سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

احکام شرعیہ کا فلسفہ از نگاہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا

مولانا محمد ابراھیم جوہری
پیش لفظ
جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا ایک خطبہ، خطبہ فدکیہ کے نام سے معروف و مشہور ہے ۔اس میں آپ سلام اللہ علیھا نے بہت سے دیگر گران بہا معارف کے ساتھ بعض شرعی احکام کی اہم اور بنیادی حکمتوں کا ذکر فر مایا ہے ۔ ان میں سے بعض کو یہاں الگ الگ عنوان کے تحت مورد بحث قرار دیا گیا ہے ۔ مثلا نماز، زکات، روزہ ،حج، صلہ رحمی، انصاف، امر بالمعروف اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں کیا حکمتیں پائی جاتی ہیں؟
نتیجہ: اس سے ایک تو ان احکام کی اہمیت کا علم ہوتا ہے ۔دوسرا یہ ہے کہ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی علمی منزلت و بلندی مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ س کا علم بہت گہرا اور وسیع ہے۔ اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ س شھر علم (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی لخت جگر اور باب علم (علی مرتضی علیہ السلام ) کی شریک حیات ہیں ۔
فلسفه نماز
جعل ألله الصلاة تنزيها لكم عن الكبر .(1)
"خدا وند عالم نے نماز کو تمہارے لئے تکبر سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے ”
اس حدیث میں جناب زہراءسلام اللہ علیھا نے نماز میں پوشیدہ حکمتوں میں سے ایک اہم اور بنیادی حکمت کو بیان فرمایا ہے کہ اس سے انسان ایک خطر ناک نفسانی بیماری یعنی تکبر سے محفوظ رہتا ہے ۔
تکبر ایک ایسی بری صفت ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے
قال سألت ابا عبدالله عليه السلام عن ادني الاحاد فقال ان الكبر أدناه. (2)
"راوي کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کفر کا سب سے کم درجہ کیا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا یقینا تکبر کفر کا کم ترین درجہ ہے”
ہمیشہ متکبرین ہی انبیاء کی دعوت حق کے خلاف رہے ہیں ۔ان کے پاس انبیاء کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ان جیسے بشر تھے ۔ چنانچہ قرآن ان کی بات نقل کرتا ہے
قالوا ما أنتم إلا بشر مثلنا .(3)
” بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو ”
فقالو ا انؤمن لبشرين مثلنا وقومها لنا عابدون.(4)
"اور وہ کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری تابعدار ہے ”
اپنے جیسے بشر پر ایمان نہ لانے کی وجہ یہی تکبر کی صفت ہے ۔
قرآن کی تعبیر کے مطابق کبر کی صفت بے حیائی اور برائی کی اقسام میں سے ہے جس سے روکنے کے لیے خداوند رحیم نے نماز کو فرض قرار دیا ہے ۔
ان الصلاة تنهي عن الفحشاء والمنكر (5)
"یقینا نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ”
عدم سے وجود میں لا کر زندگی جیسی نعمت اور دیگر طرح طرح کی نعمتوں سے نوازنے والی ذات کے مد مقابل کھڑا ہونے اور تکبر کرنے سے بڑھ کر بے حیائی اور برائی اور کیا ہوسکتی ہے ۔
او لم ير الإنسان أنا خلقناه من نطفة فإذا هو خصيم مبين (6)
"کیا انسان یہ نہیں دیکھتا ہے کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ (ہمارے مقابل میں ) کھلا ہوا جھگڑا لو بن گیا”
یہ تکبر کی صفت ہی ہے جس کی وجہ سے انسان دوسری برائیوں کے ارتکاب کی جسارت کرتا ہے ۔ خدا کی سب سے پہلے نافرمانی بھی اسی خبیث صفت کی وجہ سے شیطان ملعون نے کی ہے اور ہمیشہ کے لئے رحمت الہی سے دور ہوا ہے ۔
لہذا خدا وند کریم و رحیم نے اپنے بندوں پر رحم و کرم فرمایا اور ان کو زیادہ سے زیادہ اپنی رحمت کا حقدار بنانے کے لئے نماز جیسی عظیم عبادت کا نسخہ عطا فر مایا ۔
