محافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام(حصہ دوم)

۶۔ آیہ تطہیر
"انما یرید اللّٰه لیذہب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا”۔(19)
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
آیت تطہیر، اہل بیت علیہم السلام کے فضائل میں چمکتا ستارہ ہے۔ اس میں بلند مطالب اور فائدہ مند نکات ہیں جو ہر حق طلب محقق کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ہم ان میں سے چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں۔
شان نزول
علامہ طباطبائی "المیزان” میں فرماتے ہیں ستر ۷۰ سے زیادہ روایتیں اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت تطہیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم، حضرت علی(علیہ السّلام)، حضرت فاطمہ (علیہا السّلام)، حضرت حسن(علیہ السّلام)، حضرت حسین(علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان کے علاوہ کوئی اس میں شامل نہیں۔کچھ روایتیں اہلسنت کی ہیں اور کچھ اہل تشیع کی ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اہل تشیع سے زیادہ روایتیں اہلسنت کی ہیں۔ (20)
ڈاکٹر تیجانی نے اپنی کتاب "فاسئلوا اھل الذکر” میں اہلسنت کی حدیث کی معتبر کتابوں میں سے تیس ۳۰سے زیادہ کتابیں ذکر کیں ہیں جو اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت تطہیر اہل بیت(علیہم السلام)یعنی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، حضرت علی(علیہ السلام)، حضرت فاطمہ(علیہا السلام)، حضرت حسن(علیہ السلام)، حضرت حسین(علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور آخر میں فرماتے ہیں اہلسنت کے زیادہ تر علما ءآیت تطہیر کو اہلبیت (علیہم السلام) کی شان میں سجھتے ہیں اور ہم بھی اس مقدار کو کافی سمجھتے ہیں۔(21)
آلوسی جو کہ اہلسنت کا عالم ہے وہ بھی آیت تطہیر کو حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت علیہم السلام کی شان میں سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
اہلبیت (علیہم السلام) سے مراد وہ ہستیاں ہیں جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے چادر کے نیچے جمع کیا اور ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: "اللّٰهم هؤلاء اهل بیتی فاجعل صلواتک و برکاتک علی آل محمد کما جعلتها علی آل ابراهیم انک حمید مجید”۔پروردگارا یہ میرے اہلبیت(علیہم السلام) ہیں ان پر درودوسلام نازل فرماجس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود وسلام نازل فرمایا بے شک تیری ہستی بلندو بالا ہے۔(22)
وہ روایتیں جوآیت تطہیر کے متعلق حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی چار قسمیں ہیں:
۱۔ وہ روایتیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کی ازواج مطہرہ سے نقل ہیں وہ فرماتی ہیں ہم چادر تطہیر سے باہر ہیں۔(23)
۲۔ وہ روایتیں جو حدیث کسا ء کے بارے میں ہیں۔ (24)
۳۔وہ روایتیں جو کہتی ہیں کہ آیت تطہیر کے نازل ہونے کےبعد چھ ۶ ماہ تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہر نماز کے وقت حضرت علی(علیہ السلام) اور فاطمہ(علیہا السلام)کے گھر کے دروازے پر جاتے اور فرماتے : "الصلوة! یا اهل البیت! انما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطہرکم تطهیرا”؛ اے اہلبیت نماز کا وقت ہو چکا ہے!پس اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔(25)
۴۔ وہ روایتیں جو ابوسعید خدری سے ہم تک پہنچیں ہیں۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں"نزلت فی خمسة: فی رسول اللّٰه و علی و فاطمة والحسن والحسین(علیهم السّلام)” یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، حضرت علی (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ(علیہا السلام)، حضرت حسن(علیہ السلام)، حضرت حسین (علیہ السلام) کے شان میں نازل ہوئی ہے۔(26)
