خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:121) موضوع: شادی کی اھمیت و ضرورت قرآن و حدیث کی روشنی میں

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 05 نومبر 2021ء بمطابق 29 ربیع الاول 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ھماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ھمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اسلام میں شادی کی بڑی اہمیت ہے، شادی کے تعلق سے اسلام نے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت ہی جامع اور بے نظیر ہے۔ شادی اسلام کے نکتہ نگاہ سے محض ایک انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ بلکہ دین محمدی میں شادی کو انسان کی ایک اہم فطری ضرورت کے اعتبار سے دیکھا کہ جس طرح انسان کی بہت ساری فطری ضروریات ہیں کہ جس کا خیال اسلام نے رکھا اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے کہ جس کا از ابتدا اسلام نے خیال رکھا۔
اسی لیے دین اسلام نے جہاں ایک طرف انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف دین خدا نے شادی کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بھی بتایا ہے ،شادی کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔
اسلام میں شادی کی اہمیت
۱۔ گھرانے کی تشکیل میں شادی کابہت اہم کردار ہوتا ہے اسی وجہ سے دین مبین اسلام میں شادی کرنے کی بہت ترغیب اور تشویق کی گئی ہے۔ اللہ تعالی شادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: “‏ وَ أَنْکِحُوا الْأَیامى‏ مِنْکُمْ وَ الصَّالِحینَ مِنْ عِبادِکُمْ وَ إِمائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ”( سورہ نور، آیت۳۲) اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔
مندرجہ بالاآیت کی تفسیر کے بارے میں مفسّرین نے کہا ہے کہ ا َنکِحُوا ایک عربی کلمہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق امرکا صیغہ ہے جو کہ ازدواج کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔اس آیہ مجیدہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ازدواج کی ضرورت رکھتے ہیں ،ان پر ازدواج کرنا واجب ہے اور یہ زمہ داری والدین اورسرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے لئے مقدمات فراہم کریں تاکہ ان کے بچّے صحت و سلامتی کے ساتھ قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں۔
اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف سرپرستوں کو اپنے ماتحتوں اور زیرکفالت افراد کے لئے ازدواج کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازقِ حقیقی فقط خدا کی ذات ہے،اس لئے ازدواج کے سلسلے میں رزق کی تنگی سے نہ ڈرا جائے ،جو بھی ازدواج کرے گا اگر وہ فقیر ہوگا تو خدا اسے پنے فضل و کرم کے ساتھ غنی کر دے گا۔
۲۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نے شادی کرنے کو اپنی سنت قرار ددیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ‏“ النِّکَاحُ سُنَّتِی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی” شادی کرنا میری سنت میں سے ہے جس نے اس سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں،(جامع الاخبار، ص۱۰۱)
۳۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے شادی کرنے کوآدھا ایمان قرار دیا ہے “اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ” جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔(کشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس، ج۲، ص۲۳۹،حدیث۲۴۳۲)
۴۔ شادی کرنا نا صرف پیغمبر اسلام کی سنت ہے بلکہ انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے “وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً” (سورہ رعدآیت ۳۸۔)
بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے ازواج اور اولاد سے بھی نوازا ،ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔
