سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

جدید سماج اور سیرت علی علیہ السلام کے تقاضے

تحریر: محمد حسنین امام

کسی بھی قوم و ملک کی ترقی   اس کے سماجی حالات پر انحصار کرتی  ہے ایک ترقی یافتہ قوم کے  وجود اور بقاء کے لیے معاشرے کے تمام افراد اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں  برابر کے شریک ہوتے ہیں اکیلا فرد اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے طرح طرح کی مشکلات سےدو چار ہوتا ہے اور منفی قوتیں الگ سے اسے الجھنوں کا شکار کرتیں ہیں ۔

انسان ابتدائے آفرینش سے لے کر  آج تک اپنے رہن سہن، اور طور طریقوں میں تبدیلیاں لاتا رہا ہے مگرتہذیب اور فطرت کے ہاتھوں مجبور رہا ہے حتی کہ جدید سائنسی پیشرفت بھی انسانی تہذیب اور فطرت کو نہیں بدل سکی انسان کا ضمیر آج بھی اسے فطرت کی طرف پلٹنے اور مہذب زندگی گذارنے پر اکساتا ہے جدید دور میں جہاں انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلیے بے پناہ  سہولیات فراہم کیں ہیں وہاں نوع بشر کے لیے گوناگوں مسائل کو بھی جنم دیا ہے لیکن خدا وندعالم نے مخلوق کی ہدایت اور رہبری کا پہلے سے ہی بندو بست فرمادیا ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 ’’وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ‘‘

’’اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے‘‘۔

(سورہ يس، آیت ۱۲)

اس آیت کی تفسیر میں امام علی علیہ السلام سے مروی ہے۔

’’انا و اللہ الامام المبین ابین الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ‘‘

’’قسم بخدا میں ہی امام مبین ہوں۔ حق کو باطل سے جدا کر کے بیان کرنے والا میں ہوں، جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے وراثت میں لیا ہے۔‘‘

(تفسیر قمی ج۲ ص۲۱۲)

پس معاشرےمیں  جب کبھی کج روی اور زمانے کی فتنہ پردازیاں نظر آئیں تو ان کا حل فقط امام مبینؑ کی سیرت میں تلاش کرنا ناگزیر ہے۔لہذا ہم معاشرے عدالت اور ایثار کی حالت اور اس بارے میں امام علیؑ کی مختصر سیرت کو بیان کرتے ہیں۔

عدالت:

جس معاشرے میں قانون کی  بالادستی ختم ہوجائے تو ایسے سماج  کا ترقی کرنا تو دور کی بات ہے،جنگل کا منظر پیش کرتا ہے آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہےبین الاقوامی عدالتوں کا قیام عمل میں آچکا ہےامن و انصاف کی خاطر اقوام متحدہ جیسے ادارے بنائے گئے ہیں مگر عدل و انصاف پھربھی دنیا کا سنگین ترین مسئلہ بنا ہوا ہے کمزور لوگوں کو فرو مایہ کی طرح دبوچ لیا جاتا ہے چھوٹے سے چھوٹے ادارے سے لے کر بڑے بڑے محلوں اور عدالتوں میں ناانصافی عروج پر ہے دوسری طرف ہر انسان اپنی زندگی پر سکون طریقے سے جینے کے لیے حیرت و پریشانی میں سرگرداں ہے۔

ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام سماج کی بہتری کے لیے عدالت کو اساس قرار دیتے ہیں حتی کہ آپ سے جب استفسار کیا گیا کہ ’’عدل اورجودوسخامیں سے کون ساافضل ہے؟توامام نے فرمایا؛عدل امورکو ان کی اپنی جگہ پربرقرارکرتاہے لیکن سخاوت امور کو ان کی اپنی جہت سے خارج کر دیتی ہے عدل ایک عام اور وسیع سیاست گر ہے لیکن سخاوت کا کااثرمحدودہے اس لئے عدل جودوسخاوت سے افضل ہے۔‘‘

(مطالعہ نہج البلاغہ)

حتی کہ ایک مورخ لکھتا ہے کہ

’’ ائے کائنات ۔!تجھے  کیا ہو جاتا اگر تو  اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر صدی کو ایک علیؑ جیسا حکمران عطا کرتی‘‘۔

یہ وجہ تھی آپ غلام ، آقا ، گورے، کالےعربی اور غیر عربی سب کو بیت المال سے برابروظیفہ دیتے اس شدت عدل پر آپؑ نے اپنی ظاہری حکومت کی بنیادوں کو استورا کیا  اور معاشرے کو بہتری کی راہ پر گامزن کیا۔ یہی شدت عدل ہی آپؑ کی شہادت کا سبب بنی ۔

’’قتل علی لشدۃ عدلہ‘‘

علیؑ شدید عدالت کی وجہ سے محراب مسجد میں شہید ہوئے‘‘۔

پس اگر امیر المومنینؑ کی اس سیرت کا ہم اپنے سماج میں لاگو کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ یہ معاشرہ بھی بھی ہمارے لیے جنت نظیر بن سکتا ہے۔

ایثار:

ٹیکنالوجی کی ترقی اور نت نئی ایجادات نے سماجی فاصلوں اور انسانی رویوں میں اپنا اثر  نفوذ کیا ہے انسان کو اپنے پہلو میں بیٹھے شخص سے ناآشنا کردیا ہے لوگوں میں ہمدردی ، احساس اور جذبات کو سبوتاژ کرکے بے حس، اورخود غرض بنا دیا ہے ایثار و قربانی کا جذبہ بلکل ختم کردیا ہے۔ انسان دوسرے کا دکھ دیکھ کر کوئی الم محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی محسوس کرتا ہے ایک شخص بھوک سے تڑپ رہا ہے اس کے بچے  بھوک سے بلک رہے ہیں مگر اس کے ہمسائے کو خبر تک نہیں ہوتی اگر خبر ہوبھی جائے تو بے حسی کا یہ عالم ہے اس کے اس کے کان پر انسانی ہمدردی کی جوں تک نہیں رینگتی ۔

مگر یہی ایثار و قربانی کا جذبہ جب ہم امام علی علیہ السلام کی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہیں تو انسان خود کو جنت میں محسوس کرتا ہے آپ کہیں پر خود بھوکے رہتے ہیں مگر تین روزمسلسل بھوکے یتیموں، مسکینوں اور قیدیوں کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ جیسے آیہ مجیدہ ہے

’’وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا‘‘

’’اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔

(سورہ الانسان ۰۸)

کبھی پیاسے انسانوں کی پیاس بجھانے کے لیے کنویں کھود رہے ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے مدینہ کے ساتھ ایک مقام پر متعدد کنویں کھودے اور انہیں عوام الناس کے لیے وقف کردیا اور اپنےفرزندان کو وصیت فرمائے کہ یہ عام لوگوں کے لیے وقف ہیں ان میں سے آپ کسی کو اپنی ملکیت میں نہیں لےسکتے جنہیں ابیار علیؑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حاکم وقت ہونے کے باوجود غریب اور نادار لوگوں کا سامان رات کی تاریکی میں اٹھاتے اور مستحق لوگوں کے گھروں تک پہنچا کر آتے ہیں غرض اس طرح ایثار و قربانی کی سینکڑوں سے سے آپؑ کی سیرت عملی بھری پڑی ہے جن کو تاریخ نے اپنے ضابطے میں محفوظ کیا ہوا ہے کاش آج دنیا اس  سیرت کو اپنا لیتی جو آج کی مشکلات کے حل کا تقاضہ کررہی تو ہمارے سماج میں کتنے ہی انسانوں کی زندگی سنور سکتی تھی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button