خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:189)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک17فروری2023ء بمطابق 25 رجب المرجب1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
تاریخی مناسبت: شہادت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
25 رجب امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔آپ شیعوں کے ساتویں امام ہیں۔آپ کی 35 سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے خلفاء منصور دوانقی،ہادی، مہدی اور ہارون رشید بر سر اقتدار رہے۔ منصور عباسی اور مہدی عباسی کے دور خلافت میں آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور سن 183 ہجری قمری کو سندی بن شاہک کے زندان میں جام شہادت نوش کیا یوں منصب امامت آپ کے فرزند ارجمند امام رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گئی۔
۔آپؑ کےعلمی فیوضیات
راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے زمانہ کے اعلم تھے ،آپ کا علم انبیاء اور اوصیاکی طرح الہا می تھا، اس مطلب پر شیعہ متکلمین نے متعدد دلیلیں بیان کی ہیں، خو د آپ کے والد بزرگوار حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کی علمی طاقت و قوت کی گو ا ہی دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:”تم میرے اس فرزند سے قرآن کے بارے میں جو بھی سوال کروگے وہ تمھیں اس کا یقینی جواب دے گا ”۔
مزید فرمایا:”حکمت،فہم،سخاوت،معرفت اور جن چیزوں کی لوگوں کو اپنے دین کے امر میں اختلاف کے وقت ضرورت ہوتی ہے اِن کے پاس اُن سب کاعلم ہے” ۔(حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ١٣٨۔)
شیخ مفید فرماتے ہیں :”لوگوں نے امام مو سیٰ بن جعفر سے بکثرت روایات نقل کی ہیں ۔وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے ”۔(الارشاد ،صفحہ ٢٧٢)
علماء نے آپ سے تمام علوم منقولہ اور عقلی علوم فلسفہ وغیرہ کی قسمیں نقل کی ہیں یہاں تک کہ آپ دنیا کے راویوں کے ما بین مشہور و معروف ہو گئے ۔
٢۔دنیامیں زہد
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے رونق زندگا نی سے منھ موڑ کر اللہ سے لو لگا ئی تھی ،آپ اللہ سے نزدیک کرنے والا ہر عمل انجام دیا،ابراہیم بن عبد الحمید آپ کے زہد کے متعلق یوں رقمطراز ہیں :میں امام کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نماز میں مشغول تھے اور آپ کے گھر میں کھجور کی چٹا ئی ،لٹکی ہو ئی تلوار اور قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔(بحارالانوار، جلد ١١،صفحہ٢٦٥)
آپ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کا گھر بہت سادہ تھا حالانکہ دنیائے اسلام کے شیعوں کی طرف سے آپ کے پاس بہت زیادہ اموال اور حقوق شرعیہ اکٹھا کرکے لائے جاتے تھے ، آپ ان سب کو فقیروں ،محتاجوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے ،آپ پیغمبر اکرمﷺکےصحابی ابوذرکی سیرت کی طرف اپنےاصحاب کو متوجہ کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے تھے :”خدا ابوذر پر رحم کرے، ان کا کہنا ہے :خداوند عالم مجھے جَو کی دو روٹی دینے کے بعد دنیا کو مجھ سے دور رکھے، ایک رو ٹی دو پہر کیلئے اور دوسری روٹی شام کیلئے اور مجھے دو چا دریں دے جن میں سے ایک کو جنگ میں استعمال کروں اور دوسری ردا سے دوسرے امورانجام دوں ”۔(اصول کافی ،جلد ٢،صفحہ١٣٤)
