سلائیڈرسیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

کلام امیرالمومنینؑ میں حکمران اور رعایا کے حقوق و فرائض

مقالہ نگار: غلام رسول شریفی

مقدمہ
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام على محمد وآله الطيبين الطاهرين۔
اما بعد:میرا موضوع ” کلام امیرالمومنینؑ میں حکمران اور رعایا کے حقوق و فرائض” کے متعلق ہے۔ حکمران اور رعایاکےباہمی حقوق بہت زیادہ ہیں اگر ان کو تفصیل کے ساتھ لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی لیکن ہمارا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کے نورانی کلام کی روشنی میں حکمران اوررعایا کے ایک دوسرے کے حقوق کا مختصر جائزہ لینا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے حکمران اور رعایا کے باہمی حقوق کے بارے میں ایک خطبہ کے ابتداء میں کچھ یوں ارشاد فرمایا ہے:
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِیْ عَلَیْكُمْ حَقًّۢا بِوِلَایَةِ اَمْرِكُمْ، وَ لَكُمْ عَلَیَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِیْ لِیْ عَلَیْكُمْ، فَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَآءِ فِی التَّوَاصُفِ، وَ اَضْیَقُهَا فِی التَّنَاصُفِ، لَا یَجْرِیْ لِاَحَدٍ اِلَّا جَرٰی عَلَیْهِ، وَ لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ اِلَّا جَرٰی لَهٗ
اللہ سبحانہ نے مجھے تمہارے امور کا اختیار دے کر میرا حق تم پر قائم کر دیا ہے اور جس طرح میرا تم پر حق ہے ویسا ہی تمہارا بھی مجھ پر حق ہے۔ یوں تو حق کے بارے میں باہمی اوصاف گنوانے میں بہت وسعت ہے، لیکن آپس میں حق و انصاف کرنے کا دائرہ بہت تنگ ہے۔ دو آدمیوں میں اس کا حق اس پر اسی وقت ہے جب دوسرے کا بھی اس پر حق ہو اور اس کا حق اس پر جب ہی ہوتا ہے جب اس کا حق اس پر بھی ہو۔
صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی ذات اتنی عظیم ہے کہ اس پر کسی کا حق نہیں فقط اسی کا حق ساری مخلوق پر ہےجیسا کہ
وَ لَوْ كَانَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْرِیَ لَهٗ وَ لَا یَجْرِیَ عَلَیْهِ، لَكَانَ ذٰلِكَ خَالِصًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ دُوْنَ خَلْقِهٖ، لِقُدْرَتِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لِعَدْلِهٖ فِیْ كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَیْهِ صُرُوْفُ قَضَآئِهٖ، وَ لٰكِنَّهٗ جَعَلَ حَقَّهٗ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یُّطِیْعُوْهُ، وَ جَعَلَ جَزَآءَهُمْ عَلَیْهِ مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ تَفَضُّلًا مِّنْهُ، وَ تَوَسُّعًۢا بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِیْدِ اَهْلُهٗ
اور اگر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کا حق تو دوسروں پر ہو لیکن اس پر کسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کیلئے مخصوص ہے نہ اس کی مخلوق کیلئے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلط و اقتدار رکھتا ہے اور اس نے تمام ان چیزوں میں کہ جن پر اس کے فرمانِ قضا جاری ہوئے ہیں، عدل کرتے ہوئے (ہر صاحب حق کا حق دے دیا ہے) اس نے بندوں پر اپنا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس نے محض اپنے فضل و کرم اور اپنے احسان کو وسعت دینے کی بنا پر کہ جس کا وہ اہل ہے ان کا کئی گنا اجر قرار دیا ہے۔جتنے بھی حقوق ہیں سارے کے سارے اﷲ تعالیٰ کے حقوق میں سے ہی نکلے ہیں:
ثُمَّ جَعَلَ سُبْحَانَهٗ مِنْ حُقُوْقِهٖ حُقُوْقًا افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ، فَجَعَلَهَا تَتَكَافَاُ فِیْ وُجُوْهِهَا، وَ یُوْجِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَ لَا یُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَاۤ اِلَّا بِبَعْضٍ
پھر اس نے ان حقوق انسانی کو بھی کہ جنہیں ایک کیلئے دوسرے پر قرار دیا ہے اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں اور کچھ ان میں سے کچھ حقوق کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک اس کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں”ان نورانی اقوال سے واضح ہواکہ اللہ تعالیٰ نےاپنے حق کو اپنے تمام بندوں کے اوپر واجب کر کے بندوں کے ایک دوسرے کے حقوق کو اپنے حقوق میں سے قرار دیا مولائے کائنات کے کلام کے روشنی میں بندوں کے ایک دوسرے کے حقوق میں سے سب سے عظیم حق حکمران اور رعایا کے حقوق ہیں۔ آنے والے بحثوں میں ان کے حقوق کو واضح کرنے کی کوشش کرتاہوں۔
سب سے بڑا حق
اللہ تعالیٰ نے بندوں پر ایک دوسرے کے حقوق کو واجب قرار دیا ہے۔ان حقوق میں سب سے بڑا حق جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوپر فرض کیا ہے وہ ہے”حکمران اور رعایا کے ایک دوسرے کے حقوق”۔
وَ اَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ سُبْحَانَهٗ مِنْ تِلْكَ الْحُقُوْقِ حَقُّ الْوَالِی عَلَی الرَّعِیَّةِ وَ حَقُّ الرَّعِیَّةِ عَلَی الْوَالِیْ، فَرِیْضَةً فَرَضَهَا اللّٰهُ ـ سُبْحَانَهٗ ـ لِكُلٍّ عَلٰی كُلٍّ، فَجَعَلَهَا نِظَامًا لِّاُلْفَتِهِمْ، وَ عِزًّا لِّدِیْنِهِمْ، فَلَیْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِیَّةُ اِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ اِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِیَّةِ
اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پر اور رعیت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیت میں سے ہر ایک کیلئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے اور اسے ان میں رابطۂ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رعیت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے جب رعیت اس کے احکام کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو۔
حقوق ادا کرنے کے فوائد اور حقوق ادا نہ کرنے کے نقصانات
جب حکومت اور عوام ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے تو اس کے بہت سے فائدے ہوں گے جن میں سے ایک یہ ہے کہ حق کو عزت اور عظمت ملے گی:
” فَإِذَآ أَدَّتِ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّهُ وَ أَدَّى الْوَالِيٓ إِلَيْهَا حَقَّهَا عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وَ جَرَتْ عَلَى ٓ أَذْلَالِهَا السُّنَنُ فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ وَ طُمِعَ فِي بَقَآءِ الدَّوْلَةِ وَ يَئِسَتْ مَطَامِعُ الْأَعْدَآء
