امثال القرآن

♦ غیبت کی مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ
وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُم بَعْضًا أَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۔
(الحجرات۔12)
اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ (یقیناً) تم سب اس بات کو انتہائی نا پسند کرتے ہو۔
الفاظ و معانی
’’ یغتب ‘‘غیبت کرنا
’’اَ یحِبُّ‘‘ کیا وہ اسے پسند کرتا ہے
’’اَنْ یَاْ کُلَ ‘‘کہ وہ کھائے
’’لحم اخیہ‘‘اپنے بھائی کا گوشت
’’ میْتاً‘‘مردہ
’’فکرھتموہ ‘‘یہ بات تمہیں انتہائی ناگوار ہے
وجہ تشبیہ
♦ اس آیت مجیدہ میں غیبت جیسے عمل کی انتہائی برائی کو وجہ شباہت قرار دیا گیا ہے جو اس گناہ غیبت کے انتہائی برے اور قبیح نیز بڑے گناہ ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
(تفسیر نمونہ ؛ جلد 22، صفحہ 185)
🔹 غیبت کرنے والے افراد کو آوارہ کتوں اور لاش خور درندوں سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی جس طرح یہ کتے اور لاش خور درندے کسی مردہ جانور کے بدن کے پاس جمع ہو کر اس کے بدن پر اپنے دانت گاڑ کر بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر اس سے گوشت نوچتے اور کھاتے ہیں اسی طرح کچھ افراد جمع ہو کر کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں کرتے، اس کی برائیاں بیان کرتے اور اس کی آبرو کی تکہ بوٹی کرتے ہیں۔
(چہل مثل ا زقرآن کریم؛ صفحہ190)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کے عمل کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ یعنی جب ایک مسلمان دوسرے کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہے تو گویا ایسا ہی ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
جس طرح ایک عام انسان اپنے ہی سگے مردہ بھائی کے مردہ جسم کا گوشت کھانے کا تصور نہیں کر سکتا اور اسے اس فعل سے انتہائی کراہت ہوتی ہے تو اسی طرح ایک مسلمان کی عزت و آبرو بھی گویا اس کے بدن کے گوشت کی مانند ہے۔
غیبت کے ذریعے کسی مسلمان کی عزت کو داغدار کرنا، اس کے رازوں کو افشاء کرنا اور اس کی برائیوں بیان کرنا گویا اس کے مردہ بدن سے نوچ نوچ کر گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
وضاحت
’’ میْتاً‘‘ یعنی مردہ کی تعبیر کا استعمال شاید اس وجہ سے ہو کہ افراد کی غیر موجودگی میں جب ان کی غیبت کی جاتی ہے تو وہ ایک مردہ اور بے جان انسان کی مانند اپنا دفاع کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔
یہ ایک ایسا ظلم ہےجو ایک غیبت کرنے والا اپنے ہی بھائی پر روا رکھتا ہے۔
اگر چہ غیبت کرنے کا عمل ان کی زبان، منہ کی حرکت اور جبڑوں سے انجام پاتا ہے لیکن اس کا باطن مردار خوری ہے اور اگر انسان توبہ کے بغیر مر جائے تو روز قیامت اس کی حقیقت کھل کر سامنے آئے گی جس کی جانب روایت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
روایات
کتاب جامع السعادات میں رسول اکرم ؐسے روایت ہے:
’’کذب من زعم انہ ولد من حلالٍ و ھو یاکل لحوم الناس بالغیبۃ فاجتنب الغیبۃ فانھا اِدامُ کلاب النار‘‘
"جھوٹا ہے ہو شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حلال زادہ ہے جبکہ وہ غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتا ہے، پس تم غیبت کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ یہ جہنم کے کتوں کا سالن ہے۔‘‘
(جامع السعادات؛جلد2،صفحہ 413)
روایت میں ہے کہ کسی شخص نے امام حسینؑ کے سامنے کسی کی غیبت کی تو امام نے اس سے کہا:
’’يَا هَذَا كُفَّ عَنِ الْغِيبَةِ فَإِنَّهَا إِذَامُ كِلابِ النَّارِ‘‘
"اے مرد! غیبت کرنے سے بچو کیونکہ یہ جہنم کے کتوں کی غذا ہے۔‘‘
(بحار الانوار؛جلد 78، صفحہ 117)
نصیحتِ امام خمینی
خدا نہ کرے کہ انسان ایسے امراض میں گرفتار ہو جائے کہ جن کا درد نہیں ہوتا۔
🔸جن امراض میں انسان کو درد محسوس ہوتا ہے تو وہ انسان اپنے علاج کی فکر کرتا اور طبیب و ہسپتال کی جانب جاتا ہے لیکن وہ مرض اور بیماری کہ جس میں درد ہی محسوس نہ ہو بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
🔸غرور، خودخواہی اور غیبت درد نہ ہونے والے روحانی امراض ہیں اور اسی طرح کے دوسرے امراض اور بیماریاں انسان کے قلب وروح کو فاسد و خراب کر دیتے ہیں۔
🔸 یہ بیماریاں نہ صرف یہ کہ ان کے درد محسوس نہیں ہوتے بلکہ ایک خاص قسم کی لذت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔
(جہاد اکبر؛ صفحہ 48)
پیغامات
1۔ایمان انسان کو ذمہ دار بناتا ہےاور کچھ اعمال کی بجا آوری واجب اور کچھ اعمال سے اجتناب کرنے کو واجب اور ان کے انجام دہی کو حرام قرار دیتا ہے۔
2۔گناہوں سے دوری کیلئے لازمی ہے کہ انسان خیالی، امکانی اور احتمالی گناہوں سے بھی دوری اختیار کرے۔
3۔گناہ گر چہ دیکھنے میں شیریں اور دلنشین ہے لیکن حقیقت اور باطن میں خباثت رکھنے والا اور تنفر کا سبب بنتا ہے۔
4۔دوسرے مردوں یا عورتوں کی غیبت کرنا حرام ہے چاہے وہ کسی بھی سن و سال، مقام وحیثیت کے حامل کیوں نہ ہوں۔
5۔اگرا نسان کے بدن کا کوئی عضو جدا ہو جائے تو اس کے پُر ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اگر کسی مردہ انسان کے بدن کا کوئی حصہ کاٹ دیا جائے تو حصہ خالی ہی رہے گا۔ غیبت در اصل انسانوں کی آبرو کو ضائع کرنا ہے کہ اگر ایک دفعہ چلی گئی تو اس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔
6۔غیبت ایک قسم کی وحشیانہ درندگی ہے۔
7۔غیبت ایمان وتقویٰ سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔
(تفسیر نور؛ جلد1 1، صفحہ 191۔192)