ہم یہاں اس بات کو پورا کرنے کیلئے حضرت عائشہ سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں جو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ثعلبی لکھتا ہے جب حضرت عائشہ جنگ جمل میں آئی۔ کسی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا، حضرت عائشہ نے افسوسناک انداز میں کہا یہی تقدیر الہٰی تھی۔ اور جب حضرت عائشہ سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس طرح سے جواب دیا‌"تسالنی عن احب الناس کان الی رسول اللّٰه و زوج احب الناس کان الی رسول اللّٰه، لقد رایت علیا و فاطمة و حسنا و حسینا و جمع رسول اللّٰه بثوب علیهم. ثم قال: اللّٰهم هؤلاء اهل بیتی و حامتی فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا. قالت: فقلت: یا رسول اللّٰه انا من اهلک فقال: تنحی فانک الی خیر۔مجھ سے اس شخص کے بارے میں کیا پوچھتے ہو جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کا محبوب ترین شخص ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرت علی (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)، حضرت حسن(علیہ السلام)، حضرت حسین (علیہ السلام) کو رسول اکرم نے ایک چادر میں بلاکر ارشاد فرمایا: خدایا!یہی میرے اہلبیت (علیہم السلام)ہیں، یہی میرے حامی ہیں، پروردگار ان سے رجس کو دور فرما اور اس طرح پاک کردے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ رسول اکرم نے ارشاد فرمایادور ہوجاؤ تم نیکی پہ ہو۔(پر اہل بیت (علیہم السلام) میں شامل نہیں)(27)
۷- آیہ مباہلہ
فمن حاجک فیه من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین۔ (28)
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
لغت میں "ابتھال” کا معنی کسی فرد یا حیوان کو اس کے حال پر چھوڑنا ہے۔ اور اصطلاح میں "ابتھال” کا معنی نفرین کرناہے اور "مباہلہ” کا معنی دو شخصوں کا ایک دوسرے پر نفرین کرنا ہے۔ اس معنی کے مطابق جب دو شخص دینی مسئلے پہ گفتگو کریں اور کوئی زبانی دلیل کام نہ آئے تو دونوں ساتھ ملکر اللہ تعالی کی بارگا ہ میں درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار جھوٹے کو ذلیل اور رسوا کردے۔(29)
شان نزول
جو اسلامی روایتیں محدثین اور مفسرین نے نقل کی ہیں ان سے سمجھ میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے نجران کے مسیحیوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔ عیسائی علما ءنے ایک دن کی مہلت مانگی تاکہ اس بارے میں غوروفکر کریں۔ اسقف نے ان سے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)اپنے خاندان اور بیٹوں کے ساتھ آئے تو مباہلہ نہ کرنا اور اگر اپنے اصحاب کے ساتھ آئے تو ان سے مباہلہ کرنا کیونکہ اس صورت میں وہ حق پر نہ ہوں گے۔
اگلے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس صورت میں آئے کہ حضرت علی علیہ السلام کاہاتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام ساتھ تھے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام پیچھے تھیں اور دوسری طرف سے مسیحی اپنے اسقف اعظم کے ساتھ آئے۔ جب انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو چند افراد کے ساتھ دیکھا تو پوچھا یہ کون ہیں؟کسی نے جواب دیا: ان میں سے ایک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کا چچا زاد بھائی اور داماد ہے اور یہ دو نوں بچے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی دختر کے بیٹے ہیں اور یہ خاتون رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کی بیٹی ہے۔ یہ سب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے نزدیک ترین افراد ہیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کو بہت پیارے ہیں۔ جب اسقف نے ان کو دیکھا تو بولا:میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں جو یقین اور اطمینان کے ساتھ مباہلہ کرنے آئے ہیں، میں ڈرتا ہوں کہیں یہ سچے نہ ہوں! اگر یہ سچے نکلے تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ اسقف نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے کہا اے اباالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)ہم تم سے ہرگزمباہلہ نہ کریں گے، ہم سے صلح کرلو۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ جب اسقف نے اہلبیت (علیہم السلام) کو دیکھا توکہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں اگر یہ اللہ تعالیٰ سے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کریں تو ضرور بہ ضرور ایسے ہوگا، مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاوگے۔(30)
صحیح مسلم میں اس طرح لکھا ہے کہ معاویہ نے سعد ابن وقاص سے پوچھا: تم حضرت علی(علیہ السلام) پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ سعد نے جواب دیا تین چیزوں کی وجہ سے، جنگ تبوک میں حدیث منزلت کی وجہ سے، جنگ خیبر میں پرچم کی وجہ سے، اور مباہلہ کی وجہ سے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے حضرت علی(علیہ السلام)، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)، حضرت حسن(علیہ السلام)، حضرت حسین (علیہ السلام)کو بلایا اور کہا پروردگارا یہی میرے اہل بیت(علیہم السلام) ہیں۔(31)