فرزند رسول ﷺنےدنیامیں اسی طرح زاہدانہ زندگی   بسرکی،دنیاکےزرقوبرق سےاجتناب کیااوراللہ کےاجرکی خاطربذاتخودظلم وستم برداشت کئے۔
٣۔جودوسخا
آپ کی جود و سخا وت کی صفت کو مثال کے طور پر بیان کیا جا تا ہے ،محروم اور فقیر آپ کے پاس آتے تو آپ اُن کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے اور تھیلیوں کی دل کھو ل کر سخاوت کرتے ،اس طرح کہ ان کے رشتہ داروں میں یہ مشہور ہو جاتاتھا:تعجب ہے جس کے پاس مو سیٰ کی تھیلیاں آئیں پھر بھی وہ فقیری کی  شکایت کرتا ہے ”۔(عمدة الطالب، صفحہ ١٨٥)
آپ رات کی تاریکی میں نکلتے اور فقیروں کو دو سو سے چارسو دینار تک کی تھیلیاں پہنچاتے تھے مدینہ کے غریبوں کی آپ کی نعمت ،بخشش اور صلۂ رحم کی عادت ہو گئی تھی ۔
٤۔لوگو ں کی حا جت ر و ا ئی
امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کی ذاتی صفت انتہائی شوق کے ساتھ لوگوں کی حا جتوں کو پورا کر نا تھی، آپ نے ہرگزکسی غمزدہ کا غم دور کرنے میں سستی نہیں کی ،آپ اسی صفت کے ذریعہ مشہور و معروف ہوئے ،ضرورتمند آپ کے پاس آتے ،آپ سے فریاد کرتے اور آپ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے ۔
٥۔اللہ کیاطاعتاورعبادت
آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عبادت گذار تھے یہاں تک کہ آپ کو عبد صالح اور مجتہدین کی زینت کے لقب سے یاد کیا جانے لگا،کسی شخص کو آپ کی طرح عبادت کر تے نہیں دیکھا گیا، راویوں کا کہنا ہے :جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کی آنکھوں سے اشک جا ری ہوجاتے اور اللہ کے خوف سے آپ کا دل مضطرب و پریشان ہو جاتا ۔
آپ کی عبادت کے چند نمونے یہ ہیں کہ جب آپ مسجد میں رات کے پہلے حصہ میں داخل ہوتے توایک سجدہ بجالاتے جس میں بڑے ہی غمگین انداز میں یہ کہتے :”میرے گناہ بڑے ہو گئے ہیں تو تیری عفو بھی اچھی ہو گی اے تقویٰ اور مغفرت والے خدا ”،اور آپ صبح تک اللہ سے توبہ اور خشوع والے یہی کلمات ادا کر تے رہتے ۔(وفیات الاعیان ،جلد ٤،صفحہ٩٣)
آپ نماز شب پڑھتے اور اس کو صبح کی نماز تک طول دیتے ،اس کے بعد نماز صبح بجالاتے ، پھر سورج طلوع ہونے تک تعقیبات نماز پڑھتے ،اس کے بعد سجدے میں چلے جاتے اور زوال آفتاب کے قریبتک سجدہ سے سر نہیں اٹھا تے تھے ۔(کشف الغمہ صفحہ ٢٧٦)
شیبانی سے روایت ہے :میں دس سے کچھ زیادہ دن تک امام مو سیٰ کاظم کی مصاحبت میں تھا آپ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک سجدہ کر تے تھے ۔جب ہارون نے آپ کو ربیع کے قید خانہ میں ڈالا تو وہ ملعون اطلاع کیلئے اپنے محل کے اوپر سے امام کو دیکھتا تھا اور اس کو امام وہاں نظر نہیں آتے تھے، اس کو صرف ایک مخصوص مقا م پر ایک پڑا ہوا کپڑا نظر آتا تھا جو اپنی جگہ سے بالکل ہٹتا نہیں تھا ۔ ہارون نے ربیع سے کہا :وہ کیا کپڑا ہے جس کو میں ہر دن ایک خاص مقام پر پڑا ہوا دیکھتا ہوں ؟
ربیع نے جلدی سے کہا :اے امیر المو منین وہ کپڑا نہیں ہے وہ امام مو سیٰ بن جعفر ہیں جو ہر دن طلوع آفتاب سے لےکر زوال آفتاب تک سجدہ کر تے ہیں ۔
ہارون متعجب ہوا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا :آگاہ ہو جائو یہ بنی ہاشم کے زاہدوں میں سے ہیں ۔
ربیع نے ہارون سے مخاطب ہو کر کہا :اے بادشاہ! تو نے امام کو کیوں قید میں ڈالاہے ؟
ہارون نے اس کی طرف سے منھ موڑ تے ہوئے کہا :امام کو قید میں ڈالنا ضروری تھا ۔
