محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے وجود مبارک سے تشریعی فوائد

علامہ سید عاشورعلی

پہلا فائدہ: مراجع الدین اور فقھاءکی راہنمائی فرمانا

شرعی احکام استنباط کرنے کے منابع چار ہیں ۔

( ۱) قرآن مجید( ۲) سنت، روایات شریعہ ( ۳) عقل( ۴) اجماع

(المصلحات ص ۵۶)

یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیعہ فقہاءکے نزدیک ہر اجماع حجت اور دلیل نہیں اور اس کی پیروی کرنا لازم نہیں مگر جو اجتماع حجت ہے اور شرعی احکام کے لئے ماخذ بھی ہے وہ اجماع کشفی ہے وہ ایسا اجماع ہے جس میں پورے فقہاءکا اتفاق ہوتا ہے ایک بھی مخالف رای والا موجود نہیں ہوتا، گویا کہ جس چیز پر پوری امت کا اتفاق ہو جائے اور اس میں ایک بھی مخالف نہ ہو تو اس سے یہ بات کشف اور معلوم ہو جائے گی کہ اس اجماع میں امام وقت جو کہ معصوم اور نمائندہ الٰہی ہیں وہ بھی موجود ہیں پس اس لئے ایسے اجماع سے حکم اخذ کرنا صحیح ہے۔

شیخ الطالقہ الطوسیؒ اوردوسرے فقہاءنے واضح کیا ہے کہ اس اجماع میں کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کا وجود یقینی ہوتاہے۔اس لئے یہ اجماع حجت ہے، اگر ایسا اجماع نہ مل سکے تو پھر اجماع کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

(رسائل المرتضیٰ ج ۱ ص ۶۱ ، المعتبر للعلامہ الحلی ج ۱ ص ۹۳،۳۵ ، روض الجنان ص ۰۸ ، تہذیب الاصول للامام الخمینیؒ ج ۲ ص ۸۶۱)

کیونکہ اگر امام علیہ السلام اس فیصلہ پر راضی نہ ہوں تو وہ یقینی طور پر کسی فقیہ کے ذہن میں اس کے مخالف حکم ڈال دیں گے اور اس طرح اجماع ٹوٹ جائے گا اور ایسا اقدام کرنا امام علیہ السلام کے اختیار اور قدرت میں ہے اورایسا کرنا ضروری بھی ہوگا کیونکہ اگرایسانہ ہوتو لوگ گمراہ ہوجائیں گے گمراہی سے بچانے کے لئے اقدامات کرناامام وقت کی ذمہ داری ہے اگرچہ امام غائب ہی کیوں نہ ہوں۔

امام علیہ السلام ایک چھوٹے سے فقہی اور شرعی مسئلہ کی رہنمائی کے لئے فقہاءکی غیر محسوس طریقہ سے مدد فرماتے ہیں اسی طرح اگر امت کی تقدیر کا فیصلہ ہو، امت کی بقاءاوراستحکام کا مسئلہ ہو، امت کی ہلاکت اور حیات کا مسئلہ ہو تو اس میں امام علیہ السلام کی مدداور لازمی ہو جاتی ہے یہ امام کا اپنا لطف و کرم اور مہربانی ہے کہ وہ امت کے امور کو چلانے والوں کے لئے راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔محقق اردبیلی ان فقہاءسے ہیں جنہیں حضرت امام مہدی علیہ السلام سے شرف ملاقات تھا اور وہ امام علیہ السلام سے سوال کر لیا کرتے تھے جب بھی کسی مسئلہ میں الجھ جاتے اور اس کی سمجھ نہ آ رہی ہوتی اور وہ حل نہ ہوتا تو امیرالمومنین علیہ السلام کے محراب عبادت مسجد کوفہ میں تشریف لے جاتے اور مخصوص اعمال بجا لاتے اور امام علیہ السلام سے اس سوال کا جواب حاصل کر لیتے تھے جس کا جواب انہیں معلوم نہ ہوتاتھا۔

(النجم الثاقب منتہی المال ج ۲ ص ۹۱۳)

شیخ مفیدؒ کا بہت بڑا نصیب ہے کہ امام علیہ السلام ان کی برابر راہنمائی فرماتے تھے خطوط کے ذریعہ بھی اور بالواسطہ طور پر کسی اور کے ذریعہ بھی اور براہ راست بھی….