۵۔ انسان کو شادی کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی میسر نہیں ہوتا بلکہ قلبی اطمینان اور ذہنی سکون غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے “ھوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا” (سورہ اعراف، آیت ۱۸۹) وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے۔اس آیۂ کریمہ سے عورت کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے، اگر انسان شادی کرنے سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منھ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۶۔رشتہ ارزدواج (شادی) کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، تاریخ میں کچھ استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کوایک اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم، مذہب اور ملت نہیں رہے ہیں۔ہر قوم وملت میں مقررہ رسومات اور رواجات کے بغیر مرد وعورت کے تعلقات برے اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم و رواج الگ الگ رہے ہیں لیکن شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔
اسلام رشتہ ازدواج کے ذریعہ نسل آدم کا تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی طرح کے انقطاع کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: “وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا وَّجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا” (سورہ فرقان آیت ۵۴)اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا پھر اس کو نسب اور سسرال بنایا اور آپ کا رب بڑی طاقت والا ہے۔
اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی اوراسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ دین خدا نکاح کو روحانی اوراخلاقی ترقی کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ روحانیت اور اخلاق میں سب سے اونچا مقام اور بلند معیار تمام انبیاء کرام کا ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے تعلق سے ذکر کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام شادی شدہ اور بال بچے والے رہے ہیں۔ انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں اورانسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں اور دشواریاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایک طرف رہبانیت کو روا نہیں رکھا ہے تو دوسری طرف انسان کو بے لگام بھی نہیں چھوڑدیا ہے۔ اسلام انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے اوراسلام کے فکر اعتدال اور نظریہٴ توازن میں انسان ہی کی خیرخواہی و بھلائی ہے۔ اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں اعتدال و توازن کا جو بہترین اور جامع فکری و عملی نظریہ پیش کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ازدواج کے بے شمار فوئد میں سے ایک اہم فائد ہ جنسی بے راہروی اور زنا سے نجات ہے۔یعنی ایک باغیرت اور غیّور معاشرے کی تشکیل کے لئے ازدواج کو کلیدی اہمیّت حاصل ہے۔حضور اکرم کا رشادِ مبارک ہے:
"زنا سے دور رہو،زنا میں دس نقصانات پوشیدہ ہیں:
١۔عقل ضعیف ہو جاتی ہے۔ ٢۔دین برباد ہو جاتاہے۔ ٣۔رزق تنگ ہوجاتاہے۔ ٤۔عمر کم ہو جاتی ہے۔ ٥۔تفرقہ و جدائی جنم لیتی ہے۔ ٦۔خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔٧۔نسیان اور فراموشی زیادہ ہوجاتی ہے۔٨۔صاحبانِ ایمان سے بغض و حسد پیدا ہوجاتا ہے۔
٩۔انسان بے آبرو ہوجاتاہے۔ ١٠۔دعائیں اور عبادات قبول نہیں ہوتیں۔
ازدواج ،وسعتِ رزق کا باعث ہے:
وسائل الشّیعہ جلد ١٤ صفحہ ٢٦ پر اسحاق بن عمّار فرماتے ہیں کہ میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ قصّہ صحیح ہے جو لوگ سناتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر اپنی غربت اور فقرو ناداری کی شکایت کی تو حضور ﷺ نے اسے ازدواج کرنے کا حکم دیا،کچھ عرصے بعد وہی شخص دوبارہ حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے وہی شکایت دہرائی،حضور ﷺ نے پھر اسے ازدواج کا حکم دیا اور اس نے ازدواج کیا،حتّیٰ کہ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ امام صادق نے فرمایا جی ہاں یہ قصّہ درست ہے،اور پھر فرمایا:
الرّزقُ معَ النِّسآئِ وَالعیالِ رزق بیویوں اور بچّوں کے ساتھ ہے۔
سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک عورت نے امام رضا کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے فضیلت و کمال حاصل کرنے کے لئے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔امام نے فرمایاتواپنے اس فیصلے سے دستبردار ہو جا،اس لئے کہ اگر شادی نہ کرنے میں کوئی فضیلت اور کمال ہوتا تو دخترِ رسول حضرت فاطمہ کیوں ازدواج کرتیں۔کیوں کہ کوئی بھی فضیلت ایسی نہیں جو حضرت فاطمہ کو حاصل نہ ہو۔
ازدواج ،حفاظت ِ دین کا باعث ہے۔
حضور کا ارشادِ مبارک ہے:من تزوَّجَ فقد احرز نصف دینہ ،فلیتق اللہ من نصفہ الباقی:
جس نے بھی ازدواج کیا یقیناًاس نے اپنا نصف دین محفوظ کرلیا اور باقی نصف دین کے لئے وہ خدا سے مدد مانگے اورالٰہی تقویٰ اختیار کرے۔
چونکہ ازدواج کرنا حکم خدا اور سنّتِ انبیاء و مرسلین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک شادی شدہ آدمی کی عبادت کو بھی غیر شادی شدہ آدمی کی عبادت پر فضیلت عطا کی گئی ہے۔جیسا کہ حضورۖ کی حدیث ہے:
المتزوج النّائم افضل عنداللہ من الصّائم القائم العزب
اللہ کے نزدیک ایک شادی شدہ سویا ہوا شخص ،غیرشادی شدہ عبادت گزار، روزہ دار سے افضل ہے۔
اسی طرح ایک مقام پر امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ
رکعتان یصلیھماالمتزوج افضل من سبعین رکعة یصلیھااعزب
شادی شدہ شخص کی دو رکعت نماز ،غیر شادی شدہ شخص کی ستّر رکعت سے افضل ہے۔
شادی کی عمر
شادی کرنے اور ازدواجی زندگی کو تشکیل دینے کا واضح تعین کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر سائنس نے دریافت کیا ہے کہ 20 سال کے بعد شادی کرلینا درمیانی عمر میں نیند کا معیار بہتر اور ذہنی تناﺅ سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیاہے، مینی سوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں آگاہ کیاگیا ہے کہ نوجوانی میں شادی کرنا موت سے تحفظ میں مدد دیتا ہے۔
بر وقت شادی کے مختلف فوائد کئی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آچکے ہیں مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نوجوانی میں شادی کرنا درمیانی عمر میں ذہنی بے چینی، تناﺅ سے تحفظ دیتا ہے،تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی کا تعلق خوشگوار اور اچھا ہو۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جلد شادی کرنے سے 37 سال کی عمر میں نیند کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے ورنہ اس عمر میں نیند کا معیار خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد جوڑے کے رویے کافی حد تک مشترک ہوجاتے ہیں جبکہ ان کی صحت پر بھی طویل المعیاد بنیادوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں،انہوں نے مزید بتایا کہ جب ذہنی تناﺅ کا کم سامنا ہو اور نیند کا معیار اچھا ہو تو جسم کی مشین کام بھی بہتر کرتی ہے جس کا نتیجہ اچھی صحت کی شکل میں نکلتا ہے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اسلام ان تمام تحقیقات سے۱۴۰۰سال پہلے ہی بر وقت شادی کی تاکید کرچکاہے، جس پر کئی احادیث و روایات موجود ہیں، امام رضا علیہ السلام اسکی اہمیت کے بارے میں حدیث قدسی کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: کہ ایک مرتبہ جبرئیل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئے اور عرض کی: اے محمد خدا نے آپ کو سلام پہنچایا ہے ا ور فرمایا ہے: جوانی کی عمر درخت پر ایک پھل کے مانند ہے، میوہ جب پک جاتا ہے تو اس کی واحد دوا اسے درخت سے توڑلینا ہے ورنہ سورج اور ہوا اسے خراب کردیتے ہیں، لڑکا لڑکی بھی جب جوان ہوجائے تو شادی کے علاوہ کوئی اور دوا نہیں ہے ورنہ گمراہی اور فساد اسکے دامن گیر ہوجائے گی، یہ پیغام موصول ہوتے ہی رسول خدا ممبر پر گئے لوگوں کو جمع کیا اور خدا عز و جل کا یہ پیغام لوگوں تک پہونچایا۔ (بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۳۷۱، )