۸۔ آیہ لیلۃ المبیت
و من الناس من یشری نفسه ابتغاء ‌مرضات اللّٰه۔ واللّٰه رؤف بالعباد۔(32)
اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
اس آیت کے شان نزول میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں جیسا کہ ثعلبی اپنی تفسیر میں اور حاکم حسکانی "شواہد التنزیل” میں ابو سعیدخدری اور ابن عباس سے حدیث نقل کرتے ہیں۔ ہم ثعلبی کے بیان کو یہاں پر نقل کرتے ہیں۔ (33)
شان نزول
ثعلبی لکھتے ہیں: رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے قرض اور امانتیں ادا کرنے کیلئے مقرر فرمایا اور غار کی طرف روانہ ہوئے اس حال میں کہ مشرکین نے گھر کو گھیر رکھا تھا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پہ سو جائے اور ارشاد فرمایا جو سبز چادر میں اوڑھ کے سوتا ہوں وہ چادر اوڑھ کے سو جائے ان شاءاللہ کوئی پریشانی پیش نہ آئے گی۔
حضرت علی علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل اور میکائیل پہ وحی نازل فرمائی کہ میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے لیکن ایک کی زندگی دوسرے سے طولانی ہے، تم دونوں میں سے کون دوسرے کو خود پر مقدم کرے گا؟ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی کے طولانی ہونے کا تقاضہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم دونوں حضرت علی (علیہ السلام) کی طرح کیوں نہیں بنتے؟
میں نے حضرت علی (علیہ السلام) اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ حضرت علی (علیہ السلام) اپنے بھائی کے بستر پر سو رہا ہے اور اپنے بھائی کی جان کو اپنی جان پر مقدم کر رہا ہے، پس زمین پر جاؤ اور حضرت علی (علیہ السلام) کی دشمنوں سےحفاظت کرو۔ جبرئیل اورمیکائیل زمین پر آئے، میکائیل پائنتی کی طرف بیٹھے اورجبرئیل سر کے پاس بیٹھے اور کہنے لگے اے حضرت علی(علیہ السلام) تیرے کیا کہنے! تیرے جیسا کون ہے؟ اللہ تعالی فرشتوں میں تجھ پر فخر کر رہا ہے۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مدینہ کی طرف روانہ تھے اس وقت یہ آیت حضرت علی علیہ السّلام کی شان میں نازل ہوئی "و من الناس من یشری…”َ(34)
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں: "حدیث الفراش قد ثبت‌بالتواتر فلایجحدہ الا مجنون او۔۔۔” حدیث فراش متواتر ہے۔ پاگل کے سوا کوئی اس حدیث کا انکار نہیں کر سکتا۔تمام مفسروں نے نقل کیا ہے کہ: یہ آیت شب ہجرت حضرت علی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بستر پہ سونا تمام مفسروں کے نزدیک ثابت ہے اسلئے پاگل کے سوا کوئی اس حدیث کا انکار نہیں سکتا۔ تمام مفسروں نے نقل کیا ہے یہ آیت شب ہجرت جب حضرت علی علیہ السّلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بستر پر سوئے توحضرت علی علیہ السّلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(35)
"مستدرک الصحیحین” میں حاکم نیشاپوری داستان شب ہجرت کو ابن عباس سے نقل کرتے ہیں اور صاف صاف لکھتے ہیں: "هذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاه” اگرچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہےلیکن یہ حدیث صحیح ہے اور اس حدیث کی سند درست ہے۔(36)

حوالہ جات
19)۔الاحزاب،آیہ‌33
20)۔المیزان،ج‌16،ص‌311
21)۔فاسئلوااہل الذکر،ص‌71
22)۔روح المعانی،ج‌22،ص‌14 و 15
23)۔مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559 وشواہدالتنزیل،ج‌2،ص‌56 صحیح مسلم،ج‌4،ص‌1883
24)۔شواہدالتنزیل،ج‌2،ازص‌11 تا 15 وص‌92مختلف سندوں کے ساتھ۔
25)۔شواہدالتنزیل،ج‌2،ازص‌24 تاص‌27
26)۔مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559
27)۔مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559
28)۔آل عمران،آیہ‌61
29)۔تلخیص ازمطالب پیام قرآن،ج‌9،ص‌242
30)۔مجمع البیان،ج 1 و 2 ص‌452تھوڑے خلاصہ کے ساتھ۔
31)۔صحیح مسلم،ج‌4،ص‌1871
32)۔البقرہ،آیہ 207
33)۔حاکم حسکانی نے ابو سعید خدری سے تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے جیسے ثعلبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔
34)۔ا لغدیر،ج‌2،ص‌48
35)۔شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج‌3،ص‌270 والغدیر،ج‌2،ص‌47 وص‌48
36)۔مستدرک الصحیح ین،ج‌3،ص‌4
https://erfan.ir/urdu/84427.html

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button