فضائل اھل بیتؑمحافلمناقب امام موسیٰ کاظم ع

امام کاظم علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں اہل سنت کے علماء کی نظر

مقد مہ
ساتھویں امام، حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کا مقدس وجود 128 ہجری قمری کو ابواء نامی جگہ پر دنیا میں آیا. آپؑ کے والد گرامی امام صادقؑ اور آپؑ کی مادرگرامی جناب حمیدہ خاتون ہیں۔ 25 رجب المرجب 183 ہجری قمری کو بغداد میں آپؑ کی شھادت ہوئی۔
ہم اس تحریر میں مختصر انداز میں اہل سنت کی کتابوں اور اہل سنت کے علماء کی نگاہ میں آپ کی شخصیت کو بیان کریں گے۔
امام کاظمؑ اہل سنت کے علماء کے ہاں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ اہل سنت کے علماء نے احترام کے ساتھ آپؑ کو یاد کیا ہے۔ ہم اہل سنت کے علماء میں سے بعض کی نظر کو یہاں نقل کرتے ہیں:
1)بن سمعون (متوفای 387 ھ.ق):
آپ ساتھویں امام کے بارے میں لکھتے ہیں:
وتوفي موسى الكاظم في رجب سنة ثلاث وقيل سنة سبع وثمانين ومائة ببغداد مسموماً، وقيل إنه توفي في الحبس وكان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب.
موسیٰ کاظمؑ 173 یا 178 ہجری کو بغداد میں مسموم ہوئے اور دنیا سے چلے گئے اور یہ کہا گیا ہے کہ آپؑ زندان میں وفات پاگئے ہیں۔
شافعی نےحضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبرکوایک ایسی آزمودہ جگہ قرار دیا ہے جہاں ہردرد کی دوا ہے۔(1)
2)خطیب بغدادی (متوفای 463 ھ.ق):
خطیب بغدادی، ابن خلکان، مزی اور دوسرے اہل سنت کے علماء نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
وكان سخيا كريما وكان يبلغه عن الرجل أنه يؤذيه فيبعث إليه بصرة فيها ألف دينار وكان يصر الصرر ثلاثمائة دينار وأربعمائة دينار ومائتي دينار ثم يقسمها بالمدينة وكان مثل صرر موسى بن جعفر إذا جاءت الإنسان الصرة فقد استغنى.
آپؑ سخاوتمند اور کریم انسان تھے، جب کوئی آپؑ سے بدرفتاری کرتے تو آپؑ ایک ہزار دینار کی تھیلی اس تک پہنچاتے، اور آپؑ 300 ، 400 اور 200 دینار کی الگ الگ تھیلیاں بناکر رکھتے اور مدینہ کے فقیروں میں تقسیم کرتے۔ آپؑ کی تھیلیاں لوگوں میں مشہور اور ضرب المثل بنی ہوئی تھیں اور یہ مشہور تھا کہ موسی بن جعفر علیھما السلام کی تھیلی جس تک پہنچی وہ بے نیاز ہوجاتا ہے۔(2)
3)ابن جوزی حنبلی (متوفای 597 ھ ـ ق):
عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج ابن الجوزی الحنبلی، آپؑ کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:
موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی أبو الحسن الھاشمی علیھم السلام. كان يدعى العبد الصالح لأجل عبادته واجتهاده وقيامه بالليل وكان كريما حليما إذا بلغه عن رجل أنه يؤذيه بعث إليه بمال.
موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی أبو الحسن الھاشمی علیھم السلام آپؑ کو آپؑ کی عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے عبد صالح کہا جاتا تھا، آپ ایک کریم اور بردبار انسان تھے، جب آپؑ کو معلوم ہوجاتا کہ کسی نے آپ سے بدرفتاری کی ہے تو اس کے لئے مال ارسال کرتے۔(3)
4)محمد بن طلحہ شافعی (متوفای652 ھ ـ ق):
محمد بن طلحہ ،شافعی مذہب کے علماء میں سے ہیں، آپ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
أبي الحسن موسى بن جعفر الكاظم ( عليهما السلام ) الإمام موسى الكاظم ( عليه السلام ) . . . هو الإمام الكبير القدر ، العظيم الشأن ، الكبير المجتهد ، الجاد في الاجتهاد ، المشهور بالعبادة ، المواظب على الطاعات ، المشهود له بالكرامات ، يبيت الليل ساجدا وقائما ، ويقطع النهار متصدقا وصائما ، ولفرط حلمه وتجاوزه عن المعتدين عليه دعى كاظما، كان يجازى المسئ بإحسانه إليه ويقابل الجاني بعفوه عنه ، ولكثرة عبادته كان يسمى بالعبد الصالح، ويعرف بالعراق باب الحوائج إلى اللّٰه لنجح مطالب المتوسلين إلى اللّٰه تعالى به ، كرامته تحار منها العقول.
ابی الحسن، موسی بن جعفر الکاظم، امام کاظم سلام اللہ علیھما، آپؑ بلند مقام امام، عظیم الشأن ہستی، تہجد گزار ، بہت زیادہ سعی و تلاش کرنے والا، ایسی شخصیت کی جو صاحب کرامات تھی،ان کی عبادت مشھور تھی، آپؑ رات کو سجدہ اور قیام کی حالت میں گزارتے، دن کو روزے اور صدقہ دینے کی حالت میں گزارتے۔ آپؑ کو بردباری اورآپؑ سے بدرفتاری کرنے والوں کو عفو و درگزر کرنے کی وجہ سے کاظم کہتے تھے۔ کوئی آپؑ سے بدرفتاری کرتے تو آپ نیکی اور احسان سے اس کے ساتھ پیش آتےاور عفو درگزر سے برائی کا جواب دیتے۔ آپؑ کی عبادت کی وجہ سے آپؑ کو عبد الصالح کہتے ہیں۔ عراق میں آپؑ باب الحوائج إلي اللّٰه سے مشہور تھے۔کیونکہ لوگ ان کے وسیلے سے اللہ سے متوسل ہوتے اور اپنے توسل کا نتیجہ بھی پاتے۔ آپؑ کی کرامتیں عقل کو حیران کرتی ہیں۔(4)
5) ابن أبی الحدید معتزلی (متوفای655 ھ ـ ق):
ابن ابی الحدید معتزلی کہ جواہل سنت کے علماء میں سے اور نہج البلاغہ کے شارح بھی ہیں، آپ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں:
موسیٰ بن جعفر بن محمد  وهو العبد الصالح  جمع من الفقه والدين والنسك والحلم والصبر.
موسی بن جعفر بن محمد وہی عبد صالح ہیں، آپؑ فقاہت ، دیانت ، عبادت اور حلم و صبر کا مجموعہ تھے۔(5)
6) ابن خلکان (متوفای 681 ھ.ق):
انہوں نے «وفيات الأعيان» میں امامؑ کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:
موسی الکاظم  أبو الحسن موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين ابن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنهم أحد الأئمة الاثني عشر رضي اللّٰه عنهم أجمعين.
أنه يؤذيه فيبعث إليه بصرة فيها ألف دينار وكان يصر الصرر ثلثمائة دينار وأربعمائة دينار ومائتي دينار ثم يقسمها بالمدينة.
ابوالحسن موسیٰ کاظم آپؑ بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔آپ سے اگر کوئی بد رفتاری کرتا تو آپؑ اس تک ہزار دینار کی تھیلی پہنچادیتے آپؑ کے پاس 300 دینار ، 400 دینار اور 200 کے الگ الگ تھیلیاں تھیں، آپؑ انہیں مدینہ کے فقراء میں تقسیم کرتے۔(6)
7) نظام الدین النیسابوری (متوفای 728 ھ.ق):
انہوں نے بھی فخر رازی کی طرح کوثر کی تفسیر میں تیسرا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی ذریت ہونے کو نقل کیا ہے اور امام کاظمؑ کو کوثر کا ایک مصداق قرار دیا ہے:
والقول الثالث أن الكوثر أولاده … ثم العالم مملوء منهم … والعلماء الأكابر منهم لا حد ولا حصر لهم. منهم الباقر والصادق والكاظم والرضي والتقي والنقي والزكي وغيرهم۔