دین اسلام میں ازدواج کرنے کا معیار
حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی عورت کو اس کے حسن کی خاطر اپنی بیوی مت بنائو اس لئے کہ ممکن ہے کہ اس کی خوبصورتی اس کے اخلاقی زوال کا باعث ہو اور اسی طرح کسی سے اس کے مال کی وجہ سے شادی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اس کا مال اس کی سرکشی اور بغاوت کا باعث بن جائے بلکہ اس کے دین کو دیکھو اور باایمان عورت سےشادی کرو۔
اسی طرح ایک شخص نے حضرت امام حسن کی خدمت میں عرض کی کہ مولا میرے ہاں ایک بیٹی ہے ،میں اس کا ازدواج کس سے کروں ؟آپ نے فرمایا:کسی بایمان شخص سے اس کی شادی کرو۔اس لئے کہ وہ اگر خوش رہے گا تو تمہاری بیٹی کو بھی عزّت و احترام دے گا اور اگر نارض ہو گا تو اس پر ظلم نہیں کرے گا۔
حضور اکرم کی حدیث ہے کہ مرد کی خوش بختی اور سعادت یہ ہے کہ اس کی بیوی نیک اور بافضیلت ہو۔
شادی سے رکاوٹیں
ازدواج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ بے جا توقعات ہیں جو کبھی والدین اپنی اولاد سے وابستہ کرلیتے ہیں اور کبھی خود بچے اپنی متوقع بیوی سے شوہر کے بارے میں فرض کرلیتے ہیں اور پھر انہیں مفروضات کی بناپر اپنے بچوں کے لئے یا اپنے لئے شوہر یا بیوی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں اپنی طرف سے مفروضات قائم کرنے کے بجائے دین اسلام کے مقرر کردہ معیارات کوہی ترجیح دینی چاہئے اور خوابوں اور افسانوں کی دنیا میں زندہ رہنے کے بجائے زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔
۲۔ والدین اور سرپرستوں کی عدم توجہ
ازدواجی زندگی کو تشکیل دینے میں دوسری اہم رکاوٹ والدین اور سرپرستوں کی بچوں کے جنسی بلوغ اور روحانی و جسمانی ضروریات سے چشم پوشی اور عدم توجہ بھی ہے، اس چشم پوشی اور عدم توجہ کے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اس لئے والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیرت معصومین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور اپنے بچوں کے لئے مقدمہ ازدواج فراہم کریں۔
۳۔ غرور و تکبر
ازدواج نہ ہونے کی تیسری اہم وجہ غرور و تکبر بھی ہے، ممکن ہے پورے کا پورا خاندان ہی اس مرض میں مبتلا ہو یا خودلڑکا یا لڑکی غرور و تکبر کی شکار ہو کئی مناسب رشتے ٹھکرا دے، غرور و تکبر کے بہت سارے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہہ اس بری عادت کے باعث نیک اور صالح رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں جس کے بعد افسوس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا، ہمیں شریک زندگی کا انتخاب کرتے وقت صرف اور صرف دینداری اور دین کی پاسداری کو ہی مد نظر رکھنا چاہئے۔
غربت کے خوف سے شادی نہ کرنا
کون نہیں جانتا کہ ازدواج ہی وہ مقدمہ ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے خاندان جیسی بنیادی اکائی فراہم کرتا ہے، معاشرے میں خاندان کی اہمیت ایک ستون کی سی ہے، اگر کہیں پر خاندانی نظام کھوکھلا ہونا شروع ہوجائے تو وہاں کا معاشرہ روبہ زوال ہو کر نہ صرفف یہ کہ اپنی اخلاقی و دینی روایات کھودیتا ہے بلکہ اپنی تہذیب و تمدن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اخلاقی و دینی روایات کھودیں اور اپنی تہذیب و تمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں وہ کسی بھی طرح آبرومندانی زندگی نہیں گزار سکتیں، معاشرتی استحکام اور اقوام کا وقار خاندانوں کی تشکیل پر ہی موقوف ہے۔
مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کے جوان و نوجوان مغربی دنیا کی یہ سوچ کہ پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا پھر شادی ، کو اپنی ازدواجی زندگی پر مقدم کردیتے ہیں اور شادی دیر میں کرتے ہیں، جب ان سے پوچھا جاتاہے تو وہی یہی کہتے ہیں کہ اگر شادی کرلیں گے تو گھر کیسے چلائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں عام طور پر شادی نہ کرنے کی اصلی وجوہات میں سے ایک وجہ، زندگی کے اخراجات کی فکر ہے۔ جیسے جیسے سماجی زندگی کی سطح بلند تر ہوتی جارہی ہے، انسان فکرمند ہوتا جارہا ہے اسی لئے بعض اوقات آج کل کا جوان شادی کرنے میں دیر یا شادی کرنے سے ہی منصرف ہوجاتاہے۔ فقر و تنگدستی کاخوف، اسکی شادی میں رکاوٹ بن جاتا ہےاوریہی وجہ ہے کہ انسان ذہنی اور روحانی طور پرمفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے واضح طور پر شادی فرمایاہے:اگر تازہ شادی شدہ جوڑے فقیر اور تنگدست ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے ان کو بے نیاز کردیتا ہے۔ ” ‏ وَ أَنْکِحُوا الْأَیامى‏ مِنْکُمْ وَ الصَّالِحینَ مِنْ عِبادِکُمْ وَ إِمائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ“اور اپنےغیر شادی شدہ آزاد افراد اوراپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادےگا کہ خدا بڑی وسعت والا والا اور صاحب علم ہے۔
پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی آیت پراستناد کرتے ہوئے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں جو فقر و تنگندستی سے ڈرکر شادی بیاہ سے بھاگتے ہیں ” ‏و من ترک التّزویج مخافة العیلة فقد أساء الظّنّ باللّه- عزّ و جلّ) إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ“(مستدرک الوسایل، ج14، ص 172) اگرکوئی شخص اہل وعیال کے مخارج کے ڈر سے شادی نہ کرے تو اس نے خداوند رزاق پربدگمانی برتی ہے؛ کیونکہ خداوند صاف لفظوں میں فرماتاہے: اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل وکرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا ہے۔
لہذا اقتصادی مسائل کو اصل مشکل تصور نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ یہ ایک قسم کا وھم اور اعتقادی کمزوری ہے۔ شادی کا حل مالدار ہونے میں نہیں ہے؛ بلکہ اپنےعقائد اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ توحیدی عقیدے کے رو سے اللہ رزق دینے والا ہے اوراللہ نےتمام مخلوقات کی رزق کی ضمانت دی ہے، اور نے وعدہ کیا ہے کہ جوڑوں کو بے نیاز کردے گا۔
فقر و فاقہ سے پریشان ہونا دراصل خدا پر بے اعتماد ہونا ہے، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”و من ترک التّزویج مخافة العیلة فقد أساء الظّنّ بالله “ ‏ (من لا يحضره الفقيه , جلد۳ , صفحه۳۸۵)اگر کوئی فقرو تنگدستی کی وجہ سے شادی نہیں کرتا توگویا وہ اللہ تعالی پر بد گمان ہواہے۔
اس طرح کے افرادکا خدا پر بےاعتمادی اور رازقیت پرشک کرنا ہے، اس طرح کے افراد مالی مشکل گرفتار نہیں ہیں بلکہ خدا کی عدم شناخت اور اعتقادی کمزوری کے شکار ہیں۔ اگر انسان اپنے عقیدے کی اصلاح کرلے اور اللہ کی رزاقیت پر بھروسہ رکھے تو کبھی زندگی میں اقتصادی مسائل سے نہیں گھبرائے گا۔

درحقیقت فقر و تنگدستی کاخوف شیطان کا ایک حیلہ ہے، جیسا کہ رب کائنات کا ارشاد ہے:”‏الشَّیْطانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشاءِ وَ اللَّهُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً وَ اللَّهُ واسِعٌ عَلیمٌ “(بقرہ،268) شیطان تم سے فقیری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے خدا صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔
انسان کا یہ تصور کرنا کہ شادی انسان کی مادی زندگی کو مشکل ساز بنا دیتی ہے بالکل غلط ہے بلکہ اسلامی تعلمیمات کی رو سے شادی انسان کی مادی اورمالی زندگی کو بہتر بنادیتی ہے۔ یہ اللہ تعالی کا قانون ہے اس پر ہر مسلمان کو یقین رکھنا چاہیے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے آئندہ کے رزق کا حال ہی میں بندوبست کرلینا چاہیے؛ لیکن الہی قانون کا کہنا ہے کہ تم قدم بڑھائو، رزق خود بخود مہیا ہوگا۔
پیغمبر اکرم دوسرے مقام اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ” ‏تزوّجوا الزرق فإنّ فیهنّ البرکة. تزوجوالنساء فانهن یاتینکم باالمال“عورتیں شوہر کے گھر مال و دولت کے ساتھ آتی ہیں (من لا یحضره الفقیه ج۳ ص۳۸۷) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شادی کو رزق و روزی کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”الْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّکَاح“ روزی کو شادی بیاہ میں تلاش کرو(مستدرک الوسایل، ج14، ص 173)۔
انسان رزق کی ضمانت کا مطلب کچھ اس طرح تصورکرتا ہے کہ تمام عمرکے لئے رزق و روزی زمان حال ہی میں موجود ہو! حالانکہ رزق کی ضمانت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے۔ الہی قوانین یہ ہیں کہ انسان کی روزی، زمانے کے ساتھ ساتھ ملتی جاتی ہے، اس قانون کو پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ یوں بیان فرمارہے ہیں: ”یا علىّ لا تهتم لرزق غد فانّ کلّ غد یأتى برزقه “ (بحار الانوار،ج 74،ص68،)اے علی آنے والے کل کی روزی کی فکر مت کرنا؛ کیونکہ ہر آنے والا کل اپنی روزی ساتھ لے کر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ” مَنِ اهْتَمَّ بِرِزْقِ غَدٍ لَمْ یُفْلِحْ أَبَداً“ اگرکوئی شخص آنے والے کل کی روزی کے لئے فکر مند رہے تو وہ ہرگز کامیابی نہیں پائے گا(غرر الحکم و درر الکلم، ج 1، ص 523، ح9208) اس بحران سے نجات صرف مذکورہ قانون پر یقین کرنے میں ہی ہے، اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ آنے والے کل کی روزی اسی کل کے ساتھ ملنے والی ہے تو اس رزق کے آج نہ ہونے پر فکرمند نہیں ہوگا اور آرام و سکون کی زندگی گزارے گا۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ روزی کی ضمانت کا قانون صرف اس انسان کے لئے ہے جو محنت کش ہو،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوند روزی عطا کرنے والا ہے، وہ اسی انسان کو باعزت رزق مہیا کرتا ہے جورزق حلال کے حصول میں کوشاں رہتا ہے، پروردگارایسے انسان کی روزی کی ضمانت دیتا ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے روزی کمانے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہاں روزی اور رزق سے مراد زیادہ مالدار اورثروت مند ہونا نہیں ہے جو ہمیشہ حرص اور زیادہ خواہی کے ہمراہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ‏لا تحمل على یومک همّ سنتک، کفاک کلّ یوم ما قدّر لک فیه، فان تکن السّنة من عمرک فانّ اللَّه سبحانه سیأتیک فى کلّ غد جدید بما قسم لک، و ان لم تکن من عمرک فما همّک بما لیس لک“(غرر الحکم و درر الکلم , جلد۱ , صفحه۷۶۰) سال بھرکی روزی کی فکر کو آج پر بار مت کرو، ہردن کے لئے جو کچھ اس میں ہے کفایت کرتا ہے پس اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہو تو اللہ تعالی ہر روز کی روزی تمہارے لئے ضرور مہیا کرتا ہے اور اگر وہ سال تمہاری عمرمیں شامل ہی نہ ہو تو پھر کیوں اس کی فکر کرتے ہو جو تم سے مربوط ہی نہیں!
حضرت علی علیہ السلام ہر دن کی روزی کے بارے میں فکرمند رہنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: روزی کی فکر صرف اسی دن کے لئے کافی ہے۔ انسان ہردن کی روزی کی فکر اسی دن کرے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب انسان پوری زندگی کی روزی کی فکر آج ہی کرے؛ لیکن انسان اگر صرف آج کی فکر کرے اور آئندہ کی روزی کی فکر چھوڑ دے تو نہ آج کے کام سے رہ جائے گا اور نہ ہی شادی کرنے سے گھبرائے گا۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button