محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے مختصر فضائل

مختار حسین توسلی
خاتون جنت شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب ان گنت ہیں جنہیں بیان کرنے سے لسان بشر عاجز اور لکھنے سے قلم قاصر ہے، کہاں سیدہ نساء عالمین اور کہاں ہم جیسے پست اور کورے لوگ، مگر پھر بھی اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق ان معظمہ خاتون کے فضائل و مناقب اور صفات و کمالات کو بیان کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا ان کی شان و منزلت اور مقام و مرتبے سے آگاہ ہو جائے، لہذا ذیل میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کے چند گوشے کو سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فاطمہ (س)، وجہ تخلیق کائنات:
اللہ تعالی حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے :” يا أحمد لولاك لما خلقت الأفلاك ولولا علي لما خلقتك ولولا فاطمه لما خلقتكما.”
یعنی "اے محمدؐ ! اگر آپ کو پیدا کرنا میرے منشا میں نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا اور اگرعلی کو پیدا کرنا میرے منشا میں نہ ہوتا تو آپ کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ کو پیدا کرنا میری مشیت میں نہ ہوتا تو آپ دونوں کو پیدا نہ کرتا۔”
(السيد مير جاني: في جنة العاصمة : 148 ،البحراني: عوالم العلوم ج : 11, ص : 43)
واضح رہے کہ چہاردہ معصومین علیہم السلام کی سیرت و کردار باہمی فضائل و مناقب کے درمیان کوئی اختلاف اور تفاوت نہیں ہے، البتہ ان معصوم ہستیوں کے کچھ ذاتی صفات و کمالات اور مقام و مرتبے میں فرق ہو سکتا ہے اور یہ اصول کے خلاف بھی نہیں ہے کیونکہ اصولا ایسا ممکن ہے، چنانچہ ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ چہاردہ معصومین علیہم السلام میں سے نبی ِ معظم، رسول ِ مکرم، حبیب کبریا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے افضل ہیں، اللہ رب العزت نے آپ کو عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجا، نیز آپ کو سید الانبیاء اور خاتم المرسلین قرار دیا ، آپ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا مقام آتا ہے چنانچہ آپ امیر المومنین اور نفس رسول کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ، مولائے کائنات کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام آتا ہے چنانچہ آپ کو سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء اہل جنت کا مقام عطا ہوا، شہزادی کونین کے بعد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کا مقام آتا ہے جن کو جنت کی سرداری عطا ہوئی، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : إنَّ الحسنَ وَالحسينَ سَيّدَا شَبابِ أهلِ الجنّةَ وأبُوهُما خَيرُ مِّنهُمَا۔
یعنی بے شک حسنؑ اور حسینؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہتر ہیں۔
نیز امام جعفر صادق علیہ السلام کو فقہ جعفری کے بانی اور مؤسس ہونے کا مقام حاصل ہوا، اسی طرح حضرت امام مہدی عج دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے لہذا آپ کو قائم آل محمد کا مقام عطا ہوا ہے۔
لہذا مذکورہ بالا حدیث قدسی سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یا خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان دونوں ہستیوں سے افضل ہیں، بلکہ اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ علیؑ و فاطمہؑ اور ان کی پاک ذریت یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد دیں اسلام کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے لیے سب سے ذیادہ کردار ادا کیا ہے۔
لہذا اگر یہ ہستیاں نہ ہوتیں تو اسلام کی تعلیمات اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہتیں، یوں سارے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی محنت ضائع ہو جاتی جو انہوں نے دیں اسلام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کی تھی ، چنانچہ ان ذوات مقدسہ کے بغیر صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خلق کرنے سے وہ مقصد حاصل نہ ہوتا جس کے لیے اللہ تعالی نے اس وسیع و عریض کائنات اور اس میں موجود اشیاء کو خلق کیا ہے، چنانچہ اسی لیے فرمایا کہ علی و فاطمہ کو خلق کرنا میرے منشاء میں نہ ہوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا۔
فاطمہ (س) کا کفو:
حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے جبریل امین کے ذریعے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا:” يا محمد أن الله جل جلاله يقول لو لم أخلق عليا لما كان لفاطمة لإبنتك كفو على وجه الأرض آدم فمن دونه.”