جب بندہ روزانہ پانچ وقت اللہ کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے تو اس کے قلب اور ذہن میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ خدائے عظیم ہر وقت اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور اس کو دیکھ رہا ہے اور یہ شعور اور احساس انسان کو بے حیائی ،برائی اور تکبر سے روکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں نماز نمازی کے ضمیر کو بیدار رکھتی ہے ۔
لیکن یہاں یہ سوال کیاجاتا ہے کہ بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں اس کے باوجود وہ برائی کا ارتکاب بھی کرتے اور تکبر میں مبتلا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ؟
جواب: قرآن اور احادیث کی طرف مراجعہ کرنے سے اس کی دو وجہ ہمیں نظر آتی ہے ۔
الف : نماز سے غفلت
کوئی بھی عمل اس کی شرائط کے ساتھ انجام نہ پائے تو اس کا مطلوبہ نتیجہ نہ ملنا ایک واضح سی بات ہے
نماز بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے۔
نماز کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ نماز توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھی جائے۔
لہذا اگر کوئی شخص بظاہر نماز تو پڑھ رہا ہو لیکن اسکا ذہن نماز سے غائب ہو اور دنیاوی امور میں غرق ہو تو ایسی نماز سے وہ احساس وہ شعور کیسے ملے گا جو برائیوں سے روکنے والا ہے ۔
فویل للمصلین الذین هم عن صلاتهم ساهون *الذين هم يرأءون. (7)
"پس ایسے نمازیوں کیلے ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں *جو ریاکاری کرتے ہیں ”
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے
من أحب أن يعلم ا قبلت صلاته ام لم تقبل فلينظر هل منعته صلاته عن الفحشاء و المنكر فبقدر ما منعته قبلته منه. (8)
"اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں تو وہ یہ دیکھ لے کہ کیا اس کی نماز نے اس کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکا ہے ۔ پس جتنی مقدار میں نماز برے کاموں سے روکے اتنی ہی مقدار میں اس کی نماز قبول ہوئی ہے”
انس بن مالک رض روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
"جس کی نماز نے بے حیائی اور برے کاموں سے اس کو نہیں روکا تواس سے خدا سے دوری کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوا ہے "(9)
پس معلوم ہوا جب تک نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ انجام نہ دیا جائے تب تک اس کے فوائد سے کوئی بہرہ مند نہیں ہوسکتا ہے اور جس قدر اس کی رعایت ہوگی اسی حساب سے فائدہ ملے گا ۔
ب :اثر نماز کا تدریجی ہونا ۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا اثر انسانی روح پر آہستہ آہستہ پڑنا شروع ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ آگ پر پانی ڈالنے کی طرح ادھر نماز پڑھی اور ادھر سب برائیوں سے جان چھوٹ گئی، کیونکہ انسانی روح پر لگے ہوئے گناہوں کے زنگ کو اتارنے میں اور اس کو برائیوں کے خلاف طاقتور بنانے میں وقت لگتا ہے ۔
چنانچہ انس بن مالک (رض )روایت کرتا ہے
ان فتى من الأنصار كان يصلي الصلاة مع رسول الله صلي ألله عليه واله وسلم ويرتكب الفواحش فوصف ذلك لرسول الله ص فقال ان صلاته تنهاه يوما ما. (10)
"ان انصار میں سے ایک جوان رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور وہ بے حیائی کے کاموں میں بھی پڑتا تھا لہذا اس بات کو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیان کیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یقینا ایک دن اسکی نماز اس کو ان کاموں سے روکے گی”
یہ بہت ہی امید افزا بشارت ہے کہ نماز ایک نہ ایک دن بندے کی برائیوں سے خصوصا تکبر کی بیماری سے جان چھڑائے گی ۔
لہذا انسان کو چاہیے کہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ مسلسل بجا لاتے رہے اگر چہ دیر ہی سہی لیکن پھر بھی نماز اس کو بے حیائی اور برے کاموں سےاور تکبر سے ضرور بچائے گی ۔
فلسفہ زکواة
جناب زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
والزكاة تزكية للنفس و نماء في الرزق
