خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:175)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک11نومبر 2022ء بمطابق 15ربیع الثانی1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: وقت کی اہمیت از قرآن و حدیث
بعض چیزیں ایسی ہیں جو انسان سمجھتا ہے کہ زیادہ مقدار میں اسے دستیاب ہیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اور انسان غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے، ان چیزوں میں سے ایک انتہائی اہم چیز "وقت” ہے۔ اس کے قیمتی ہونے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اس کا ترازو یعنی گھڑی انتہائی باریک بینی اور ظرافت سے بنائی گئی ہے جو حتی ایک لمحہ کو بھی کئی حصوں میں الگ الگ شمار کرکے آگے بڑھاتے ہوئے دکھاتی ہے۔
جو آدمی اپنی زندگی اور وقت کو قیمتی نہیں سمجھتا اس کی زندگی کے کئی سال بھی بے نتیجہ اور لاحاصل کاموں میں گزر جائیں تو اسے فرق محسوس نہیں ہوتا اور جو شخص اپنی زندگی اور وقت کو قیمتی سمجھتا ہے وہ صرف گھنٹوں کو نہیں بلکہ اپنے لمحوں کو بھی شمار کرتا ہے، وہ لمحہ لمحہ کی قدر کو جانتے ہوئے انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا اور ان سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اِنّ اَنفاسَكَ أَجزاءُ عُمرِكَ فَلاتُفنها اِلاّ فی طاعَةٍ تُزلِفُك”، "یقیناً تمہاری سانسیں تمہاری عمر کے حصے ہیں، لہذا ان کو صرف اس فرمانبرداری میں لگاؤ جو تمہیں (اللہ کے) قریب کرے”۔ [غررالحکم، ص۲۲۲، ح۵۴] وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
دنیا کی زندگی اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس نے یہاں اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دارآخرت کو کوچ کرنا ہے جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے۔ یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ’وقت‘ ہم گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی کرنسی کے عوض خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اہس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اسے پھر کبھی مل جائے اور بعض اوقات اسے مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور یہ دولت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر انسان کی سستی یا بے پروائی سے وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ واپس نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی و کامرانی ہمیشہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو وقت شناس اور اس کے قدر دان ہوتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور خیالی پلاؤ پکانے میں مگن رہنے والوں کے خیالوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور نہ وقت ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمیں باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کرنا چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی، آخرت کے لئے کھیتی کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور حسنات کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح و نجات کا ثمر ملے گا :
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ (الحاقہ:24)
خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو ان اعمال کے صلے میں جنہیں تم گزشتہ زمانے میں بجا لائے۔
اس کے برعکس اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا :
وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ ؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ ﴿فاطر:۳۷﴾
اور وہ جہنم میں چلا کر کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جگہ سے نکال، ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم (پہلے) کرتے رہے ہیں، (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر سکتا تھا؟ جب کہ تمہارے پاس تنبیہ کرنے والا بھی آیا تھا، اب ذائقہ چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اہسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
بےشک انسان کے پاس سب سے نفیس ترین اور سب سے قیمتی چیز وقت ہی ہے ۔ ہم اپنے عمل اور کوشش سے جو بھی حاصل کرنا چاہیں اس کی کامیابی کا راز وقت کے درست استعمال میں ہی پوشیدہ ہے ۔ یہ وقت انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے ایک حقیقی سرمایہ ہے ۔
