اخلاق رذیلہاخلاقیات

تجسس و عیب جوئی

اپنے سے بے خبری
انسا ن کی ایک ایسی سب سے بڑی اخلاقی کمزوری جو ناقابل علاج ہے وہ اپنے سے بے خبری ہے۔ زیادہ تر گمراہی و تباہی اسی بے خبری و جھالت کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے کہ بہت سی صفات اور نا پسندیدہ ملکات اسی بے خبری کی بنا ء پر مسکن دل میں بیٹھ جاتے ہیں اور انسان کی بد بختی کی بنیاد کو مضبوط کر دیتے ہیں اور جب انسان اپنے سے بیخبری کی بناء پرخود سے غافل ہو جاتا ہے۔ تو اس کی روحانی فضیلت مر جاتی ہے۔ اور وہ اپنے جذبات و خواہشات کا اسیر ہو کر جاودانی سعادت سے محروم ہو جاتا ہے اور جب انسان اس منزل پر پہنچ جاتا ہے تو پہر کسی بھی قسم کی اخلاقی ہدایت و نصیحت اس کے لئے بیکار ہو جاتی ہے۔
اصلاح نفس کی سب سے بڑی شرط اپنے نفسانی عیوب کا ادراک کرنا ہے کیونکہ آگاہ و مطلع ہونے کے بعد نا پاکی اور رذائل کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا ہے، اور بری صفتوں کے خطرناک نتائج سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ تربیت نفس کے لئے نفسانی خصوصیات کے بارے میں غور و فکر کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ انسان اپنے کمال معنوی و اخلاقی تک صرف اسی راستہ سے پہنچ سکتا ہے اور یہی مطالعہ نفس انسان کو اس بات پر متمکن کر دیتا ہے کہ وہ نفس کے نقائص و کمالات کا ادراک کر سکے اور مختلف صفات کے انبوہ سے شیطانی صفات کو دور کر سکے اور نفس کے آئینہ کا اساسی تصفیہ کرکے اسے گناہوں کے گرد و غبار سے پاک کر سکے۔
اگر ہم نے اپنے اعمال کے آئینہ میں سہل انگاری کی بنا پر اپنی واقعی صورت کو نہیں دیکھا تو اس عدم توجہ کی بناء پر ہم نے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جو معاف کئے جانے کے لائق نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمارا فریضہ ہوتا ہے کہ اپنے ذاتی خصوصیات کی تحقیق کریں اور نفسانی صفات کی نوعیت کو بر ملا دیکھیں تاکہ اپنے سے بے خبری کے عالم میں ہمارے اندر جن عیوب نے نشو ونما پائی ہے اور انہوں نے اپنی جڑوں کو مضبوط کر لیا ہے ان کو سعی مسلسل کے ذریعہ بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی زندگی میں ان کو سر نہ اٹھانے دیں،نہ یہ کہ ان کو بے لگام چھوڑ دیں تاکہ وہ ہم کو جس قعر مذلت میں چاہیں ڈھکیل دیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ نفس کی اصلاح کوئی معمولی چیز نہیں ہے اور نہ آسانی کے ساتھ اس کا م کو انجام دیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے لئے طویل مشقتوں کو بر داشت کرنے کی اور استقامت و پائداری کی ضرورت ہے۔ بری عادتوں کو ختم کر کے ان کی جگہ اچھی اور نئی عادتوں کو متمکن کرنے کے لئے عیوب کی معرفت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے مضبوط و غیر متزلزل ارادہ کی بھی ضرورت ہے جو انسان کو مقصد تک پہنچا سکے۔ ہم اپنے اعمال کو جس قدر منظم کریں گے، ہمارے افکار میں بھی اسی قدر نظم و ترتیب پیدا ہوتی جائے گی اور ہر قدم کا نفع بخش اثر انجام کار کے بعد روشن ہوجائے گا۔
مشہور دانشمند پروفیسر کارل لکھتے ہیں: رفتار زندگی کو عاقلانہ بنانے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ روزانہ صبح کو اس دن کے اعمال کے بارے میں غور و فکر کر کے ایک مکمل پروگرام بنا لیں۔ اور ہر شب ان اعمال کے نتائج پر غور کر لیا کریں اور جس طرح ہم پہلے ہی سے سوچ لیتے ہیں کہ ہمارا کام کس وقت شروع ہو گا اور کس وقت ختم ہو گا اور ہم نے کن لوگوں سے ملاقات کرنی ہے، آج کیا کھانا ہے کیا پینا ہے اور آج ہمیں کتنا نفع ملے گا اسی طرح ہمیں پہلے سے ہی یہ بھی طے کر لینا چاہئے کہ دوسروں کی کیا مدد کرنی ہے اور کس طرح سے کاموں میں اعتدال پیدا ہو سکے گا۔
