سلائیڈرمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا معصومینؑ کی نظر میں

محمد عمار یاسر ( متعلم جامعہ الکوثر)
استاد رہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدّرس جامعہ الکوثر)
مقدمہ
درود وسلام ہو ہمارے آقا وسردار حضرت محمدؐ اور انکے پاک خاندان پر جو سفینہ نجات کا مصداق اور ھدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں، زمین پر خدا کے امین اور اس کی مخلوقات پر حجت ہیں، جوبھی ان سے ملحق ہوا اس نے نجات پائی اور جو ان کی پناہ میں آیا وہ خدا کے عذاب سے محفوظ رہا۔
جنابِ سیدہ فاطمہ علیہا السلام کی ذات ایک حقیقتِ ناشناختہ ہےاور ان کی کما حقہ معرفت صرف معصومین علیھم السلام کو ہی ہے ہم جو بھی اس عظیم ہستی کے بارے میں کہیں چاہے وہ خطابت کے انداز میں ہو یا کتابت یاکسی بھی اور ذریعے سے وہ سب کچھ ہمارے ذھن کی اختراع ہوگا، اگرچہ وہ سب کچھ ہماری عقیدت ہوتی ہے لیکن وہ حقیقتِ سیدہؑ نہیں ہوسکتی۔
لہذا جنابِ سیدہؑ جو فضیلت، عظمت، کرامت وشرافت میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے ایسی ہستیوں کا سہارا لینا پڑے گا جو آپؑ کی مکمل معرفت رکھتی ہوں اور وہ ہستیاں معصومین علیھم السلام کے علاوہ کوئی نہیں۔ پس جنابِ سیدہؑ کی معرفت حاصل کرنے کیلئے معصومینؑ کے آپؑ سے متعلق صادر فرمودات کا مطالعہ کرنا پڑے گا جن سے حقیقتِ فاطمہؑ کے سمندر سے ایک قطرہِ معرفت حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اور معصومین علیھم السلام نے بھی جنابِ سیدہؑ سے متعلق ایسے فرامین ارشاد فرمائے ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے انسان فرط حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے، جیسے امام حسن عسکری علیہ السلام کا یہ فرمان:
نحن حجج اللہ علی خلقہ وجدتنا فاطمۃ حجۃ اللہ علینا
"ہم ائمہؑ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں اور ہماری جدہ فاطمہ علیھا السلام اللہ کی طرف سے ہم پر حجت ہیں”
اور امامِ زمانہؑ کا یہ فرمان :
"فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لی اسوۃ حسنۃ”
"میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے”
اس کے علاوہ جنابِ سیدہؑ کا محشر میں استقبال اور اھلِ محشر کے سامنے خداوندِ متعال کا جنابِ سیدہؑ کے اپنے نزدیک مقام کی بلندی کو ظاہر کرنا اور محبانِ سیدہؑ کی میدانِ محشر میں قدرومنزلت سے متعلق احادیث جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ہر معصومؑ کا ایک بلند مقام و مرتبہ ہے لیکن جنابِ سیدہؑ کا ان سے بھی بلند وارفع مقام ہے۔
اس مقالہ کو تین فصلوں پر مرتب کیا گیا ہے:
پہلی فصل میں احادیثِ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذیل میں مقامِ سیدہؑ کوبیان کیا گیا ہے اور اسکو "فاطمہؑ اپنے باباؐ کی نظر میں”کے عنوان کے ساتھ معنون کیا گیاہے۔
دوسری فصل میں احادیث وفرموداتِ امام علیؑ کی روشنی میں جنابِ سیدہؑ کے مقام کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے جسے "فاطمہ ؑاپنے شوہرؑ کی نظر میں” کے عنوان کے ساتھ معنون کیا گیا ہے۔
اور تیسری فصل میں جنابِ سیدہؑ کے گیارہ معصوم فرزندانؑ کے فرامین کی روشنی میں عظمتِ جنابِ سیدہؑ کو بیان کیا گیا ہے جسے "فاطمہؑ اپنے معصوم فرزندان کی نظر میں” کے عنوان کے ساتھ معنون کیا گیا ہے۔
سیدہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سید الانبیاءؐ کی نظر میں
سیدہؑ :حقیقتِ ناشناختہ
جنابِ ختمیِ مرتبتؐ نے بہت سی ہستیوں کے فضائل و کمالات بیان فرمائے جن میں سب سے زیادہ فضائل مولائے کائنات علیؑ کے بیان فرمائے اور ان کے بیش بہا فضائل بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مولائے کائنات کی حقیقت کا ادراک کما حقہ اہلِ دنیا کے بس میں نہیں فرمایا
"لو ان الغیاض اقلام والبحر مداد والجن حساب والانس کتاب ما احصوا فضائل علی ابن ابی طالب”
اگر سارے درخت قلم بن جائیں،سارےسمندر سیاہی بن جائیں، سارے جنات شمار کرنے والے بن جائیں اور سارے انسان لکھنے والے بن جائیں تب علیؑ ابن ابی طالبؑ کے فضائل شمار نہیں کیے جاسکتے۔)کنز الفوائد، جلد1،ص280(
اور جہاں سید الانبیاءؐ نے اپنے فرزندان بالخصوص امام حسنؑ و حسینؑ کے مختلف مقام پہ مختلف مناسبت سےاور مختلف حالات میں ایسے فضائل بیان فرمائے جو دنیا میں موجود کسی فرد کے بارے میں ارشاد نہیں فرمائے،اسی طرح جیسے مولا علیؑ و اولادِ علیؑ کے بیش بہا فضائل بیان فرمائے وہاں ایک مستور جن کو آپؐ کی لسانِ اقدس سے سیدۃ نساء العالمین کا لقب ملا،کے ایسے فضائل و کمالات بیان فرمائے جن کا مطالعہ کرنے سے جنابِ سیدہؑ کی حقیقتِ ناشناختہ ہستی کی کچھ حد تک معرفت حاصل ہوتی ہے اور ان کے مقام کا عظمت وبلندی کا پتہ چلتا ہے۔
کسی بھی معصومؑ ہستی کی حقیقت کا ادراک ہماری عقول نہیں کر سکتیں ہم جو بھی انؑ سے متعلق بیان کرتے ہیں شاعری،منقبت، نعت،خطابت و کتابت کی صورت میں اور اس کے علاوہ کسی بھی انداز میں وہ سب ہماری عقیدت ہوتی ہے معصومؑ کی حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ ہم جو بھی ان سے متعلق بیان کرتے ہیں وہ ہماری عقول کے مطابق ہوتا ہے اور معصومؑ کا مقام اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ ہماری ان ناقص عقول میں آجائے لہذا ان ہستیوں کا مقام معلوم کرنے کیلئےکسی معصومؑ ہستی کے در پہ جانا پڑے گا اور ان سے کسی معصوم ہستی مثلاً جنابِ سیدہؑ فاطمہ کا مقام معلوم کرنا ہوگا، سیدہِ کائناتؑ بی بی بھی معصومہ ہیں اور شیعہ عقیدہ میں بی بیؑ چہاردہ معصومینؑ میں شمار ہوتی ہیں لہذا ان کے فضائل کو بھی شمار میں لانا ہمارے بس میں نہیں البتہ وہ فضائل و کمالات جو سید الانبیاءؐ اور ان کی معصومؑ آل نے آپؑ سے متعلق بیان فرمائے اور ہم تک پہنچے ہیں ان کو ذکر کر کے کسی حد تک ان کے مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے فرامینِ ختمیِ مرتبتؐ کی روشنی میں مقامِ سیدہ فاطمہؑ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سید الانبیاءؐ اور بیٹی کا احترام
وہ زمانہ جس میں بیٹیوں کا احترام تو دور کی بات ان کے وجود سے نفرت کی جاتی تھی اور بیٹی کی ولادت کی خبر سن کر باپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور اپنے لیے بیٹی کو باعثِ ننگ وعار سمجھتے ہوئے زندہ درگور کردیتے تھے ایسے معاشرہ میں رسولِ خداؐ کا اپنی بیٹی کا احترام کرنا اور لوگوں کے سامنے عملی طور پر بیٹی کا مقام ظاہر کرنے کیلئے سیدہؑ کا احترام جس کی وجہ سے عرب کے وہ بدو جو بیٹی کو ننگ و عار سمجھتے تھے وہ بیٹی کو عزت و رحمت سمجھنے لگے اور معاشرہ میں بیٹی کا مقام معلوم ہوا۔
لیکن ایک عزت و احترام جو بیٹی کو دیا جانا چاہیے اس سے کہیں بڑھ کر سید الانبیاءؐ نے اپنی دختر کا احترام کیا۔سیدہؑ کے گھر میں آتے ہی اپنی جگہ سے کھڑے ہوجانا ، ان کا استقبال کرنا ، ان کے ہاتھوں کا بوسہ لینا اور ان کو اپنی مسند پہ بٹھانا جن سارے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامِ سیدہؑ کتنا بلند ہے کہ ان کا احترام صرف بیٹی سمجھ کر نہیں بلکہ ان کے مقام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا۔
اس طرح کی روایات جہاں منابع اہلِ تشیع میں موجود ہیں وہاں اہلِ سنت کے منابع میں بھی موجود ہیں مثلاً حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں:
"۔۔۔عن عائشۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا انھا قالت مارایت احداً کان اشبہ کلاماً و حدیثاً برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ من فاطمۃ وکانت اذا دخلت علیہ قام الیھا فقبلھا ورحب بھا واخذ بیدھا فاجلسھا فی مجلسہ وکانت ھی اذا دخل علیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ قامت الیہ مستقبلۃ وقبلت یدہ”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام و گفتار میں کسی کو بھی جنابِ فاطمہؑ سے زیادہ مشابہ نہیں پایااور جب بھی جنابِ سیدہؑ باباؐ کے پاس آتیں تو سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اٹھ کر آگے بڑھتے، ان کا ہاتھ چومے،ان کا استقبال کرتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنی مسند پہ بٹھاتےتھے اور جب بھی سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس آتے تو آپؑ بھی ان کا آگے بڑھ کر استقبال کرتیں اور آپؐ کا ہاتھ چومتی تھیں۔)عوالی اللئالی العزیمۃفی الاحادیث الدینیہ،جلد 1، ص434،مستدرک للحاکم،جلد 3، ص160(
حاکم نے اس حدیث کو علی شرط الشیخین صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت خدیجہؑ کی رحلت کے بعد جب سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال رکھنے کیلئے ایک مہربان زوجہ نہ رہیں اور سید الانبیاءؐ تبلیغِ رسالت کیلئے مکہ اور گردو نواحِ مکہ میں جاتے اور زخمی ہو کر پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ اور جسم اقدس پہ پھینکی گئی گندگی کے ساتھ گھر آتے تو آپؐ کے زخموں پہ مرحم رکھنے کیلئے اور گندگی کو صاف کرنے کیلئے جنابِ سیدہ فاطمہؑ نے ایسا کردار ادا کیا کہ سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لسان مبارک سے آپؑ کیلئے یہ جملے صادر ہوئے کہ فاطمہؑ ام ابیھا، کہ ایک ماں جو کچھ اپنے بچے کیلئے کرتی ہے اور جیسا خیال ایک ماں اپنے بچے کیلئے کرتی ہے وہی سلوک و کردار سیدہؑ کا اپنے باباؐ کے ساتھ تھا۔
سید الانبیاءؐ اور بیٹی کی محبت
جنابِ ختمیِ مرتبتؐ کی اپنی بیٹی سے محبت کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ سید الانبیاءؐ اپنی بیٹی سے کتنی محبت کرتے تھےمثلاًابن عباس بیان کرتے ہیں کہ
"دخلت عائشۃ علی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ) وھو یقبل فاطمۃ، فقالت لہ:اتحبھا یا رسول اللہ فقال: ای واللہ، لو تعلمین حبی لھا لازددتِ لھا حباً۔۔۔”
حضرتِ عائشہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپؐ فاطمہؑ کا بوسہ لے رہے تھے تو حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ کیا آپؐ فاطمہؑ سے محبت کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم میں فاطمہؑ سے محبت کرتا ہوں اور اگر تم میری فاطمہؑ سے محبت کو جان لیتی تو تمہاری ان کیلئے محبت میں اضافہ ہوجاتا۔)دلائل الامامۃ، ص147(