” اے محمد ! اللہ فرماتا ہے کہ اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا تو آپ کی بیٹی فاطمہ کا اس روئے زمین پر آدم یا دیگر میں سے کوئی ہم پلہ ہمسر نہ ہوتا۔”
(الصدوق، عیون اخبار الرضا ج : 2، ص: 203، شیخ صدوق ، نشر 1404، المجلسی، بحار الأنوار ج: 43 ، ص : 92، علامہ مجلسی نشر : 1403)
نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :” لولا أن أمير المؤمنين تزوّجها لما كان لها كفو على وجه الأرض إلى يوم القيامه آدم فمن دونه.”
” اگر امیر المؤمنین علیہ السلام نے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا شادی نہ کی ہوتی تو اس روئے زمین پر آدم اور دیگر میں سے کوئی بھی ان کا ہمسر نہ ہوتا.
(الصدوق، علل الشرائع ج : 1 ، ص: 178، شیخ صدوق، نشر: 1385)
فاطمہ (س) آئمہ معصومین علیہم السلام پر حجت:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:” نحن حجج الله على خلقه و جدتنا فاطمة حجة علينا، یعنی ہم اللہ کی طرف سے اس کی مخلوقات پر حجت ہیں اور ہماری جدہ فاطمہ ہم پر حجت ہیں۔”
(الطیب، أطیب البیان فی تفسیر القرآن ج: 13، ص: 225، ذیل آیت 3 سورہ جن، اسید عبد الحسین الطیب)
واضح رہے کہ اس حدیث شریف کا مصدر تفسیر اطیب البیان ہے جسے علامہ سید عبدالحسین طیب (متوفی 1411ھ) نے تالیف کیا ہے جو سید ابوالحسن اصفہانی، شیخ ضیاءالدین عراقی، شیخ مرزا نائینی، شیخ عبدالکریم حائری کے شاگردوں میں سے تھے، وہ ایران کے جلیل القدر علماء میں سے تھے لہذا ہم مطمئن ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کو ایسے مصدر سے نقل کیا ہوگا جس سے ہم مطلع نہیں ہیں کیونکہ ایران کی کتب خانوں میں ایسی تحریریں اور قلمی نسخے موجود ہیں جن سے ہم اب تک آگاہ نہیں ہیں، پس علامہ سید عبد الحسین طیب نے اس حدیث کو ان نسخوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہوگا جو ایران کی لائبریریوں میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ہم ان سے آگاہ نہیں ہیں، اس حدیث شریف کو ہمارے بہت سارے بزرگ علماء اپنی کتب، گفتگو اور خطبات میں بیان کرتے ہیں۔
اگرچہ اس حدیث کی سند کے حوالے سے کافی قیل و قال موجود ہے کیونکہ اسے سید عبدالحسین طیب (متوفی 1411ھ) کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا، انہوں نے اس حدیث کو اپنی تفسیر اطیب البیان میں سورہ جن آیت نمبر تین کے ذیل میں بغیر کسی حوالے کے نقل کیا ہے، مگر چونکہ اس کے متن میں چندان کوئی قباحت نظر نہیں آتی اس لیے ہم نے اسے یہاں پر نقل کیا ہے۔
قطیف سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے معروف شیعہ عالم دین اور خطیب سید منیر خباز اس حدیث شریف کے تین معنی بیان کرتے ہیں:-
پہلا معنی:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آئمہ اطہار علیہم السلام پر حجیت کا تعلق ان علوم سے ہے جو فقد آپ کے ذریعے آئمہ تک پہنچے ہیں، کیونکہ صحیح روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آپ رحلت پیغمبر کے بعد انتہائی قلیل مدت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، اسی اثنا میں اللہ کی طرف سے کچھ خاص فرشتے آپ پر نازل ہوئے جنہوں نے آپ کو بہت سارے علوم سے نوازا جن میں تاریخ، قیامت تک پیش آنے والے واقعات اور تاویل قرآن کے علوم قابل ذکر ہیں، اور یہ علوم آپ نے اپنے فرزندوں کو عطا کئے۔
دوسرا معنی:
اس روایت کا تعلق عالم انوار سے ہے، اس معنی میں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے نور کو خلق کیا جن میں اللہ کی صفات اور اسماء جمع کیے، پھر یہ دونوں نور جناب سیدہ کی ذات میں جمع ہوگئے، گویا آپ کی ذات کو اللہ تعالی نے نبوت و امامت کا نقطہ اجتماع قرار دیا، بعد ازاں آپ کے توسط سے باقی ائمہ اطہار علیہم السلام کو خلق کیا، گویا کہ نور فاطمہ آئمہ علیہم السلام کے لیے صفات و اسماء الہی کا مظہر ہے، پس جب امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہماری جدہ فاطمہ ہم پر حجت ہیں اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ان کا نور ہم پر حجت ہے جو عالم انوار سے عالم ملکوت پھر عالم مادہ تک ہمارے لیے اسماء و صفات الہی کا مظہر ہے۔