وقت کی اہمیت کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ خدا تعالی نے مقدس کتاب قرآن کریم کی ایک سورہ مبارکہ کا نام "العصر ” یعنی "زمان یا وقت” رکھا اور قرآن میں اور بھی جگہوں پر وقت کی قدر کا ذکر ملتا ہے ۔
وقت کی پہچان اور اس کی قدر
فضولیت کی جانب رجحان اور بے معنی اور بے مقصد زندگی انتہائی نقصان دہ چیز ہے، جو انسان کی شخصیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر برباد کردیتی ہے، انسان کو نہ صرف ترقی وتکامل سے روکتی ہے، اُسے اُس کی حقیقت سے دور کردیتی ہے بلکہ اس کے زوال، انحطاط اور ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
اس ضرر رساں چیز کا ایک انتہائی نمایاں اثر یہ ہے کہ یہ انسان کے قیمتی وقت کے زیاں کا سبب بن کر اسے اس کے اصل سرمائے یعنی وقت کے گوہر گراں قیمت سے محروم کردیتی ہےلہٰذا بے مقصدیت کی مخالفت اور ہر قسم کے لغو امور سے پرہیز، وقت کے قیمتی سرمائے کی حفاظت اور اس سے بہترین نتائج کے حصول کا باعث ہے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام اور عقل ودانش، دونوں ہی ” وقت“ کی انتہائی قدر وقیمت کے قائل ہیں، وقت کا صحیح اور بہترین استعمال زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی اور کمال کی وجہ بنتا ہے۔
اسلام میں وقت کی قدر جاننے، اس کو اہمیت دینے اور اس سے صحیح صحیح اور بجا استفادے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور اسے خدا کی عظیم نعمت شمار کیا گیا ہے، جس کا روزِ قیامت حساب لیا جائے گاجیسا کہ رسولِ کریم ؐ کی حدیث ہے:
لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَه وَ عَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ كَسَبَهُ وَ فِيمَا أَنْفَقَهُ وَ عَنْ حُبِّنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ
روزِ قیامت انسان ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے گا، جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: اُس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں بسر کیا، اُس کے جسم (یاجوانی) کے بارے میں کہ اُسے کن امور میں صرف کیا، ،اُس کے مال ودولت کے بارے میں کہ اُسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور میری اور میرے اہل بیت کی محبت کے بارے میں۔(بحار الانوارج68ص185)
اس روایت کی رو سے قیامت کے دن خدا کا سب سے پہلا سوال عمر، یعنی انسان کی زندگی کے اوقات کے بارے میں ہوگا، کہ ُانہیں کس راہ میں صرف کیا اور اُن کے عوض کیا حاصل کیا؟ فضول اور باطل امور میں خرچ کیا؟ یا حصولِ علم وکمال، تقویٰ اور مثبت کاموں کے لیے اُن سے کام لیا؟
انسانی زندگی کی گزرتی ساعتوں کو وقت کہتے ہیں،وقت برف کی مانند ہے، جو پگھل کر ختم ہوجاتا ہےلہٰذا ضروری ہے کہ اِس سے بہترین استفادہ کیا جائے، اس سے خوشگوار مشروبات کو ٹھنڈا کیا جائے، پیاسوں کو سیراب کیا جائے اور اِس کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔لیکن اگر برف کو سخت گرمی میں پتھریلی زمین پر رکھ دیا جائے، تو وہ بغیر کوئی فائدہ پہنچائے پگھل کر ختم ہوجائے گااور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اِسے نشہ آور مشروبات ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرے جو انسان کے فہم وادراک، عقل وخرد کی تباہی کا باعث بنیں۔
لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ منظم پروگرام کے ذریعے فضول کاموں اور کھوکھلے اور بے فائدہ امور سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں، تاکہ اپنی زندگی کے ایک ایک سیکنڈ، ایک ایک منٹ اور ایک ایک گھنٹے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں اس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ؛ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّهُ، وَ سَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَهُ، وَ سَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِهِ وَ بَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ وَ يَجْمُلُ. وَ لَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ، أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ، أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.
