سیرت امام علی رضاؑسیرت امام محمد تقیؑ

امام جوادؑ کے نام امام رضا ؑ کا ایک اہم خط

مؤلف: استاد انصاریان
بزنطی جوشیعہ دانشور، راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی ہیں ،بیان کرتے ہیں: میں نے اس خط کو پڑھا ہے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جوادمحمد تقی علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب آپ بیت الشرف سے باہر نکلتے ہیں اور سواری پر سوار ہوتے ہیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ہیں، یہ ان کا بخل ہے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتاہوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کریں، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درہم و دینار رکھ لیا کریں تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمہارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ہو، اور اگر تمہاری پھپھیاں تم سے سوال کریں تو ٢٥ درہم سے کم نہیں دیں اگر زیادہ دینا چاہیں تو تمہیں اختیار ہے. میری آرزو ہے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو، اور خدا کی طرف سےتنگدسی سے نہ ڈرو!
(کافی ج٤،ص٤٣،باب الانفاق ،حدیث ٥؛عیون اخبار الرضاج٢،ص٨،باب ٣٠،حدیث٢٠؛بحار الانوار ج٩٣، ص١٢١، باب ١٤،حدیث٢٤)
قارئین کرام! اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید نے بہت سی آیات میں اس صدقہ سے منع کیا ہے جس میں دوسروں پر منت اور احسان یا اس میں اذیت پائی جاتی ہو، صدقہ و خیرات صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہونا چاہئے، اور صدقہ لینے والے دوسروں کی منت اور احسان جتانے کی شرمندگی سے محفوظ رہیں، ورنہ تو وہ صدقہ باطل ہوجائے گا او رخدا کی نظر میں اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہوگا۔
الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَمْوَالَهمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ثُمَّ لاَیُتْبِعُونَ مَاا َنفَقُوا مَنًّا وَلَااذًی لَهمْ ا َجْرُهمْ عِنْدَ رَبِّهمْ وَلاَخَوْف عَلَیْهمْ وَلاَهمْ یَحْزَنُونَ
(بقرہ ٢٦٢)
”جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان نہیں جتاتے اور اذیت بھی نہیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر بھی ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن”۔
یَاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالاَذَیٰ
(بقرہ ٢٦٤)
”اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو”۔
بہر حال نماز، انفاق اور معنوی زیبائیوں میں سے جو کچھ بھی خداوندعالم نے انسان کو عطا فرمایا ہے، اورگناہوں سے توبہ و استغفار کے بعد ظاہر و باطن کے اصلاح کرنے کے راستہ ہیں۔غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، خدا داد نعمتوں میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنا، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں اور آخرت پر یقین وایمان جیسا کہ گزشتہ صفحات میں وضاحت کی گئی ہے ؛ یہ تمام ایسے حقائق ہیں کہ جس انسان میں بھی پائے جائیں وہ راہ ہدایت پر ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہے۔
اوْلَئِکَ عَلَی هدًی مِنْ رَبِّهمْ اُوْلَئِکَ همْ الْمُفْلِحُونَ
(بقرہ ٥)
”یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں”۔
بعض اہل تحقیق جیسے راغب اصفہانی کے نزدیک فلاح و بہبودی کے معنی یہ ہیں: فلاح یعنی ایسی زندگی جس میں موت نہ ہو، ایسی عزت جس میں ذلت نہ ہو، ایسا علم جس میں جہالت کا تصور نہ ہو، ایسی ثروت جہاں فقر و تنگدستی نہ ہو،اور یہ فلاح آخرت میں مکمل طریقہ سے ان انسانوں کو نصیب ہوگی جو لوگ غیب ((خدا، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ))پر ایمان رکھتے ہوں، نماز قائم کرتے ہوں، زکوٰة ادا کرتے ہوں، صدقہ و انفاق کرتے ہوں، قرآن او ردیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتےہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔
یہ بات بھی معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کو بارگاہ الٰہی میں مقبول ہونے کے لئے صرف گناہوں سے توبہ کرنا اور گناہوں سے دوری کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کے پیش نظر جن میں سے بعض کو آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ہے، توبہ کے بعد اپنی حالت ،اقوال اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوی زیبائیوں کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی توبہ کو کامل کرے اور اپنے گزشتہ کی تلافی کرے اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔
اِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اﷲُ سَیِّئَاتِهمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اﷲُ غَفُورًا رَحِیمًا
(فرقان٧٠)
”علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے ، تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے”۔
عمل صالح اور اخلاق حسنہ کے سلسلہ میں جو گناہوں سے توبہ کے بعدظاہر و باطن کے اصلاح کے اسباب میں سے ہے ، قرآن مجید ماں باپ ، رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، تمام لوگوں کے ساتھ نیک گفتار ، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، چونکہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ لازمی حد تک قرآن مجید اور احادیث سے مدد لیتے ہوئے معنوی زیبائیوں کو بیان کریں تاکہ ہماری حالت اور عمل کی اصلاح ہوسکے، کچھ چیزیں گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکی ہیں ان کی تکرار کی ضرورتنہیں ہے، صرف ہر آیت کے ذیل میں نئے اور جدید مطلب کی وضاحت کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، عزیز قارئین ! اب آپ قرآن مجید کی روشنی میں اخلاقی واقعیات کی طرف توجہ فرمائیں:
لاَتَعْبُدُونَ ا ِلاَّ اﷲَ وَبِالْوَالِدَیْنِ ِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ
(بقر ہ ٨٣)
”خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ ،قرابتداروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا،لوگوں سے اچھی باتیں کرنا ،نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا”۔
گزشتہ صفحات میں عبادت خدا اور احکام الٰہی کی فرمانبرداری کے عنوان سے نمازاور انفاق کے سلسلہ میں لازمی حد تک وضاحت کی گئی ہے لہٰذا مذکورہ آیت کے ذریعہ ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گفتار کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ہیں:
ماں باپ کے ساتھ نیکی قرآن مجید کی متعدد آیات نے تمام لوگوں کو خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم سے شرعی اور اخلاقی وجوب کی بُوآتی ہے، یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی اطاعت خدا کی عین بندگی اور عبادت ہے اور اس کی مخالفت گناہ و معصیت اور روز قیامت کے عذاب کا باعث ہے۔
خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے:
وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلاَتُشْرِکُوا بِه شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ ِحْسَانًا
(نساء ٣٦)
”اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤکرو”۔
ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا ان زحمتوں اور احسان کی تلافی ہے جس کو ان دونوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا ہے، جنہوں نے پیدائش کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کے احسان اور زحمت سے دریغ نہیں کیا۔
انہوں نے تمام مقامات پر اپنی اولاد کو اپنے اوپر مقدم کیا، ان کے سلسلہ میں ایثار کیا قربانیاں دیں اور اپنی طرف سے درگزر کیا، بلاوں کے طوفان اور سخت سے سخت حالات میں اولاد کی حفاظت کی، اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنی آغوش میں بٹھایا، اولاد کے چین و سکون کے لئے راتوں جاگتے رہے، اور سخت سے سخت حالات کی تلخیوں کو خوش ہوکر برداشت کیا، اس کی تربیت میں بہت سی مصیتیں برداشت کیں، اور اپنے خون جگر سے ان کو غذا دی، بہت سی سختیوں اور پریشانیوں کو تحمل کیا تاکہ اولاد کسی مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرکے ان کی زحمتوں کے ایک معمولی سے حصہ کی تلافی کرے۔
وَقَضَی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوا ِلاَّ اِیَّاه وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًااِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُهمَا اَوْ کِلَاهمَا فَلاَتَقُلْ لَهمَاا ُفٍّ وَّلاَتَنْهرْهمَا وَقُلْ لَّهمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَهمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا
(اسراء ٢٣،٢٤)
”اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبر دار ان سے اف نہ کہنا اور انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا .اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انھوں نے پچپن میں مجھے پالا ہے”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ماں باپ کے سلسلہ میں جس احسان کی سفارش ہوئی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی کرو، ان کو مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی چیز کا سوال کریں اگرچہ وہ بے نیاز ہوں، بلکہ ان کے کہنے سے پہلے ہی ان کی ضرورتوں کو پورا کردو، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