"اللہ نے زکات کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافہ کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔”
یہاں زکات سے مراد راہ خدا میں ہر قسم کا انفاق ہے ،جس میں زکات اور صدقات سب شامل ہے ۔
جناب سیدہ کائنات کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ زکات میں دو اہم مصلحت پائی جاتی ہیں ۔
1:نفس کی پاکیزگی
انسان چونکہ ابتداء سے مادی وسائل سے وابستہ رہا ہے اور اسی کے ساتھ پروان چڑھا ہے جس کی وجہ سے مال و دولت کی محبت نے اس کے دل میں جڑ پکڑی ہوتی ہے ۔
یہ محبت ، انسان کے اندر بری صفات کے جنم لینے کا سبب بنتی ہے ۔ اس محبت سے انسان کی روح بخل و لالچ جیسی بیماری میں مبتلا ہوتی ہے ۔ یہ بیماری انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو تباہ و برباد اوراسے سعادت ابدی سے محروم کردیتی ہے ۔
لہذا خدا مہربان نے ان اوصاف رزیلہ سے نفس انسانی کو پاک کرنے کی خاطر زکات اور صدقہ دینے کا حکم فرمایا ۔ اس سے ان نفسانی اور آلودگیوں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر ہمدردی ،ایثار و قربانی اور سخاوت جیسے اچھے اور صحت مند اوصاف پیدا ہوتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے
خذ من أموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم بها (11)
"اے رسول ص آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے ۔اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور با برکت بنائیں ”
دوسری جگہ پر فرماتا ہے
ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون (12)
"اور جو لوگ اپنے نفس کو بخل سے بچالے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں ”
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بخل کس قدر مہلک بیماری اور گندی صفت ہے جس سے بچ جانے کو خدا کامیابی سے تعبیر فرماتا ہے اور اس نے اس کامیابی کا راستہ بھی دکھایا ہے کہ اپنے مال سے صدقہ و زکات دیا کرو تاکہ تمہارے نفس پاکیزہ رہے ۔
2: رزق میں اضافہ
زکات میں پوشیدہ دوسری مصلحت یہ ہے کہ اس سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بظاہر مال ہاتھ سے جاتا اور کم ہوتا دیکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان مزید عنایت الہی کا مستحق ٹھہرتا ہے اور خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ ، مالی نعمتوں کا ایک قسم کا شکر بھی ہے اورشکر نعمت پر خدا کا وعدہ ہے کہ اس سے وہ نعمت میں مزید اضافہ فرماتا ہے ۔
اس اضافہ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں احادیث کی روشنی میں کچھ نمونے پیش خدمت ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے
الصدقة تدفع ميتة السوء. (13)
"صدقه بری موت کو ٹال دیتا ہے ”
صدقہ کے عوض زندگی مل رہی ہے ۔ زندگی خود ایک بڑی نعمت ہے اور دوسری نعمتوں سے استفادہ بھی اسی پر موقوف ہے لھذا ایک صدقہ بہت ساری نعمتوں کا سبب بن رہا ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سےایک اور روایت ہے
ان الصدقة تقضي الدين وتخلف البركة. (14)
"يقينا صدقہ قرض کو ادا کرتا ہے اور برکت کا سبب بنتا ہے ”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے
تصدقوا فان الصدقة تزيد المال كثرة وتصدقوا رحمكم ألله
"صدقه دیا کرو کیونکہ صدقہ دینے سے مال میں کثرت سے اضافہ ہوتا ہے ۔ خدا تم پر رحم کرے صدقہ دیا کرو”
صدقہ کے ثمرات صرف اس زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اخروی زندگی میں بھی اس کا فائدہ ظاہر ہوتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے
أرض القيامة نار ما خلا ظل المؤمن فإن الصدقة تظله (15)
"قیامت کی زمین آگ کی طرح گرم ہوگی سوائے اس جگہ کے جہاں پر مومن کا سایہ پڑتا ہے کیونکہ صدقہ اس پر سایہ فگن رہتا ہے ۔
فلسفہ روزہ
:جناب زہرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