تیسرا معنی:
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ائمہ علیہم السلام پر حجت قرار دینے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ذریعے مخلوق پر حجت قائم کرنے سے پہلے آئمہ علیہم السلام پر حجت قائم کیا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ حجت کی حجیّت دو طرح کی ہوتی ہے:-
حجت کی حجیت کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے درمیان قائم ہوتی ہے جیسے سارے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ذریعے مخلوق پر حجت قائم کرنا۔
دوسری حجیت کا دائرہ ذرا وسیع ہوتا ہے جو پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی حجیت ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالی باقی مخلوقات پر حجت قائم کرنے سے پہلے انبیاء و مرسلین علیہم السلام پر حجت قائم کرتا ہے، اور یہ ان ہستیوں کی حجیت کی عظمت پر دلیل ہے، یہاں سے ہمیں امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرمان کا مطلب سمجھ میں آتا ہے یعنی آپ فرمانا یہ چاہتے ہیں کہ ہماری جدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حجیت کا درجہ یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی مخلوق پر حجت قائم کرنے سے پہلے ہم آئمہ ع پر حجت قائم کرتا ہے۔
واضح رہے کہ معصومین علیہم السلام میں سے ہر معصوم کو اللہ تعالی نے کچھ ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو دیگر معصومین کو عطا نہیں ہوئیں، یعنی ہر معصوم اپنی کچھ ذاتی خصوصیات کی بنا پر دیگر معصومین علیہم السلام سے ممتاز ہے، جیسے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی منجملہ ذاتی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو امیر المومنین کا لقب عطا ہوا جو کسی اور کو نہیں ملا، اسی طرح خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اللہ تعالی نے آئمہ معصومین علیہم السلام پر بھی حجت قرار دے دیا جس میں آپ منفرد ہیں۔
فاطمہ (س)، بضعۃ الرسول :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:” فاطمةُ بضعة منّي فمن أذاها فقد آذاني ومن آذاني فقد أذى الله۔”
یعنی فاطمہ میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی ، اور جس نے مجھے اذیت دی گویا اس نے خدا کو اذیت دی (اور جس نے خدا کو اذیت دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے) ۔”
(صدوق، علل الشرائع، أبی جعفر محمد بن علی بن الحسین ابن موسی قمی ملقب بہ شیخ صدوق، تحقیق : سید محمد صادق بحر العلوم، جلد 1 صفحہ 186 تاریخ 1385ھ 1966ء، مکتبہ حیدریہ نجف اشرف عراق)
بعض مصادر میں یوں آیا ہے :” فاطمة بضعة منّي فمن أغضبها فقد أغضبني ومن أغضبني فقد أغضب الله۔ یعنی فاطمہ (س) میرا حصہ ہے جس نے اسے غضب ناک کیا گویا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا گویا اس نے اللہ کو غضبناک کیا (اور جس نے اللہ کو غضبناک کیا اس کا ٹھکانا جہنم ہے) ۔”
(قندوزی، ينابيع المودة لذو القربى‌، سليمان بن ابراهيم القندوزي، ج 4، ص 228، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ)
یہ حدیث مبارکہ الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ اہل سنت کے مختلف مصادر میں آئی ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:-
(بخاری، صحیح بخاری، امام أبی عبد اللہ محمد بن إسماعیل بن إبراھیم ابن المغیرہ بن بردزبۃ بخاری جعفی کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب فاطمہ ج : 4 ، ص: 219 ، تاریخ اشاعت: 1401ھ _ 1981م، مسلم نیشاپوری، مسلم، صحیح مسلم، مولف: امام أبی الحسین مسلم بن حجاج ابن مسلم القشیری نیشاپوری، باب فضائل فاطمہ بنت نبی، ج 7، ج 141 ناشر دار الفکر بیروت لبنان، الترمذی، سنن ترمذی، باب فضل فاطمہ ج: 5 ، ص: 360۔ ، حاکم نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین ج: 3 ، ص: 159۔)