(آل عمران ٩٢)
”تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو”۔
ان کو ”اُف” تک نہ کہو، اور ان کو اپنے سے دور نہ کرو، ان کو مایوس نہ کرو، اگر ان کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی ہے بھی تو اس کو برداشت کرو اور اپنی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ لائو جس سے وہ ناراحت ہوں، اگر انھوں نے تمہیں مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا یا تم کو مار بھی دیا ہو تو صبر کرو، اور ان سے جدا نہ ہوں، اور ایسی حالت میں ان سے کہو: خداوندعالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپنی مغفرت میں جگہ عنایت فرمائے، کہ”قول کریم” سے مراد یہی ہے، پیار اور محبت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا کرو، مہربانی کی نگاہ کے علاوہ ان کو نہ دیکھو، اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلندتر نہ کرو، ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ اوپر نہ اٹھاو، اور ان کے چلتے ہوئے ان سے آگے آگے نہ چلو۔
(کافی ج٢،ص١٥٧،باب البر بالوالدین ،حدیث ١،بحارالانوار ج٧١،ص٣٩،باب ٢،حدیث ٣)
حضرت امام صادق علیہ السلام نیکی اور احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر خداوندعالم کے نزدیک ”اُف” سے کمتر کوئی لفظ ہوتا تو اولاد کو اپنے ماں باپ کے لئے کہنے سے منع فرماتا. نیز اولاد کو یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ عاق کا سب سے کم درجہ ماں باپ کے لئے لفظ ”اُف” کا استعمال کرنا ہے۔
عن حدید بن حکیم عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال: أدنی العقوق أف ولو علم اللہ عز وجل شیئا أھون منہ لنھی عنہ
(کافی ج٢،ص٣٤٨،باب العقوق ،حدیث ١؛بحار الانوار ج٧١،ص٥٩،باب٢،حدیث٢٢)
کتاب شریف”کافی” میں روایت بیان ہوئی ہے کہ ماں باپ کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھنا ]بھی[ عاق کا ایک مرحلہ ہے!
(کافی ج٢،ص٣٤٩،باب العقوق ،حدیث٧)
ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: اولاد پر باپ کا حق کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا یُسَمِّیِه بِاسْمِه ،وَلَا یَمْشی بَیْنَ یَدَیْه ،وَلَا یَجْلِسُ قَبْلَه،وَلَا یَسْتَسِبُّ لَه
(کافی ج٢،ص١٥٨،باب البر بالوالدین ،حدیث ٥؛بحار الانوار ج٧١،ص٤٥،باب٢،حدیث٦)
”باپ کا نام لے کر نہ پکارے، اس کے آگے نہ چلے، اس کی طرف پیٹھ کرکے نہ بیٹھے اور اپنے برے کاموں کے ذریعہ اپنے بے گناہ باپ کو ذلیل و رسوا نہ کرے”۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا: ذلیل و رسوا ہو، اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کس کے بارے میں فرمارہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ ضعیف العمر ہوں اوروہ ان کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرکے بہشت میں داخل نہ ہو۔
(تفسیر صافی ج٣،ص١٨٥،ذیل سورۂ اسراء ٢٤)
جناب حذیفہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: میرا باپ مشرکین کی طرف سے میدان جنگ میں آیا ہوا ہے کیا آپ مجھے اس پر حملہ کرنے اوراس کو قتل کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں، تم یہ کام نہ کرو، کوئی دوسرا اس سے مقابلہ کرے۔
)تفسیر صافی ج٣،ص١٨٦،ذیل سورۂ اسراء ٢٤)
تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
أَفْضَلُ والِدَیْکُمْ وَاَحَقُّهما بِشُکْرِکُمْ مُحَمَّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَعَلِیّ
(تفسیر امام حسن عسکری ص٣٣٠،حدیث ١٨٩،ذیل سورۂ اسراء، ٢٤ ؛بحار الانوار ج٢٣،ص٢٥٩، باب١٥، حدیث٨)
”تمہارا سب سے بہترین باپ اور تمہارے شکریہ کے سزاوار ترین ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام ہیں”۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے:
اَنَا وَ عَلَیّ اَبَوَاهذِه الْاُمَّةِ ،وَلَحَقُّنا عَلَیْهمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَیْ وِلَادَتِهمْ فَاِنَّا نُنْقِذُهمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِلیٰ دَارِالْقَرارِ، وَنُلْحِقُهمْ مِنَ الْعُبودِیَّةِ بِخِیارِ الْاَحْرارِ
”میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں، بے شک ہمارا حق اس باپ سے بھی زیادہ ہے جو اسے دنیا میں لانے کا سبب بنا، ہم اس امت کو آتش جہنم سے نجات دیتے ہیں اگر ہماری اطاعت کریں ، اور ان کو جنت میں پہنچادیں گے اگر ہمارے حکم پر عمل کرے، اور ان کو عبادت کے سلسلہ میں منتخب بندوں سے ملحق کردیں گے”۔
(اقتباس از توبہ آغوش رحمت استاد انصاریان)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button