حضرت امام علی نقی علیہ السلام

از دفتر حضرت استاد حسین انصاریان
آپ مدینہ منورہ میں ۵/رجب ۲۱۲ھء میں متولد ہوئے تھے۔ آپ کی والدۂ مکرمہ کا نام سمانہ تھا لیکن عام طور پر سیدہ کے نام سے مشہور تھیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے والد گرامی امام محمد تقی علیہ السلام کے بعد بہت سخت حالات میں زندگی گزاری ۔ یہ وہ دور تھا جب متوکل عباسی کا ظلم آپ اور آپ کے شیعوں کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ اس غاصب خلیفہ نے امام علیہ السلام کے شیعوں پر حملے اور روضۂ اقدس امام حسین علیہ السلام کو ویران کرکے چاروں طرف خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رکھا تھا۔ اس حاکم کے ظلم گز شتہ حاکموں سے بھی زیادہ اور سخت تھے۔ شیعہ بہت سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس نے امام علیہ السلام کے شیعوں اور دوستداروں کو امام ؑ سے ملاقات کرنے سے منع کر رکھا تھا۔
متوکل نے اپنے ایک فوجی سپاہی یحیٰ بن ہرثمہ کے ذریعے ایک خط امام علیہ السلام کے نام لکھا اور یحیٰ سے کہا کہ مدینے جائے اور امام ؑکے گھر کی تلاشی لے تاکہ کوئی ایسی چیز تلاش کر سکے جس سے امام علیہ السلام پر حکومت کا غدار ہونے کا الزام لگایا جا سکے اور لوگوں کے درمیان ان کی شخصیت کو داغدار کیا جاسکے۔
ہرثمہ کہتا ہے: میں نے خود امام ؑکے گھر کی تلاشی لی تھی لیکن مجھے قرآن اور دعاؤں کی کتابوں اور دوسری کتابوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں مل سکی۔
اس کے باوجود امام علیہ السلام کو سامرا بلا لیا گیا۔ در حقیقت امام کو سامرا بلانے کا ہدف اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ آپ حکومت کے زیر نظر رہیں اور شیعوں کے لئے کچھ نہ کرسکیں۔
امام علیہ السلام کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ روز بروز متوکل اور اس کی حکومت کی سیاست ان کے خلاف تیز ہوتی جا رہی ہے۔
آخر کار جب متوکل سے کچھ نہ ہو سکا تو اس نے امام علیہ السلام کو ایک چھوٹے سے قید خانہ میں قید کر دیا۔
اس کے باوجود امام ؑکی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اپنے شیعوں کو قوی کرتے رہیں اورجہاں تک ہو سکے ان کے مسائل و مشکلات کو حل کرتے رہیں۔
امام علیہ السلام کے پاس پوشیدہ طور پر دنیا بھرکے شیعہ خمس، زکات اور صدقہ وغیرہ کی رقوم بھیجا کرتے تھے تاکہ امام علیہ السلام ان کے ذریعے رفاہ عامہ کے امور انجام دے سکیں اور اسلامی تحریکیں خاموش نہ ہو جائیں۔
اور آخر کار گزشتہ اماموں کی طرح خلیفۂ عباسی معتز نے بھی آپ کو زہر دے کر ۴۲/ سال کی عمر میں ۳/رجب ۲۵۴ھء کو شہید کر دیا۔
source : http://www.alhassanain.com