اور حضرت عبد اللہ ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے کہا کہ:
"کان احب النساء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ ومن الرجال علی”
رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک عورتوں میں سے سب سے زیادہ محبوب جنابِ فاطمہؑ اور مردوں میں سے مولا علی تھے۔)مستدرک للحاکم، جلد3، ص155، بحار الانوار، جلد35،ص230،بحار الانوار،جلد43،ص38(

حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
اور ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ
"ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا سافر کان آخر الناس عھداً بہ فاطمۃ واذا قدم من سفر کان اول الناس بہ عھداً فاطمۃرضی اللہ عنھا”
جب بھی رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر پہ جاتے تو سب سے آخر میں جنابِ فاطمہؑ سے ملاقات کرتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے جنابِ فاطمہؑ سے ملاقات کرتے تھے۔)مستدرک للحاکم، جلد 3، ص156،بحار الانوار،جلد109، ص67،دلائل الصدق لنہج الحق،جلد6،ص449(
سید الانبیاءؐ اور مقامِ فاطمہؑ
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ جنابِ ختمیِ مرتبتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہؑ کے احترام میں کھڑےہوتے تھے تو اس کی وجہ بیٹی ہونا نہیں تھا کیوں کہ تاریخِ بشر میں کوئی باپ ایسا نہیں گزرا جو اپنی بیٹی کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوجاتا ہو،آگے بڑھ کر استقبال کرتا ہو اور اپنی جگہ پر بٹھاتا ہو، عام انسان تو دور کی بات کسی نبی و رسول کی سوانحِ حیات میں بھی یہ نہیں ملتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کیلئے اتنا احترام کرتے ہوں، تو یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو احترام سید الانبیاءؐ اپنی بیٹی کو دیتے تھے اس کی وجہ مقامِ سیدہؑ تھا۔
اس کے علاوہ سیدالانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لسانِ اقدس سے سیدۃالنساءؑ کے مقام کو بیان کرنے کیلئے ایسے فرمودات صادر ہوئے جن سے بی بیؑ کی شان اور مقام و منزلت کا پتہ چلتا ہے۔
حضرتِ سلمان محمدی ؑ بیان کرتے ہیں کہ میں رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ جنابِ عباس ابن عبد المطلبؑ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسلام کیا سید الانبیاءؑ نے سلام کا جواب دیا پھر جنابِ عباس نے سوال عرض کیا کہ یا رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس وجہ سے آپؐ کی اھل بیتؑ کو ہم پر فضیلت دی گئی؟ جس کاایک طویل جواب رسولِ خداؐ نے ارشاد فرمایا جس میں یہ جملے بھی فرمائے:
"۔۔۔فلما اراد اللہ تعالی ان یبلو الملائکۃ ارسل علیھم سحاباً من ظلمۃ وکانت الملائکۃ لا تنظر اولھا من آخرھا ولا آخرھا من اولھا فقالت الملائکۃ الھنا وسیدنا منذ خلقتنا ما راینا مثل مانحن فیہ، فنسالک بحق ھذہ الانوار الا ما کشفت عنا فقال اللہ عز وجل: عزتی وجلالی لافعلن فخلق نور فاطمۃ الزھراء(علیھا السلام) یومئذ کالقندیل وعلقہ فی قرط العرش فزھرت السماوات السبع والارضون السبع من اجل ذلک سمیت فاطمۃ الزھراء۔ وکانت الملائکۃ تسبح اللہ وتقدسہ فقال اللہ: وعزتی وجلالی لاجعلن ثواب تسبیحکم وتقدیسکم الی یوم القیامۃ لمحبی ھذہ المراۃ وابیھا وبعلھا وبنیھا۔۔۔”
"۔۔۔جب خداوند متعال نے فرشتوں کا امتحان لینا چاہا تو ان پہ تاریک بادل بھیجے جن کہ وجہ سے فرشتوں کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ملائکہ نہ بارگاہِ ربوبیت میں عرض کی: اے ہمارے معبود وسردار جب سے تو نے ہمیں خلق کیا ہے ہم پہ ایسی حالت کبھی نہیں آئی جس میں ابھی ہم مبتلا ہیں ہم تمہیں ان انوار کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہماری اس مصیبت کو دور فرما، تو اللہ تعالی نے فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم میں تم سے یہ آزمائش ضرور دور کروں گا،تب خداوند متعال نے نورِ فاطمہ الزھراءؑ کو خلق فرمایاجو ایک چراغ کی طرح تھا اور اس نور کو آسمان پر معلق کر دیا جس کی وجہ سے ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں روشن ہوگئیں (پھر فرمایا) اسی وجہ سے فاطمہ کو زھراء کہا جاتا ہے۔ پھر جب ملائکہ نے اللہ کی تسبیح و تقدیس کی تو اللہ نے فرمایا:میری عزت وجلال کی قسم کہ(اے ملائکہ) میں تمہاری قیامت تک کی جانے والی تسبیح و تقدیس کا ثواب اس خاتون کے محبین اور اس کے بابا ،شوہر اور بچوں کے محبین کیلئے قرار دوں گا۔۔۔” )بحار الانوار، جلد43،ص17(
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مسند پہ تشریف فرما تھے تھے جہاں امام حسنؑ و حسینؑ وعلیؑ و فاطمہؑ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کو دیکھ کر سیدالانبیاءؐ رونے لگے اور ان کے فضائل بیان فرمائے جو ایک لمبی حدیث ہے یہاں صرف جنابِ سیدہؑ کے فضائل کو ذکر کرتا ہوں:
"۔۔۔واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین،وھی بضعۃ منی وھی نور عینی،وھی ثمرۃ فؤادی،وھی روحی التی بین جنبی ،وھی الحوراء الانسیۃ، متیٰ قامت فی محرابھا بین یدی ربھا جل جلالہ زھر نورھا لملائکۃ السماء کما یزھر نور الکواکب لاھل الارض، ویقول اللہ عز وجل لملائکتہ: یا ملائکتی انظروا الی امتی فاطمۃ سیدۃ امائی، قائمۃ بین یدی ترتعد فرائصھا من خیفتی وقد اقبلت بقلبھا علی عبادتی،اشھدکم انی قد آمنت شیعتھا من النار۔۔۔”
"میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین تمام عورتوں کی سردار ہے اور فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے،میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کا پھل ہے،میری وہ روح ہے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہےاور فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہےجو جب بھی اپنے رب کے سامنے محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اس کا نور آسمان کے ملائکہ کیلئے ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کیلئے آسمان کے تارے چمکتے ہیں اور اس وقت اللہ اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ میری اس کنیز کی طرف دیکھو جو میری ساری کنیزوں کی سردار ہے جو میرے سامنے کھڑی ہے اور میرے خوف سے جس کا جسم کانپ رہا ہےاور اس کی ساری توجہ میری عبادت کی طرف ہے(اے میرے ملائکہ) میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی اس کنیز کے سارے شیعوں کو جہنم سے امان عطا کر دی ہے۔۔۔”)امالی شیخ صدوق،ص175،المجلس الرابع والعشرون،فاطمہ طلوع سے غروب تک، ص 131،بحار الانوار،جلد43، ص172(
دنیا میں موجود ہر عبدِ خدا یہ چاہتا ہے کہ خدا اس ے راضی ہو جائے اور رضائے الہٰی کیلئے اللہ کی اطاعت کرتا ہے انبیاءِ الہٰی رضائے الہٰی کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے ناراض ہونے سے خدا ناراض ہوتا ہے یعنی وہ ہستیاں خدا کی رضا وغضب کا معیار ہیں ان ہی ہستیوں میں جنابِ سیدہؑ بھی ہیں جن کے راضی ہو جانے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے ناراض ہونے سے خدا ناراض ہوتا ہےاس سلسلے میں رسولِ خداؐ فرماتے ہیں:
"یا فاطمۃ ان اللہ یرضی لرضاک "
"اے فاطمہ! آپ کے راضی ہونے سے اللہ راضی ہوتا ہے”۔)عوالی اللئالی العزیمۃفی الاحادیث الدینیہ، جلد 4، ص93،بحار الانوار، جلد 43، ص49(
اور ایک اور مقام پہ یوں موجود ہے کہ رسولِ خدا نے جنابِ سیدہؑ کے حق میں فرمایا:
"ان اللہ یرضی لرضاک ویغضب لغضبک۔
"بے شک اللہ آپ کے راضی ہونے سے راضی اور آپ کے غضبناک ہونے سے ٖغضبناک ہوتا ہے”۔( بحار الانوار،جلد30،ص347)
حضرت فاطمہؑ کانام فاطمہ ؑ کیوں۔۔۔؟
دنیا میں کسی کا کسی کا بھی نام رکھا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس شخص کا کردار اس کے نام سے مطابقت رکھتا ہو بلکہ بہت سے لوگ اپنے نام کے بلکل برعکس ہوتے ہیں جیسے نام کسی کا علی ہوتا ہے لیکن وہ کردار میں پست ترین ہوتا ہے اور نام کسی کا سجاد ہوتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس شخص کو عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، لیکن اھل بیتؑ کا گھرانہ وہ عظیم گھرانہ ہے جس میں کسی کا نام رکھا جائے تو ان کا کردار و سیرت اس نام سے بھی بلند نظر آتے ہیں جہاں کسی کا نام علی ہے تو کردار میں بھی بلند ہیں، نام سجاد ہے تو کردار میں سجدہ گزاروں کے سردار نظر آتے ہیں ، نام باقر ہے تو علم پھیلا کرلوگوں کی علم کے چشمے سے پیاس بھجاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نام رضا ہے تو ہر حال میں رضائے الہی میں راضی نظر آتے ہیں ان ہی ہستیوں میں سے ایک ہستی وہ بھی ہیں کہ جن کا نام اللہ نے فاطمہؑ رکھا ہے اور ان کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا اس سلسلے میں سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مولائے کائناتؑ سے فرماتے ہیں:
"قال رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ) لعلی: ھل تدری لم سمیت فاطمۃ؟قال علی لم سمیت فاطمۃ یا رسول اللہ؟ قال: لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار”
"رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ کیا آپ کو معلوم ہے کہ فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟ مولائے کائناتؑ نے عرض کی یا رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟ تو رسولِ خداؐ نے فرمایا: کہ کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے دور رکھا گیا ہے”۔ (بحار الانوار،جلد 43، ص15)
یہ روایت بھی مذکور ہے کہ” رسولِ خداؐ نے جنابِ سیدہ فاطمہؑ سے فرمایا کہ کیا آپؑ کو معلوم ہے کہ آپ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا؟ تو مولائے کائناتؑ نے عرض کی یا رسول اللہؑ فاطمہؑ کانام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟تو رسولِ خداؐ نے فرمایا کہ کیونکہ فاطمہؑ اور ان کے شیعوں کو جہنم سے دور رکھا گیا ہے”۔ (علل الشرائع، جلد 1، ص179،بحار الانوار،جلد43،ص14)
جنابِ سیدہؑ میدانِ محشر میں
قیامت کے دن کچھ ہستیوں کا ایک خاص استقبال ہوگا لیکن جیسا استقبال جنابِ سیدہؑ کا ہوگاوہ نہ کسی نبی کا ہوگا اور نہ ہی کسی امام کا روایات میں مذکور ہے کہ جب جنابِ سیدہؑ میدانِ محشر میں آئیں گی تو ایک صدا آئے گی کہ اھلِ محشر اپنی نگاہیں جھکا لو،جیسا کہ رسولِ خدا کا فرمان ہے کہ
"اذا کان یوم القیامۃ نادیٰ مناد: یا معشر الخلائق طاطئوا رؤسکم حتیٰ تجوز فاطمۃ بنت محمد”
"جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی ندا دے کر کہے گا: اے مخلوقِ خدا! اپنے سروں کو جھکا لو یہاں تک کہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر جائیں”۔(کنز العمال، جلد 12، ص109)