بری عادتیں بعینہ جسم کے میل کی طرح ہیں، لہذا جس طرح جسم کے میل کچیل کو دھونا اور صاف کرنا ضروری ہے اسی طرح بری عادتوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے بعد معمولی کسرت کرتے ہیں۔ تاکہ عضلات میں نرمی  پیدا ہوجائے، اسی طرح اس سے کم اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ روزانہ تھوڑی دیر اپنے اخلاق و افکار و ارواح کی بھی تربیت کریں کیونکہ روزانہ یہ سوچنے سے کہ کون سا طریقہ کار اختیار کریں اور کیا کریں جس سے رفتار زندگی متوازن رہے ہم میں یہ قدرت پیدا ہو جائے گی کہ اپنی عقلوں اور اپنے ارادوں کو تقویت عطا کر سکیں۔ اور اس ترتیب سے عمل کرنے پر ہمارے شعور کی گہرائی میں ایک مخفی آئینہ پیدا ہو جائے گا جس میں ہر شخص اپنے چہرے کو بے نقاب دیکھ سکے گا۔ ہمارے اصول زندگی برتنے کی توفیق مکمل طریقہ سے ہماری باطنی زندگی سے مرتبط ہے۔ اس لئے جس طرح ہوشیار تاجر آمدنی و خرچ کا رجسٹر رکھتا ہے اور دانشمند اپنے تجربات کی کتاب کے اوراق کو منظم رکھتا ہے اسی طرح ہم میں سے ہر فرد کے لئے ضروری ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مالدار ہو ، جوان ہو یا بوڑھا، عالم ہو یا جاھل، کہ روزانہ کی اچھائیوں اور برائیوں کو منضبط رکھے۔ اب اگر کسی نے بڑے صبر و ثبات کے ساتھ اس روش کو اپنا لیا تو اس کی روح میں ہی نہیں بلکہ جسم میں بھی تغیر  پیدا ہو جائے گا۔
ایک متین و معقول شخص اپنی طاقتوں اور کوششوں کو ہمیشہ شائستہ چیزوں میں صرف کرتا ہے۔ جس کی شخصیت جتنی محترم ہوتی ہے وہ دوسروں کی شخصیت کا بھی اسی قدر احترام کرتا ہے اور وہ ان تمام چیزوں سے پرہیز کرتا ہے جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہو ۔ کیونکہ ہر انسان کا تعارف اس کے روزانہ کے ان افعال سے ہوتا ہے جو وہ اپنے معاشرے میں دوسروں کے ساتھ برتتا ہے ایک بزرگ سے پوچھا گیا: سب سے مشکل چیز کیا ہے اور سب سے آسان کام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا سب سے مشکل چیز یہ ہے کہ انسان اپنے کو پہچان لے اور سب سے آسان کام یہ ہے کہ دوسروں کی عیب جوئی کرے۔
عیب جوئی گروہ
کچھ لوگوں میں ایک منحوس عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی لغزشوں اور بھیدوں کی تلاش میں رہا کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کریں ان کا مذاق اڑائیں ان کی سر زنش کریں، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عیوب ہوتے ہیں اور اتنی کمیاں ہوتی ہیں جو کم و کیف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے عیوب سے غافل ہو کر دوسروں کے عیوب تلاش کرتے رہتے ہیں۔  یاد رکھئے! لوگوں کے عیوب کی تلاش ایسی منحوس صفت ہے جو انسان کی زندگی کو آلودہ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی شخصیت کو گرا دیتی ہے۔
جو چیز انسان کو دوسروں کی عیب جوئی پر ابھارتی ہے وہ احساس کمتری و پست فطرتی ہے اور غرور و تکبر ، خود پسندی سے اس صفت کو تقویت ملتی ہے۔ اسی کی ہی وجہ سے انسان اپنی زندگی میں بڑی اور زیادہ غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس عیب جوئی کی وجہ سے انسان کے اخلاق اور اس کی روحانیت میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کو بڑے غلط اور نامعقول قسم کی غلطیوں پر جری بنا دیتے ہیں۔