ایک خط میں آپ شیخ مفیدؒ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم تمہارے ساتھ یہ عہد کرتے ہیں اے مخلص ولی ہماری خاطر دشمنوں سے جہاد کرنے والے….یہ کہ جس شخص نے تیرے دینی بھائیوں سے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس سے حصہ نکال کر اس کے مستحق کو دینا ہے تو وہ باطل پر لے جانے والے فتنہ سے محفوظ رہے گا اور اس فتنہ کے تاریک اور خوفناک مناظر سے بچا رہے گا اور ان میں سے جو بخل اور کنجوسی کرے گا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے گاتو وہ اس کی وجہ سے خسارے میں ہوگا اپنی دنیا میں بھی اور اپنی آخرت میں بھی علماءکرام اور فقہاءعظام کے حالات زندگی میں ایسے بہت سارے واقعات اور حالات درج ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام نے کسی طرح ان کی راہنمائی فرمائی اور انہیں بھٹکنے سے بچایا، یہ سلسلہ آج کے دور میں بھی جاری ہے، البتہ ہمارے عظیم القدر فقہاءنے اپنی زندگی میں امام زمانہ علیہ السلام سے راہنمائی لینے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا ان کی وفات کے بعد ان کی خودنوشت سے یا ان کے متعمد ترین اور امین ساتھیوں کے ذریعہ ان واقعات سے آگہی ہوئی، اگر امام علیہ السلام کی راہنمائی نہ ہوتی اور آپ اپنے شیعوں کا خیال نہ رکھتے اور انہیں یاد نہ فرماتے تو اس لمبی ظالم تاریخ کے تندوتیز، جھگڑوں میں شیعوں کا نام مٹ جاتا اور امامعلیہ السلام نے اپنے شیعوں کی راہنمائی کے لئے فقہاءاور مراجع دین کی خصوصی سرپرستی جاری رکھی اسی لئے ہمارے فقہاءہر دور کے مسائل سے نبردآزما ہوتے رہے اور کامیاب ہو کر ہر میدان سے نکلے اور آج بھی شیعیان آل محمد کی راہنمائی فرمارہے ہیں۔ (ازمترجم)

امام علیہ السلام کی توقیعات دیکھنے کے لئے(الاحتجاج ج ۲ ص ۳۲۳،۴۲۳ ، علماءکے حالات کے لئے ہر معروف فقیہ کا اپنا تفصیلی زندگی نامہ ان کی زندگی کے واقعات پر مشتمل کتابیں،ہمارے دور میں حضرت امام خمینیؒ، آیت اللہ سید شہاب مرعشی نجفیؒ اور کچھ پہلے کے سید آیت اللہ سیدمہدی بحرالعلوم، کے حالات کو پڑھ سکتے ہیں اور قصص العلماءمیں بھی بہت کچھ اس ضمن میں مل جائے گا۔

دوسرا فائدہ: امام علیہ السلام کی موجودگی لطف الٰہی ہے

لطف ہر اس حالت کو کہتے ہیں جوعبدکو مولا کے قریب کردینے کا ذریعہ بنے یا جو حالت اطاعت کرنے پر آمادہ کر دے یہ اصطلاحی معنی ہے ۔

تلطف اور لطف کا معنی مولا کا اپنے بندگان پر مہربانی کرنا،کرم کرنا، رحمت سے نوازتا ہے، اس میں محبت اور پیار کا عنصر شامل ہے نبوت اور امامت کے باب میں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندگان پر لطف ہے کہ اس نے اس کی ہدایت کے لئے انبیاءعلیہ السلام و رسل علیہ السلامبھیجے اور پھر ان کے لئے اوصیاءقرار دے، نبوت کی طرح امامت کا عہدہ اور منصب بھی لطف الٰہی ہے۔

سید مرتضیٰ علم الہدیٰ نے فرمایا:ریاست اورقیادت جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے واجب کو انجام دینے اور حرام سے بچنے کے لئے لطف الٰہی ہے، ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس لطف سے خالی نہ چھوڑے اور الطاف الٰہیہ کے ہونے پر جو دلیل قائم ہے وہ اسے بھی شامل ہے۔

(الذخیرہ فی علم الکلام ، باب اللطف ص ۶۸۱ ، باب الامامة ص ۰۱۴ ، لفین للعلامہ الحلی ص ۵۱ بحث نمبر ۴)

علامہ حلیؒ فرماتے ہیں:

"امام معصوم کا جوہم نے معنی کیا ہے اور جو خصوصیات ہم نے ان کے لئے متعین کردی ہیں وہ اللہ کی طرف سے منصوب ہوتا ہے ایک بندہ اس کے وسیلہ سے اطاعت کر کے قرب الٰہی حاصل کرتا ہے، اور اس کے وسیلہ سے نافرمانیوں سے بچتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر معاملہ الٹ ہو جاتا، یہ حکم ہر عاقل کے لئے تجربہ سے ظاہرہے اور ضروری اورواضح ہے کوئی ایک بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا ہر وہ امر جو مکلفین کو اللہ کی اطاعت کے قریب کر دے اور بندگان کو اللہ کی نافرمانی سے دورکر دے وہ لطف ہے اصطلاح میں بس امام کا وجود لطف ہے”۔