اور جس انداز سے بی بیؑ تشریف لائیں گی اسے ایک حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"اذا کان یوم القیامۃ نادیٰ مناد: یامعشر الخلائق غضوا ابصارکم ونکسوا رؤوسکم حتیٰ تمر فاطمۃ بنت محمد، فتکون اول من یکسی، ویستقبلھا من الفردوس اثناعشر الف حوراء، و خمسون الف ملک، علی نجائب من الیاقوت، اجنحتھا وازمتھا اللؤلؤ الرطب، رکبھا من زبرجد علیھا رحل من الدرم علی کل رحل نمرقۃ من سندس حتیٰ یجوزوا بھا الصراط، ویاتوا بھا الفردوس، فیتباشر بمجیئھا اھل الجنان،فتجلس علی کرسی من نور ویجلسون حولھا۔۔۔”
"جب قیامت کا دن ہوگا تو منادی ندا دے کر کہے گا اے اہل معشر! اپنی نظریں جھکا لواور اپنے سروں نیچے کر لو حتیٰ کہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر جائیں، سیدہؑ پہلی وہ ہستی ہونگی جن کا یہ استقبال ہوگا کہ بارہ ہزار حورانِ جنت اور پچاس ہزار فرشتے ان کے ارد گرد ہونگےجو سارے یاقوت سے بنی ہوئی سواریوں پر ہونگے،جن کے پر اور لگامیں نرم اور لؤلؤ کے ہونگے، ان پر زبرجد ہونگے،جن کی زین نرم و چمکدار ہوگی اور ہر زین پر ریشم کے کپڑے ہونگے (حور و ملک ساتھ ہونگے) یہاں تک کہ سیدہؑ پل صراط سے گزریں گی اور جنت داخل ہونگی، بی بیؑ کے آنے سے اھل جنت خوش ہونگے، (اسوقت) سیدہؑ نور کی کرسی پر بیٹھیں گی اور وہ (حوران وملک) ان کے گرد کھڑے ہوجائیں گے۔۔۔(مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتھا،ص345،الاخلاقیات،دلائل الامامۃ، ص153)
اس کے علاوہ بھی سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کے مقام و منزلت کو بیان کرنے کیلئے کئی فرمودات ارشاد فرمائے اختصار کی وجہ سے ان کو یہاں ذکر کرنے سے قاصر ہیں۔
فاطمہؑ اپنے شوہرکی نظر میں
دنیا میں واحد ایسا گھرانہ جس میں زوج وزوجہ دونوں معصوم ہوں وہ علیؑ و فاطمہؑ کا گھر ہےکہ جو فرمانِ رسولؐ کے مطابق ایک دوسرے کے کفو ہیں اور یہ جوڑا وہ واحد جوڑا ہے جن کا عرش پر نکاح ہوا اور فرش پر بھی،اور جن کا نکاح خواں عرش پر خود خدا ہوجس نے ان کلمات سے عقدِ علیؑ و فاطمہؑ پڑھا:
"الحمد ردائی والعظمۃ کبریائی والخلق کلھم عبیدی وامائی زوجت فاطمۃ امتی من علی صفوتی اشھدوا ملائکتی”
"حمد میری چادر ہے اور عظمت میری کبریائی ہے ساری مخلوق میرے بندے اور کنیزیں ہیں اے میرے ملائکہ! گواہ رہنا میں اپنی کنیز فاطمہؑ کی تزویج اپنے خالص بندے علیؑ سے کرتا ہوں "۔(بحار الانوار،جلد43،ص110)
اور فرش پر افضلِ مخلوقاتِ خدا سید الانبیاءقصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑھا۔ایسی عظمتوں کا مالک گھرانہ جن کے خود سید الانبیاءؐ فضائل پڑھتے رہے اور ان کے مقام کو بیان کرتے رہے۔
مولائے کائنات علیؑ کی جنابِ سیدہ فاطمہؑ سے محبت پوشیدہ نہیں اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب تک جنابِ سیدہؑ اس دنیا میں موجود رہیں تب تک مولا علیؑ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی، جسطرح جنابِ خدیجہؑ کے ہوتے ہوئے سید الانبیاءؐ نے کسی اور خاتون سے شادی نہیں کی۔
امام علیؑ کی نظر میں مقامِ فاطمہؑ
مولائے کائناتؑ جو خود اطاعتِ الہٰی کی بلند ترین مقام پہ فائز ہیں کہ جہاں اطاعتِ الہٰی میں بلند پرواز کرنے والے بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتےاور نہ ہی مولا علیؑ کی عبادت کی کے مقام کو درک کر سکتے ہیں وہ علیؑ جو راتوں میں عبادتِ الہٰی میں رہتے ہیں ہیں دنوں میں حالتِ روزہ سے ہوتے ہیں اور جن کا ہر لمحہ عبادت و اطاعتِ خدا میں گزرتا ہے اور جن کی ایک ضربت فرمانِ رسولؐ کے مطابق ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اس علیؑ سے جب سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوچھتے ہیں کہ
"کیف وجدت اھلک؟”
” یاعلیؑ آپ نے فاطمہؑ کو کیسا پایا؟”
تو مولائے کائناتؑ عرض کرتے ہیں:
"نعم العون علی طاعۃ اللہ”
"فاطمہؑ اطاعتِ الہٰی میں بہترین معاون ہیں”۔(تفسیر نور الثقلین، جلد4، ص57)