قابل غور بات یہ ہے کہ اس حدیث شریف میں پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ فاطمة بضعة منی، فاطمہ میرا حصہ ہے یہ نہیں فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے یا میرے جگر کا ٹکڑا ہے جیسا کہ بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں، اگر یہ مطلب ہوتا تو فرماتے فاطمة بضعة كبدي یعنی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ایسا نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا: فاطمة بضعة مني، یعنی فاطمہ میرا حصہ ہے یعنی میں اگر نبی ہوں تو فاطمہ میری نبوت کا حصہ ہے میں اگر رسول ہوں تو فاطمہ میری رسالت کا حصہ ہے، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا اس نے خدا کو اذیت دی اور خدا کو اذیت دینے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے خدا اور رسول کو اذیت دینے والوں کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اللہ تعالی ان پر دنیا و آخرت دونوں میں لعنت بھیجتا ہے اور ان کے لیے آخرت میں دردناک ( ذلت آمیز ) عذاب تیار کر رکھا ہے.”(سورہ احزاب : 57)
فاطمہ (س) کی رضا، خدا کی رضا ہے:
کوئی بھی انسان تقویٰ و پرہیزگاری، نیکی و پارسائی اور ایمان و ایقان کے جس قدر مدارج طے کیوں نہ کرے پھر بھی وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا کہ اس کی رضا خدا کی رضا اور اس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی قرارپائے ، لیکن یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا خاصہ ہے کہ انکی رضا خدا کی رضا اور ناراضگی خدا کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے چنانچہ ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:” إن اللهَ يَغضِبُ لِغَضَبِ فاطِمِه وَيَرضَى لِرِضَاهَا۔ بے شک اللہ تعالی فاطمہ کی ناراضگی سے ناراض ہو جاتا ہے اور ان کی رضا سے راضی ہو جاتا ہے۔”
(حاکم نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین جلد: 3 صفحہ: 154، دار معرفت بیروت لبنان، المجلسي، بحارالانوار جلد : 43 ، صفحہ : 19)
کمال کے چار درجات ہیں :-
1 ۔ انسان ان چیزوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے لیے مرغوب طبع ہوں یعنی اس کی طبیعت ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہو اور ان چیزوں کو ناپسند کرتا ہے جو اس کے نفس اور طبیعت کے لیے مرغوب نہ ہوں ، واضح رہے کہ یہ صفت انسان اور حیوان دونوں میں مشترک ہے، کیونکہ حیوانات بھی ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں جن کو ان کے غرائز پسند کرتے ہیں اور ان چیزوں سے دور رہتے ہیں جن کو ان کے غرائز پسند نہیں کرتے۔
2 ۔ اس سے اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پسند کرتا ہے جن کو اس کی عقل پسند کرتی ہے اور ان چیزوں سے نفرت کرتا ہے جن سے اس کی عقل نفرت کرتی ہے، یہ اہل ایمان کا درجہ ہے۔
3 ۔ اس سے بھی اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پسند کرتا ہے جو اللہ کو پسند ہیں اور ان چیزوں سے نفرت کرتا ہے جو اللہ کو پسند نہیں، یہ انبیاء مرسلین اور ائمہ علیہم السلام کا درجہ ہے۔
4 ۔ لیکن خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالی خود ان کی رضا پہ راضی ہوجاتا ہے اور ان کے ناراض ہونے سے غضبناک ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں فرمایا ہے وہ شفقت پدری کی بنا پر نہیں ان کے ارشادات برحق اور واقعیت کے عین مطابق ہیں کیونکہ آپ اپنے جذبات کے نہیں بلکہ حکم خدا کے تابع تھے اور منشائے الہی کے بغیر کچھ بھی نہیں فرماتے تھے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى . ” یعنی ” رسول اپنی خواہشات کے مطابق کچھ بھی نہیں بولتے بلکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی الہی کے مطابق ہوتا ہے۔”