والصيام تثبيتا للاخلاص
"خدا نے روزہ کو اخلاص کے اثبات کا ذریعہ بنایا ہے ”
تثبيت کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کی جگہ پر اتنی مضبوطی سے رکھنا کہ وہاں سے وہ جدا نہ ہوجائے ۔ (16) لہذا تثبيت اخلاص کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے قلب میں اخلاص کی صفت کو اس طرح بٹھایا جائے کہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات اس میں ذرہ برابر جنبش نہ لا پائے اور ہر حال میں انسان اپنے تمام افعال کو صرف خدا کی رضا کے لئے بجا لائے ۔ اس بات کے حصول کو آسان و یقینی بنانے کے لئے خدا نے روزہ کا حکم فرمایا ہے ۔دوسری عبادات کی بنسبت روزہ میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کے بارے میں جب تک بندہ خود نہ بتائے کسی کو پتہ نہیں چلتا ہے ۔ گویا کہ یہ خدا اور بندے کے درمیان ایک راز ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث قدسی میں خدا فرماتا ہے
الصوم لي وأنا أجزي به (17)” روزه میرے لئے ہے میں ہی اس کی جزا عطا کروں گا”
لہذا اگر کوئی اس عبادت میں بھی جس سے اخلاص کی تقویت ہوتی ہے، ریاکاری کرے تو اس جیسا بد نصیب کوئی نہیں ہوگا دوسری جہت سے روزہ اخلاص کو آزمانے کا ذریعہ بھی ہے ۔
اخلاص ہر خوبی کا سر چشمہ ہے اخلاص کے بغیر تقوی کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے خدا وندمتعال فرماتا ہے:
واخلصوا دينهم لله فأولئك مع المؤمنين و سوف يؤت ألله المؤمنين أجرا عظيما (18)
"جو لوگ اپنے دین کو اللہ کیلے خالص کریں تو ایسے لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ عنقریب مومنین کو اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔
دوسری جگہ پر فرماتا ہے : انا أنزلنا إليك الكتاب بالحق فاعبدوا ألله مخلصا له الدين * الا لله الدين الخالص (19)
"ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب بر حق نازل کی ہے لھذا اپ دین کو اسی کیلئے خالص کرکے صرف اللہ کی عبادت کریں *آگاہ رہو خالص دین صرف اللہ کیلے ہے:
اخلاص ایک ایسی طاقت ہے جس کے سامنے شیطان جیسا مکار اور خطرناک دشمن بھی عجز و نا توانی کا اعتراف کرتا ہے ۔ قرآن اس کی بات کو نقل کرتا ہے : ولاغوينهم أجمعين *إلا عبادك منهم المخلصين. (20)
"اور سب کو ضرور بہ ضرور بہکاوں گا مگر ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے ۔
لہذا اخلاص ایک بہت ہی طاقتور چیز ہے کہ جس کے ذریعے انسان ،شیطان کے شرور کا آسانی سے مقابلہ کرسکتا ہے ۔لیکن اخلاص کا حصول آسان نہیں ہے بلکہ اس کیلئے کوشش کی ضرورت ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے : الابقاء على العمل حتي يخلص أشد من العمل. (21)
” کسی عمل کو جاری رکھنا یہاں تک کہ وہ صاف وخالص ہوجائے خود عمل سے زیادہ مشکل ہے ”
فلسفہ حج
:جناب زہرا ءسلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
و الحج تشييدا للدين
"اللہ نے حج کو دین کے استحکام کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ ”
فریضہ حج میں دیگر عبادات میں سے ہرایک کی کچھ نہ کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔اس میں خمس و زکات کی طرح مالی عبادت بھی ہے، روزہ کی طرح شھوات اور لذات سے اجتناب بھی ہے اور نماز کی طرح ذکر خدا میں غرق ہونے کی کیفیت بھی ہے گویا یہ تمام عبادات کا جامع اور نچوڑ ہے ۔یہ خدا کی بندگی کا ایک عظیم مظہر ہے جس سے انسان کے اندر دینی جنبہ کو تقویت ملتی ہے اور دین کی اصل روحیت سے آشنائی حاصل ہوتی ہے ۔
چنانچہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
جعله اللہ سبحانه علامة لتواضعهم لعظمته واذعانهم لعزته. (22)