اور جنابِ فاطمہؑ ان ہستیوں میں سے ہیں جن پر مولائے کائناتؑ بھی فخر کرتے ہیں ، مقام پر جب معاویہ نے مولا علیؑ کو خط لکھا تو اس کے خط کے جواب میں مولا نے ایک طویل خط لکھا جس میں یہ جملے بھی تھے:
"۔۔۔ومنا خیر نساء العالمین ومنکم حمالۃ الحطب۔۔۔”
"اے معاویہ! ہم میں عالمین کی عورتوں میں سے سب سے بہترین(فاطمہؑ) ہیں اور تم میں جہنم کا ایندھن اٹھانے والی” ۔(نہج البلاغہ، مکتوب 28)
اس کے علاوہ مولائے کائناتؑ جب جنابِ سیدہؑ کے حق کیلئے اٹھے اور جنابِ سیدہؑ کی طہارت پر استدلال کرتے ہوئے آپؑ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا:
"یا ابا بکر اتقرا کتاب اللہ؟
قال: نعم
قال: فاخبرنی عن قول اللہ عز وجل "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا” فیمن نزلت، فینا ام فی غیرنا؟
قال: بل فیکم،
قال: فلو ان شاھدین شھدا علی فاطمۃ بفاحشۃ ماکنت صانعاً؟
قال: کنت اقیم علیھا الحد، کما اقیم علی سائر المسلمین،
قال: کنت اذاً عند اللہ من الکافرین،
قال: ولم؟
قال: لانک رددت شھادۃ اللہ لھا بالطھارۃ، وقبلت شھادۃالناس علیھا۔۔۔”
"اے ابو بکر! کیا تم نے اللہ کی کتاب پڑھی ہے؟
انھوں نے جواب دیا: جی ہاں پڑھی ہے،
مولا علیؑ نے فرمایا: کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان "انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا” کس کی شان میں نازل ہوئی؟ ہماری شان میں یا کسی اور کی شان میں؟
حضرت ابو بکر نے کہا: آپؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
مولا علیؑ نے فرمایا: اگر حضرت فاطمہؑ بنت محمدؐ کی عصمت وطھارت کے خلاف کسی کام پر گواہ قائم ہوجائیں تو تم کیا کرو گے؟
حضرت ابو بکر نے کہا: میں ان پر اسی طرح حد جاری کروں گا جسطرح باقی مسلمانوں پر حد جاری کرتا ہوں۔
مولا علیؑ نے فرمایا: اس صورت میں تو اللہ کے نزدیک دینِ اسلام سے باہر نکل جائے گا۔
حضرت ابو بکر نے کہا: وہ کس طرح؟
مولا علیؑ نے فرمایا: اللہ نے ان کی طھارت کی گواہی دی ہے اور تو اللہ کی شہادت کو رد کر دیا، اور اس پر لوگوں کی شہادت کو قبول کیا، اس صورت میں تو دینِ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔”(تفسیر کنز الدقائق وبحر الغرائب، جلد 10، ص205)
اور جب جنابِ سیدہؑ کا وقتِ شہادت قریب آیا تو آپؑ نے مولا علیؑ سے عرض کی:
"یابن عم، ماعھدتنی کاذبۃولا خائنۃ ولا خالفتک منذ عاشرتنی”
"اے میرے چچازاد! آپؑ نے کبھی بھی مجھے جھوٹا یا خیانتکار نہیں پایا اور جب سے ہماری شادی ہوئی میں نے کبھی بھی آپؑ کے حکم کی مخالفت نہیں کی”
اس وقت امام علیؑ نے فرمایا:
"معاذاللہ، انت اعلم باللہ وابر واتقیٰ واکرم واشد خوفاً من اللہ (من) ان اوبخک بمخالفتی، قد عز علی مفارقتک وفقدک”
"خدا کی پناہ، فاطمہؑ آپ اللہ کی معرفت میں بے مثال ہیں آپؑ نیکوکاری، تقویٰ اور کرامت بہت بلند ہیں اور آپ خوفِ خدا میں اس سے کہیں بلند ہے کہ میری مخالفت کریں۔ یقیناً آپ کی جدائی و فراق میرے لیے بہت گراں ہے۔(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص1081)
مفاخرہِ علیؑ و فاطمہؑ
ایک روایت ہے جس میں آیا ہے کہ ایک دن مولائے کائناتؑ جنابِ سیدہؑ کھجوریں کھا رہے تھے اور آپس میں مزاحاً گفتگو کر رہے تھےاس دوران مولا علیؑ نے فرمایا کہ یا فاطمہؑ! رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے آپ کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں ، سیدہؑ نے فرمایا: یاعلیؑ تعجب کی بات ہے کیونکہ میں اپنے باباؐ کے دل کی ٹھنڈک ہوں ، ان کا ٹکڑا ہوں اور میرے علاوہ اب اس دنیا میں ان کی کوئی اولاد بھی موجود نہیں ہے۔
مولا علیؑ: آئیے اس بات کی تصدیق آپؑ کے باباؐ سے کراتے ہیں (یہ کہہ کر دونوں سید الانبیاءؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے)
سیدہ فاطمہؑ: بابا جانؐ ہم میں سے کون آپؐ کو زیادہ محبوب ہے؟
سید الانبیاءؐ: فاطمہؑ آپؑ مجھے زیادہ محبوب ہیں اور علیؑ آپ سے زیادہ عزیز ہیں۔
مولا علیؑ: فاطمہؑ میں نہیں کہا تھا؟ میں صاحب تقویٰ ماں فاطمہ بنت اسد کا بیٹا ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں بھی خدیجۃ الکبریٰؑ کی بیٹی ہوں۔
مولا علیؑ: میں صفا کا بیٹا ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں سدرۃ المنتہیٰ کی بیٹی ہوں۔
مولا علیؑ: میں مخلوقِ خدا کا فخر ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں اس کی بیٹی ہوں جو قربِ خداکی اس منزل کو پہنچا کہ ان کے درمیان دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
مولا علیؑ:میں پاک دامن ماؤں کا فرزند ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں بھی نیک و صالح و مومنہ ماؤں کی بیٹی ہوں۔
مولا علیؑ: جبرائیل میرا خادم ہے۔
سیدہ فاطمہؑ:میں وہ ہوں جسے آسمان میں راحیل کہہ کر پکارا جاتا ہےاور ملائکہ گروہ در گروہ میری خدمت کو آتے ہیں۔
مولا علیؑ: میری ولادت دنیا کے بلند ترین مقام میں ہوئی۔
سیدہ فاطمہؑ:میری شادی بلند ترین گھر میں ہوئی اور میں سردری آسمانوں میں ہے۔
مولا علیؑ: میں صالح المومنین کا فرزند ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں خاتم النبیین کی بیٹی ہوں۔
مولا علی: میں قرآن کے نزول پر جنگ کرنے والا ہوں۔
سیدہ فاطمہؑ: میں صاحبہ تاویل ہوں۔
اسی طرح یہ مکالمہ چلتا رہا یہاں تک کہ سید الانبیاءؐ نے فرمایا: اے فاطمہؑ اٹھو اور علیؑ کے سر کا بوسہ لو، یہاں پر ملائکہ موجود ہیں جو اس منظر کو دیکھ رہے ہیں جنابِ سیدہؑ اٹھیں اور علیؑ مرتضیٰ کے سر کابوسہ لیا۔(الفضائل، ص80)
فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا اپنے معصوم فرزندان کی نظر میں
امامِ حسنؑ اور مقامِ سیدہؑ
ایک یہودی نے امام حسن علیہ السلام سے عرض کی کہ آپؑ کی والدہ کون ہیں؟امام حسنؑ جو اپنی والدہ کے مقام کی عظمتوں کوجانتے تھے اور سائل کی ذھنی سطح کو بھی جانتے تھے تو امام نے اپنی والدہ کا مختصر الفاط میں تعارف کروایااور آپؑ نے اس کے جواب ارشاد فرمایا:
"امی الزھراء بنت محمد المصطفیٰ، قلادۃ الصفوۃ، وردۃ صدف العصمۃ،و غرۃ جمال العلم و الحکمۃ، وھی نقطۃ دائرۃ المناقب والمفاخر، ولمعۃ من انوار المحامد والمآثر، خمرت طینۃ وجودھا من تفاحۃ من تفاح الجنۃ، کتب (اللہ) فی صحیفتھا عتق عصاۃ الامۃ، وھی ام السادۃ النجباء، وسیدۃ النساء البتول العذراء فاطمۃ الزھراء”
"میری مادر گرامی زھراء بنت محمدؐ ہیں جو فضیلتوں کا ہار ہیں، گلدستہِ عصمت کا پھول ہیں،علم وحکمت کی زینت ہیں، مناقب ومفاخر کا نقطہِ مرکز ہیں،خصلتوں اور عزتوں والے انوار میں سے ایک نور ہیں،ان کے وجود کی مٹی جنت کے سیبوں میں سے ایک سیب سے گوندھی گئی ہے،اللہ نے ان کے حق مہر میں امت کے گنہگاروں کی مغفرت لکھ دی ہے،وہ برگزیدہ سادات میں ماں ہیں اور وہ عورتوں کی سردار بتول، عذراء، فاطمہ زھراء ہیں”۔(مدینۃ المعاجز، جلد 3، ص295)

امامِ حسن علیہ السلام نے اپنے اس فرمان میں جنابِ سیدہ کے کچھ القاب بیان کیے ہیں ان کا معنیٰ واضح کرنے کی ضرورت ہے:
جنابِ سیدہؑ کا ایک لقب بتول ہے آپؑ کو بتول اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ آپؑ کو عورتوں کی ماہانہ عادات و نفاس سے پاک رکھا گیا تھا۔(شرح احقاق الحق، جلد 10، ص25)

دوسرا لقب جو امامؑ نے بیان فرمایا وہ "عذراء” ہےآپؑ کو عذرا اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپؑ اپنی ساری زندگی باکرہ رہیں۔(فاطمہ طلوع سے غروب تک، ص137)

اس میں تعجب اس لیے نہیں کیا سکتا کیونکہ سرکار ختمیِ مرتبتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان میں آپؑ کو انسانی شکل میں حور قرار دیا گیا ہے اور حورانِ جنت کی صفات بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
"انا انشانھن انشاء فجعلنھن ابکارا(سورہ واقعہ: آیت 35-36)
"ہم نے ان(حوروں) کو ایک انداز تخلیق سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے انہیں باکرہ بنایا”
حورانِ جنت کی صفات میں سے ایک صفت دائمی بکارت ہے اور سیدہ کائناتؑ فرمانِ رسولؐ کے مطابق حور ہیں۔
اور تیسرے لقب یعنی زھراء کا وجہ تسمیہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ” جب بھی جناب سیدہؑ محرابِ عبادت میں اپنے رب کے حضور عبادت کیلئے کھڑی ہوتی تھیں تو ان کا نور آسمان والوں کیلئے ایسے ہی چمکتا تھا جیسے زمین والوں کیلئے رات کے وقت آسمان کے تارے چمکتے ہیں”
امام حسینؑ اور مقامِ سیدہؑ
امام حسینؑ کا اپنے باباؑ کے ساتھ جو مفاخرہ ہوا اور مولائے کائناتؑ نے اپنے کچھ فضائل بیان فرمائے تو امام حسینؑ نے باباؑ سے عرض کی”باباجانؑ جو کچھ آپ نے اپنے فضائل میں ارشاد فرمایا وہ سب سچ ہے اور آپؑ ان کو بیان کرنے میں امین ہیں” اس کے بعد امام حسینؑ نے اپنے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو عرض کی”میں حسینؑ ابن علیؑ ابن ابی طالب ہوں، میری ماں عالمین کی عوتوں کی سردار ہیں،میرے ناناؐ محمد مصطفیٰصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام بنی آدم کے سردار ہیں(پھر عرض کی) باباجانؑ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ میری والدہ اللہ کے نزدیک اور تمام لوگوں کے نزدیک آپؑ کی والدہ سے افضل ہیں۔۔۔”(الفضائل، ص85،مجمع النورین،ص194)

اس کے علاوہ شبِ عاشور امامِ حسینؑ نے اپنی غم زدہ و روتی ہوئی بہن کو خاموش دلاسہ دینے کیلئے جو ارشاد فرمایا اس میں یہ جملے بھی تھے:
"۔۔۔ابی خیر منی، وامی خیر منی، واخی خیر منی۔۔۔”
"اے میری بہن! میرے باباؑ مجھ سے بہتر ہیں،میری ماں مجھ سے بہتر ہیں اور میرا بھائی(امام حسنؑ) مجھ سے بہتر ہیں۔۔۔”(الارشاد،جلد2، ص94،بحارالانوار، جلد45،ص3)

امامِ حسین ؑ اپنی والدہ ماجدہ کا مقام بیان کرتے ہوئے اپنے نانا کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"فاطمۃ بھجۃ قلبی،وابناھا ثمرۃ فؤادی، وبعلھا نور بصری، والائمۃ من ولدھا امناء ربی وحبلہ الممدود بینہ وبین خلقہ، من اعتصم بہ نجا، ومن تخلف عنہ ھویٰ”
"فاطمہؑ میرے دل کا سکون ہے، ان کے بچے میرے دل کی ٹھنڈک ہیں،ان کے شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں،اور ان کی نسل سے معصوم ائمہؑ اللہ کے امین اور اس کے اور مخلوق کے درمیان اسکی سیدھی رسی ہیں جس رسی کا سہارا لینے والے نجات پائیں گے اور روگردانی کرنے والے ھلاک ہوجائیں گے”