مومن کے اوقات تین ساعتوں پر منقسم ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ جس میں اپنے پروردگار سے رازو نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اور ایک وہ کہ جس میں اپنے معاش کا سروسامان کرتا ہے۔ اور وہ کہ جس میں حلال و پاکیزہ لذتوں میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ عقلمند آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گھر سے دور ہو، مگر تین چیزوں کے لیے، معاش کے بندوبست کے لیے، یا امرِ آخرت کی طرف قدم اٹھانے کے لیے ،یا ایسی لذت اندوزی کے لیے کہ جو حرام نہ ہو۔ (اقتباس ازنہج البلاغہ کلمات قصار۳۹۰)
وقت کی قدر اور اہمیت کے بارے میں یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ بعض مفسرین نے آیہ والعصر کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں عصر (جس کی خدا نے قسم کھائی ہے) سے مراد وقت ہےیعنی وقت کی قسم!!!! کیونکہ اگر اِس سے بہتر استفادہ کیا جائے، تو یہ انسان کے لیے بے مثل سرمایہ ہےاور اِس سے بہترین استفادے کے لیے ضروری ہے کہ انسان فضولیات اور بے کار اور منفی کاموں سے دور رہے۔
اگر ہم وقت کو لغو کاموں اور منفی امور میں برباد کرنے کی بجائے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں، تو اِس طرح ہم اپنے قیمتی وقت کو تباہ اور ضائع نہیں کریں گےاور اگر ایسا نہ کر سکیں، تو ہمیں آخر عمر میں اور روزِ قیامت غم واندوہ کے سوا کوئی اور نتیجہ حاصل نہ ہوگاجیسا کہ اِس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:
وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ (الزمر:55)
اور تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو بہترین (کتاب) نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر ناگہاں عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
قابل توجہ بات ہے کہ قرآنِ کریم میں دو الفاظ ” لہو“ اور ” لعب“ بار بار استعمال ہوئے ہیں اور ان سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےلہو ولعب (جن کے معنی عیاشی، غافل کردینے والے اور منفی اثرات کے حامل کھیل کود ہیں) اُن عوامل میں سے ہیں جو انسان کو لغو اور فضول کاموں میں مصروف کردینے کا باعث ہوتے ہیں۔
ہم لہو ولعب سے پرہیز کے بارے میں قرآنِ کریم کی ہدایت سے یہ نکتہ بھی حاصل کرسکتے ہیں کہ اِن سے پرہیز، وقت کی قدر کرنے اور اس سے مفید استفادے کا بہترین ذریعہ ہےلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ فضولیت کی جانب رجحان سے جو نقصانات بشریت کو اٹھانا پڑے ہیں (جن کی ایک شکل لوگوں کا منشیات کا عادی ہونا ہے) وہ خطرناک اور انتہائی بڑی خسارتیں ہیں۔
امیر المومنینؑ کی نظر میں وقت کی اہمیت:
امیرالمومنین فرماتے ہیں: الْمُؤْمِن‏ مَشْغُولٌ وَقْتُه:مؤمن کبھی بیکار میں وقت ضائع نہیں کرتا اور ہر وقت کسی نہ کسی اچھے کام میں مشغول رہتا ہے۔(نہج البلاغہ حکمت 333)
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے نورانی کلمات سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان ایک کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اپنے مقصد اعلی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کو منظم کرے اور نظم کے ساتھ زندگی گزارے ، یہاں پر ہم وقت کے نظم کو چند عنوان کے ساتھ ذکر کریں گے تاکہ مطالب واضح ہو جائیں :