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کوثر سے مراد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی اولاد ہیں؛ دنیا میں اس وقت آپ کی نسل بری ہوئی ہے، یہاں تک کہ بڑے بڑے علماء اہل بیت سے ہی ہیں کہ جنہیں گن نہیں سکتا، انہیں میں سے حضرت باقرؑ ، صادقؑ، کاظمؑ ، رضاؑ ، جوادؑ ، ھادیؑ اور حسن عسکریؑ ہیں۔ (7)
8)شمس الدین ذھبی (متوفای 748 ھ.ق):
شمس الدین ذھبی کہ جو اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،امامؑ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقد كان موسى من أجواد الحكماء ومن العباد الأتقياء وله مشهد معروف ببغداد.
موسیٰ کاظمؑ حکماء میں سخی ترین اور خدا کے پرہیز گار بندوں میں سے تھے۔ آپؑ کی قبر بغداد میں ہے۔(8)
ذھبی نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا ہے:
كان موسى بن جعفر يدعى العبد الصالح من عبادته واجتهاده.
موسیٰ بن جعفرؑ، زیادہ عبادت اور اللہ کی اطاعت میں زیادہ کوشاں رہنے کی وجہ سے «عبد صالح» کے لقب سے مشھور تھے۔(9)
ذھبی نے ہی تاریخ الاسلام میں لکھا ہے:
موسى الكاظم … وكان صالحاً ، عالماً ، عابداً ، متألهاً.
موسیٰ کاظمؑ ایک صالح ،عالم اور اللہ کی عبادت میں کوشاں رہنے والی شخصیت تھی۔۔ .(10)

