سیرتسیرت امام علی نقیؑ

مسائل دینی میں امام علی نقی علیہ السلام کی راہنمائی

تحریر نگار: محسن اقبال متعلم جامعۃ الکوثر اسلام آباد
اسلامی معارف کی تشریح:
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ کی بعثت کےاہداف و مقاصد اور اماؑم کا ہم عصر معاشرے اورحکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھااور آؑپ عباسی گھٹن کے اس دور میں رسول اللہ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنےمیں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا امامت کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادؑی کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں اماؑم اس دور میں تبلیغ اسلام کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔
قرآن کی بنیادی حیثیت:
اہل تشیع کے درمیان غلات کی سرگرمیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے انحرافات کی وجہ سے دوسرے فرقوں نے مکتب تشیع کو اپنی یلغار کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان انحرافات میں سے ایک تحریف قرآن کا مسئلہ تھا جس کا تصور البتہ تشیع تک محدود نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی بعض کتب و مآخذ میں بھی تحریف کے سلسلے میں بعض غلط روایات نقل ہوئی ہیں۔ اس تہمت کا ازالہ کرنے کے لئے آئمہ شیعہ نے قرآن کو بنیاد قرار دیتے اور فرماتے جو روایت قرآن سے متصادم ہو وہ باطل ہے۔
امام ہادؑی نے ایک مفصل رسالہ لکھا جس میں آؑپ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔قرآن کو ایک باضابطہ طور ایک ایسا متن قرار دیا کہ تمام اسلامی مکاتب فکر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ رسالہ ابن شعبہ حرانی نے نقل کیا ہے۔اماؑم نے اپنے زمانے کے مختلف مکاتب اور فرقوں کے اکابرین کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب کرکے قرآن سے استناد کیا اور سب کو اپنی رائےقبول کرنے پر آمادہ کیا۔
عیاشی کی روایت میں ہے کہ:
"كان ابو جعفر وابو عبد اللہ عليهما الّسلام لا يصّدق علينا إلا بما يوافق كتاباللہ وسّنة نبيه”
’’ امام ابوجعفر و امام ابو عبداللہ علیہما السلام ہمارے لئے صرف ان روایات کی تصدیق فرمایا کرتے تھے جو قرآن و سنت کی موافق ہوتی تھیں‘‘۔
(بحار الانوار، ج، 2 ،ص، 244)
اماؑم اور خلق قرآن کا مسئلہ:
تیسری صدی ہجری کے آغاز میں حدوث وقدم قرآن کی بحث نے عالم تسنن کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ یہ بحث خود اہل تسنن میں فرقوں اور گروہوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی شیعیان اہل بیتؑ نے آئمؑہ کے فرمان کے مطابق خاموشی اختیار کرلی۔ امام ہادؑی نے ایک شیعہ عالم کے خط کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں اظہار خیال نہ کرو اور حدوث وِقَدِم قرآن میں کسی فریق کی جانبداری نہ کرو۔امام ہادؑی کے اس مؤقف کی بنا پر ہی شیعہ اس لاحاصل بحث میں الجھنے سے محفوظ رہے۔
(امالی صدوق، ص، 438)
علم کلام:
مختلف شیعہ گروہوں کے درمیان اختلاف رائے،ان کی ہدایت کو آئمؑہ کے لئے دشواری کا سبب بن رہا تھا؛ شیعیان اہل بیتؑ کا مختلف شہروں میں پھیلے ہونے اور کبھی دوسرے فرقوں کی بعض نظریات کے تحت تاثیر قرار پانا مزید دشوار تر کرتا تھا ۔ اس شور وغوغا میں شیعہ مخالف گروہ اور شیعہ دشمن مسالک ان اختلافات کو مزید ہوا دیتے اور انہیں بہت زيادہ عمیق ظاہرکرتے تھے ۔
کشی سے منقولہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص نے بیٹھ کر زراریہ، عّماریہ اور یعفوریہ نامی مذاہب بنا دئے اور انہیں تَشُیع فرقے قرار دیتے ہوئے امام صادقؑ کے بزرگ اصحاب یعنی زرارہ بن اعین ، عمار ساباطی اور ابن ابی یعفور سے منسوب کیا۔
(رجال کشی، ص، 265)