(الذخیرہ فی علم الکلام ، باب اللطف ص ۶۸۱ ، باب الامامة ص ۰۱۴ ، لفین للعلامہ الحلی ص ۵۱ بحث نمبر ۴)

نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا وجود مبارک انسان کو اللہ کی اطاعت کے قریب کر دیتا ہے اور اللہ کی نافرمانی سے دور کرتا ہے بلکہ اللہ کی اطاعت زیادہ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے یہ اس طرح ہے کہ جب انسان یہ محسوس کرتا ہے اور اس پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور یقین کامل اس پر رکھتا ہے کہ اس کا امام زندہ اور موجود ہے جو کہ معصوم ہے اور اس کی نظر اس کے چھوٹے بڑے سارے اعمال پر ہے تو وہ معصیت اور گناہ کرتے وقت شرم اور حیاءمحسوس کرے گا کہ اپنے مہربان امام کے سامنے اور ان کی موجودگی میں گناہ کرے۔

اس طرح وہ گناہ پر اصرار بھی نہیں کرے گا اگر ایک دفعہ اس سے غلطی ہو جائے تو پھر اس کو دہرائے گا نہیں اسی طرح اسے شرم آئے گی کہ وہ کس طرح اپنے آقا ومولا امام کے سامنے واجبات کو ترک کر دے وہ حضرت امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشریف)کے وجود کا یقین رکھتاہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان کامل گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے

(ازمترجم) اس جگہ آپ ذرا تصور کریں ہم عام طور پر یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ عوام میں ایسا عام ہے کہ جب کوئی جوان جو سگریٹ نوشی کرتا ہے سامنے کسی عالم کو آتے دیکھے تو فوراً سگریٹ بجھا دیتا ہے اسی طرح عمامہ والے، عالم دین کو دیکھ کرباادب ہو جاتا ہے بے ہودہ حرکات کو چھوڑ دیتا ہے، آپ نے بے پردہ خواتین کو دیکھا ہو گا کہ جب کسی عالم دین اور بزرگ شخصیت کا سامنا کرتی ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کس حد تک خود کو حجاب میں لے آئیں، آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا بلکہ پاکستان میں تو یہ عام ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو تووہ خواتین جو سر پر دوپٹہ نہیں لیتیں وہ فوراً دوپٹہ لے لیتی ہیں جب انہیں کسی عالم کے پاس جانا پڑے تو دوپٹہ اوڑھ لیتی ہیں یا جن کا حجاب کچھ خراب ہوتا ہے تو وہ عالم کے سامنے صحیح حجاب کر لیتی ہیں اسی طرح جب عوام میں عالم دین موجود ہو تو اس وقت وہ دینی اعمال اور شرعی عبادات کے بارے زیادہ اہتمام کرتے ہیں پس ان مثالوں کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ جس کویقین ہے کہ میرا امام موجود ہے میرا امام میرے ہر عمل سے واقف ہے، میرے امام کی نظر میرے اعمال پر ہے، میرے امام علیہ السلام سے میرے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں اور امام کی قدرت اور اختیار ات سے بھی واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میرے امام کا فرمان ہے کہ :

"جو اللہ کا اطاعت گزار بندہ ہے وہ ہمارا شیعہ اور موالی و محب ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے، معصیت کار ہے، وہ ہمارا مخالف اور ہمارا دشمن ہے، اچھے اعمال کو وہ پسند کرتے ہیں اور برے اعمال انہیں ناپسند ہیں، شیعوں کے اچھے کاموں سے انہیں خوشی محسوس ہوتی ہے اور ان کے برے کاموں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے اور برے اعمال کو دیکھ کر انہیں حزن وملال ہوتا ہے،”۔

تو کون بدبخت ہے جو اپنے امام علیہ السلام، اپنی ولی نعمت، بقیة اللہ الاعظم مہدی امم کو ناراض کرے، کون ہے جو چاہے گا کہ اپنے امام کو غمزدہ اور دکھی کرے بلکہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے امام کو خوش کریں ان کے آرام اور سکون کے اسباب مہیا کریں) پس امام کے وجود کا دوسرا بڑا فائدہ اور اہم فائدہ یہ ہے کہ آپ کاوجود لطف الٰہی ہے جس کے وسیلہ سے بندگان خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور ان ہی کے وسیلہ سے خدا کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں اعمال پیش کرنے کے بارے روایات