امام سجادؑ اور مقامِ فاطمہؑ
جسطرح ہر امامؑ نے کسی نہ کسی مقام پر اپنا تعارف کرایا اور جہاں اپنے دوسرے فضائل بیان کیے وہاں اپنے نسبی شرافت و بلندی کو بھی بیان کیا، تاکہ جولوگ نہیں جانتے وہ پہچان لیں اور جو جانتے بوجھتے ہوئے دوسروں سے چھپاتے ہیں اور ان کو امام کا غلط اور ناروا تعارف کراتے ہیں وہ اپنے نامراد مقاصد میں ناکام ہوجائیں۔
انہی ائمہؑ میں ایک امام علی زین العابدین علیہ السلام بھی ہیں کہ مولاؑ کو سارے کوفی و شامی باغی باغی کہہ کر عوام الناس سے ان کا مقام پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اور ان لوگوں کے سامنے حقیر ظاہر کرنا چاہتے تھے لیکن ارادہِ خدا یہ تھا کہ حق ظاہر ہو اور اھلِ حق کا مقام دنیا جان لے اور اھل باطل رسوا ہوجائیں۔ شام کی جامع مسجد میں جب سارے لوگ اھلِ بیتِ رسولؑ کو باغی کی حد تک جانتے تھے اس مجمع میں جب امامؑ نے خطاب فرمایا اور اپنا تعارف کرایا جس کی وجہ سے اھلِ شام کو آپؑ کا مقام اور آپؑ کے گھرانے کی عظمت کا علم ہوا، اس خطبہ میں امامؑ نے یہ جملے بھی کہے:
"اناابن فاطمۃ الزھراءانا ابن سیدۃ النساء”
"لوگو! میں فاطمہ الزھراء کا فرزند وں، میں تمام عورتوں کی سردار کا فرزند ہوں”۔(چار عظیم ہستیوں کے انقلابی خطبے،ص252)

ایسی ہستی جن کے ذریعے وقت کا امام اپنا تعارف کرائے، اور جن کا فرزند ہونے پر زمانے کی حجت فخر کرے اس بی بیؑ کو فاطمہؑ کہا جاتا ہے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بابا امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
"یہ آیت "وامر اھلک بالصلاۃواصطبر علیھا” جب نازل ہوئی تو ہر صبح رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنابِ فاطمہ علیھا السلام کے دروازے پر آتے اور فرماتے السلام علیکم اھل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، الصلاۃ ،اللہ تم پر رحم فرمائے، اور پھر آیتِ تطھیر کی تلاوت فرماتے تھے” ۔(بحار الانوار، جلد25، ص220)

امام باقرؑ اور مقامِ فاطمہؑ
امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی اپنی جدہ فاطمہؑ کے مقام کو بیان فرماتے ہوئے کئی فرمان بیان کیے ہیں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
"ولقد کانت مفروضۃ الطاعۃ، علی جمیع من خلق اللہ من الجن والانس والطیر والوحش والانبیاء والملائکۃ
"جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اطاعت ہر مخلوقِ خدا پر فرض قرار دی گئی ہے چاہے جن ہوںِ انسان ہوں پرندے ہوں، جانور ہوں انبیاءؑ ہوں یا ملائکہ(سب پر اطاعتِ سیدہ فاطمہؑ اللہ نے فرض قرار دی ہے)” ۔(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص172)

اور ایک مقام پر جنابِ سیدہؑ کے ایک نام "طاہر” کا وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"انما سمیت فاطمۃ بنت محمد الطاھرۃ، لطھارتھا من کل دنس، وطھارتھا من کل رفث، وما رات قط یوما حمرۃ ولا نفاس”
"حضرت فاطمہؑ بنت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکو طاھرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؑ ہر طرح کی پلیدگی، گندگی اور زنانہ عادات سے پاک تھیں” ۔(بحار الانوار، جلد43، ص19)

اور امام باقرؑ قیامت کے روز جنابِ سیدہؑ کے مقام کو بیان کرتے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لفاطمۃ(علیہا السلام) وقفۃ علی باب جھنم، فاذا کان یوم القیامۃ کتب بین عینی کل رجل مومن او کافر فیؤمر بمحب قد کثرت ذنوبہ الی النار فتقرا فاطمہ بین عینیہ محبا فتقول:الھی وسیدی سمیتنی فاطمہ وفطمت بی من تولانی وتولی ذریتی من النار ووعدک الحق وانت لاتخلف المیعاد فیقول اللہ عز وجل: صدقت یا فاطمۃ انی سمیتک فاطمۃ وفطمت بک من احبک وتولاک واحب ذریتک وتولاھم من النار ووعدی الحق وانا لا اخلف المیعاد ونما امرت بعبدی ھذا الی النار لتشفعی فیہ فاشفعک ولتبین ملائکتی وانبیائی ورسلی واھل الموقف موقفک منی ومکانتک عندی فمن قرات بین عینیہ مؤمنا فخذیہ بیدہ وادخلیہ الجنۃ”
"قیامت کے روز جنابِ سیدہؑ جہنم کےدروازے کے قریب کھڑی ہوجائیں گی، اس دن ہر شخص کی پیشانی پر یا مومن لکھا ہو گا یا کافر لکھا ہوگا ،اسوقت ایک محبِ آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جو بہت بڑا گنہگار ہوگا کو جہنم میں جانے کا حکم سنا دیا جائے گا جب جنابِ فاطمہؑ اس کی پیشانی پر محبِ اھلبیتؑ لکھا ہوا دیکھیں گی تو بارگاہِ ربوبیت میں عرض کریں گی: اے میرے معبود و سردار! تو نے میرا نام فاطمہ رکھا اور مجھ سے اور میری آلؑ سے محبت کرنے والوں کو جہنم سے دور قرار دیا، (اے آقا) تیرا وعدہ برحق ہے اور تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ اسوقت اللہ ارشاد فرمائے گا: اے فاطمہؑ تو نے سچ کہا، میں نے ہی تیرا فاطمہؑ رکھا اور تم سے اور تیری آلؑ سے محبت وولایت رکھنے والوں کو جہنم سے بری قرار دیا ، میرا وعدہ بھی بر حق ہے اور میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتا۔ (اے میری کنیز فاطمہؑ) میں نے اپنے اس بندے کو جہنم میں جانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ تو اس کی شفاعت میری بارگاہ میں کرے اور میں تیری شفاعت قبول کروں اور تاکہ میرے ملائکہ، انبیاءؑ، رسل اور میرے نزدیک ہر صاحبِ مرتبہ یہ جان لے کہ تیرا مقام میرے نزدیک کتنا بلند ہے،(اے فاطمہؑ)تم نے جس کی پیشانی پہ محبِ اھلبیتؑ لکھا ہوا پڑھا ہے اس کو اپنے ساتھ جنت لے جاؤ” ۔(بحار الانوار، جلد43، ص14)

حضرت جابر امام باقرؑ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں :یاابن رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے اپنی جدہ فاطمہؑ کی کوئی ایسی فضیلت بیان فرمائیےجو اگر میں آپؑ کے شیعوں کے سامنے بیان کروں تو وہ خوش ہوجائیں۔ امامؑ نے ایک طویل حدیث بیان فرمائی جس میں بھی ارشاد فرمایا:
"جب جنابِ سیدہؑ جنت کے دروازے پہ پہنچ کر رک جائیں گی۔ بارگاہِ ربوبیت سے آواز آئے گی اے میرے حبیب کی بیٹی آپؑ کیوں رک گئیں؟ تو جنابِ سیدہؑ عرض کریں گی: اے میرے معبود! آج میں چاہتی ہوں کہ میری پہچان کرائی جائے۔ اس وقت اللہ فرمائے گا: اے میرے حبیب کی بیٹی! میدانِ محشر میں نظر دوڑاؤ اور جس کے دل میں بھی تمہاری یا تمہاری آلؑ میں سے کسی کی محبت ہو اس کو اپنے ساتھ جنت لے جاؤ۔
اس کے بعد امام باقرؑ فرماتے ہیں: اے جابر!اس دن جنابِ سیدہؑ اپنے شیعوں اور محبین کو ایسے چن لیں گی جیسے ایک پرندہ اچھے دانوں کو برے دانوں سے الگ کر لیتا ہے، پھر جب سارے محبانِ سیدہؑ جنت کے دروازے پہ پہنچیں گے تو وہیں رک جائیں گے۔ اس وقت اللہ فرمائے گا: اے میرے احباء میرے حبیبؐ کی بیٹی نے تمہارے حق میں شفاعت کر دی اب تم کیوں رک گئے ہو اور جنت نہیں جاتے؟تو سارے محبانِ سیدہؑ عرض کریں گے اے ہمارے معبود! ہم چاہتے ہیں ہیں آج ہماری قدر ومنزلت لوگوں پر واضح ہو۔اس وقت اللہ فرمائے گا: اے محبانِ فاطمہؑ! میدانِ محشر میں نظر دوڑاؤ اور دیکھو جو بھی تم سے فاطمہؑ کی وجہ سے محبت کرتا تھا، جس نے تمہیں فاطمہؑ کی محبت میں کھانا کھلایا،جس نےفاطمہؑ کی محبت کی وجہ سے تمہیں لباس پہنایا،جس نے فاطمہؑ کی محبت میں تمہیں پانی پلایا ، یا جس نے فاطمہؑ کی محبت میں تمہاری پیٹھ پیچھے ہونے والی غیبت کو روکا ، ان سب کا ہاتھ پکڑو اور اپنے ساتھ جنت لے جاؤ۔
پھر امامؑ نے فرمایا: کہ میدانِ محشر میں صرف شک کرنے والے اور کافر ومنافق رہ جائیں گے اور ان کی کوئی فریاد نہیں سنی جائے گی۔”(تفسیرفرات الکوفی، ص299)

اسی طرح امام باقرؑ تسبیحِ جنابِ سیدہؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"من سبح تسبیح الزھراء علیھا السلام ثم استغفر غفر لہ وھی مائۃ باللسان والف فی المیزان وتطرد الشیطان وترضی الرحمٰن”
"جو شخص تسبیحِ فاطمہ علیھا السلام پڑھے اور پھر خدا سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، اور یہ (تسبیح) پڑھنے میں صرف سو لفظ ہیں لیکن میزان میں جب تولی جائے گی تو ایک ہزار کے برابر ہوگی،اور یہ تسبیح پڑھنے سے شیطان دور ہوتا ہے اور رحمان راضی ہوتا ہے” ۔(ثواب الاعمال، ص163)