جو حضرات اپنے افکار کو ایسی چیزوں میں صرف کرتے ہیں جو کسی بھی طرح عقل و خرد کے نزدیک اور شرع کی نظر میں بھی پسندیدہ نہیں ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے جانے پہچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس میں لگے رہتے ہیں کہ دوسروں کی کوئی بھی کمزوری ان کے ہاتھ لگ جائے تو اسی کو لے اڑیں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھریں اور جس قدر بھی ممکن ہو دوستوں کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا کریں۔ اور چونکہ یہ لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں لہذا ان کو اتنی فرصت بھی نہیں ملتی کہ اپنے عیوب کو تلاش کرسکیں اور اسی لئے اس قسم کے لوگ زندگی کی ہدایت و اصلاح کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اصولا اس قسم کے لوگ بز دل ہوتے ہیں، شجاع نہیں ہوتے۔ لہذا یہ کسی قید و بند کو بھی قبول نہیں کرتے اور نہ دوسروں کی عزت و حرمت کا احترام ان کی نظروں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے سے قریب ترین شخصوں کے ساتھ بھی خلوص نہیں برت سکتے۔ اسی لئے جہاں یہ لوگ دور کے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ہیں وہاں موقع ملنے پر قریب ترین دوستوں کی بھی برائی بیان کرنے لگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسے سچے دوست نہیں مل پاتے جو واقعی دوست ہوں اور اس کی محبت کے زیر سایہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکیں۔
انسان کی شرافت و بزرگی خود اس کے ہاتھ میں ہے جو شخص دوسروں کی شخصیت کو مجروح کرے گا اس کی شخصیت بھی قہری طور سے مجروح ہو جائے گی۔
یہ ممکن ہے کہ عیب جو اپنے عمل کے نتیجہ سے بے توجہ ہو لیکن وہ بہرحال اپنے اس عمل کی وجہ سے لوگوں کی بد گوئی سے محفوظ نہیں رہ سکتا کیونکہ عیب جو اپنی اس حرکت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں حسد کینہ بغض کا جو بیج بو چکا ہے اس کا بھگتان اسے بھگتناہی ہوگا۔ اور اس کو اپنے اس فعل کے نتیجہ میں ندامت و پشیمانی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ عیب جو بقول بزرگان، کبوتر کی طرح نہیں ہے کہ اگر آشیانہ سے اڑ جائے تب بھی دوبارہ واپسی کی امید منقطع نہیں ہوتی۔
جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے یعنی ہمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر نظر رکھے، ان کے نیک اعمال کو اپنے ذہن میں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کی قدر دانی کرے۔ جن عادتوں یا صفتوں سے دوسروں کی شخصیت مجروح ہوتی ہو اور جو باتیں اصول کی مخالف ہوں ان سے اجتناب کرے۔ کیونکہ محبت کو دوام محبت ہی سے ملتا ہے اور بقائے احترام طرفین سے ہوا کرتا ہے۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا عادی ہو گا اس کی محبت باقی رہے گی اور اس کی محبت کو دوام حاصل ہو گا۔ لہذا اگر کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھو تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنے کے بجائے کسی مناسب موقع پر اس کو اس بات کی طرف بہت خوش اسلوبی سے متوجہ کر دو۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر دوست کی کسی کمی پر اس کو متوجہ کرنا ہے تو اس میں بھی بڑی مہارت کی ضرورت ہے اس کو ایسی خوش اسلوبی سے متوجہ کیجئے کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ ایک مربی اخلاق کا کہنا ہے: تمہارے لئے یہ ممکن ہے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے یا کسی، حرکت کے ذریعے اس کی غلطی پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے یہ کہہ دیا کہ تمہارے اندر یہ کمی ہے تو کسی قیمت پر تم اس کو اپنا ہم عقیدہ نہیں بنا سکتے کیونکہ تم نے ڈائریکٹ یہ بات کہہ کر اس کی عقل و فکر پر حملہ کیا ہے اس کی خود پسندی کو مجروح کیا ہے۔ آپ کے اس طریقہ کار سے وہ اپنی ضد پر اڑ جائے گا۔ اور اپنے عمل میں کوئی تغیر نہیں کرے گا۔ آپ چاہے افلاطون و ارسطو کی ساری منطق اس پر صرف کر دیں لیکن اس کا باطنی عیقدہ نہیں بدل پائیں گے، کیونکہ آپ نے اس کے پندار کو زخمی کر دیا ہے۔ گفتگو کرتے وقت کسی صورت میں اس سے اس طرح گفتگو کی ابتداء نہ کیجئے: میں آپ کی غلطی کو ثابت کردوں گا میرے پاس اس کے لئے مضبوط دلیلیں ہیں! کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اس سے زیادہ عقلمند ہیں۔ لوگوں کے افکار کی اصلاح عام حالات میں دشوار ہوتی ہے، چہ جائیکہ جب اس کے سامنے بند باندہ دیا جائے۔ اگر کسی نکتہ کو ثابت ہی کرنا چاہتے ہوں تو پہلی بات یہ ہے کہ اس پر کسی کو مطلع نہ کیجئے اور اتنی ہوشیاری و مہارت سے اس کام کو انجام دیجئے کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ آپ کا مقصد کیا ہے اس سلسلہ میں شاعر کی اس نصیحت پر عمل کیجئے ” لوگوں کو اس طرح تعلیم دو کہ کوئی تم کو معلم نہ سمجھے “۔
مذھبی تعلیم کی تحقیق
قرآن مجید عیب جو حضرات کوبرے انجام سے ڈراتے ہوئے ان کی اس بری عادت کا نتیجہ بتاتا ہے ؛” ویل لکل ہمزة لمزة “ (۱) ہر طعنہ دینے والے چغلخور کے لئے ویل ہے۔
اسلام نے معاشرہ کی وحدت کی حفاظت کے لئے زندگی کے اندر اصول ادب کی رعایت کو ضروری قرار دیا ہے اور عیب جوئی جو تفرقہ کا سبب اور دوستانہ روابط کے قطع کرنے کی علت ہے، کو حرام قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ایک دوسرے کے احترام کو باقی رکھیں! اور کسی کی اہانت نہ کریں! امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک مومن کو دوسرے مومن سے اس طرح سکون ملتا ہے جس طرح پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے سکون ملتا ہے۔ ( ۲)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک انسان کے اخلاقی عیب کے اثبات کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ دوسروں کے جس عیب کو دیکھتا ہے اسی عیب کو اپنے یہاں نہیں دیکھ پاتا۔ یا یہ کہ دوسروں کو جس کام پر سر زنش کرتا ہے وہی کام خود بھی کرتا ہے یا اپنے دوست کو لا یعنی باتوں سے آزار پہنچاتا ہے۔ ( ۳)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خبر دار ! لوگوں کے عیوب تلاش کرنے والوں کی صحبت سے پرہیز کرو کیونکہ ان لوگوں کا ہم نشین بھی ان کی عیب جوئی سے نہیں بچ سکے گا۔ ( ۴)
اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام نے بہت عمدہ کلام ہے: تمہارے نزدیک سب سے بر گزیدہ ترین اس شخص کو ہونا چاہئے جو تمہیں تمہارے نقص و عیب کی طرف متوجہ کرے اور تمہاری روح و جان کی مدد کرے۔
ویل کارنگی کہتا ہے: ہمیں اور آپ کو بڑی خوشی کے ساتھ اپنے خلاف ہونے والے نقد و تبصروں کو قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ہم اس سے زیادہ کی توقع نہیں کر سکتے کہ ہمارے اعمال و افکار کا ۳/۴ حصہ صحیح و درست ہو۔ حد یہ ہے کہ عصر حاضر کا عمیق ترین مفکر” آنسٹائن “بھی اس بات کا معترف ہے۔ جس وقت بھی کوئی دشمن ہم پر نقد و تبصرہ کرتا ہے اگر ہم متوجہ نہ ہو ں تو بغیر یہ جانے ہوئے کہ ہمارا مخاطب ہم سے کیا کہنا چاہتا ہے خود بخود ہمارے اندر دفاع کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے اوپر نقد و تبصرہ سن کر چیں بہ جبیں ہو جاتا ہے اور تعریف و تحسین سے خوشحال ہو جاتا ہے بغیر یہ سوچے ہوئے کہ ہماری جو تنقید یا تحسین کی جار ہی ہے وہ غلط ہے یا صحیح ؟