سندی بن شاہک کی بہن سے وارد ہوا ہے کہ جب امام اس کے بھا ئی کے قید خانہ میں تھے تو اس کا کہنا ہے :یہ یعنی امام مو سیٰ کاظم جب نماز عشاء سے فارغ ہو جاتے تو رات ڈھلنے تک خدا کی حمد و ثنا و تمجید اور اس سے دعا کرتے اس کے بعد طلوع فجر تک قیام و نماز میں مشغول رہتے ،پھر صبح کی نماز ادا فرماتے ،اس کے بعد طلوع آفتاب تک خدا کا ذکر فرماتے ،پھر چاشت کے وقت تک بیٹھتے ، اس کے بعد سوجاتے ،اور زوال سے پہلے بیدار ہو جاتے ،اس کے بعد وضو کرکے نماز ظہر و عصربجالاتے ، اس کے بعد ذکر خدا کرتے یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت آجاتا تو آپ نماز مغرب بجالاتے اس کے بعد نماز مغرب و عشاء کے مابین نماز ادا کرتے اور داعی اجل کو لبیک کہنے تک آپ کا یہی طریقہ ٔ کار تھا ۔(تاریخ ابو الفداء ،جلد ٢،صفحہ١٢)
٦ ۔ حلم اور غصہ کو پی جانا
امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کی نمایاں صفات میں سے ایک صفت حلم اور غصہ کو پی جانا تھی ،جوشخص آپ سے برا ئی سے پیش آتا اس کو معاف کر دیتے ،جو آپ کے ساتھ تجاوز کرتا اس سے خو شروئی سے ملتے ، آپ تجاوز کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان کرتے اور اس طرز عمل سے آپ ان کے اندر سے انانیت اور شر کا قلع و قمع کردیتے تھے ۔
واقعہ:
یہاں ہم امام عالی مقام کے حلم کا ایک عظیم واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امام کو بہت زیادہ برا بھلا کہتا اور آپ پر بے انتہاسب و شتم کرتا تھا ،امام کے بعض شیعوں نے اس کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان کو ایسا کر نے سے منع فرمایااور سزا کے بغیر اس کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ،آپ نے اس کے رہنے کی جگہ معلوم کی تو آپ کو بتایا گیا : مدینہ کے اطراف میں اس کا کھیت ہے امام اپنی سواری پر بیٹھ کر اپنی پہچان کرائے بغیر اس کے مزرعہ(کھیت) پر پہنچ گئے تو اس کو وہیں پر موجود پا یا ۔جب آپ اس کے نزدیک پہنچے تو اس عمری نے آپ کو پہچان لیا اور نفرت سے بھڑک اٹھاکیونکہ امام کے گدھے نےاس کی زراعت کو نقصان پہنچا دیا تھا ،امام نے اس سے نرمی سے گفتگو کر نا شروع کی اور اس سے فرمایا :”تمہارا اس میں کتنا نقصان ہوا ہے ؟”۔
اس نے کہا :سو دینار ۔۔۔
”تم اس سے کتنے منافع کی امید رکھتے تھے ؟”۔
اس نے کہا : میں علم غیب نہیں رکھتا یعنی نہیں جانتا ۔
امام نے فرمایا :” میں یہ سوال کر رہا ہوں کہ تجھے تقریباً اس سے کتنا منافع ہوتا ؟”۔
اس نے کہا : تقریباً دوسو دینا ر۔
امام نے اس کو تین سو دینار دیتے ہوئے فرمایا :”یہ تمہاری اس زراعت کا ہر جانہ ہے ”۔
عمری امام کے حق میں زیادتی کرنے سے شرمندہ ہو گیا اور وہ مسجد نبی ﷺکی طرف دوڑکرگیا،جب امام وہاں تشریف لائےتواسنےکھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :
اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ
اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔۔۔(الانعام:124)
عمری کے دوستوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اس تبدیلی کے سلسلہ میں گفتگو کر نے لگے، اس نے امام کی بلند عظمت کے سلسلہ میں جواب دیا امام نے اس کے دوستوں و ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا : ”کیا تمہارا ارادہ بہتر تھا یا جو ارداہ میں نے کیا ”۔(تاریخ بغداد، جلد ١،صفحہ ٢٨۔٢٩)