امام صادقؑ اور مقامِ سیدہؑ
چھٹے امامؑ سے جنابِ سیدہؑ سے متعلق کافی فرامین نقل ہوئے ہیں جن سے جنابِ سیدہؑ کے مقام و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے ان میں سے چند کو یہاں بیان کرتے ہیں:
ولادتِ سیدہؑ سے متعلق امامؑ سے سوال
ایک طویل روایت جو جنابِ سیدہؑ کی ولادت سے متعلق ہے اس کو بطورِ اختصار یہاں بیان کرتے ہیں:
"حضرت مفضل ابن عمر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مولا جنابِ فاطمہؑ کی ولادت کیسے ہوئی؟ امام ؑ نے فرمایا: کہ جب جنابِ خدیجہ سلام اللہ علیہا نے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کی تو ساری مکہ کی عورتوں ے ان سے تعلق توڑ لیا اور انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ تنہائی کی وجہ سے جنابِ خدیجہؑ وحشت میں میں رہتی تھیں لیکن جب جنابِ سیدہؑ کاحمل ٹھہرا تو ان کی تنہائی دور ہوگئی کیونکہ جنابِ سیدہؑ اپنی والدہ سے ان کے بطن میں بات کیا کرتی تھیں اور انہیں دلاسے دیا کرتی تھیں ایک دن رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں کلام کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ کس سے کلام کر رہی تھیں تو عرض کی اپنے بطن میں موجود بچے سے باتیں کر رہی تھی، اس وقت رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لڑکی ہےجس سے میری نسل چلے گی، اور اسی سے میرے خلفاء ہونگے۔اور جب وقتِ حمل قریب آیا تو مدد مانگنے کے باوجود کسی خاتون نے جنابِ خدیجہؑ کی مدد نہیں کی، اسوقت اللہ نے ان کی مدد کیلئےحضرت آسیہؑ،حضرت سارہؑ، حضرت مریمؑ اور کلثوم (حضرت موسیٰ کی بہن) کو بھیجا،جب جنابِ سیدہؑ اس دنیا میں آئیں تو یہ جملے ان کی لسان مبارک سے صادر ہوئے:
"اشھد ان لا الہ الا اللہ وان ابی رسول اللہ سید الانبیاء وان بعلی سید الاوصیاء وان ولدی سادۃ الاسباط۔۔۔”
"میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہےاور میرے باباؐ انبیاء کے سردار ہیں اور علی اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے بیٹے جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔۔۔”۔(روضۃ الواعظین، ص143)

اسماءِ فاطمہؑ
جنابِ سیدہؑ کے کثرت سے اسماء ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایک نام جنابِ سیدہؑ کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتا اس لیے ان کے کئی ائمہ نے کئی نام ذکر فرمائے ہیں ہر نام سیدہؑ کی کے فضائل کی ایک سمت کو بیان کرتا ہے۔
صادقِ آلِ محمد علیہم السلام اپنی جدہ کے اسماء بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"لفاطمۃ تسعۃ اسماء عند اللہ عز وجل فاطمۃ، والصدیقۃ، والمبارکۃ، والطاھرۃ، والزکیۃ، والراضیۃ، والمرضیۃ، والمحدثۃ، والزھراء، ثم قال: اتدری ای تفسیر فاطمۃ علیہا السلام؟ قلت اخبرنی یا سیدی قال: فطمت من الشرقال:ثم قال: لولا امیرالمؤمنین تزوجھا ما کان لھا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الارض، آدم فمن دونہ”
"اللہ کے ہاں میری جدہ فاطمہؑ کے نوں اسماء ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاھرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ اور زھراء، پھر امامؑ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ فاطمہ کی تفسیر کیا ہے؟ (راوی کہتا ہے کہ)میں نے عرض کی: میرے مولا آپ بیان فرمائیے۔ امامؑ نے فرمایا: کیونکہ میری جدہ فاطمہؑ کو شر سے دور رکھا گیا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر امامؑ نے فرمایا: اگر امیر المؤمنینؑ جنابِ سیدہؑ سے شادی کرنے کیلئے نہ ہوتے تو روئے زمین پر قیامت تک حضرت آدم اور ان کے علاوہ کوئی بھی جنابِ فاطمہؑ کا کفو نہ ہوتا "۔(علل الشرائع، جلد 1، ص178،امالی شیخ صدوق، ص688)

اور سورہِ القدر کی تفسیرمیں جنابِ فاطمہؑ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئےچھٹے امامؑ فرماتے ہیں:
"(انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) اللیلۃ فاطمۃ والقدر اللہ فمن عرف فاطمۃ حق معرفتھافقد ادرک لیلۃ القدر، واماسمیت فاطمۃ لان الخلق فطموا عن معرفتھااو من معرفتھا۔۔۔۔والروح القدس ھی فاطمۃ علیھا السلام”
"سورہِ قدر کی اس آیت”انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” میں لیلۃ فاطمہؑ ہیں اور القدر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، پس جس نے جنابِ سیدہؑ کی مکمل معرفت حاصل کر لی اس نے لیلۃ القدر کو درک کرلیا، اور جنابِ سیدہؑ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ مخلوقِ خدا ان کی معرفت حاصل کرنے سے عاجز ہے، (آگے بیان کرتے گئے حتی "تنزل الملائکۃ والروح” تک پہنچے تو فرمایا) کہ الروح القدس جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں” ۔(تفسیر فرات الکوفی، ص581)

حضرت جابرؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفرؑ صادق کی خدمت میں عرض کیا:مولا! جنابِ فاطمہؑ الزھراءکو زھراء کیوں کہا جاتا ہے؟
امامؑ نے فرمایا:
لان اللہ عز وجل خلقھا من نور عظمتہ، فلما اشرقت اضاءت السماوات والارض بنورھا وغشیت ابصار الملائکۃ وخرت الملائکۃ للہ ساجدین،
وقالوا: الھنا وسیدنا، ماھذا النور؟
فاوحی اللہ الیھم: ھذا نور من نوری، واسکنتہ فی سمائی، خلقتہ من عظمتی، اخرجہ من صلب نبی من انبیائی، افضلہ علی جمیع الانبیاء واخرج من ذلک النور ائمۃ یقومون بامری، یھدون الی حقی، واجعلھم خلفائی فی ارضی بعد انقضاء وحیی”
” کیونکہ اللہ نے جنابِ فاطمہؑ کو اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا، اور جب آپؑ کا نور چمکا تو آپؑ کے نور سے زمین وآسمان روشن ہوگئے اور ملائکہ کی آنکھیں چندھیا گئیں جس کی وجہ سے سارے ملائکہ اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے، اور عرض کرنے لگے: اے ہمارے معبود وآقا! یہ کیسا نور ہے؟
اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی: یہ نور میرے نور میں سے ہے جسے میں نے اپنے آسمان میں ٹھہرایا ہے، میں نے اسے اپنی عظمت سے خلق کیا ، اور اسے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کے صلب میں قرار دیا جس نبی کو میں نے سارے انبیاء سے افضل قرار دیا ہے، اور اسی نور سے میں ایسے امام قرار دونگا جو میرے امر کو قائم کریں گے، میرے راستے کی طرف ھدایت دیں گے اور میں انہیں زمین پر اپنی وحی کے ختم ہونے کے بعد اپنے خلفاء قرار دونگا۔” (الامامۃ و التبصرۃ، ص133)

مقامِ سیدہؑ
جیسا کہ چھٹے امامؑ کے فرامین سے بھی عظمتِ سیدہؑ کا پتہ چلتاہے اس کے علاوہ بھی جسطرح باقی ائمہؑ نے بی بیؑ کے شان کو بیان فرمایا ہے اسی طرح اور کثرت کے ساتھ چھٹے امامؑ نے منزلت ومقامِ سیدہؑ کو بیان فرمایا ہےجن میں سے کچھ کو یہاں بیان کرتا ہوں:
حضرتِ ابو بصیرؒ امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ امامؑ نے فرمایا:
"ان اللہ(تعالی) امھر فاطمۃ(علیھا السلام) ربع الدنیا، فربعھالھا، وامھرھا الجنۃ والنار، تدخل اعداءھا النار، وتدخل اولیاءھا الجنۃ، وھی الصدیقۃالکبریٰ وعلی معرفتھا دارت القرون الاول”
"بے شک اللہ تعالیٰ نے جنابِ سیدہؑ کو حق مھر میں اس دنیا کا چوتھائی حصہ عطا فرمایا، پس اس دنیا کا چوتھائی حصہ سیدہِ کائناتؑ کی ملکیت ہے، اور اسی طرح (اللہ نے جنابِ سیدہؑ کو حق مھر میں) جنت و جہنم کی ملکیت عطا فرمائی کہ سیدہؑ اپنے دشمنوں کو جہنم کا ایندھن بنائیں اور اپنے چاہنے والوں کو جنت میں لے جائیں ، اور فاطمہؑ ہی صدیقہ الکبریٰ ہیں اور ان کی معرفت قرونِ اولیٰ کیلئے محور ومرکز تھی” ۔(امالی شیخ طوسیؒ، ص668)

اور حضرت مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ مین نے امام صادقؑ سے عرض کی کہ مولا جنابِ فاطمہؑ کے بارے میں اس فرمانِ رسولؐ "انھا سیدۃ نساء العالمین” کے بارے میں بیان فرمائیں کہ کیا جنابِ فاطمہؑ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں؟
امامؑ نے فرمایا: کہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تو حضرت مریمؑ تھیں، جنابِ فاطمہؑ گزری ہوئی اور آنے والی تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں”۔(منھاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، جلد13،ص6)

ایک مقام پہ چھٹے امامؑ فرماتے ہیں :
"رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنابِ سیدہ فاطمہؑ کے کثرت سے بوسے لیا کرتے تھے جو حضرت عائشہ کو اچھا نہیں لگتا تھا جسکی وجہ سے ایک دن سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھ لیا: یارسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ فاطمہؑ اتنی کثرت سے فاطمہؑ کے بوسے کیوں لیتے ہیں؟ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! جب مجھے آسمان پہ لے جایا گیا اور میں جنت میں داخل ہوا تو جبرائیل میرے پاس آئے اور مجھے شجرہِ طوبیٰ کا ایک پھل دیا ، جسے میں نے کھایااور فاطمہؑ کی ولادت ہوئی، اور جب بھی میں فاطمہؑ کا بوسہ لیتا ہوں تو مجھے ان سے شجرہ طوبیٰ کی خوشبو اتی ہے” ۔(البرھان فی تفسیر القرآن، جلد1، ص88)

ایک مقام پر فرمایا:
"جب قیامت کا دن ہوگا تو اولین وآخرین کوجمع کیا جائے گا، اسوقت ایک منادی ندا دے کر کہے گا: اے اھل محشر! اپنی نظریں جھکا لواور اپنے سروں کو نیچے کر لو کیونکہ فاطمہؑ بنت محمدؐ گزر رہی ہیں” ۔(منھاج البراعۃ فی شرھ نہج البلاغہ، جلد13، ص34)

اور جنابِ سیدہؑ کے علم کے مقام کا کیاکہنا کہ وہ امام صادقؑ جن سے ایک وقت میں چار ہزار طلاب علم حاصل کرتے تھے اور ہر طالبِ علم کو ایک خاص علم کی تعلیم دیا کرتے تھے کہ جو بھی طالبِ علم جہالت لے کر آتا تھا لیکن جب امامؑ کی خدمت سے اٹھ کر جاتا تو عالم بن کے جاتا، یہ سب اہل علم سے پوشیدہ نہیں ۔ وہی امامؑ اپنے پاس مصحف فاطمیہؑ کے ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اپنے خاص صحابی حضرت ابو بصیرؒ کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"۔۔۔وان عندنا لمصحف فاطمۃ علیھا السلام وما یدریھم ما مصحف فاطمۃ علیھا السلام؟
قال: قلت: وما مصحف فاطمۃ علیھا السلام؟
قال: مصحف فیہ مثل قرآنکم ھذا ثلاث مرات۔ واللہ ما فیہ من قرآنکم حرف واحد۔۔”
"یقیناً ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ علیھا السلام ہےاور لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟
حضرت ابو بصیرؒ نے عرض کی: مولا مصحفِ فاطمہؑ کیا ہے؟
امامؑ نے فرمایا: یہ ایک مصحف ہے جو اس قرآن سےتین گنا زیادہ بڑا ہے لیکن اللہ کی قسم اس قرآن کا ایک حرف بھی اس میں موجود نہیں ہے”۔(الکافی، جلد1، ص239)