در اصل ہم استدلال و منطق کی مخلوق نہیں ہیں بلکہ ہم احساسات و جذبات کی مخلوق ہیں۔ ایک گہرے و تاریک و متلاطم سمندر میں جس طرح ایک چھوٹی سی کشتی ادھر ادھر اچھلتی رہتی ہے اسی طرح ہماری عقل و منطق بھی ہے ہم میں سے اکثر لوگ اپنے بارے میں بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلاء ہوتے ہیں، لیکن جب چالیس سال پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں تو اپنی موجودہ حالت پر ہنسی آتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی دوسروں کے عیوب تلاش کرتا ہے تو اس کو پہلے اپنی ذات سے ابتدا ء کرنی چاہئے۔(۵)
ڈاکٹر ہیلن شاختر کہتا ہے: دوسروں کی رفتار و گفتار پر بے جا اعتراض کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان کی مدد کریں۔
جاہل شخص اپنے عیوب کو دور کرنے کے بجائے اس کے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: انسان کی خود فریبی و نادانی کے لئے یہی کافی ہے کہ دوسروں کے عیوب کا مشاھدہ کرتے ہوئے اپنے عیوب کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ (۶)
ڈاکٹر آویبوری کہتا ہے: ہم اپنی جہالت کی وجہ سے اپنے بہت سے عیوب سے چشم پوشی کرتے ہیں،اور ان عیوب پر غفلت و تجاہل کا پردہ اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ اپنے نفس کو دھوکہ دے سکیں۔ سب سے زیادہ اس پر تعجب ہے کہ ہم اپنے عیبوں کو تو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے اصلاح کی طرف بالکل نہیں سوچھتے اور اگر ہمارا کوئی ایسا عیب ظاہر ہو جائے جس کے چھپانے پر ہم قادر نہ ہوں تو ہزاروں ایسے عذر پیدا کر لیتے ہیں جس سے اپنے نفس کو راضی کر سکیں اور دوسروں کو بیوقوف بنا سکیں جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی نظروں میں اس عیب کی اہمیت کم کر سکیں، حالانکہ ہم اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں کہ عیب چاہے جتنا ہلکا ہو وہ مرور ایام کے ساتھ ثقیل ہو تا جاتا ہے۔ جیسے بیج رفتہ رفتہ بہت بڑا درخت بن جاتا ہے۔( ۷)
آج علمائے نفس کے ہاں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نفس کی بیماریوں اور اس کے علاج کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ نفس کا مطالعہ کیا جائے اور اس کے بارے میں غور و فکر کیا جائے۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی نفسانی بیماریوں کا علاج اسی طرح بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: ہر عقلمند پر لازم ہے کہ اپنے نفس ( کی بیماریوں ) کا احصاء کرے اور ایمان و عقیدہ و اخلاق و آداب کے سلسلہ میں نفس و روح کے مفاسد و رذائل کو حاصل کر لے یا ان کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے یا کسی ڈائری میں لکھ لے اس کے بعد ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اقدامات کرے۔( ۸)
حوالہ جات
۱۔سورہ ہمزہ/۱
۲۔کافی ج /۲ ص/ ۲۴۷
۳۔کافی ج/۲ ،ص/ ۴۵۹
۴۔غرر الحکم ص/ ۱۴۸
۵۔غرر الحکم ص/ ۶۵۹
۶۔ غرر الحکم ص/ ۵۵۹
۷۔در جستجو ئے خوش بختی
۸۔غرر الحکم ص /۴۴۸
https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=75

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button