"حج بیت اللہ کو خدا نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے اعتراف ویقین کی نشانی قرار دیا ہے ” مناسک حج میں پائی جانے والی دشواریوں کی مصلحت اور حکمت کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :ألله يختبر عباده بأنواع الشدائد ويتعبدهم بأنواع المجاهد و يبتلهم بضروب المكاره اخراجا للتكبر من قلوبهم واسكانا للتذلل في نفوسهم و ليجعل ذلك أبوابا الي فضله وأسبابا ذللا لعفوه (23)
"خدا اپنے بندوں کو سخت ترین حالات سے آزمانا چاہتا ہے اور سنگین ترین مشقتوں کے ذریعے بندگی کرانا چاہتا ہے اور انہیں طرح طرح کے ناخوشگوار حالات میں مبتلا فرماتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تکبر نکل جائے اور ان کے نفوس میں تواضع اور فروتنی کو جگہ مل جائے اور اسی بات کو فضل وکرم کے کھلے ہوئے دروازوں اور عفو و مغفرت کے آسان ترین وسائل میں قرار دیدے ”
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
الحجاج یصدرون علی ثلاثة أصناف صنف يعتق من النار وصنف يخرج من ذنوبه كهيئة يوم ولدته أمه وصنف احفظ في اهله وماله فذاك ادني ما يرجع به الحاج (24)
"حاجی جب حج سے فارغ ہوکے نکلتے ہیں تو ان کے تین گروہ ہوتے ہیں ۔ ایک گروہ وہ ہے جن کو جھنم سے آزادی ملتی ہے ۔دوسرا گروہ وہ ہے جو گناہوں سے اس طرح صاف ہوکے نکلتے ہیں جس طرح وہ اپنی ولادت کے دن تھے ۔ تیسرا گروہ وہ ہے جنہیں ان کے اہل و عیال میں سلامتی دی جاتی ہے یہ آخری چیز کم ترین انعام ہے جو حاجی واپسی پر لیکر آتے ہیں ”
فلسفہ عدل
جناب زہرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
العدل تنسيقا للقلوب
"اللہ تعالی نے عدل و انصاف کو دلوں کو آپس میں ملانے کا سبب قرار دیا ہے ۔ ”
اس مختصر جملہ میں آپ س نے انسان کے گھریلو ،سماجی، سیاسی ، قومی اور بین الاقوامی بہت سے مسائل کا حل بتا دیا ہے کہ وہ ہے عدل و انصاف ۔ اس سے معاشرے میں محبت اور اخوت کی فضا قائم ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص یا ہر قوم کو جب اس کا جائز حق مل جاتا ہے تو پھر کینہ اور دشمنی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ہے ۔ مولا علی علیہ السلام عدل کی یوں تعریف فرماتے ہیں: العدل يضع الامور مواضعها (25)
"عدل ہر چیز کو اس کی منزل پر رکھنا ہے ” یعنی ہر حقدار کو اس کا حق دینا عدل و انصاف ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے:
اعدل الناس من رضي الناس ما يرضي لنفسه و كره لهم ما يكره لنفسه. (26)
"لوگوں میں سب سے زیادہ عادل شخص وہ ہے جو اپنے لیے کوئی چیز پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرے”
امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے : من ینصف الناس من نفسه لم يزده إلا عزة. (27)
"جو اپنے اور لوگوں کے درمیان معاملات میں انصاف کرتا ہے تو خدا اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے
فلسفہ امر بالمعروف
جناب زہرا ءسلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
والأمر بالمعروف مصلحة للعامة
اللہ نے امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت کیلئے فرض کیا ہے ” ”
امیر ا لمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: فرض الله الأمر بالمعروف مصلحة للعوام والنهي عن المنكر ردعا للسفهاء۔(28)
"خدا نے امر بالمعروف کو لوگوں کی مصلحت کیلئے اور نہی عن المنکر کو بیوقوفوں کو برائی سے روکنے کیلے واجب کیا ہے ۔
اس فریضہ میں لوگوں کے لئے کیا کیا مصلحتیں ہیں اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
ان الامر بالمعروف فريضة عظيمة بها تقام الفرائض و تأمن المذاهب و تحل المكاسب وتمنع المظالم وتعمر الأرض ويتنصب للمظلوم من الظالم و يستقم الأمر۔ (29)
"یقینا امر بالمعروف ایک عظیم فریضہ ہے جس کے ذریعے حدود و فرائض کو قائم کیا جاتا ہے ، راستے پرامن ہوتے ہیں ، کسب حلال میسر ہوتا ہے ،ظلم سے روکا جاتا ہے زمین آباد ہوتی ہے ،ظالم سے مظلوم کو انصاف ملتا ہے اور (دین و دنیا کے )امور سیدھے راستے پر چلنے لگتے ہیں ۔

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے :
لایزال الناس بخیر ما امرہ بالمعروف و نھی عن المنکر و تعاونوا على البر فإذا لم يفعلوا ذلك نزعت منهم البركات وسلك بعضهم علي بعض ولم يكن ناصر في الأرض ولا معين(30)
"لوگ اس وقت تک خیر وعافیت میں ہوں گے جب تک ایک دوسرے کو نیکی کا حکم اور برائی سے روکتے رہیں گے ۔ اور جب یہ کرنا چھوڑ دیں گے تو ان سے برکتیں اٹھا لی جائیں گی اور ان میں سےبعض بعض پر مسلط کیئے جائیں گے اور اسوقت ان کیلئے زمین میں کوئی مددگار ومعين نہیں ہوگا ۔
فلسفہ صلہ رحمی
جناب زہرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
صلة الرحم منساة في العمر و منماة للعدد
"ألله نے صلہ رحمی کو موت میں تاخیر اور نسل میں اضافہ کا وسیلہ بنایا ہے ۔ ”
رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے روابط رکھنے کے بارے میں دین مقدس اسلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اس میں دو اہم مصلحت پائی جاتی ہیں ۔ طول عمر اور نسل میں اضافہ و برکت ۔ چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے :
يكون الرجل يصل رحمه فيكون قد بقي من عمره ثلاث سنين فيصيره ألله ثلاثين سنة ويفعل الله ما يشاء.(31)
” کوئی شخص اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھے روابط رکھتا ہے اور اس کی عمر میں سے صرف تین سال باقی رہ گئے ہوں تو خدا اس کو بڑھا کر تیس سال فرما دیتا ہے اور خدا جو چاہتا کردیتا ہے ۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے
صلة الرحم تزكي الأعمال و تنمي الأموال و تدفع البلوي وتيسر الحساب و تنسي الأجل. (32)
"رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے سے اعمال پاکیزہ و مقبول ہوتے ہیں ، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے، بلائیں دور ہوجاتی ہیں (قیامت کے دن ) حساب و کتاب میں آسانی ہوتی ہے اور عمر لمبی ہوتی ہے ۔ ” اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:أوصي الشاهد من أمتي والغايب منهم ومن في اصلاب الرجال و أرحام النساء الي يوم القيامة ان يصل الرحم وأن كانت منه علي مسيرة سنة فإن ذلك من الدين (33)
"میں اپنی امت کے حاضر و غائب لوگوں کو اور قیامت تک آنے والوں کو جو عورتوں کے شکم میں اور مردوں کے اصلاب میں ہیں ( سب کو ) وصیت کرتا ہوں کہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اگرچہ وہ تم سے ایک سال کی مسافت پر ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ صلہ رحمی دین کا حصہ ہے ۔ ”
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے
صل رحمک ولو بشربة من ماء و أفضل ما توصل به الرحم كف الاذي عنها و صلة الرحم منساة في الأجل و محبة في الاهل. (34)
"”اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھے روابط رکھو خواہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو اور صلہ رحمی میں سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ ان کو اذیت پہنچانے سے باز رہے اور صلہ رحمی موت میں تاخیر اور خاندان میں محبت کا سبب بنتی ہے ۔ "۔
والدین کے ساتھ نیکی کا فلسفہ
جناب زہرا ءسلام اللہ علیھا فرماتی ہیں
وبر الوالدين وقاية من السخط
"خدا نے والدین کے ساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔”
والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خدا کے نزدیک بہت ہی محبوب اور پسندیدہ عمل ہے کہ جس کے سبب خدا کے غضب کے مستحق شخص سے اپنا غضب روک لیتا ہے ۔ والدین کے ساتھ احسان کرنے کی قرآن اور احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وقضي ربك ألا تعبدوا إلا إياه و بالوالدين احسانا*واخفض لهما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا (35)
"اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو * اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں( شفقت )سے پالا تھا”
امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے :
اما حق أمك فأن تعلم أنها حملتك حيث لا يحتمل أحد أحدا ووقتك بجميع جوارحها ولم تبال ان تجوع وتطعمك وتعطش و تسقيك و تعري وتكسوك وتضحي و تظلك و تهجر النوم لأجلك ووقتك الحر والبرد لتكون لها فانك لا تطيق شكرها إلا بعون ألله و توفيقه. (36)
"اور جہاں تک تمہاری ماں کے حق کی بات ہے تو یہ جان لیں کہ اس نے تمہیں اس عالم میں اٹھایا جس عالم میں کوئی کسی کو نہیں اٹھاتا ہے اور اس نے اپنے تمام اعضاء کے ذریعے تمہاری حفاظت کی ہے اس کو یہ پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ خود بھوکی ہے مگر تم کو غذا کھلاتی تھی اور وہ خود تشنہ رہتی مگر تم کو سیراب کرتی تھی ۔اس کے پاس خود اپنے لئے لباس نہیں ہوتا تھا لیکن تم کو لباس مہیا کرتی تھی اور وہ دھوپ میں ہوتی مگر تم پر سایہ کئے رہتی تھی ۔تمہاری آرام کی خاطر وہ نیند سے دور رہتی تھی اور تم کو سردی گرمی سے بچاتی رہی تاکہ تم اس کیلے سلامت رہے ۔ يقينا تم اس کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے مگر یہ ہے کہ خدا کی مدد اور توفیق شامل حال رہے ۔
والد کے حق کی اہمیت کے بارے میں آپ علیہ السلامفرماتےہیں
اما حق ابیك فأن تعلم أنه اصلك وانه لولاه لم تكن. فمهما رأيت في نفسك مما يعجبك فأعلم إن أباك أصل النعمة عليك فيه فاحمد الله وأشكره علي قدر ذلك ولا قوة إلا بالله. (37)
"رہی بات تمہارے باپ کے حق کی تو یہ جان لیں کہ وہ تمہارے اصل و بنیاد ہے اور اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا ۔لھذا جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھ لو جو تمہیں پسند آئے تو اس وقت تم یہ جان لو کہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے ۔پس خدا کی حمد کرو اور اس کی نعمتوں کے برابر شکر ادا کرو اور قوت صرف خدا ہی سے ملتی ہے ”
امام جعفر صادق علیہ السلامسے روایت ہے
قال قلت ای الاعمال أفضل قال الصلاة لوقتها وبر الولدين والجهاد في سبيل ألله عزو جل. (38) "
راوي کہتا ہے میں نے امام علیہ السلامسے پوچھا سب سے زیادہ فضیلت والے اعمال کونسے ہیں؟ امام علیہ السلامنے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ،ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا
ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ بیٹے پر باپ کا کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: باپ کو اسکا نام لیکر نہ پکارو، راہ چلتے وقت اس کے آگے آگے نہ چلو ،مجلس میں اسکے آگے نہ بیٹھو اور ایسا کام نہ کرو جس کی وجہ سے لوگ تیرے باپ کو گالی دے۔ (39)
ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا : اے خدا کے رسول ! میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس نے پوچھا : پھر کس ساتھ کروں؟ آپ ص نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس نے پوچھا پھر کس کے ساتھ کروں؟ آپ ص نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس نے پوچھا پھر کس کےساتھ کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ ۔(40)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
قال أبو عبد ألله ما يمنع الرجل منكم أن يبر والديه حيين او ميتين يصلي عنهما و يتصدق عنهما و يحج عنهما ويصوم عنهما فيكون الذي صنع لهما وله مثل ذلك فيزيده ألله عز وجل ببره و صلته خيرا كثيرا(41)
"آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ والدین خواہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں ان کے ساتھ نیکی کرنے میں تمہارے لئے کیا چیز مانع ہے! ان کی نیابت میں نماز پڑھو، ان کی طرف سے صدقہ دیدو ، ان کی نیابت میں حج کرو اور روزہ رکھو ۔ پس جو یہ اعمال ان کیلئے کرے گا اس کو بھی ان کے برابر ثواب ملے گا ۔ اس صلہ رحمی اور نیکی کی وجہ سے خدا اس کو مزید نعمتیں عطا فرمائے گا ۔”
ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے جہاد کا بہت شوق و رغبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
خدا کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ اگر تم قتل ہوجاؤ تو خدا کے پاس زندہ ہوں گے اور رزق ملتا رہے گا اور اگر تم اس راہ میں طبیعی موت مرے تو تمہارا اجر خدا کے ذمہ ہے اور اگر تم سلامت واپس آئے تو گناہوں سےاسطرح پاک ہو گے جس طرح ماں کے شکم سے آتے وقت تھے ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ اے خدا کےرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میرے بوڑھے والدین ہیں وہ مجھ سے زیادہ مانوس ہیں اور وہ دونوں میرے جہاد پر جانے کو پسند نہیں کرتے ہیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والدین کے پاس رہو ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تمہارا ان کے ساتھ ایک دن اور ایک رات مانوس ہوکے رہنا ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے ۔ (42)
حوالہ جات
1. طبرسی ابی منصور احمد بن علی الاحتجاج (انتشارات الشریف الرضی ) 1380 طبع اول ص 128
2. كلينی محمد بن یعقوب اصول کافی کتاب الایمان والکفر (قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) حديث نمبر 2552
3. القران کریم: 36 ، 153:
4. القران کریم : 23، 47
5. القرآن كريم: 29 ،45
6. القرآن كريم: 36 ، 77
7. القرآن كريم: 107 ، 5
8. طبرسی ابو علی فضل بن حسن مجمع البیان ج ٨( تہران کتاب فروشی اسلامیہ ) طبع 5 ۔ص 285
9. سابقہ حوالہ 8
10. سابقہ حوالہ 8
11. القران کریم: 9 ، 103
12. القرآن کریم: 59 ،9
13. کلینی محمد بن یعقوب فروع کافی ابواب الصدقة (قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) حديث نمبر 5971
14. سابقه حوالہ 3، حدیث نمبر 5999
15. سابقه حوالہ 3، حدیث نمبر 5976
16. فیروز آبادی جمال الدین محمد بن یعقوب ۔ قاموس المحیط (بیروت دار احيا التراث العربي
17. الطوسي أبو جعفر محمد بن حسن تهذيب الأحكام باب 40 ( قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) ،حديث نمبر 4604۔
18. القرآن كريم : 4 ، 146
19. القرآن کریم : 39 ، 1
20. القرآن کریم: 15 ، 39
21. کلینی محمد بن یعقوب اصول کافی کتاب الایمان والکفر ( قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) حديث نمبر 1479
22. سید رضی محمد بن الحسین نہج البلاغہ(قم انصاریان پبلیکیشنز ) خطبہ نمبر 1
23. سابقہ حوالہ1 ۔ خطبہ نمبر 1۔
24. کلینی محمد بن یعقوب فروع کافی کتاب الحج ( قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) ،حديث نمبر 6830
25. سید رضی محمد بن الحسین نهج البلاغه(قم انصاریان پلیکیشینز ) کلمات نمبر 437
26. مجلسی محمد باقر بحار الانوار باب 35 ( طہران المکتبة الإسلامية ) حدیث نمبر 1
27. سابقہ حوالہ 2 ، حدیث نمبر 25
28. سید رضی محمد بن الحسین نہج البلاغہ (قم انصاریان پبلیکیشنز ) کلمات نمبر 252
29. کلینی محمد بن یعقوب فروع كافي ( قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) حدیث نمبر 8278
30. محمد الري شهري ميزان الحكمة ج 6 ( قم مرکز نشر ۔مکتب الاعلام الاسلامی ) حدیث نمبر 12436 ۔
31. کلینی محمد بن یعقوب اصول کافی کتاب الایمان والکفر (قم موئسسه انصاریان للطباعةوالنشر ) ،حديث نمبر 1969
32. سابقہ حوالہ1 حدیث نمبر 1970
33. سابقہ حوالہ1 حدیث نمبر 1971
34. سابقہ حوالہ1 حدیث نمبر 1975
35. القران کریم: 17 ، 23 و 241 :
36. مجلسی محمد باقر بحار الانوار (المكتبة الإسلامية)
37. سابقہ حوالہ 2
38. کلینی محمد بن یعقوب اصول کافی کتاب الایمان والکفر ( قم موسسہ انصاریان للطباعة والنشر ) ،حديث نمبر 2003
39. سابقہ حوالہ 4 ۔ حدیث نمبر 2004
40. سابقہ حوالہ 4 ۔ حدیث نمبر 2008
41. سابقہ حوالہ 4۔ حدیث نمبر 2006
42. سابقہ حوالہ 4 حدیث نمبر 2009

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button