روایات میں ہے کہ بندگان کے اعمال حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں ، چند روایات ملاحظہ ہوں۔

۱ ۔ حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”جب اللہ تعالیٰ کسی فیصلہ کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے رسول اللہ پر پیش کیا جاتا ہے پھر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اسی طرح ترتیب وار سب آئمہ علیہ السلام سے ہوتا ہوا وہ فیصلہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے پاس آتا ہے اور وہاں سے دنیا میں لاگو اور نافذ ہونے کے لئے جاتاہے اور جب فرشتے کسی عمل کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں تو اس عمل کو حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے پھر ترتیب وار باقی آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں وہ عمل لے جایا جاتا ہے اسی طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وہ عمل جاتا ہے پس جو کچھ اللہ کی طرف سے اترتا ہے تو وہ ان کے ہاتھوں پر اترتا ہے اور جو بھی اللہ کی طرف جاتا ہے تو وہ ان کے وسیلہ سے جاتا ہے اور وہ سب پلک جھپکنے کی مقدار کے برابر بھی اللہ سے بے نیاز نہیں ہیں”۔

(غیبت شیخ طوسیؒ ص ۸۸۳ ،النجم الثاقب ۹۸۴)

۲ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”اے مفضل ! جو شخص یہ خیال رکھے کہ آل محمد علیہ السلام سے جو امام ہے اس سے کوئی چیز چوک جاتی ہے اور جوحتمی امر ہوتا ہے اس سے وہ ناآگاہ ہے تو ایسا خیال کرنے والا شخص کافر ہے اس نے اس کا انکار کر دیا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترا ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے یہ یقینی امر ہے کہ ہم آپ کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور تمہارا کوئی امر ہم سے پوشیدہ نہیں ہے بتحقیق اعمال کو ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس وقت روح رہ جائے گی بدن روح سے خالی ہو جائے گا تو اس وقت ان کے انوار ظاہر ہوں گے ان کے اسرار کا پتہ چلے گا اور عالم الغیب کا ادراک ہوگا”۔

(مشارق انوار البقینص ۸۳۱)

۳ ۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے روایت ہے کہ:

” اپنے اصحاب اور ساتھیوں کو یہ بات بتا دو اور میری جانب سے انہیں سلام پہنچاو اور ان کے لئے ہر بات بیان کر دو کہ میں خود اور جو بھی آئمہ علیہ السلام سے میرے مقام پر ہے تو ہمارے لئے یہ بات ضروری ہے کہ ہم آپ کے جنازوں پر حاضری دیں تم جس شہر میں بھی رہتے ہو تم اپنے بارے اللہ کا تقویٰ اختیارکرو“۔

(بحارالانوارج ۸۴ ،ص ۳۷ ص ۰۰۱)

۴ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:

”خدا کی قسم! اگر میں چاہوں تو تم میں سے ہر آدمی کے نکلنے کی جگہ، اندر جانے کی جگہ باہر آنے کی جگہ، اس کی رفت و آمد کے سارے حالات وواقعات اور جو کچھ بھی اس سے متعلق ہے اسے بتا دوں، لیکن مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم میری وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہ کردو اور کافر نہ ہو جاو، آگاہ رہو یہ سب کچھ میں اپنے خواص کے لئے بیان کرتاہوں“۔

(نہج البلاغہ خطبہ ۵۷۱،۰۵۲)

۵ ۔ الکافی میں امام ابوعبداللہ صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

"امام جب اپنی ماں کے شکم میں ہوتا ہے تواس وقت سنتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان یہ جملہ لکھا جاتا ہے” :

” وَتَمَّت رَبِّکَ صِد قًا وَّعَدلاً لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰاتِهِ وَهُوَالسَّمِیعُ العَلِیمُ “

(سورہ الانعام ۴۱۱)

اور جب معاملات اس امام کے سپرد ہوتے ہیں تو ان کے لئے روشنی کا ایک ستون قائم ہو جاتا ہے جس کے ذریعہ ہر شہر والوں کے جو بھی اعمال ہوتے ہیں وہ انہیں دیکھتے ہیں۔

(الکافی ج ۱ ص ۷۷۳ ، باب موالیدالائمہ حدیث ۴)

۶ ۔ حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے ہے کہ ہر صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سب بندگان کے اعمال ہوتے ہیں۔

(ص ۹۱۲ باب عرض الاعمال علی النبی)