حوالہ جات
1)۔ابن سمعون ، أبو الحسن محمد بن أحمد بن إسماعیل بن عنبس البغدادی ، أمالی ابن سمعون ، ج 1 ، ص125 .
2)۔البغدادی، ابوبکر أحمد بن علی بن ثابت الخطیب (متوفای463ھ)، تاریخ بغداد، ج 13 ص 28 ، ناشر: دار الکتب العلمیہ – بیروت.
المزی،ابوالحجاج یوسف بن الزکی عبدالرحمن (متوفای742ھ)، تھذیب الکمال، ج 29 ص 44،تحقیق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسہ الرسالہ – بیروت، الطبعہ: الأولی، 1400ھ – 1980م.
3)۔ابن الجوزی الحنبلی، جمال الدین ابوالفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد (متوفای 597 ھ)، صفۃ الصفوۃ، ج 2 ص 184 ، تحقیق: محمود فاخوری – د.محمد رواس قلعہ جی، ناشر: دار المعرفہ – بیروت، الطبعہ: الثانیہ، 1399ھ – 1979م.
4)الشیخ کمال الدین محمد بن طلحہ الشافعی (متوفای652ھ)، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول (ع)، ص 447 ، تحقیق ماجد ابن أحمد العطیہ.
5)إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، ابوحامد عز الدین بن ھبۃ اللہ بن محمد بن محمد (متوفای655 ھ)، شرح نہج البلاغہ، ج 15 ص 172 ، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر: دار الکتب العلمیہ – بیروت / لبنان، الطبعہ: الأولی، 1418ھ – 1998م.
6)إبن خلکان، أبو العباس شمس الدین أحمد بن محمد بن أبی بکر، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج 5، ص308، ناشر: دار الثقافہ – لبنان ، تحقیق: احسان عباس.
7)۔تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج 6ص 576اسم المؤلف:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری الوفاۃ: 728 ھ ، دار النشر : دار الکتب العلمیہ – بیروت / لبنان – 1416ھ- 1996م، الطبعہ: الأولی، تحقق: الشیخ زکریا عمیران۔
8)۔الذھبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان (متوفای 748 ھ)، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج 6، ص 539 ، تحقیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الکتب العلمیہ- بیروت، الطبعہ: الأولی، 1995م.
9)۔الذھبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان (متوفای 748 ھ)، سیر أعلام النبلاء، ج 6 ص 271، تحقیق : شعیب الأرناؤوط , محمد نعیم العرقسوسی ، ناشر : مؤسسہ الرسالہ – بیروت ، الطبعہ : التاسعہ، 1413ھ .
10)،الذھبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان (متوفای 748 ھ)، تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج 12 ص 417 ، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری، ناشر: دار الکتاب العربی – لبنان/ بیروت، الطبعہ: الأولی، 1407ھ – 1987م.
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=2228

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button