1-ہر کام کو انجام دینے کے لیے وقت معین کرنا
ہر کام کے لیے وقت کا معین کرنا ضروری ہے یعنی پورے دن کا نظام الاوقات مشخص ہو کہ اس دن میں کون کون سے کام کرنے ہیں اور کس وقت کرنے ہیں۔بہت سارے ایسے کام ہیں کہ جن کا نتیجہ صحیح نہیں ہوتا اور اسکی اصلی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے سے ان کے لیے کوئی وقت معین نہیں ہوتا یعنی جب تک وقت معین نہیں ہوگا تو اس کا نتیجہ بھی صحیح نہیں ہو سکتا پس ضروری ہے کہ ہر کام سے پہلے اس کے انجام دینے کا وقت معین ہو۔
2- وقت کی پہچان
ہر کام کے لیے ایک خاص وقت ہوتا ہے، اس لیے وقت کی پہچان بھی ضروری ہے یعنی ایک نظم کے ساتھ کام کرنا ہو گا مثلا ً کس وقت آرام کرے کس وقت کام کرے اور اسی طرح جن کاموں کا کوئی نتیجہ نہیں ہے ان سے پرہیز کرے، اپنے قیمتی وقت کا خیال کرے اور زندگی کو منظم کرے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے بدن کی پہچان کے بعد ہی انہیں منظم کر سکتا ہے مثال کے طور پر انسان اگر صبح کے وقت کو مطالعہ کے لیے مشخص کرے اور عصر کے وقت کو ورزش کے لیے تو یہ اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا اسی طرح ہر انسان اپنے بارے میں جانتا ہے کہ کس وقت وہ کون سا کام کرے تو اس میں کامیاب ہوگا اس لیے وقت کی پہچان بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ امیر کائنات کا فرمان ہے :
اِنَّ لِلْقُلُوْبِ شَهْوَةً وَّ اِقْبَالًا وَّ اِدْبَارًا، فَاْتُوْهَا مِنْ قِبَلِ شَھْوَتِھَا وَ اِقْبَالِھَا، فَاِنَّ الْقَلْبَ اِذَا اُکْرِہَ عَمِیَ۔
بتحقیق دل کی رغبت آنے جانے والی ہے اس لیے دلوں سے اس وقت کام لو کہ جب وہ کام کے لیے تیار ہوں کیونکہ دل کو جب مجبور کر کے کسی کام پہ لگایا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔(نہج البلاغہ حکمت:193)
3- وقت کو غنیمت جاننا
امام علی (علیہ السلام) وقت کی اہمیت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : وَالْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ، فَانْتَهِزُوْا فُرَصَ الْخَیْرِ.
فرصت بادلوں کی طرح گزر جاتی ہے پس اسے غنیمت سمجھو۔(نہج البلاغہ حکمت:20)
امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ فرصت نیک جگہ استعمال کرنا اور با لخصوص اسے آخرت کے لیے استفادہ کرنا عقل کی نشانی ہے۔ اور اسی طرح فرصت کا چلا جانا اور اس سے کوئی استفادہ نہ کرنا بے عقل کی نشانی ہے۔اسی طرح فرمایا کہ فرصت کو موت کے لیے تیاری اور کوشش کرنے والے پر خدا کی رحمت ہے اور ہاتھ سے گئی ہوئی فرصت پر غمگین ہونے والے پر بھی رحمت خدا ہے۔ اور فرمایا کہ وقت کو غنیمت جانو کیوں کہ گزرا وقت پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ یا پھر بہت دیر کے بعد آئے گا۔
اسی لیے امام وصیت کرتے ہیں کہ اپنی ہر فرصت کو اطاعت خدا میں گزارو۔(خطبہ :81)
4- فرصت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش
امام علی (علیہ السلام) اپنے صحابہ کو شوق دلاتے ہیں کہ آخرت کے لیے فرصت سے فائدہ اٹھاؤ۔
« فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُ مِنْكُمْ فِیْۤ اَیَّامِ مَهَلِهٖ، قَبْلَ اِرْهَاقِ اَجَلِهٖ، وَ فِیْ فَرَاغِهٖ قَبْلَ اَوَانِ شُغُلِهٖ، وَ فِیْ مُتَنَفَّسِهٖ قَبْلَ اَنْ یُّؤْخَذَ بِكَظَمِهٖ، وَ لْیُمَهِّدْ لِنَفْسِهٖ وَ قَدَمِهٖ، وَ لْیَتَزَوَّدْ مِنْ دَارِ ظَعْنِهٖ لِدَارِ اِقَامَتِهٖ.