آپ کے حلم کا ہی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے دشمنوں کی ایک جماعت کے پا س سے گذرے جس میں ابن ھیّاج بھی تھا، اس نے اپنے ایک ساتھی کو ایسا کرنے کیلئے ابھارا کہ وہ امام کی سواری کی لگام پکڑ کر یہ دعوی کرے کہ یہ جانور میرا ہے تو وہ شخص امام کے جانور کے پاس آیا اور اس نے آپ کے جانور کی لگام پکڑ کر یہ ادعا کیا کہ یہ جانور میرا ہے امام جانور سے نیچے تشریف لائے اور وہ اسی کو عطا کر دیا۔(حیاةالامام مو سیٰ کاظم ، جلد ١،صفحہ ١٥٧)
امام کاظم اپنی اولاد کو زیور حلم سے آراستہ ہونے کی یوں تاکید کر تے تھے:”اے میرے بیٹے ،
میں تمہیںوصیت کر تا ہوں کہ جس نے اسے یاد رکھا اُس نے فائدہ اٹھایا ،جب کو ئی گفتگو کرے اور وہ تمہارے دائیں کان پر گراں گذر رہی ہو توتم اسے بائیں کان کے حوالہ کردو۔(الفو ل المہمہ ،صفحہ ٢٢))
یہ وصیت امام کے حلم ،وسیع اخلاق اور بلند و بالا صفات کی عکا سی کر رہی ہے ۔
٧ ۔مکارم اخلاق
اسلام مکارم اخلاق لے کر آیا ہے ،اور اس نے اپنے نورانی پیغام میں مکارم اخلاق کو ایک بنیادی و معتبر قانون قرار دیا ہے رسول اسلامﷺکافرمانہے :”اِنّما بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ’‘ ”میں مکارم اخلاق کو تمام کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ” ،رسول اسلام انسانیت کریمہ کےلئےبلنداخلاق پرفائزتھے،اورآپکےبعدآپکےائمۂ  دیٰنی معالم اخلاقاورمحاسن اعمال کی تاسیس میں بلندکرداراداکیا اُنھوں نے اپنے اصحاب کیلئے بہترین نقوش چھوڑے ۔
امام ان بہترین صفات کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے اور اپنے اصحاب کو ان بہترین صفات کے زیور سے آراستہ کیا تاکہ وہ معاشرہ کے لئے بہترین ہادی و پیشوا قرار پا ئیں ،ہم اس سلسلہ میں آپ سے منقول چند چیزیں ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
صبر
امام اپنے اصحاب کو خطرناک حا دثوں میں بھی صبر کی تلقین فرما تے تھے کیونکہ آہ و فغاں کرنے سے وہ اجر ختم ہوجاتا ہے جس کا خداوند عالم نے صابرین سے وعدہ کیا ہے ۔
امام مو سیٰ کاظم فرماتے ہیں :
”المصیبةُ لاتکون مصیبة یستوجبُ صاحبھا أَجْرَھا اِلَّابالصبروالاسترجاع عند الصدمةِ”۔
”صا حب مصیبت ،مصیبت پر اسی وقت اجر کا مستحق ہوتاہے جب وہ مصیبت پر صبر کرے اور صدمہ کے وقت کلمہ ٔ استرجاع ”اِناَّ لِلّٰه وَاِنَّااِلَیْه رَاجِعُوْنَ ”بھی کہے ”۔
آپ ہی کا فرفرمان ہے : أَنَّ اَلصَّبْرَ عِنْدَ اَلْبَلاَءِ أَعْظَمُ مِنَ اَلْغَفْلَةِ عِنْدَ اَلرَّخَاءِ
مصیبت کے وقت صبر کرنا امن و عافیت میں غافل رہنے سے کہیں بہتر ہے۔(جامع الاخبار ج1 ص115)
امام کی نصیحتیں:
خداوند متعال نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد لوگوں کو کسی ہادی کی ہدایت سے محروم نہیں رکھا بلکہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد اہل بیت(علیہم السلام) کو ہادی اور امام کے عنوان سے لوگوں کی ہدایت کے لئے منصوب کیا۔ تمام اماموں نے اللہ کے عطاء کردہ علم اور احکام کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت فرمائی اور لوگوں کو گمراہی اور جھالت سے نجات دلائی، جو کوئی ان کے اقوال اور نصیحتوں پر عمل کریگا بے شک وہ کامیاب اور کامران ہوگا۔ کیونیکہ ان کی نصیحتیں دنیا اور آخرت دونوں میں کام آنے والی ہیں اور ہم کو سیدھے راستےکی ہدایت کرنے والی ہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں امام کی بعض نصیحتیں و فرامین مختصر تشریح کے ساتھ بیان کیے جا رہے ہیں:
گفتگو کے بارے تاکید
ہم لوگ اکثر اوقات اپنا وقت بیکار کی گفتگو میں ضائع کردیتے ہیں، کبھی ہنسی مذاق کرتے ہوئے کبھی لوگوں کی غیبت کرتے ہوئے کبھی دوسروں کی توہین کرتے ہوئے اسی طرح ایسی گفتگوکرتے ہیں جس کا ہمیں نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ آخرت میں۔اس قسم کی بیکار باتوں کو کرنے سے ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے ہماری کوئی عزت نہیں رہتی اسی لئے روایتوں میں اس قسم کی بیکار باتوں کو کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس کی مذمت کی گئی ہے، کیونکہ ایسی گفتگو بے فائدہ اور عبث ہے اور عاقل انسان عبث اور بے فائدہ عمل کا انجام نہیں دیتا۔
اس کے بارے میں عبد العظیم حسنی، امام موسی کاظم(علیہ السلام) سے نقل کررہے ہیں کہ امام موسی کاظم(علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے اس طرح نقل کیا ہے: «مَرَّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين،عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِرَجُلٍ‏ يَتَكَلَّمُ‏ بِفُضُولِ‏ الْكَلَامِ‏ فَوَقَفَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا هَذَا إِنَّكَ تُمْلِي عَلَى حَافِظَيْكَ كِتَاباً إِلَى رَبِّكَ فَتَكَلَّمْ بِمَا يَعْنِيكَ وَ دَعْ مَا لَا يَعْنِيك‏؛ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(علیہا السلام) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو زیادہ باتیں کررہا تھا تو آپ اس کے پاس کھڑے ہوگئے اور اس سے فرمایا: اے شخص! یقیناً تم اپنے نگہبان فرشتوں کو ایسی چیزیں کتاب کی شکل میں تحریر کروا رہے ہو جو تمھارے پروردگار کی جانب جارہی ہے، لہذا ایسی باتیں کرو جو تمھیں فائدہ پہونچائے اور جو چیزیں تمھیں فائدہ نہیں پہونچاتی انہیں چھوڑ دو۔(بحار الانوار، ج:۶۸، ص:۲۷۶)
محاسبہ کرنے کی تاکید؛
ہم ہماری زندگی کے ہر لمحہ میں حساب و کتاب کرتے ہیں، جس طرح ہم ہماری زندگی جو ختم ہونے والی ہے اس کے بارے میں حساب و کتاب کرتے ہیں، کم از کم اگر اسی طرح معنوی اور روحانی حالات کے بارے میں بھی حساب و کتاب کرلیں تو ہم معنوی اعتار سے کہا سے کہاں پہونچ سکتے ہیں۔
نفس کا محاسبہ اتنا ضروری ہے کہ اس کا اثر ہمارے دنیا اور آخرت کے تمام کاموں پر اس کا اثر ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حالانکہ اھل بیت(علیہم السلام) نے محاسبہ نفس کی بہت زیادہ تاکید کی ہے جیسا کہ امام موسی کاظم(علیہ السلام) اس کی اہمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ارشاد فرمارہے ہیں: «لَيس مِنّا مَن لَم يُحاسِبْ نَفْسَهُ في كُلِّ يَومٍ، فإنْ عَمِلَ خَيرا اسْتَزادَ اللّه َ مِنهُ و حَمِدَ اللّه َ علَيهِ، و إنْ عَمِلَ شَيئا شَرّا اسْتَغْفَرَ اللّه َ و تابَ إلَيهِ؛ جو شخص روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے، اگر اس نے نیکی کی تو اللہ سے اس کی زیادتی کی دعا مانگے اور اس پر اللہ کی حمد کرے، اور اگر اس نے کوئی برائی کی تو اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرے اور توبہ کرے»۔(بحار الانوار، ج:۷۵، ص:۳۱۱)
امام موسی کاظم(علیہ السلام) اپنے اس فرمان میں اپنے چاہنے والوں واضح طور پر یہ حکم دیرہے ہیں کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرتا ہو، اب ہم کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا بڑےگا کہ کیا ہم جس کو اپنا امام اور آقا مانتے ہیں اس کی اس بات میں پیروی کرتے ہیں یا نہیں۔