پس جب رعیت حکمران کے حقوق پورے ادا کرے اور حاکم رعیت کے حقوق پورے کرے تو ان میں حق باوقارہوگا،دین کی راہیں قائم ہونگی، عدل اور انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے، سنتیں اپنے ڈھرے پر چل نکلیں گی، زمانہ سدھر جائے گا،بقائے سلطنت کی توقعات پیدا ہو جائیں گی اور دشمنوں کی حرص اور طمع مایوسی میں بدل جائے گی۔
جب حکومت اور عوام ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو اس وقت بہت سے نقصانات ہوجائیں گے جن میں سے بڑا نقصان یہ ہے کہ باہمی اختلافات بڑھ جائیں گے:
وَ إِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِهِ اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وَ كَثُرَ الْإِدْغَالُ فِي الدِّينِ وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ‏ فَعُمِلَ بِالْهَوَى وَ عُطِّلَتِ الْأَحْكَامُ وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ وَ لَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْأَبْرَارُ وَ تَعِزُّ الْأَشْرَارُ وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّهِ عِنْدَ الْعِبَادِ
اور جب رعیت اپنے حاکم پر مسلط ہو جائے یا حاکم اپنی رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقع پر ہر بات میں اختلاف ہو گا،اور ظلم کے نشانات ابھرآئیں گے،دین میں فسادات بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی، خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا،شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی، بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرادینے سے بھی کوئی نہیں گھبرائے گا،بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہونے سے بھی کوئی نہیں گھبرائے گا، ایسے موقعے پر نیکوکار ذلیل ہو جائیں گے، بدکردار باعزت ہو جائیں گے اور بندوں پر اﷲ کی عقوبتیں بڑھ جائیں گی۔
خراب حالات میں حکمران اور رعایا کی ذمہ داری
اس وقت تمام افراد پر یہ فرض ہے کہ اپنے آپ کو اس بری حالت سے نکالنے کے لیے ایک دوسرے کو ہدایت اور نصیحت کریں:
فَعَلَيْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِي ذلِكَ، وَحُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَيْهِ فَلَيْسَ أَحَدٌ وَإِنِ اشتَدَّ عَلَى رِضَى اللّٰهِ حِرْصُهُ، وَطَالَ فِي الْعَمَلِ اجْتِهَادُهُ بِبَالِغٍ حَقِيقَةَ مَا اللّٰهُ سُبْحَانَهُ أَهْلُهُ مِنَ الطَّاعَةِ لَهُ. وَلكِنْ مِنْ وَاجِبِ حُقُوقِ اللّٰهِ عَلَى عِبَادِهِ النَّصِيحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ، وَالتَّعَاوُنُ عَلَى إِقَامَةِ الْحَقِّ بَيْنَهُمْ
تواس وقت تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو سمجھانا بجھانا اور اس وقت ایک دوسرے کی بہترمدد کرتے رہنا، کیونکہ کوئی بھی شخص اﷲ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے، چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کے لیے کتنا ہی حریص ہو، اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑھی چڑھی ہوئی ہوں، پھر بھی اس نے اپنے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھرایک دوسرے کو نصیحت کریں اور اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ر ہیں درحقیقت حضرت علیؑ  کا یہ فرمان قرآن کریم کی سورة العصر کی وضاحت ہے کہ جس میں ارشاد ہے کہ:
وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّوَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے سوا ان کے جو ایمان لائے اور صالح اعمال انجام دیئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے رہے ”پس خسارے سے وہی لوگ بچ سکتے ہیں جو ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ ایک دوسرے کو حق پر عمل کرنے کی ہدایت اور نصیحت کرتے رہیں۔ حکومت اور عوام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ حقوق کو قائم کرنے میں وہ ایک دوسرے کی مدد کریں اسی طرح ایک دوسری آیت قرآن کریم میں یہ بھی ارشاد ہے کہ:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
حقوق کی ادائیگی میں حکمران اور رعایا پر لازم ہے کہ وہ حقوق کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون کرے:
وَ لَیْسَ امْرُؤٌوَ اِنْ عَظُمَتْ فِی الْحَقِّ مَنْزِلَتُهٗ، وَ تَقَدَّمَتْ فِی الدِّیْنِ فَضِیْلَتُهٗ ـ بِفَوْقِ اَنْ یُّعَانَ عَلٰی مَا حَمَّلَهُ اللّٰهُ مِنْ حَقِّهٖ، وَ لَا امْرُؤٌ وَ اِنْ صَغَّرَتْهُ النُّفُوْسُ، وَ اقْتَحَمَتْهُ الْعُیُوْنُ بِدُوْنِ اَنْ یُّعِیْنَ عَلٰی ذٰلِكَ اَوْ یُعَانَ عَلَیْهِ
کوئی شخص بھی اپنے کو اس سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتا کہ اللہ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے، چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتری کیوں نہ حاصل ہو اور کوئی شخص اس سے بھی گیا گزرا نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا اس کی طرف دست تعاون بڑھایا جائے، چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں اور اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے۔
حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت
حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت کو واضح کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
وَ إِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ أَنْ یُظَنَّ بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ وَ یُوضَعَ أَمْرُهُمْ عَلَی الْکِبْرِ
نیک بندوں کے نزدیک حاکموں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر و سربلندی کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے حالات غرورو تکبّر پر محمول ہو سکیں۔ لہٰذا حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو تکبر و غرور سے دور رکھیں اور اس عہد کو اﷲ کی طرف سے امانت سمجھے نہ یہ کہ وہ اس کے لئے غنیمت سمجھ کر سب کچھ لوٹ لے۔
حضرت علی علیہ السلام کا اپنی حکومت کے بارے میں نظریہ
چونکہ حضرت علی علیہ السلام ایک حاکم کی حیثیت سے تھے لہٰذا خود اپنے لیے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ کے سامنے آپ کی تعریف کی جائے:
”وَقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَكُونَ جَالَ فِي ظَنِّكُمْ أَنِّي أُحِبُّ الاْءِطْرَاءَ، وَاسْتِمَاعَ الثَّنَاءِ ؛ وَلَسْتُ بِحَمْدِ اللّٰهِ كَذلِكَ، وَلَوْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ يُقَالَ ذلِكَ لَتَرَكْتُهُ انْحِطَاطاً للّٰهِ سُبْحَانَهُ عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنَ الْعَظَمَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ. وَرُبَّمَا اسْتَحْلَى النَّاسُ الثَّنَاءَ بَعْدَ الْبَلاَءِ، فَلاَ تُثْنُوا عَلَيَّ بِجَمِيلِ ثَنَاءٍ، لاِءِخْرَاجِي نَفْسِي إِلَى اللّٰهِ سُبْحَانَهُ وَإِلَيْكُمْ مِنَ البقيّة فِي حُقُوقٍ لَمْ أَفْرُغْ مِنْ أَدَائِهَا، وَفَرَائِضَ لاَ بُدَّ مِنْ إِمْضائِهَا
مجھے یہ تک گوارا نہیں کہ تمہیں وہم و گمان بھی گزرے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسندکرتا ہوں اور میں الحمد ﷲ ایسا نہیں ہوں۔ اور اگر مجھے اس کی خواہش بھی ہوتی کہ ایسا کہا جائے (میری تعریف کی جائے)تو بھی اﷲ تعالیٰ کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہ ایسی عظمت و بزرگی کواپنا یا جائے کہ جس کا وہی اہل ہے اور یوں تو لوگ اچھی کارکردگی کے بعد مدح و ثنا کو خوشگوار سمجھتے ہیں میری اس پر مدح و ستائش نہ کر و کہ اﷲ کی اطاعت اور تمہارےحقوق سے عہدہ برآ ہوا ہوں کیونکہ ابھی ان حقوق کاڈر ہے کہ جنہیں پورا کرنے سے میں ابھی فارغ نہیں ہوا، اور ان فرائض کاابھی اندیشہ ہے کہ جن کا نفاذضروری ہے۔
لوگ حاکموں، بادشاہوں اور افسروں سے، ان کے عہدے کی وجہ سے، ڈرتے ہو ئے بات کرتے ہیں لِہٰذا حضرت علی علیہ السلام اپنے لیے اس طرح کے رویے لوگوں کو منع کرتے ہیں:فَلَا تُکَلِّمُونِی بِمَا تُکَلَّمُ بِهِ الْجَبَابِرَةُ وَ لَا تَتَحَفَّظُوا مِنِّی بِمَا یُتَحَفَّظُ بِهِ عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ وَ لَا تُخَالِطُونِی بِالْمُصَانَعَةِ وَ لَا تَظُنُّوا بِی اسْتِثْقَالًا فِی حَقٍّ قِیلَ لِی وَ لَا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِی لِمَا لَا یَصْلُحُ لِی فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ یُقَالَ لَهُ أَوِ الْعَدْلَ أَنْ یُعْرَضَ عَلَیْهِ کَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَیْهِ فَلَا تَکُفُّوا عَنِّی مَقَالَةً بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةً بِعَدْلٍ
مجھ سے اس طرح باتیں نہ کیا کرو جس طرح جابر اور سرکش حکمرانوں سے کی جاتی ہیں، اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے،مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو، میرے بارے میں یہ گمان نہ کرو کہ میرے سامنے حقبات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی، اور نہ یہ خیا ل کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو۔ کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے یا عدل کے پیش کیے جانے کو گراں سمجھتا ہو، اسے حق وعدل پر عمل کرنا کہیں دشوار ہوگا۔ تم اپنے آپ کو حق بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو۔ ارباب اختیار اپنے آپ کو یہ نہ سمجھیں کہ وہ عوام کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں بلکہ وہ اس امت کے امین ہیں اوراﷲ کے بندے ہیں لہٰذا ان پر بھی اور عوام پر بھی صرف اﷲ کی ذات کا اختیار ہے کسی اور کا کوئی اختیار نہیں ہے:فَإِنَّمَا أَنَا وَ أَنْتُمْ عَبِیدٌ مَمْلُوکُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَیْرُهُ یَمْلِکُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِکُ مِنْ أَنْفُسِنَا وَ أَخْرَجَنَا مِمَّا کُنَّا فِیهِ إِلَی مَا صَلَحْنَا عَلَیْهِ فَأَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدَی وَ أَعْطَانَا الْبَصِیرَةَ بَعْدَ الْعَمَی
ہم اور تم اسی ربّ کے بے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی ربّ نہیں، وہ ہم پر اتنا اختیار رکھتا ہےکہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی نے ہمیں پہلی حالت سے نکال کر جس میں ہم تھےبہبودی کی راہ پر لگایا اور اسی نے ہماری گمراہی کو ہدایت سے بدلا اور بے بصیرتی کے بعد بصیرت عطا کی۔
رعایا کی ذمہ داریاں
رعایا کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ ہےکہ وہ حکومت کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرے:وَ أَمَّا حَقِّي عَلَيْكُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَيْعَةِ وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ وَ الْإِجَابَةُ حِينَ أَدْعُوكُمْ وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُمْ
اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کی وفاداری کرو، حکومت کی سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو، جب بلاؤں تو میری صدا کا جواب دو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔ پس آپ نے صالح حکام کے سامنے عوام کی چار اہم ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے۔١۔ بیعت کی وفاداری٢۔ خیر خواہی٣۔ حکومت کی مدد٤۔ اطاعت کرنا۔
ظالم حکام کا مقابلہ
رعایا کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ظالم حکام کا مقابلہ کرے:”وافضل من ذالک کلّہ کلمةُ عدلٍ عند امامٍ جائرٍ”ان سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمران کے سامنے کہی جائے۔ظالم حکام کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ متکبر ہوگا لہٰذا ایسے متکبر حکام کا مقابلہ کرناعوام کی ذمہ داریوں میں سے ہے:اَلَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِكُمْ وَ كُبَرَآئِكُمْ! الَّذِیْنَ تَكَبَّرُوْا عَنْ حَسَبِهِمْ، وَ تَرَفَّعُوْا فَوْقَ نَسَبِهِمْ، وَ اَلْقَوُا الْهَجِیْنَةَ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ جَاحَدُوا اللّٰهَ مَا صَنَعَ بِهِمْ، مُكَابَرَةً لِّقَضَآئِهٖ، وَ مُغَالَبَةً لِّاٰلَآئِهٖ خبردار اپنے اُن سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو جو اپنے حسب پر تکبّر کرتے ہوں۔ اپنے نسب کی بلندیوں پر فخر کرتے ہوں۔ اور بد نما چیزوں کو اﷲ کے سر ڈال دیتے ہوں، اور اس کی قضاء و قدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کے لیے اس کے احسانات سے یکسر انکار کردیتے ہوں۔جب پتہ چل جائے کہ یہ ظالم حاکم ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ اس کے ظلم کو دل سے بُرا سمجھا جائے اور اس سے نفرت کی جائے: ”اَیُّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ! اِنَّهٗ مَنْ رَّاٰى عُدْوَانًا یُّعْمَلُ بِهٖ وَ مُنْكَرًا یُّدْعٰۤى اِلَیْهِ فَاَنْكَرَهٗ بِقَلْبِهٖ فَقَدْ سَلِمَ وَ بَرِئَ، وَ مَنْ اَنْكَرَهٗ بِلِسَانِهٖ فَقَدْ اُجِرَ وَ هُوَ اَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهٖ، وَ مَنْ اَنْكرَهٗ بِالسَّیْفِ لِتَكُوْنَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا وَ كَلِمَةُ الظّٰلِمِیْنَ ھِیَ السُّفْلٰى، فَذٰلِكَ الَّذِیْۤ اَصَابَ سَبِیْلَ الْهُدٰى، وَ قَامَ عَلَى الطَّرِیْقِ، وَ نَوَّرَ فِیْ قَلْبِهِ الْیَقِیْنُ