( سورہ نجم آیات : 3 – 4 )
اہل ایمان اور اہل تقوی کوشش کرتے ہیں کہ نیک کاموں کے ذریعے اللہ کو راضی کیا جائے یعنی سب رضی اللہ بننا چاہتے ہیں، یہ آخری حد ہے پس اگر کوئی رضی اللہ بن گیا تو یہ اسکی کامیابی ہے، یہ عام مسلمانوں کا مقام ہے، جبکہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کا مقام اس سے بالاتر ہے، ان کی آخری کوشش اور خواہش یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کو راضی کرنے پے اکتفا کیا جائے، اللہ ان سے راضی ہے تبھی تو انہیں نبوت و رسالت کے منصب پہ فائز کیا، لہذا وہ اللہ کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رضا میں راضی رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، یعنی وہ اگر انہیں کسی آزمائش میں ڈالے تو بھی راضی نہ ڈالے تو بھی راضی، اولاد دے تو بھی راضی نہ دے تو بھی راضی اور دے کر چھین لے تب بھی راضی رہتے ہیں۔
غیر معصوم کا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ معصوم کا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں، اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ فاطمہ کے راضی ہونے سے خدا بھی راضی ہوجاتا ہے فاطمہ کے ناراض ہونے سے خدا بھی ناراض ہو جاتا ہے، یعنی فاطمہ کا مقام یہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کو راضی کرتی ہیں، نہ صرف اللہ کی رضا میں راضی رہتی ہیں بلکہ اللہ خود ان کے راضی ہونے سے راضی ہو جاتا ہے اور ان کے ناراض ہونے سے غضبناک ہوجاتا ہے۔
بالفاظ دیگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو پیمانہ دیا ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون اللہ کو راضی کرنے والا ہے اور کون اس کو ناراض کرنے والا ہے، اور وہ پیمانہ اور کسوٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس ہے۔
پس اگر یہ دیکھنا ہو کہ کس پہ اللہ راضی ہے یعنی کون رضی اللہ ہے اور کس پہ اللہ راضی نہیں ہے یعنی کون مفضوب علیہ ہے تو یہ دیکھا جائے کہ کس پر خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا راضی ہیں اور کس سے راضی نھیں ہیں، لہذا جس پر شہزادی کونین، سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا راضی ہیں وہ رضی اللہ ہے اور جس پہ آپ ناراض ہیں وہ مغضوب علیہ ہے، اور یہ یقینی بات ہے کہ جو بھی مغضوب علیہ کا مصداق ہوگا وہ راندہ درگاہ خدا وندی ہوگا۔
جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صدر اسلام کی کچھ شخصیات سے ناراض تھیں اور تادم مرگ آپ نے ان سے کوئی کلام نہیں کیا، چنانچہ صحیح بخاری باب خمس میں یہ روایت موجود ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا حضرت ابوبکر کے پاس اپنی وراثت کا مطالبہ لے کر گئیں تو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا جس پر آپ ان سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک ان سے کلام نہیں کیا، ملاحظہ ہو : فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ۔۔۔ یعنی فاطمہ بنت رسول ناراض ہو گئیں اور ابوبکر کے پاس سے اٹھ کر چلی گئیں اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔
(بخاری، صحیح بخاری کتاب خمس حدیث نمبر 3093، اسلام 360 اپلیکیشن سے ماخوذ)
کتاب المغازی کے باب غزوہ خیبر میں مذکور ہے :” فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، یعنی : اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔
(بخاری، صحیح بخاری کتاب خمس حدیث نمبر 4240/ 4241، اسلام 360 اپلیکیشن سے ماخوذ_ بخاری، صحیح بخاری، امام أبی عبد اللہ محمد بن إسماعیل بن إبراھیم ابن المغیرہ بن بردزبة بخاری جعفی کتاب مغازی، باب غزوہ خیبر ج : 5، ص 82 تاریخ اشاعت: 1401ھ _ 1981م)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد شیخین کے ظلم و ناانصافی کی وجہ سے مرتے دم تک نہ صرف ان سے ناراض رہی بلکہ آپ نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی کی آپ کے جنازے میں انہیں نہ آنے دیا جائے، چنانچہ مولائے کائنات نے آپ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور شیخین کو خبر تک نہ دی، صحیح بخاری کی عبارت ملاحظہ ہو :” وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا ۔”
یعنی : (حضرت فاطمہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں، جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی مرتضی نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔(حوالہ سابق)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شیخین یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے مرتے دم تک ناراض رہنا اور اس سے قطع کلامی کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ بات خود اہل سنت کی معتبر اور صحیح ترین کتابوں میں ذکر ہوئی ہے، نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے معافی مانگنے کے باوجود جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا ان کو معاف نہ کرنا اور ان سے قطع کلامی کر لینا، ان کی ناراضگی کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، واضح رہے کہ یہ ناراضگی دنیاوی مال و متاع کے لیے نہیں تھی، جس طرح بعض متعصّب اور جاہل لوگ گمان کرتے ہیں، درحقیقت یہ ناراضگی خدا کے لیے تھی۔
المختصر صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شیخین سے ناراض ہونا اور مرتے دم تک ان سے قطع کلامی کرنا ان دونوں کی خلافت کو غیر شرعی اور ناجائز قرار دے دیتا ہے، کیونکہ یہ ناراضگی ثابت کرتی ہے کہ شہزادی کونین ابوبکر اور عمر کی خلافت کی مخالف تھیں، مخالف اس لیے تھیں کہ آپ ان کی خلافت کو برحق نہیں سمجھتی تھیں، لہذا آپ کے متنبہ کرنے کے باوجود بھی وہ خلافت پر قابض ہوگئے تو آپ ان سے مرتے دم تک ناراض رہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ جناب سیدہ کی ناراضگی رسول خدا کی ناراضگی ہے اور جناب سیدہ کی رضا رسول خدا کی رضا ہے، چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شیخین کی خلافت سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی نہیں تھے۔
فاطمہ (س) کی محبت کا فائدہ:
مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقعے پر جناب سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا :” يا سلمانُ ! حبُّ فاطمةَ ينفعَ في مئةِ مِنَ المواطنِ، أيسَرُ تِلكَ المَواطنِ : الموتُ والقبرُ والميزانُ والمَحشرُ والصِّراطُ والمحاسبةُ، فمن رَضِيَت إبنتِي فاطمةُ، رضيتُ عنه ومَن رضيتُ، رضيَ اللهُ عنه ومَن غَضِبَت عليه إبنتي فاطمةُ غَضِبتُ عليه ومَن غَضِبتُ عليه غضبَ الله عليه، يا سَلمَانُ ! ويلٌ لِمَن يَظلِمُهَا ويَظلِمُ ذُرّيَتَهَا وشِيعَتَهَا.
” یعنی اے سلمان ! فاطمہ کی محبت سو مقامات پہ فائدہ دیتی ہے، ان میں سے آسان ترین مقامات پہ ہیں، موت کا وقت، قبر، میزان ، حشر کا میدان، پل صراط اور حساب کتاب کا وقت، پس جس پہ میری بیٹی فاطمہ اراضی ہو جائے اس پر میں بھی راضی ہو جاتا ہوں اور جس پر میں راضی ہو جاتا ہوں اس پر اللہ بھی راضی ہوجاتا ہے اور جس پر میری بیٹی فاطمہ غضبناک ہوجائے میں بھی اس پہ غضبناک ہو جاتا ہوں اور جس پر میں غضبناک ہو جاتا ہوں اس پر اللہ بھی غضبناک ہو جاتا ہے، اے سلمان ! اس شخص کے لیے بربادی ہے جو فاطمہ، اس کی اولاد اور اس کے چاہنے والوں پر ظلم و ستم کرے ۔
(الخوارزمی ، مقتل خوارزمی باب فضائل فاطمہ زہرا جلد: 1 ، صفحہ : 100، انوار الہدی، 1418، مجلسی، بحار الانوار ج 27، ص 116، نشر 1403، دار احیاء تراث عربی بیروت لبنان)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button