اور بحار میں یہ اس کے علاوہ یہ بھی موجود ہے:
"۔۔۔انما ھو شئ املاہ اللہ علیھا واوحیٰ الیھا”
"مصحفِ فاطمہؑ وہ ہے جو اللہ نے جنابِ سیدہؑ کو املاء کروایا ہے” ۔(بحار الانوار، جلد26، ص39)

مصحفِ فاطمہ علیھا السلام وہ مصحف ہے جو اللہ نے بذریعہ ملائکہ جنابِ سیدہؑ کو املاء کروایا اور جس کی وجہ سے جنابِ سیدہؑ کو محدثہ کہا جاتا ہے اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"انما سمیت فاطمۃ محدثۃ لان الملائکۃ کانت تھبط من السماء فتنادیھا کما تنادی مریم بنت عمران فتقول: یا فاطمۃ ان اللہ اصطفاک وطھرک واصطفاک علی نساء العالمین، یا فاطمۃ اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین، فتحدثھم ویحدثونہ، فقالت لھم ذات لیلۃ: الیست المفضلۃعلی نساء العالمین مریم بنت عمران؟ فقالوا: ان مریم کانت سیدۃ عالمھا، وان اللہ عز وجل جعلک سیدۃ نساء عالمک وعالمھا وسیدۃ نساء الاولین والآخرین”
"میری جدہ فاطمہؑ کو محدثہ اس لیے کہا جاتا ہےکیونکہ ملائکہ آسمان سے آتے تھے اور آپؑ کو ایسے ہی ندا دیتے تھے جیسے مریم بنت عمران کو دیا کرتے تھے، ملائکہ آکر کہتے تھے: "اے فاطمہؑ! بے شک اللہ نے آپ کو برگزیدہ بنایا ہے اور پاکیزہ بنایا ہے اور آپ کو تمام جہانوں کی عورتوں پر برگزیدہ بنایا ہے، اے فاطمہؑ! اپنے رب کی اطاعت کریں اور سجدہ کرتی رہیں اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہیں” ملائکہ جنابِ سیدہؑ سے باتیں کرتے اور بی بیؑ ان سے باتیں کرتی تھیں۔ ایک شب آپؑ نے ملائکہ سے فرمایا: کیا مریم بنت عمران کو تمام جہانوں کی عورتوں پر فضیلت نہیں دی گئی؟ تو ملائکہ نے عرض کی: جنابِ مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور اللہ تعالی نے آپؑ کو اس آپ کے زمانے، ان کے زمانے اور اولین وآخرین کی عورتوں کی سردار بنایا ہے” ۔(بحار الانوار، جلد14، ص206)

اور تسبیح جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے صادقِ آلِ محمد علیھم السلام فرماتے ہیں:
"تسبیح فاطمۃعلیھا السلام فی کل یوم فی دبر کل صلاۃ احب الی من الف رکعۃ فی کل یوم”
"ہر دن ہر نماز کے بعد اپنی جدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی تسبیح پڑھنا مجھے ہر دن ایک ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے”۔(مکارم الاخلاق، ص281، تھذیب الاحکام، جلد2، ص105)

امام کاظمؑ اور مقامِ سیدہؑ
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنی جدہ فاطمہ علیھا السلام کی شان میں ایک فرمانِ رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"۔۔۔الا ان فاطمۃ بابھا بابی وبیتھا بیتی، فمن ھتکہ فقد ھتک حجاب اللہ۔۔۔”
"اے لوگو! خبردار فاطمہؑ کا دروازہ میرا دروازہ ہے اور فاطمہؑ کا گھر میرا گھر ہے جس نے بھی اس گھر کی بے حرمتی کی اس نے اللہ کے حجاب کو پھاڑ ڈالا” ۔(بحار الانوار،جلد22، ص477)

اس کے علاوہ امامؑ لوگوں کو فقر سے بچنے ذریعہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لا یدخل الفقر بیتا فیہ اسم محمد او احمد او علی او الحسن او الحسین او جعفر او طالب او عبداللہ او فاطمۃ من النساء”
"اس گھر میں فقر داخل نہیں ہوتا جس میں کسی فرد کا نام محمدیااحمد یا علی یا حسن یا حسین یا جعفر یا طالب یا عبداللہ یا خاتون کا نام فاطمہ ہو” ۔(الکافی، جلد6، ص19)

اس فرمان میں امامؑ نے گھر میں فقر سے بچنے کیلئے مردوں کے کئی نام ذکر فرمائے کہ کوئی بھی نام ہو تو فقر گھر میں نہیں آسکتا لیکن اگر کسی گھر میں خواتین ہی ہوں تو اس گھر کو فقر سے بچانے کیلئے صرف فاطمہ نام بیان فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنابِ سیدہؑ کا اسمِ مبارک خواتین کےاسماء میں ایک ممتاز اور بلند حیثیت رکھتا ہے۔
اور ایک مقام پہ ساتویں امامؑ فرماتے ہیں:
"ان فاطمۃ علیھا السلام صدیقۃ شھیدۃ”
"بے شک میری جدہ فاطمہ علیھا السلام صدیقہ اور شھیدہ تھیں” ۔(الکافی، جلد1، ص458)

صدیق کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں:
بعض نے کہا بہت سچ بولنے والا، بعض نے کہا جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، بعض نے کہا کہ صدیق وہ ہوتا ہے جو سچ کا اسقدر خوگر ہو کہ اسے جھوٹ بولنا ہی نہ آتا ہو، اور بعض نے کہا کہ صدیق وہ ہوتا ہے جو قول واعتقاد میں سچا ہواور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر کے دکھائے۔ (مفردات القرآن، جلد2، ص574)

قرآن میں صدیق کا مقام انبیاء ، شہداء و صالحین کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے صدیق و صدیقہ کی عظمت کا ندازہ ہوتا ہے جیسا کہ ارشادِ رب العزت ہے:
"ومن یطع اللہ والرسول فالئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن الٰئک رفیقا”
"اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہےاور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں”۔ (سورہ نساء، آیت 69)
مناظرہ
اولادِسیدہؑ ہی اولادِ رسول ہیں اس سے متعلق ایک دلچسپ مناظرہ ہے جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور ھارون الرشید کے درمیان واقع ہوا، مناظرہ یوں ہے:
"ایک دن ھارون نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے عرض کیا: آپؑ نے لوگوں کو کس طرح اجازت دے رکھی ہے کہ وہ آپؑ لوگوں کو فرزندانِ پیغمبر کہتے ہیں حالانکہ تم لوگ علی ابن ابی طالب کے فرزند ہو، ہمیشہ انسان اپنے والد کی طرف منسوب ہوتا ہے فاطمہ الزھراءؑ تو صرف ایک پرورش کرنے والے ظرف کی مانند تھیں، جنابِ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمہارے نانا ہیں دادا نہیں ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا:” اے ھارون اگر پیغمبر اس دنیا میں واپس آجائیں اورتم سے دختر کی خواسگاری کریں تم انہیں ہاں میں جواب دو گے یا نہ میں؟
ھارون نے تڑپ کر کہا: سبحان اللہ کیا میں انہیں مثبت جواب نہیں دونگا؟ نہ صرف مثبت جواب دونگا بلکہ تمام عالم پر فخر ومباہات کروں گا۔
امامؑ نے فرمایا: رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگیں گے اور نہ ہی میں انہیں مثبت جواب دونگا۔
ھارون نے کہا: وہ کیسے؟
امامؑ نے فرمایا: وہ اس لیے کہ میں ان کا فرزند ہوں اور تم ان کے فرزند نہیں ہو۔
ھارون نے کہا: آفرین آپ نے خوب مدلل جواب دیا ہے۔پھر ھارون نے امامؑ سے کہا: تم لوگ کس صورت میں اپنے آپ کو پیغمبرؐ کی آل شمار کرتے ہو؟ حالانکہ آنحضرتؐ کا بیٹا نہ تھا انسان کی نسل اس کے بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، آپؑ لوگ پیغمبرؐ کی بیٹی کی اولود ہو۔
امامؑ نے اس مقام پر جواب دینے سے معذرت کی، کہ ان سے جواب نہ لیا جائے، لیکن ھارون نے اصرار کیا کہ اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔
ھارون نے اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے کہا: تم فرزندانِ علیؑ اپنے خاندان اور اپنے پیروکاروں کے رہبر ہو، آپ میرے سوال کا جواب قرآن سے دیں کیونکہ آپؑ اپنے آپ کو پیغمبرؐ کی آل کہتے ہیں تو آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کے تمام مفاہیم ومطالب اور اس کے رموز پر آپ کو عبور حاصل ہے، آپ قرآن مجید سےاس کا جواب تلاش کیجئے، کیونکہ قرآن میں آیا ہے:
"مافرطنا فی الکتاب من شئ”
"ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی” (سورہ انعام، آیت 38)
علاوہ ازایں آپ لوگ باقی علماء کی آراء سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: اجازت دیجئے کہ میں تمہارے سوالوں کا جواب دوں۔
ھارون نے کہا: جی ہاں فرمائیے۔
امامؑ نے فرمایا: اعوذباللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،
"ومن ذریتہ داؤد وسلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون وکذلک نجزی المحسنین ۤوزکریا ویحییٰ وعیسیٰ والیاس"۔ (سورہ انعام، آیت84،83)
"اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف،موسی اور ھارون کو بھی اور نیک لوگوں کو ہم اس طرح جزا دیتے ہیں۔ اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی”
امامؑ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ کے والد کون تھے؟
ھارون نے کہا: حضرت عیسیٰؑ کا باپ نہیں تھا۔
امامؑ نے فرمایا: قرآن نے حضرت عیسیؑ کو ان کی ماں مریم کے ذریعے پیغمبروں کی نسل کی ساتھ کیوں ملحق کر دیا، اے ھارون! جسطرح اللہ نے حضرت عیسیؑ کو حضرت مریمؑ کے ذریعے انبیاء سے ملحق کر دیا، اسی طرح ہم اپنی ماں سیدہ فاطمہؑ کے زریعے پیغمبرِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد بنتے ہیں” ۔(فاطمہ الزھراء طلوع سے غروب تک، ص102،103)

امام رضاؑ اور مقامِ سیدہؑ
دوسرے ائمہؑ کی طرح امام رضا علیہ السلام سے بھی جنابِ سیدہؑ سے متعلق فرمان موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہےکہ امامؑ فرماتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"جب میں معراج پہ گیا تو جبرائیلؑ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اور مجھے جنت میں گیاوہاں تروتازہ کھجور مجھے دی جسے میں نے کھایا اورجب زمین پر واپس آیا تو فاطمہؑ پیدا ہوئی، فاطمہؑ انسانی شکل میں حور ہے، جب بھی مجھے جنت کی خشبو سونگھنے کا شوق ہوتا ہے تو میں اپنی بیٹی فاطمہؑ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں”۔(عیون اخبارالرضاؑ، جلد1، باب11، ص107)