اے مومنو!جو شخص دیکھے کہ ظلم پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور وہ دل سے اسےبرا سمجھے تو وہ محفوظ اور بَری ہو گیا،اور جو زبان سے اسے برا کہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے برا سمجھنےوالے سے افضل ہے۔اور جو شخص تلوار سے اس برائی کو روکے تاکہ اﷲ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر قائم ہو گیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔
صالح حکمرانوں کی مدد
نیک اور صالح حکام کی مدد کرنا رعایا کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتا ہے وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے حق کو قائم کرنے میں مدد کی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے مددگاروں کی صفات بیان کرتے ہیں: اَنْتُمُ الْاَنْصَارُ عَلَی الْحَقِّ، وَ الْاِخْوَانُ فِی الدِّیْنِ، وَ الْجُنَنُ یَوْمَ الْبَاْسِ، وَ الْبِطَانَةُ دُوْنَ النَّاسِ، بِكُمْ اَضْرِبُ الْمُدْبِرَ، وَ اَرْجُوْ طَاعَةَ الْمُقْبِلِ، فَاَعِیْنُوْنِیْ بِمُنَاصَحَةٍ خَلِیَّةٍ مِّنَ الْغِشِّ، سَلِیْمَةٍ مِّنَ الرَّیْبِ، فَوَاللهِ! اِنِّیْ لَاَوْلَی النَّاسِ بِالنَّاسِ
تم حق کے قائم کرنے میں میرے مددگار ہو، دین میں بھائی بھائی ہو،اور سختیوں میں سپر ہو،اور تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی میرے رازدار ہو۔ہماری مدد سے روگردانی کرنے والے کو مارتا ہوں اور پیش قدمی کرنے والے کی اطاعت کی توقع رکھتا ہوں، ایسی خیر خواہی کے ساتھ میری مدد کرو کہ جس میں دھوکہ اورفریب کاشائبہ نہ ہو، اﷲکی قسم میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اولیٰ و مقدم ہوں۔
صالح حکام سے دوری اور انحراف کے نتائج
نیک اور صالح حکام سے علیحدہ ہو جانے والے خود مصیبتوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی بداعمالیاں انہیں گھیر لیتی ہیں نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ملامت ہی کرتے رہتے ہیں:اَیُّهَا النَّاسُ! اَلْقُوْا هٰذِهِ الْاَ زِمَّةَ الَّتِیْ تَحْمِلُ ظُهُوْرُهَا الْاَثْقَالَ مِنْ اَیْدِیْكُمْ، وَ لَا تَصَدَّعُوْا عَلٰی سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوْا غِبَّ فِعَالِكُمْ، وَ لَا تَقْتَحِمُوْا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ، وَ اَمِیْطُوْا عَنْ سَنَنِهَا، وَ خَلُّوْا قَصْدَ السَّبِیْلِ لَهَا: فَقَدْ لَعَمْرِیْ یَهْلِكُ فِیْ لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْلَمُ فِیْهَا غَیْرُ الْمُسْلِمِ
اے لوگو! ان سواروں کی باگیں اتار پھینکو کہ جن کی پشت نے تمہارے ہاتھ گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہیں۔ اپنے حاکم سے کٹ کر علیحدہ نہ ہو جاؤ، ورنہ بد اعمالیوں کے انجام میں اپنے ہی نفسوں کو برا بھلا کہو گے۔اور جو آتشِ فتنہ تمہارے آگے شعلہ ور ہے اس میں اندھا دھند کود نہ پڑو، اس کی راہ سے مڑ کر چلو۔اور راہ کواس کے لیے خالی کردو کیونکہ میری جان کی قسم ! یہ وہ آگ ہے کہ مومن اس کی لپٹوں میں تباہ و برباد ہوجائے گا اور کافر اس میں محفوظ رہے گا۔حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے سامنے نیک اورصالح حاکم کی مثال کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنَّمَا مَثَلِیْ بَیْنَكُمْ مَثَلُ السِّرَاجِ فِی الظُّلْمَةِ، یَسْتَضِیْٓءُ بِهٖ مَنْ وَّلَجَهَا. فَاسْمَعَوْا اَیُّهَا النَّاسُ وَ عُوْا، وَ اَحْضِرُوْۤا اٰذَانَ قُلُوْبِكُمْ تَفْهَمُوْا
تمہارے درمیان میری مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ کی کہ جو اس میں داخل ہو گا وہ اس سےروشنی حاصل کرے گا، اے لوگو! سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو سامنے لاؤ تاکہ سمجھ سکو۔
جو اپنے صالح حکام سے انحراف کرے گا اسے ذلت و خواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت علی ؑ اپنی رعیت کوجو آپ علیہ السلام کی مدد سے منحرف ہونے کے نتیجے میں آنے والے وقت کی ابتلاؤں کے بارے میں خبردار کرتے ہیں:
اَمَا اِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ ذُلًّا شَامِلًا، وَ سَیْفًا قَاطِعًا وَ اَثَرَةً یَّتَّخِذُهَا الظَّالِمُوْنَ فِیْكُمْ سُنَّةً
یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا اور کاٹنے والی تلوار سے بھی دوچارہونا پڑے گا۔ اور اس طریقہ کار کامقابلہ کرنا ہوگا جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنا لیں گے۔حضرت علیؑ ایسے افراد کے لیے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں جو کئی سالوں تک صحرائے تیہ میں بھٹک رہی تھی صرف اس وجہ سے کہ وہ بار بار انبیاء علیہم السلام کی نافرمانی کر رہی تھی: اَیُّهَا النَّاسُ! لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوْا عَنْ نَّصْرِ الْحَقِّ، وَ لَمْ تَهِنُوْا عَنْ تَوْهِیْنِ الْبَاطِلِ، لَمْ یَطْمَعْ فِیْكُمْ مَنْ لَّیْسَ مِثْلَكُمْ، وَ لَمْ یَقْوَ مَنْ قَوِیَ عَلَیْكُمْ، لٰكِنَّكُمْ تُهْتُمْ مَتَاهَ بَنِیْۤ اِسْرَآئِیْلَ. وَ لَعَمْرِیْ! لَیُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّیْهُ مِنْۢ بَعْدِیْۤ اَضْعَافًا، بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ، وَ قَطَعْتُمُ الْاَدْنٰی، وَ وَصَلْتُمُ الْاَبْعَدَوَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِیَ لَكُمْ، سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُوْلِ، وَ كُفِیْتُمْ مَؤٗنَةَ الْاِعْتِسَافِ، وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْاَعْنَاقِ اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت و امداد سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے کمزوری نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہ تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پا لیا وہ تم پر قابو نہ پاتا۔ لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے۔ اور اپنی جان کی قسم! میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی، کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ ﷺ کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔
صالح حکام سے انحراف کا نتیجہ حسرت و اندوہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ مَعْصِیَةَ النَّاصِحِ الشَّفِیْقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ تُوْرِثُ الْحَسْرَةَ، وَتُعْقِبُ النَّدَامَةَ. وَقَدْ كُنْتُ اَمَرْتُكُمْ فِیْ هٰذِهِ الْحُكُوْمَةِ اَمْرِیْ، وَ نَخَلْتُ لَكُمْ مَخزُوْنَ رَاْیِیْ، لَوْ كَانَ یُطَاعُ لِقَصِیْرٍ اَمْرٌ! فَاَبَیْتُمْ عَلَیَّ اِبَآءَ الْمُخَالِفِیْنَ الْجُفَاةِ، وَ الْمُنَابِذِیْنَ الْعُصَاةِ، حَتَّی ارْتَابَ النَّاصِحُ بِنُصْحِهٖ، وَ ضَنَّ الزَّنْدُ بِقَدْحِهٖ
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شفیق خیر خواہ اور تجربہ کار عالم کی مخالفت کا نتیجہ حسرت و افسوس ہوتا ہے اور اس کاانجام ندامت کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ میں نے تمہیں اس تحکیم کے بارے میں تمہیں اپنا حکم سنا دیا اور اپنی رائے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ دیا تھا لیکن کان ہی کون دھرتا ہے، بلکہ تم نے جفا کار مخالفوں اور عہد شکن نافرمانوں کی مانند مجھ سے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ خود ناصح اپنی نصیحت کے متعلق سوچ میں پڑ گیا اور طبیعت اس چقماق کی طرح بجھ کر رہ گئی کہ جس نے شعلے بھڑکانا بند کر دیا ہو۔ پھر فرماتے ہیں دشمن ان پر باآسانی غالب آجائے گا:
اَمَا وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَیَظْهَرَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمُ عَلَیْكُمْ، لَیْسَ لِاَنَّهُمْ اَوْلٰی بِالْحَقِّ مِنْكُمْ، وَ لٰكِنْ لِّاِسْرَاعِهِمْ اِلٰی بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ، وَ اِبْطَآئِكُمْ عَنْ حَقِّیْ وَ لَقَدْ اَصْبَحَتِ الْاُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا، وَ اَصْبَحْتُ اَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِیْ
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آ کر رہے گی۔ اس لئے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجودسستی کرتے ہواپنے حکمرانوں کے ظلم و جور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔
حکمران کی ذمہ داریاں اور فرائض
جس طرح رعایا پر حکمران کے حقوق کی انجام دہی فرض ہے اسی طرح حکمران پر بھی رعایا کے حقوق کی انجام دہی فرض ہے۔ حضرت علی علیہ السلام بحیثیتِ حکمران اپنی رعیت سے خطاب کرتے ہیں:”أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ وَ تَوْفِيرُ فَيْئِكُمْ عَلَيْكُمْ وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيْ لَا تَجْهَلُوا وَ تَأْدِيبُكُمْ كَيْ مَا تَعْلَمُوا۔ اے لوگو! بے شک میرا تم پر حق ہے اورتمہارا مجھ پر حق ہے۔تمہارا میرے اوپر حق یہ ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیش نظر رکھوں، اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو، اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو۔اسی طرح آپ اپنے گورنر مالک اشتر کولکھے گئے خط میں ارشاد فرماتے ہیں:
هَذَا مَاۤ اَمَرَ بِهٖ عَبْدُ اللّٰهِ عَلِیٌّ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ، مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الْاَشْتَرَ، فِیْ عَهْدِهٖۤ اِلَیْهِ حِینَ وَلَّاهُ مِصْرَ: جِبَایَةَ خَرَاجِهَا، وَ جِهَادَ عَدُوِّهَا، وَ اسْتِصْلَاحَ اَهْلِهَا، وَ عِمَارَةَ بِلَادِهَا
یہ ہے وہ فرمان جس پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے خدا کے بندے علی امیر المؤمنین ؑنے مالک بن حارث اشترکو جب مصر کا انہیں والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں، دشمنوں سے جہاد کریں، رعایا کی فلاح و بہبود کااورشہروں کی آبادی کا انتظام کریں۔ان دونوں اقوال میں عوام کے آٹھ حقوق بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ عوام کی بھلائی چاہنا 2۔ بیت المال میں مساوات کرنا 3۔ عوام کی تعلیم و تربیت کا بندو بست کرنا4۔ عوام کو تہذیب و ثقافت سکھانا5۔ خراج جمع کرنا 6۔ جہاد کرنا7۔ عوام کی فلاح و بہبود کا خاص خیال رکھنا8۔ شہروں کو آباد کرنا۔
حضرت علی علیہ السلام نےاپنی فوج کے کچھ سرداروں کے نام لکھے ہوئے ایک خط میں حکمران اور رعایا کے حقوق بیان کرتے ہوئے حکمران کے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرماتے ہیں۔
منصب کی وجہ سے عوام سے بے رُخی نہ کرنا: اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ حَقًّا عَلَى الْوَالِیْۤ اَنْ لَّا یُغَیِّرَهٗ عَلٰى رَعِیَّتِهٖ فَضْلٌ نَّالَهٗ، وَ لَا طَوْلٌ خُصَّ بِهٖ، وَ اَنْ یَزِیْدَهٗ مَا قَسَمَ اللّٰهُ لَهٗ مِنْ نِعَمِهٖ، دُنُوًّا مِّنْ عِبَادِهٖ، وَ عَطْفًا عَلٰۤى اِخْوَانِهٖ حاکم پر فرض ہے کہ جس برتری کو اس نے پایا ہے اور جس فارغ البالی کی منزل پر پہنچا ہے، وہ اس کے رویہ میں جو رعایا کے ساتھ ہے تبدیلی پیدا نہ کرے، بلکہ اﷲنے جو نعمت اس کے نصیب میں کی ہے وہ اسے بندگانِ خدا سے نزدیکی اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی میں اضافہ ہی کا باعث ہو۔
حکمرانوں پر یہ بھی فرض ہے کہ حکمران رعایا سے مہربانی، نرمی اورخندہ پیشانی کا سلوک کریں،جسے خود حکمران اور عوام کے درمیان بہترین تعلق و ربط کاراز کہا جا سکتا ہے۔ امْلِكْ حَمِيَّةَ أَنْفِكَ وَ سَوْرَةَ حَدِّكَ وَ سَطْوَةَ يَدِكَ وَ غَرْبَ لِسَانِكَ وَ احْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ الْبَادِرَةِ وَ تَأْخِيرِ السَّطْوَةِ حَتَّى يَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ الِاخْتِيَارَ وَ لَنْ تُحْكِمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ الْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ غضب کی تندی، سرکشی کے جوش، ہاتھ کی جنبش اور زبان کی تیزی پر اپنے آپ کو قابو میں رکھو، اور ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے جلد بازی نہ کرو، اور سزا دینے میں دیر کرویہاں تک کہ تمہارا غصہ کم ہوجائے اورتم اپنے اوپر قابو پالو، اور کبھی یہ بات تم اپنے نفس میں پورے طور پر پیدا نہیں کر سکتے جب تک اﷲ کی طرف اپنی بازگشت کو یاد کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ان تصورات کو قائم نہ رکھو۔امام علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق، جلد بازی، جذبات اورنفسانی خواہشات پر قابو پالینا ہی پسندیدہ اخلاق کا اصل سرچشمہ ہے اور نفس پرقابو پانے کی اساس اﷲ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان ہے۔ ایسا اخلاقی نظام ہی پائدار ہوسکتا ہے یہی وہ چیز ہے جس پر حکومت اور عوام کے سیاسی روابط و تعلقات کے سلسلے میں انحصار کیا جا سکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب حضرت محمد بن ابی بکرؒ کو مصر کا گورنر مقرر کیاتو انہیں عوام کے ساتھ اخلاقی رویہ اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ ہدایات ارشاد فرمائیں:
فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ، وَأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ، وَابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ، وَآسِ بَيْنَهُمْ فِي الَّلحْظَةِ وَالنَّظْرَةِ، حَتَّى لاَ يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ لَهُمْ، وَلاَ يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ اللّهَ تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِهِ عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ أَعْمَالِكُمْ وَالْكَبِيرَةِ، وَالظَّاهِرَةِ وَالْمَسْتُورَةِ، فَإِنْ يُعَذِّبْ فَأَنْتُمْ أَظْلَمُ، وَإِنْ يَعْفُ فَهُوَ أَكْرَمُ
لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا، تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرفداری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے بڑے، کھلے ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔جب حضرت علی علیہ السلام نے عبد اﷲ بن عباس کو بصرے کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کو عوام کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تاکید کرتے ہوئے مندرج ذیل ہدایات ارشاد فرمائیں:
سَعِ النَّاسَ بِوَجْهِكَ وَمَجْلِسِكَ وَحُكْمِكَ، وإِيَّاكَ وَالْغَضَبَ فَإِنَّهُ طَيْرَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ. وَاعْلَمْ أَنَّ مَا قَرَّبَكَ مِنَ اللّهِ يُبَاعِدُكَ مِنْ النَّارِ
لوگوں سے کشادہ روئی سے پیش آؤ، اور اپنی مجلس میں لوگوں کو راہ دو اور حکم میں تنگی روا نہ رکھو۔غصہ سےپرہیز کرو کیونکہ یہ شیطان کے لیے نیک شگون ہے،اور اس بات کو جانوکہ جو چیز تمہیں اﷲ کے زیادہ قریب کرتی ہے وہ دوزخ سے دور کرتی ہے۔ اور جو چیز اﷲ سے دور کرتی ہے وہ دوزخ سے قریب کرتی ہے۔حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مالک اشتر کو عوام کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
وَ إِيَّاكَ وَ الْمَنَّ عَلَى رَعِيَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ أَوِ التَّزَيُّدَ فِيمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بخُلْفِكَ فَإِنَّ الْمَنَّ يُبْطِلُ الْإِحْسَانَ وَ التَّزَيُّدَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْحَقِّ وَ الْخُلْفَ يُوجِبُ الْمَقْتَ عِنْدَ اللَّهِ وَالنَّاسِ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُون۔
اور رعایا کے ساتھ نیکی کر کے کبھی احسان نہ جتانا، اور جو اُن کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسے زیادہ نہ سمجھنا، اور ان سے وعدہ کر کے بعد میں وعدہ خلافی نہ کرنا۔ کیونکہ احسان جتانا نیکی کو اَکارت کر دیتا ہے، اور اپنی بھلائی کو زیادہ خیال کر نا حق کی روشنی کو ختم کر دیناہے، اور وعدہ خلافی سے اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور بندے بھی۔ چنانچہ اللہ سبحانہ خود فرماتا ہے: ’’خدا کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی چیز ہے کہ تم جو کہو اسے کرو نہیں۔
حکومت اور عوام کے درمیان روابط و تعلقا ت میں سے ایک خاص اور اہم بحث یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا اقلیتوں کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ اس کوواضح کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ ؛ وإمَّا نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ، يَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ، وَتَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ، وَيُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي الْعَمْدِ وَالْخَطَإِ، فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَصَفْحِكَ، مِثْلَ الَّذِي تُحِبُّ أَنْ يُعْطِيَكَ اللّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَصَفْحِهِ۔
عوام میں دو قسم کے لوگ ہیں یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہاری جیسی مخلوق جو اقلیتی غیر مسلم ہیں۔ان سے لغزشیں بھی ہوں گی اورخطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے عمداً یا سہواً غلطیاں بھی ہوں گی تم ان سے اسی طرح عفو و درگذر سے کام لینا جس طرح اﷲ سے اپنے لیے عفو و درگذر کو پسند کرتے ہو۔اس مکتوب میں حضرت علی علیہ السلام واضح طور پرمسلمان اورغیر مسلمان دونوں کو برابری کا درجہ دیتے ہوئے ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں، اور دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کے تعلق روا رکھنے کی تاکید کرتے ہیں کہ آخر غیر مسلمان بھی تو انسان ہی ہیں وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں لہٰذا ان سے تعلق بھی اس طرح کا ہی ہونا چاہیے۔
ایک اور مقام پر اپنے ایک گورنر کو جس نے اقلیتوں پر زیادہ سختی کی تھی ارشاد فرماتے ہیں:
فَإِنَّ دَهَاقِينَ أَهْلِ بَلَدِكَ شَكَوْا مِنْكَ غِلْظَةً وَقَسْوَةً، وَاحْتِقَاراً وَجَفْوَةً، وَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَهُمْ أَهْلاًلَأَنْ يُدْنَوْا لِشِرْكِهِمْ، وَلاَ أَنْ يُقْصَوْا وَيُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ، فَالْبَس لَهُمْ جِلْبَاباً مِنَ اللِّينِ تَشُوبُهُ بِطَرَفٍ مِنَ الشِّدَّةِ، وَدَاوِلْ لَهُمْ بَيْنَ الْقَسْوَةِ وَالرَّأْفَةِ،وَامْزُجْ لَهُمْ بَيْنَ التَّقْرِيبِ وَالاْءِدْنَاءِ، وَالاْءِبْعَادِ وَالاْءِقْصَاءِ، إِنْ شَاءَ اللّهُ۔
بے شک تمہارے شہر کے کاشتکاروں نے تمہاری سختی، سنگدلی حقارت آمیز برتاؤ اور ظلم و تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے میں نے اس کی تحقیق کی تو ان کو ان کے شرک کی بنا ءپر اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ انہیں نزدیک کرلیا جائے۔ نہ انہیں دھتکارا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں لائق ظلم قرار دیا جا سکتا ہے، اس معاہدے کے پیش نظر جو انہوں نے کر رکھا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک ہو۔ قرب و بعد اور دور ی و نزدیکی کو سمو کر درمیانہ راستہ اختیار کرو ان شاء اﷲ ایسا ہی کروگے۔
اس مکتوب کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ مفتی جعفر حسین لکھتے ہیں:
یہ لوگ مجوسی تھے اس لیے حضرت کے عامل کا رویہ ان کے ساتھ ویسا نہ تھا جو عام مسلمانوں کے ساتھ تھا جس سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے امیرالمؤمنینؑ کو شکایت کا خط لکھا اور اپنے حکمران کے تشدد کا شکوہ کیا جس کے جواب میں حضرت علیہ السلام نے اپنے عامل کو تحریر فرمایا کہ وہ ان سے ایسا برتاؤ کرے کہ جس میں نہ تشدد ہو اور نہ اتنی نرمی کہ وہ اس سے نا جائز فائدہ اٹھا کر شرانگیزی پر اتر آئیں۔
رعایا کے طبقات اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں
رعایا کے متعلق حکمران کی ذمہ داریوں کو زیاہ واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے تمام طبقات کو واضح کیا جائے تاکہ ہر طبقہ کے حقوق اور ان کے متعلق حکومت کی ذمہ داریوں کو بیان کیا جاسکے۔حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں عوام کے آٹھ طبقات بیان کرتے ہیں کہ:
وَ اعْلَمْ اَنَّ الرَّعِیَّةَ طَبَقَاتٌ لَّا یَصْلُحُ بَعْضُهَا اِلَّا بِبَعْضٍ، وَ لَا غِنٰى بِبَعْضِهَا عَنْۢ بَعْضٍ فَمِنْهَا جُنُوْدُ اللّٰهِ، وَ مِنْهَا كُتَّابُ الْعَامَّةِ وَ الْخَاصَّةِ، وَ مِنْهَا قُضَاةُ الْعَدْلِ، وَ مِنْهَا عُمَّالُ الْاِنْصَافِ وَ الرِّفْقِ، وَ مِنْهَا اَهْلُ الْجِزْیَةِ وَ الْخَرَاجِ مِنْ اَهْلِ الذِّمَّةِ وَ مُسْلِمَةِ النَّاسِ، وَ مِنْهَا التُّجَّارُ وَ اَهْلُ الصِّنَاعَاتِ، وَ مِنْهَا الطَّبَقَةُ السُّفْلٰى مِنْ ذَوِی الْحَاجَةِ وَ الْمَسْكَنَةِ:فَمِنْهَا جُنُوْدُ اللّٰهِ، وَ مِنْهَا كُتَّابُ الْعَامَّةِ وَ الْخَاصَّةِ، وَ مِنْهَا قُضَاةُ الْعَدْلِ، وَ مِنْهَا عُمَّالُ الْاِنْصَافِ وَ الرِّفْقِ، وَ مِنْهَا اَهْلُ الْجِزْیَةِ وَ الْخَرَاجِ مِنْ اَهْلِ الذِّمَّةِ وَ مُسْلِمَةِ النَّاسِ، وَ مِنْهَا التُّجَّارُ وَ اَهْلُ الصِّنَاعَاتِ، وَ مِنْهَا الطَّبَقَةُ السُّفْلٰى مِنْ ذَوِی الْحَاجَةِ وَ الْمَسْكَنَةِ۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رعیت کے کئی طبقات ہوتے ہیں۔ان میں سے ہر طبقے کی فلاح و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے، ان میں پہلا طبقہ وہ ہے جو اﷲ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے۔ دوسرا طبقہ: عمومی اور خصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ہے۔تیسراطبقہ: عدل کرنے والے قاضیوں کا ہے۔ چوتھا طبقہ: حکومت کے وہ اعمال ہیں جن سے انصاف اور امن قائم ہوتا ہے۔پانچواں طبقہ: جزیہ اور خراج دینے والوں کا ہے۔ چھٹا طبقہ: جزیہ دینے والے ذمی اقلیتوں کا یا خراج دینے والے مسلمانوں کا ہے۔ساتواں طبقہ: تاجروں اور صنعت گروں کاہے۔آٹھواں طبقہ سب سے کمزور ترین طبقہ ہے جو فقراء اور مساکین کا ہے۔ ان تمام طبقات میں سے ہر ایک کا بیت المال میں حصہ معیّن ہے:
و كُلاًّ قدْ سمّى اللّٰهُ سهْمهُ و وضع على حدِّہ فرِيضتَهُ فِي كِتابِهِ أوْ سُنّةِ نبِيِّهِ ص و عهْداً منہ عِنْدنا محْفُوظاً۔
اور اﷲ نے ہر ایک کا حق معین کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبویؐ میں اس کی حد بندی کر دی ہے اور وہ دستور ہمارے پاس محفوظ ہے۔
تاجر اور صنعت گر کے حقوق
حضرت علی علیہ السلام تاجروں اور صنعت گروں کی تین اقسام بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم ان تاجروں ا ور صنعت گر وں کی ہے جو ایک جگہ رہ کر تجارت کرتے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو تاجروں اور صنعت گروں کے بارے میں حکم دیتے ہیں:
ثُمَّ اسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وَ ذَوِی الصِّنَاعَاتِ، وَ اَوْصِ بِهِمْ خَیْرًا، الْمُقِیْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُضْطَرِبِ بِمَالِهٖ، وَ الْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِهٖ، فَاِنَّهُمْ مَوَادُّ الْمَنَافِعِ، وَ اَسْبَابُ الْمَرَافِقِ، وَ جُلَّابُهَا مِنَ الْمَبَاعِدِ وَ الْمَطَارِحِ، فِیْ بَرِّكَ وَ بَحْرِكَ وَ سَهْلِكَ وَ جَبَلِكَ، وَ حَیْثُ لَا یَلْتَئِمُ النَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا، وَ لَا یَجْتَرِءُوْنَ‏ عَلَیْهَا، فَاِنَّهُمْ سِلْمٌ لَّا تُخَافُ بَآئِقَتُهٗ، وَ صُلْحٌ لَّا تُخْشٰى غَآئِلَتُهٗ، وَ تَفَقَّدْ اُمُوْرَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وَ فِیْ حَوَاشِیْ بِلَادِكَ۔
پھر تمہیں تاجروں اور صنعت گروں کے خیال رکھنے کی اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے، خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیو پار کرنے والے ہوں، یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں یا جسمانی مشقت سے کمانے والے ہوں، اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں، تریوں، میدانی علاقوں اور پہاڑوں ایسے دور افتادہ مقامات سے درآمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کی ہمت کر سکتے ہیں، بے شک یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں، ان سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ تمہارے سامنے ہوں یا جہاں جہاں دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ہوں تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا۔
بے سہارا، فقراء اور مساکین کے حقوق
حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنر مالک اشتر کو بے سہارا، مساکین اور فقراء کے حقوق کے بارے میں ہدایات دیتے ہیں:
ثُمَّ اللَّهَ اللَّهَ فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ مِنَ الْمَسَاكِينِ وَ الْمُحْتَاجِينَ وَ أَهْلِ الْبُؤْسِ وَ الْزَمْنَى فَإِنَّ فِي هَذِهِ الطَّبَقَةِ قَانِعاً وَ مُعْتَرّاً فَاحْفَظْ لِلَّهِ،مَا اسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّهِ فِيهِمْ وَ اجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَيْتِ مَالِكَ وَ قِسْماً مِنْ غَلَّاتِ صَوَافِي الْإِسْلَامِ فِي كُلِّ بَلْدَةٍ فَإِنَّ لِلْأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ الَّذِي لِلْأَدْنَى وَ كُلٌّ قَدِ اسْتَرْعَيْتَ حَقَّهُ فَلَا يَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ فَإِنَّكَ لَا تُعْذَرُ بِتَضْيِيعِ التَّافِهِ لِإِحْكَامِكَ الْكَثِيرَ الْمُهِمَّ فَلَا تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ وَ تَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْهُمْ مِمَّنْ تَقْتَحِمُهُ الْعُيُونُ وَ تَحْقِرُهُ الرِّجَالُ۔