آئمہ شیعہؑ کو کبھی ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن میں سے بعض کا سبب شیعہ علما کے درمیان اختلافات سے ہوتا تھا۔ یہ سوالات کبھی تو سطحی قسم کے لیکن کبھی گہرائی کے حامل ہوتے تھے اور آئمؑہ مداخلت کرکے اصلاح کیا کرتے تھے۔
ان کلامی و اعتقادی مسائل میں سے ایک تشبیہ اور تنزیہ کا مسئلہ تھا۔ آئمؑہ ابتدا ہی سے نظریہ تنزیہ کی حقانیت پر تاکید کرتے تھے۔تشبیہ اور تنزیہ کی بحث میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کا موقف اور کلام شیعیان اھلبت کے درمیان اختلاف کا سبب بنااورآئمؑہ کو مسلسل اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔ اس سلسلے میں امام ہادؑی سے 21 حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن میں سےبعض مفصل ہیں اور وہ سب اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ اماؑم تنزیہ کے مؤقف کی تائید کرتے تھے۔
(مسند امام ہادی، ص، 94۔ 84)
جبر و اختیار کے مسئلےمیں بھی ایک مفصل رسالہ امام ہادؑی کے علمی ورثے کے طور پر موجود ہے۔ اس رسالے میں قرآن کریم کی آیات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور امام صادقؑ سے منقول حدیث :
"لا جبر ولا تفویض بل امر بین الامرین”
کی تحلیل و تشریح کی گئی ہے اور مسئلہ جبر و تفویض کے سلسلےمیں شیعہ کلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔حضرت امام علی نقی کی مقام استدلال میں بیان ہونے والی اکثر روایات جبر و تفویض کے متعلق ہیں۔
(مسند امام ہادی علیہ السلام، ص، 213 ۔ 198)
دعا اور زیارت:
دعا اور زیارت امام علی نقی ؑ کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیتؑ کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگر ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔
زیارت جامعۂ کبیرہ:
زیارت جامعۂ کبیرہ آئمہ معصومینؑ کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے ان سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جا سکتی ہے۔یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادیؑ کی طرف سے صادر ہوا۔ زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں آئمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمۂؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے۔ چونکہ اس زیارت کے مضامین و محتویات ائمۂؑ کے مقامات و مراتب کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔
(بحار الانوار، ج، 8 ،ص، 666 )
غیبت کے لئے تیاری:
امام ہادی علیہ السلام اپنے اور اپنے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کے حالات سے بخوبی آگاہ تھے، آپ دیکھ رہے تھے کہ دن بہ دن آپ علیہ السلام کے گرد دائرہ تنگ کیا جارہا ہے اور اسی طرح خلافتی اداروں نے مزید سختی اور حساسیت پیدا کردی ہے اور شیعوں کے اماموں کو چین سے جینے نہیں دینگے، اور اب امام ایک نیا انداز سے آگے چلے گئی جس کی مثال نہیں ملتی؛ یعنی امام مہدی( عجل اللہ فرجہ الشریف) کی غیبت واقع ہوگی، لہذا امام ہادی علیہ السلام کے بنیادی کاموں میں سے ایک کام شیعوں کے ذہنوں اپنے نواسے کی غیبت کے لئے تیار کرنا تھا۔ایک روایت میں عبدالعظیم حسنی سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے عقائد کو امام ہادی علیہ السلام کے سامنے بیان فرمایا، اور ائمہ علیہم السلام میں سے ایک ایک کا نام لیتے ہوئے جب امام ہادی علیہ السلام کے نام پر پہونچے تو رک گئے امام علیہ السلام نے آپکی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: میرے بعد حسن ہیں، اور اس کے بعد کے جانشین سے لوگ کیا سلوک کریں گے، عبدالعظیم نے پوچھا وہ کیسے میرے آقا؟ فرمایا: کیونکہ وہ دیکھا نہیں جایگا، اور جائز بھی نہیں کہ اس کا نام لیا جائے یہاں تک کے قیام کرے اور زمین کو عدل سے بھر دے، جیسے کے وہ ظلم و جور سے بھر گئی ہوگی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button