پس عمل کرنے والے بنو ان دنوں میں کہ جن میں تمہیں فرصت ملی ہے اس سے پہلے کہ موت تمہیں موقع نہ دے اور اس سے پہلے کہ جس میں تمہارا دل مشغول ہو اور اس سے پہلے کہ سانس اور پاؤں تمہارا ساتھ نہ دیں اپنے آپ کو تیار کرو اس جہان سے اس جہان کے لیے کہ جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ (خطبہ:84)
امام علی (علیہ السلام) اس آیہ کریمہ کے متعلق (و لا تنس نصيبك من الدنيا)فرماتے ہیں :
لا تنس نصيبك من الدنيا اي لا تنس صحتك و قوتك و فراغك و شبابك و نشاطك و غناك ان تطلب به الاخرة (معانی الاخبار/ 325)
دنیا میں اپنی سلامتی کی نعمت کو نہ بھولو ،اپنی صحت و سلامتی اور جوانی کو آخرت کے لیے غنیمت سمجھو ۔
5. جوانی کی فرصت
ہر انسان کے لیے اس کی زندگی میں جوانی کی فرصت ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اسے اسکی قدر کرنی چاہیے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی ہمیں اس کی طرف متوجہ کیا ہے جیسے ہمیں مولائے کائنات کے کلمات میں ملتا ہے کہ انہوں نے بھی تاکید کی ہے کہ اس جوانی کی فرصت سے استفادہ کرو کیونکہ تمہارے پاس دو عظیم فرصت ہیں ایک جوانی اور دوسری صحت و سلامتی، ان کی قدر کرو۔
امام علی (علیہ السلام) نےاس کے بارے میں اشارہ کیا ہے جوانی کی فرصت کو تحصیل علم میں صرف کرو ۔ اصل میں جوانی کا زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ذہن ہر مطلب کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے امام علی (علیہ السلام) نهج البلاغه میں اپنے بیٹے امام حسن (علیہ السلام) کو فرماتے ہیں :انما قلب الحدث كالارض الخاليه ما القي فيها من شيء قبلته فبادرتك بالادب قبل ان يقسو قلبك و يشتغل لبك
جوان کا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے جو بھی اس میں کاشت کرو گے اسے قبول کرے گا پس اسے ادب سکھاؤ اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے اور اس کی فکر آزاد ہو جائے ۔
6. صحت و سلامتی کی فرصت
سلامتی کی فرصت بھی انسان کے لیے ایک اہم فرصت ہے کہ جو خداوند متعال نے انسان کو عطا کی ہے۔ امام علی (علیہ السلام) فرماتے اکثر لوگوں کو اس فرصت کی اہمیت نہیں ہوتی اور جب یہ ہاتھ سے نکل جائے تب وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں. آپ نے فرمایا کہ سلامتی کی نعمت کو اطاعت اور بندگی خدا میں گزارو، اس سے پہلے کہ مریض ہوں اس کو غنیمت سمجھیں ۔ اور پھر فرمایا:
فَاللهَ اللهَ مَعْشَرَ الْعِبَادِ! وَ اَنْتُمْ سَالِمُوْنَ فِی الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ، وَ فِی الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّیْقِ، فَاسْعَوْا فِیْ فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُغْلَقَ رَهَآئِنُهَا،
پس خدا کے لیے ،خدا کے لیے جب تک تندرست اور سالم ہو مشکلات میں مبتلا ہونے سے پہلے کمزور ہونے سے پہلے اپنی گردن کو جھکاؤ(یعنی عبادت میں گذارو)اس سے پہلے کہ تم سے یہ نعمت لے لی جائے۔(خطبہ:181)

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج
وقت کی قدر کرنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی کا بندوبست کرسکتا ہے اور معنویت کے بلند درجات پر پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس دنیا میں بھی علم وعمل کے میدانوں میں کمال کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور ایک عالمی شخصیت بن کر بشریت کو اپنی قیمتی خدمات سے فیضیاب کرسکتا ہےاگر ایڈیسن نے بجلی دریافت کی اور بہت سی دوسری مفید دریافتوں کا سبب بنا، اگر بو علی سینا نے علمِ طب اور فلسفے اور عرفان کو وسعت اور گہرائی دی اور اگر آئن اسٹائن نے فزکس کو رونق بخشی اور اس کے تجزیئے اور تحلیل کی وسعت میں اضافہ کیا اور بہت سے دوسرے لوگ جو مختلف میدانوں میں علوم کی وسعت وترویج اور صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے، تو یہ سب کچھ وقت سے صحیح استفادے کی بدولت ممکن ہوا ہےکیونکہ اگر یہ لوگ اپنے بہترین وقت کو لغو اور فضول کاموں میں گزار دیتے تو اِس سے خود اُن کی اور اُن کے معاشروں کی تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہ ہوتا۔
