد بزرگوار کی شان میں منبر سے گستاخی ،مخلصین کا بے دردی سے قتل ،کربلا میں فرات سے خیمے ہٹائے جانے کا مطالبہ یہ تمام وہ مواقع تھے جہاں حضرت عباس علیہ السلام کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی تھے لیکن آپ نے ان موقعوں پر بھی اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شجاعت کی مثال قائم کردی ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کمالات و اوصاف سے حضرت عباس علیہ السلام متصف تھے جو آپ کو معصوم علی جیسے امام سے ورثہ میں ملے تھے،ان کمالات کا احصاء کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ،یہ توہم تذکرہ کے طور پر تبرکاً تحریر کر رہے ہیں،اسلامی لشکر کی علمداری،پیاس کی شدت سے انسانوں کی جان بچا نے کو سقائی اور عبد صالح کا خطاب وہ صفات ہیں جن میں حضرت عباس علیہ السلام کو کمال حاصل تھا،لشکر کی علمبرداری ہی کو لے لیجئے ہر قوم اپنے پرچم یا علم کو اپنی عزت و عظمت کا نشان سمجھتی ہے بالخصوص میدانِ کارزار میں جنگ کے درمیان دونوں فوجیں اپنا اپنا علم بلند رکھتی ہیں جس کا پرچم بلند رہتا ہے اُ س لشکر کو فتح مند قرار دیاجاتاہے اور جس فوج کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے وہ شکست خوردہ سمجھی جاتی تھی،اسی لئے علمدار کا باقاعدہ انتخاب کیاجاتاتھا اور علم اس شخص کو دیاجاتاتھا جس میں ایک ماہر اوربہادر کمانڈر کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں ،جسے علم مل جاتا تھا اُس کا سر افتخار سے بلند رہتاتھا ،
علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہئے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے اور شدائد کا مقابلہ کرسکے وہی محافظ کہاجاسکتاہے اور جو محافظت کا اہل ہوتاہے وہی پرچم کے گردو پیش رہتاہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتاہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ،وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کردیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں“۔
امام علی علیہ السلام کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع،بہادر،محافظ، غیرت دار،ثابت قدم، مستقل مزاج اورصابر انسان ہوتا ہے ،کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم ،مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کررہے تھے،حضرت عباس علیہ السلام کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے،سقائی یعنی پانی پلانا،کسی کو پانی پلاکر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لئے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خدا وند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیاہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
’’اور ہم نے آسمان سے پانی اس لئے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے
’’جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘۔
اب اگر پانی پلاکر کسی کی زندگی کو بچالیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا،پانی پلاکر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہوسکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہاہو تو وضو کا پانی پلاکر جاندار کی زندگی بچالی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ،
حضرت عباس علیہ السلام ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں ،سن ۳۴ ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی ٴ کوثر حضرت امام علی علیہ السلام نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے،یہاں بھی حضرت عباس علیہ السلام کی عمر اگرچہ ۸ سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی۔
تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیاتھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھاگیا تھا ،جن لوگوں نے حضرت عثمان اوران کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو حضرت عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا ،اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے،بہر حال اسی طرح سن ۶۰ ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں ،گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین علیہ السلام نے جناب عباس علیہ السلام کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھاکر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی ۔
حضرت عباس علیہ السلام نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کردیااور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منھ نہ پھیر لیا،لیکن ۶۱ ہجری میں حضرت عباس علیہ السلام نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچادیا ،علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت امام علی علیہ السلام سے ورثہ میں ملی تھی ،حضرت امام علی علیہ السلام کو ساقی ٴ کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا۔
لیکن عباس علیہ السلام کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے ،سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے،حضرت امام علی علیہ السلام نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس علیہ السلام نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ،
اس مقصد کے لئے آپ نے کربلا میں متعدد کنوئیں کھودے لیکن پانی نہ نکلا،ادھر امام حسین علیہ السلام کے 6ماہ کے بچے علی اصغر پیاس کی وجہ سے لب دم ہیں ،مچھلی جب پانی سے باہر آجاتی ہے تو اس کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ بہت زیادہ تڑپتی ہے اور دوسری کیفیت وہ جب اس کی تڑپ اور حرکت میں کمی آجاتی ہے اور تیسری کیفیت یہ کہ اُس سے تڑپا بھی نہیں جاتا وہ صرف منھ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرتی ہے ،
روز عاشور کربلا میں حضرت امام علی علیہ السلام اصغر کی یہی کیفیت تھی ،آپ بے حس و حرکت پیاس کی شدت اور تکلیف سے اسی طرح برداشت کررہے تھے،بچوں کی یہ حالت جناب عباس علیہ السلام سے نہ دیکھی گئی،ادھر آپ کی بھتیجی سکینہ نے آپ سے پانی کا مطالبہ بھی کردیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آ پ نے امام حسین علیہ السلام سے اجازت طلب کی ،
اجازت ملنے کے بعد آپ دریا پر پہنچے ،دریا پر قبضہ کرنے کے بعد بھی آپ نے پانی لبوں کو نہ لگایا،بچوں کے لئے مشکیزہ بھر لیا لیکن پانی بچوں تک نہ پہنچ سکا اور آپ نے پانی مہیا کرنے پراپنی جان بھی قربان کردی اس سقائی کی حسرت آپ کے دل ہی میں رہ گئی ،حضرت عباس علیہ السلام کی تیسری صفت کمالیہ ”عبد صالح“ کا وہ خطاب ہے جو تمام انبیاء کو بھی نصیب نہ ہوا ،
قرآن مجید میں اللہ نے حضرت داوٴد علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت ایوب علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبد صالح کا خطاب دیا ہے،غیر انبیاء اور ائمہ میں صرف حضرت عباس علیہ السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام نے زیارت حضرت عباس علیہ السلام میں دی ہے ،اس کی روایت ابو حمزہ ثمالی نے کی ہے ،
حضرت عباس علیہ السلام کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’السلام علیک ایها العبد الصالح‘‘
’’ اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو ‘‘۔
ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں (عباد الصالحین) پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں
’’السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین‘‘
’’ہمارے اوپر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو‘‘۔
اس سلام میں انبیاء اور ائمہ کے ساتھ ساتھ حضرت عباس علیہ السلام بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں۔
اس مقالہ کو الحسنین نیٹ ورک کی ویب سائٹ سے لیا ہے۔ ادارے کا مقالہ نگار کی آراء سے متفق ہونا لازمی نہیں۔
Source: alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button