پھرخصوصیت کے ساتھ اﷲ کا خوف کرنا، پسماندہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا،وہ مسکینوں، محتاجوں، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے۔ ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت ہی سوال ہوتی ہے۔ اﷲ کی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں ان کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کااﷲ نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے۔ ان کے لیے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ شہر کےاس غلہ میں سے دیناجو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو، کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے۔اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو۔ لہٰذا تمہیں دولت کی سر مستی کہیں غافل نہ کردے۔پس کسی معمولی بات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نےبہت سے اہم کاموں کو پورا کردیا ہے لہٰذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا۔ نہ تکبر کے ساتھ ان کی طرف سے اپنارخ پھیر لینااور نہ ہی اپنی توجہ ان سے ہٹانا۔ خصوصیت کے ساتھ خبر رکھو ایسے افراد کی جو تم تک پہنچ نہ سکتے ہوں جنہیں آنکھیں دیکھنے سے کراہت کرتی ہوں گی اور لوگ انہیں حقارت سے ٹھکراتے ہوں گے۔اگرحکمرانوں کو حکومت کے دیگر معاملات کی مصروفیات کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں جاکر ایسے افراد کی خبر گیری کرنا مشکل ہو تو اس کام کے لیے ہر علاقہ میں باوثوق اورخوف ِخدا رکھنے والے افراد کو معین کیا جائے جو حکومت تک صحیح اطلاعات پہنچاتے رہیں:
فَفَرِّغْ لِأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ الْخَشْيَةِ وَ التَّوَاضُعِ فَلْيَرْفَعْ إِلَيْكَ أُمُورَهُمْ ثُمَّ اعْمَلْ فِيهِمْ بِالْإِعْذَارِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ يَوْمَ تَلْقَاهُ۔
پس تم ان کے لیے اپنے کسی بھروسے کے آدمی کو جو خوفِ خدا رکھنے والا اور متواضع ہو مقرر کردیناکہ وہ انکے حالات تم تک پہنچاتا رہے۔پھر ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا جس سے قیامت کے دن اﷲ کےسامنے حجت پیش کر سکو۔
پھر فرماتے ہیں:
یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے مستحق ہیں کیونکہ ان لوگوں کا کوئی اور سہارا نہیں ہے:
فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَيْنِ الرَّعِيَّةِ أَحْوَجُ إِلَى الْإِنْصَافِ مِنْ غَيْرِهِمْ وَ كُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اللَّهِ فِي تَأْدِيَةِ حَقِّهِ إِلَيْهِ۔
کیونکہ عوام میں یہ لوگ دوسروں سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور یوں تو سب ہی ایسے ہیں کہ تمہیں ان کے حقوق سے عہدہ برآ ہو کر اﷲ کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔
یتیموں اور بوڑھوں کے حقوق
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں سے جو یتیم ہیں یا یتیموں کی پرورش کرنے والے ہیں اور جو بہت ہی بوڑھے ہو چکے ہیں ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے:
وَ تَعَهَّدْ أَهْلَ الْيُتْمِ وَ ذَوِي الرِّقَّةِ فِي السِّنِّ مِمَّنْ لَا حِيلَةَ لَهُ وَ لَا يَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَهُ وَ ذَلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِيلٌ وَ الْحَقُّ كُلُّهُ ثَقِيلٌ وَ قَدْ يُخَفِّفُهُ اللَّهُ عَلَى أَقْوَامٍ طَلَبُوا الْعَافِيَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ وَ وَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللَّهِ لَهُمْ۔
اور یتیموں (اور ان کے پالنے والوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا) اور ان کا بھی جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں جن کاکوئی سہارا باقی نہیں جو بھیک مانگنے کے بھی لائق نہیں رہے، اور یہی وہ کام ہے جو حکام پر گراں گزرتا ہےجبکہ حق سارے کا سارا بھاری ہوتا ہے۔ ہاں خدا ان لوگوں کے لیے جو آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں ان کی گرانیوں کو ہلکا کردیتا ہے وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اﷲ نے جو، ان سے وعدہ کیاہے اس کی سچائی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ملازمین کے حقوق
ملازمین کی تنخواہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
ثُمَّ اَسْبِـغْ عَلَیْهِمُ الْاَرْزَاقَ، فَاِنَّ ذٰلِكَ قُوَّةٌ لَّهُمْ عَلَى اسْتِصْلَاحِ اَنْفُسِهِمْ، وَ غِنًى لَّهُمْ عَنْ تَنَاوُلِ‏ مَا تَحْتَ اَیْدِیْهِمْ، وَ حُجَّةٌ عَلَیْهِمْ اِنْ خَالَفُوْۤا اَمْرَكَ، اَوْ ثَلَمُوْۤا اَمَانَتَك۔َ
پھر ان کی تنخواہوں کا۔ ان کی تنخواہوں کا معیار بلند رکھنا کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مدد ملے گی، اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے، جو ان کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا۔ اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم کی خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں توتمہاری حجت ان پر تمام ہو گی۔
خائن ملازمین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ان پر کچھ امین اور دیندار لوگوں کو مقرر کیا جائے تاکہ وہ ان کی خیانت کی خبر دیتے رہیں اور جو وہ خبر دیں وہ ان کے لیے کافی ہے:
فإِنْ أحدٌ مِنْهُمْ بسط يدهُ إِلى خِيانةٍ اِجْتمعتْ بِها أخْبارُ عُيُونِك اِكْتفيْت بِذلِك شاهِداً فبسطْت عليْهِ الْعُقُوبة فِي بدنِهِ و أخذْتهُ بِما أصاب مِنْ عملِهِ ثُمّ نصبْتهُ بِمقامِ الْمذلّةِ فوسمْتهُ بِالْخِيانةِ و قلّدْتهُ عار التُّهمةِ۔
اگر ان میں سے کوئی خیانت کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے اور متفقہ طور پر جاسوسوں کی اطلاعات تم تک پہنچائیں،تو شہادت کے لیے بس اسے کافی سمجھ لینا، اسے جسمانی طور پر سزا دینااور جو کچھ اس نے اپنےعہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیٹا ہے اسے واپس لینااوراسے ذلت کی منزل پر کھڑا کر دینا، خیانت کی رسوائیوں کے ساتھ اسے روشناس کرانااور رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔
نوٹ
کسی بھی ملک کے نظام چلانے اور اس میں امن سکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں۔
( 1) حکمران کا عادل و منصف ہونا اور رعایا کے حقوق کی پاسداری کرنے والا ہو اور رعایا کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہو۔
(2) رعایا کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے والا ہو،ظالم اور جابر حکمرانوں سے مقابلہ کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر چل کر ان حقوق کی پاس داری کرنےکی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button