امام کا امر و نہی کا خوبصورت انداز:
اسلام اور احکام کی تبلیغ میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے، اچھے کاموں سے لوگوں کو آشنا کروانا اور برے کاموں سے منع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر کسی کو دیکھیں کہ اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کررہا ہے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔
لوگوں کو برائی سے روکنے کے خاص طریقے ہیں جن کی رعایت کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کسی کو برائی سے روکنے کی کوشش کررہا ہو لیکن اس کا برائی سے روکنے کا انداز صحیح نہ ہو، اس کا ایک نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص جو برائی کررہا ہے وہ کبھی بھی اس برائی کو ترک نہیں کریگا، اسی لئے ہمیں چاہئے کہ ہم لوگوں کو برائی سے اس طرح روکے جس طرح ہم سے اسلام نے کہا ہے نہ کہ ہم جیسا چاہتے ہیں اس طرح۔ اگر ہمیں معلوم کرنا ہے کہ اسلام نے لوگوں کو برائی سے کس طرح روکنے کے لئے کہا ہے تو ہمیں معصومین(علیہم السلام) کی سیرت کو دیکھنا ہوگا۔ اسی بات کو معلوم کرنے کے لئے یہاں پر نمونہ کے طور پر ساتویں امام، امام موسی کاظم(علیہ السلام) کے ایک واقعہ کوبیان کیا جارہا ہے کہ امام(علیہ السلام) نے کس طرح ایک گناہگار کی ہدایت فرمائی۔
امام کاظم(علیہ السلام) کی زندگی میں ایسے بہت زیادہ واقعات موجود ہیں کہ کس طرح امام(علیہ السلام) نے اپنے اخلاق کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت فرمائی۔ روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن امام(علیہ السلام) بشر حافی کے گھر کے قریب سے گذر رہے تھے، اس کے گھر سے گانے بجانے کے آوازیں آرہی تھیں، امام(علیہ السلام) نے دیکھا کہ اس کے گھر سے ایک کنیز کچرا باہر پہینکنے کے لئے آئی ہے۔
امام(علیہ السلام) نے اس کنیز سے پوچھا: اس گھر کا مالک آزاد ہے یا بندہ؟
کنیز نے کہا: آزاد ہے۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: تو نے سچ کہا اس گھر کا مالک آزاد ہے اسی لئے اس طرح کے گناہ کو انجام دیرہا ہے، اگر بندہ ہوتا تو وہ اپنے مالک سے ڈرتا۔
جب کنیز واپس گھر میں داخل ہوئی، تو بشر حافی نے کنیز سے پوچھا کہ تجھے اتنی دیر کیوں ہوئی؟
کنیز نے پورا ماجر اس کو بیان کیا۔ جب بشر حافی نے امام(علیہ السلام) کے اس کلام کو سنا تو وہ پابرہنہ امام(علیہ السلام) کی خدمت میں دوڑا اور بڑی پشیمانی اور شرمندگی کے ساتھ امام(علیہ السلام) سے معافی طلب کرتے ہوئے اس نے توبہ کیا۔( منتہی الآمال ج۳، ص۷۹)
امام کی نظر میں مشورہ کی اہمیت:
اسلام نے مشورہ کو بہت اہمیت دی ہے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، وحی آسمانی سے قطع نظر ایسی قوت فکر کے مالک تھے کہ انہیں کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت نہ تھی، پھر بھی آپ مسلمانوں کو مشورہ کی اہمیت بتلانے کے لئے معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ صاحب الرائے افراد کی قدردانی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض دفعہ ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔
جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں کے صلاح مشورہ سے بے نیاز سمجھتے ہیں وہ کتنے ہی بڑے صاحب فکر و نظر کیوں نہ ہوں زیادہ تر خطرناک اور المناک اشتباہات میں گرفتار ہو جاتے ہیں، مشورے سے بے نیازی کی وجہ سے موجود استعدادیں ختم ہو جاتی ہیں، جو شخص اپنے کام دوسروں کے صلاح مشورہ سے کرتا ہے اگر وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسرے لوگ اس کو حسد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ دوسرے لوگ اس کی کامیابی کو اپنی طرف سے ہی سمجھتے ہیں اور عموما ً انسان اس کام سے حسد نہیں کرتا جسے اس نے خود انجام دیا ہو اور اگر وہ کبھی شکست کھا جائے تو وہ دوسروں کے اعتراضات کا نشانہ نہیں بنتا کیونکہ کوئی شخص اپنے کام کے نتیجہ پر اعتراض نہیں کرتا نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کرتا بلکہ ہمدردی اور غمخواری بھی کرتا ہے۔
مشورہ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان دوسرے افراد کی شخصیت کی قدر و قیمت اور ان کی دشمنی اور دوستی کا اندازہ بھی لگالیتا ہے اور یہ چیز کامیابی کے لئے در کنار شناسائی کا بھی سبب بنتی ہے۔
اسلامی روایات میں مشورہ کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ایک حدیث امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام)نے فرمایا: «مَنِ اسْتَشَارَ لَمْ يَعْدَمْ عِنْدَ الصَّوَابِ مَادِحاً وَ عِنْدَ الْخَطَاءِ عَاذِراً(بحار الانوار ج۷۲، ص۱۰۴) جس شخص نے مشورہ کیا ہو، اگر اس نے مشورہ کے ذریعہ سیدھے راستے کو انتخاب کیا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، اور اگر مشورے کے بعد غلط راستہ کا انتخاب کیا ہے تو لوگ اس کو معذور جانتے ہیں(یعنی ناکامی پہ اس پہ اعتراضات نہیں کرتے)
جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اسی طرح ان افراد کے بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں کہ کن کن افراد سے مشورہ کرنا چاہئے، مثلا مشورہ دینے والوں کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ وہ خیرخواہی کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ مشورے میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ یہ حکم غیر مسلموں کے لئے بھی ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے۔
امام(علیہ السلام) مشورہ دینے والے کے بارے میں فرماتے ہیں:«و حق المستشیران علمت لہ رایاً اشرف علیہ وان لم تعلم ارسدتہ الی من یعلم وحق المشیر علیک ان لا تتھمہ فیما لا یوافقک من رایہ (بحار الانوارج۷۱، ص۸)تجھ سے مشورہ کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اگر کوئی نظریہ رکھتے ہو تو اسے بتا دو اور اگر اس کام کے بارے میں تجھے علم نہیں تو اسے ایسے شخص کی طرف راہنمائی کرو جو جانتا ہے اور مشورہ دینے والے کا حق تجھ پر ہے کہ جس نظریہ میں وہ تمہارا موافق نہیں ہے اس میں اس پر تہمت تراشی نہ کرو۔
پس اس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے کے بارے میں بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے. مشورہ ایک چراغ کی طرح ہے جو راستہ کو دکھاتا ہے، بس اس بات کا تصور کرنا کافی ہے کہ جب کچھ چراغ تاریک راستوں میں جلادئے جائے تو وہاں پر روشنائی کی کیا چمک ہوگی، چھوٹے سے چھوٹا پتھر جو اذیت کرسکتا ہے وہ بھی دکھائی دینے لگیگا۔ اسی طرح ایک دوسرے سے مشورہ کرنا بھی ہے، انسان مشورہ کے ذریعہ چھوٹی سے چھوٹی غلطی کی طرف بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button