اور ایک مقام پہ فرمایا کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"میرے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ آپؐ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے علی و فاطمہ کی شادی کر دی ہے آپؐ بھی ان کی شادی کر دیں، اور میں نے حکم دیا ہے کہ شجرہِ طوبیٰ کو موتیوں،یاقوت اور مرجان کے ساتھ مزین کیا جائے، اور اھلِ آسمان اس سے بہت خوش ہیں عنقریب ان سے دو بچے ہونگے جو جوانانِ جنت کے سردار ہونگے اور انہی کی وجی سے اھلِ جنت مزین وآراستہ ہیں، پس علی و فاطمہ کی بشارت سنا دیجئے کہ بے شک آپؐ اولین وآخرین میں سب سے بہترین ہیں”۔( عیون اخبار الرضاؑ،جلد2،باب31، ص30)

اسی طرح امام رضاؑ اپنے آباء واجداد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"تحشر ابنتی فاطمۃ علیہ السلام یوم القیامۃ ومعھا ثیاب مصبوغۃ بالدماء تتعلق بقائمۃ من قوائم العرش تقول یا احکم الحاکمین احکم بینی وبین قاتل ولدی قال علی بن ابی طالب علیہ السلام قال رسول اللہ ویحکم لابنتی فاطمۃ ورب الکعبۃ”
"قیامت کے دن میری بیٹی فاطمہؑ جب میدان محشر میں آئیں گی تو ان کے پاس ایک خون سے بھرا ہوا لباس ہوگا ، فاطمہؑ عرش کے ستونوں میں سے ایک ستون کا سہارا لیں گی اور اپنے رب کے حضور عرض کریں گی: اے بہترین فیصلہ کرنے والے میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ربِ کعبہ کی قسم اس وقت اللہ میری بیٹی فاطمہؑ کے حق میں فیصلہ فرمائے گا” ۔(عیون اخبار الرضاؑ، جلد 2، باب30، ص12)

امام محمد تقیؑ اور مقامِ سیدہؑ
امام محمد تقی علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے جس میں آپؑ اپنی جدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مصائب پہ غم کا اظہار فرماتے ہیں جبکہ آپؑ کمسنی میں ہوتے ہیں:
زکریا بن آدم بیان کرتے ہیں:
"انی لعند الرضا اذ جیء بابی جعفر علیہ السلام وسنہ اقل من اربع سنین، فضرب بیدہ الی الارض ورفع راسہ الی السماء فاطال الفکر، فقال لہ الرضا علیہ السلام: بنفسی فلم طال فکرک؟ فقال: فیما صنع بامی فاطمۃ۔۔۔”
"میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا جب وہاں امام ابو جعفر محمد تقی علیہ السلام آئے اور اسوقت آپؑ کا سن مبارک چار سال سے کم تھا، امام ؑ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کافی دیر تک سوچتے رہے، اسوقت امام رضاؑ نے اپنے فرزند سے فرمایا: میں تم پر قربان جاؤں کیا سوچ رہے ہو؟ امام تقیؑ نے عرض کی: میں اس مصائب کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو میری ماں فاطمہؑ پر ڈھائے گئے۔۔۔” ۔(بحار الانوار، جلد50، ص59)

امام علی نقیؑ اور مقامِ سیدہؑ
امام علی نقیؑ کہ جن کو ابوالحسن الثالث بھی کہا جاتا ہے جنابِ سیدہؑ کے اسم فاطمہؑ سے متعلق رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا:
"انما سمیت ابنتی فاطمۃ لان اللہ عز وجل فطمھا وفطم من احبھا من النار”
"میری بیٹی کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فاطمہؑ اور اس سے محبت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے بری قرار دیا ہے” ۔(بحار الانوار، جلد43، ص15)

بہت سے ائمہ نے جنابِ سیدہؑ کے کئی اسماء کو بیان کیا اور ان کے اسماء کی وضاحت بھی فرمائی جیسے اس فرمان میں بیان کیا گیا کہ جنابِ سیدہؑ کو فاطمہ کیوں کہا جاتا ہے اور جیسا کہ پہلے بھی فرامینِ معصومین علیھم السلام میں بی بیؑ کے کچھ اسماء کی وضاحت بیان کی گئی ہے جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیھا کے اسماء ان کی ذات کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کی کچھ حقیقت کو بیان کرتے ہیں، سیدہؑ کا ہر اسم مبارک ان کی زندگی کے ایک پہلو کو واضح کرتا ہے۔

امام حسن عسکریؑ اور مقامِ سیدہؑ
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں :
"ایک دن ایک عورت حضرت صدیقہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کی خدمت میں آئی اوربی بیؑ سے سوال کرنے لگی جنابِ سیدہؑ اس کے سوالوں کے جواب دیتی رہیں جب وہ خاتون کافی سوال کرچکی تو عرض کرنے لگی : اے بنت رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپؑ کو اور سوال کر کے تنگ نہیں کرنا چاہتی۔
جنابِ فاطمہ علیھا السلام نے فرمایا: تمہارے جو سوال بھی ہیں وہ مجھ سے پوچھ لو۔پھر فرمایا: کیا اگر کسی شخص کو ایک بھاری چیز اٹھا کر بلند جگہ پہ لے جانے کا کہا جائے اور عوض میں اسے ایک لاکھ دینار دیے جائیں تو کیا وہ بھار اس کیلئے گراں ہوگا؟
اور عورت نے کہا: بلکل نہیں۔
جنابِ فاطمہؑ نے فرمایا: تمہارے ایک سوال کے جواب دینے کے عوض مجھے زمین سے عرش تک سارا لؤلؤ سے بھر جائے ملتا ہے، اس لیے مجھ پر تمہارا سوال کرنا گراں نہیں ہے، اور میں نے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپؐ فرما رہے تھے:بے شک ہمارے شیعہ علماء جب میدانِ محشر میں آئیں گے تو وہ کرامات کے زیور سے آراستہ ہونگے، کیونکہ اس دنیا میں انہوں نے ہمارے علوم کو پھیلایا اور اللہ کے بندوں کی رہنمائی کیلئے جد وجہد کی، لہذا ہر عالم کو دس لاکھ نور کی خلعہ عطا کی جائیں گی، پھر ایک منادی ندا دے کر کہے گا: اے یتیمانِ آلِ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت کرنے والوں، اے ان یتیمان کے آباء(ائمہ) سے بچھڑنے کے بعد انہیں ھلاکت سے بچانے والوں! یہ یتیمانِ آلِ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمہارے شاگرد ہیں جن کی تم نے کفالت کی اب انہیں بھی تم خلعہ پہناؤ جیسے دنیا میں تم نے انہیں علم کے زیور سے آراستہ کیا۔
اس کے بعد وہ علماء اپنے شاگردان کو اتنی خلعہ پہنائیں گے جتنا علم انہوں نے ان سے دنیا میں سیکھا ہوگا،پھر اسی طرح وہ شاگرد آگے اپنے شاگردان کو خلعہ پہنائیں گے۔
پھر اللہ فرمائے گا:کہ ان علماء کو خلعہ دو جنہوں نے یتیمانِ آلِ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت کی، اور پھر انہیں اتنی خلعات دی جائیں گی کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ہوجائیں گی۔
پھر جنابِ سیدہؑ نے فرمایا: اے کنیزِ خدا! جس کو اس خلعہ میں سے ایک بھی مل جائے تو وہ ہر اس چیز سے ہزاروں گنا بہتر ہے جس پر سورج طلوع کرتا ہے۔” ۔(تفسیر الامام العسکریؑ، ص340،341)

اس کے علاوہ امامؑ کا ایک فرمان جو جنابِ سیدہؑ کے مقام کی عظمت کو بیان کرتا ہے جس میں امامؑ نے فرمایا:
"نحن حجج اللہ علی خلقہ وجدتنا فاطمۃ حجۃ اللہ علینا”
"ہم اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں اور ہماری جدہ فاطمہ علیہا السلام اللہ کی ہم پر حجت ہیں” ۔(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص1030)

جو ہستی مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کے علاوہ باقی تمام ائمہ پر حجتِ خدا ہو اسے فاطمہ الزھراء علیہا السلام کہتے ہیں۔

امام مھدیؑ اور مقامِ فاطمہؑ
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا فرمان جس سے جنابِ فاطمہ علیہا السلام کی عظمت کا پتہ چلتا ہے امامؑ نے اپنےایک خط میں تحریر فرمایا:
"فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لی اسوۃ حسنۃ”
"میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے” ۔(احتجاج للطبرسی، جلد2، ص238)

امام زمانہؑ کے اس فرمان سے سیدہؑ کے مقام کی عظمت کا پتا چلتا ہےکہ ساری دنیا کیلئے نمونہِ عمل ہستیاں جن کی اتباع کرنے کا حکم رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی اپنی زندگی میں کئی مقامات میں دیا ہےان مقدس ہستیوں کیلئے بھی ایک ہستی میں نمونہِ عمل ہے جسے فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کہا جاتا ہے۔
تمت بالخیر
مقالہ نگار محمد عمار یاسر

منابع
1۔ تفسیر الامام العسکریؑ
2۔ تفسیر نور الثقلین
3۔ تفسیر کنز الدقائق
4۔تفسیر فرات الکوفی
5۔ البرھان فی تفسیر القرآن
6۔ مفردات القرآن
7۔ نہج البلاغہ
8۔الکافی
9۔ تھذیب الاحکام
10۔ بحار الانوار
11۔ عیون اخبار الرضاؑ
12۔ علل الشرائع
13۔امالی شیخ صدوقؒ
14۔منھاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ
15۔ دلائل الامامۃ
16۔ الاحتجاج للطبرسیؒ
17۔ الفضائل (شاذان ابن جبرئیل قمی)
18۔ مسائل علی ابن جعفرؑ ومستدرکاتھا
19۔ مکارم الاخلاق
20۔امالی شیخ طوسیؒ
21۔ الارشاد
22۔عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال
23۔ کنز الفوائد
24۔ عوالی اللئالی العزیمۃ فی الاحادیث الدینیۃ
25۔ مدینۃ المعاجز
26۔ شرح احقاق الحق
27۔ مجمع النورین
28۔ ثواب الاعمال
29۔ روضۃ الواعظین
30۔ الامامۃ والتبصرۃ
31۔ دلائل الصدق لنہج الحق
32۔ کنز العمال
33۔ مستدرک للحاکم
34۔ فاطمہ طلوع سے غروب تک (آیت اللہ کاظم قزوینی)
35۔ چار عظیم ہستیوں کے انقلابی خطبے (علامہ محمد علی فاضل)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button