ہم خود اپنے ارد گرد اپنے بزرگ علما کو دیکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے وقت سے استفادے اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عالی ترین درجات حاصل کیے اور معاشرے کے لیے عظیم الشان علمی اور عملی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے برکات وثمرات کا باعث ہوئےاس سلسلے میں ہم آپ کی توجہ کے لیے اختصار کے ساتھ چند علما کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
۱:- آیت اﷲ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ، المعروف صاحب ِجواہر (وفات ۱۲۶۶ھ) جنہوں نے اپنی یادگار کے طور پر استد لالی فقہی کتاب“ جواہر الکلام“ چھوڑی ہے، جو چالیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام ابواب ِفقہ شامل ہیں اِن بزرگوار نے اپنے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور اِس میں ممتاز شاگردوں کی تربیت کی اور گراں قدر کتاب جواہر الکلام تالیف کی جو اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے شیعہ استدلالی فقہ میں بے نظیر حیثیت کی حامل ہےیہ کتاب بجا طور پر فقہ شیعہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی 110 جلدوں پر مشتمل کتاب ” بحار الانوار“ احادیث ِمعصومین کا دائرۃ المعارف اور خاندانِ رسالت کے علوم ومعارف پر مبنی ایک چھوٹا سا کتب خانہ ہے۔
مرحوم صاحب الجواہر کی ولادت تقریباً ۱۱۹۲ء میں ہوئی۲۵ برس کی عمر میں آپ نے ” جواہر الکلام“ کی تالیف کا آغاز کیا اور ۱۲۵۷ء میں اِسے مکمل کیایعنی آپ نے بغیر کسی وقفے کے اِس کتاب کو ۴۰ سال میں تحریر کیا اور یہ عظیم توفیق حاصل کی۔آپ نے ۱۲۶۶ء میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔اس کتاب کے علاوہ بھی آپ نے دوسری کتب تالیف کیں، جن میں نجاۃ العباد، ہدایۃالناسکین اور علم اصول پر ایک کتاب بھی شامل ہےبعض علما کے بقول اگر صاحب ِجواہر کے دور کا کوئی تاریخ نویس اُس دور کے حیرت انگیز واقعات قلمبند کرتا، تو اُسے کتاب جواہر الکلام کی تالیف سے زیادہ حیرت انگیز کوئی اور واقعہ نہ مل پاتا(جواہر الکلامطبع بیروتج۱ص۱۲، ۱۴، ۱۷ اور ۲۴ مقدمہ)
غور کیجیے کہ انہی شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ کا ایک بہت پیارا فرزند، جس کا نام حمید تھا، اُس کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھایہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کو اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے امور میں بہتری کے لیے اِس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھی، شیخ اپنے اِس فرزند کے جنازے پر آئے اور چند آیات ِقرآنی کی تلاوت کی۔ابھی جنازے کو تدفین کے لیے تیار ہونے میں کچھ وقت تھایہ دیکھ کر شیخ وہیں بیٹھ گئے، اپنا بستہ کھول کر اس میں سے قلم وکاغذ نکالا اور کتاب جواہر الکلام (جسے اُس زمانے میں وہ تحریر کررہے تھے) لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
وقت کی اہمیت اور اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے سلسلے میں شیخ کا یہی طرز عمل تھا جس کے ذریعے آپ نے فقہ وفقاہت کے میدان میں ایسی گرانقدر کتاب پیش کی۔امام خمینی نے اپنے ایک بیان میں اِس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
۲:- مرجع اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان میں تحصیل علم میں مشغول تھےکبھی کبھی آپ رات کے وقت مطالعے میں ایسے غرق ہوجاتے کہ صبح موذن کی اذان ہی آپ کو وقت گزرنے کا احساس دلاتی یہ ترقی اور کمال کے لیے وقت سے استفادے کی ایک اوربہترین مثال تھی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button