روایت میں آیت

” اِعمَلُوا فَسَیَریَ اللّٰهُ عَمَلَکُم وَرَسُولُهُ وَالمُومِنُو نَ  “

(سورة التوبہ آیت ۵۰۱)

کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس جگہ مومنون سے مراد آئمہ اطہار علیہ السلام ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی معنی بنتا ہی نہیں کیونکہ ایک مومن کو دوسرے مومن کے سارے اعمال کی بالکل خبر نہیں ہوتی وہ تو ظاہری عمل جو وہ اس کے سامنے کرے اسے بڑی مشکل سے دیکھ پاتاہے۔

(اصول الکافی ج ۱ ص ۹۱۲ ، عرض الاعمال عمل النبی ج ۲ ۔ ۱)

۱ : عبدالرزاق اہل سنت کے عالم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث اخراج کی ہے، تمہارے ناموں اور تمہارے شکلوں سمیت تمہیں میرے سامنے پیش کیا جاتاہے“۔

(المصنف ج ۲ ص ۴۱۲ ،حدیث ۱۱۳) مجاہد سے روایت ہے ۔

۲:  بخاری نے ادب المفرد میں ابوذر سے اس روایت کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

” میری امت کے سارے نیک اور بداعمال میرے پاس پیش ہوتے ہیں میں نے تمہاری اچھائیوں پر نظر ڈالی”۔

(الادب المفروض ۰۸ ، حدیث ۲۰۳ ، باب امامة الادبی ۶۱۱)

۳:  حارث اوربزاز نے حضرت رسول اللہ سے روایت نقل کی ہے، میری زندگی تمہارے لئے خیروبرکت ہے تم باتیں کرتے ہو اور ہم تم سے حدیث بیان کرتے ہیں، میری موت بھی تمہارے لئے خیروبرکت ہے کہ تمہارے سارے اعمال میرے پاس پیش کیے جاتے ہیں۔

(المطالب العالیہ ج ۴ ص ۲۲ حدیث ۳۵۸۳ ۔ المطالب العالیہ ج ۴ ص ۲۲ ، ص ۳۵،۸۳ ۔ اس بارے اور روایات بہت زیادہ ہیں ۔دیکھیں:۔جامع الاصول ج ۶ ص ۸۴۲ ص ۳۹۴ ،الرسائل المبشرہ للسیوطی ص ۸۹۱ ، السنن الکبریٰ ج ۳ ص ۹۴۲ ، الفردوس بانوارالخطاب ج ۲ ص ۸۳۱ حدیث ۱۰۷۲ ،صلح الاخوان ص ۵۷)

اعمال کا امام کے پاس جانے کے بارے

اس باب میں چند روایات پر اکتفاءکیا گیا ہے یہ بات ہمارے مسلمہ عقائد میں سے ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے پاس ہمارے اعمال لے جائے جاتے ہیں، اس بارے تفصیلات عقائد کی بڑی کتابوں میں موجود ہیں اس کی چندصورتیں ہیں جو کچھ روایات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

۱: امام زمانہ علیہ السلام کے لئے اللہ کی جانب سے احاطہ علمی ہے کہ کائنات کی ہرشی کا علم امام کے پاس موجود ہوتاہے اور روزانہ کے اعمال کا علم اور اشیاءمیں ردوبدل کا علم جزئیات و کلیات کا علم امام کے لئے حاصل ہے، سورہ یٰسین میں آیت

” کُلُّ شَی اَحصَینَاهُ فِی اِمَامٍ مُبِّین “

(سورہ یٰسین آیہ ۲۱)

کی تفسیر میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کی توقیعات میں بھی ہے کہ آپ بندگان کے تمام اعمال بارے احاطہ علمی رکھتے ہیں اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔

۲ : فرشتے مامور ہیں جو باقاعدہ ہر آدمی کے اعمال نامہ کو آپ کے پاس لے آتے ہیں ہر روز ایسا ہوتا ہے یا ہر شب جمعہ کو ہوتا ہے، سارے اعمال روزانہ پیش ہوتے ہیںیا ہفتہ میں ایک بار پیش ہوتے ہیں اس بارے تفصیلی بحث عقائد کی کتابوں میں موجود ہے اور یہ وہ فرشتے ہوتے ہیں جو ہر آدمی پر اس کے اعمال لکھنے پر مامور ہوتے ہیں یعنی ہر شخص کے اعمال کی رپورٹ اس شخص پر متعین فرشتے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریفکے پاس لے جاتے ہیں اور پھر امام علیہ السلام کی ہدایات کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں۔

۳:  ایک بڑا ہی جلیل القدر فرشتہ ہے جس کا نام روح القدس ہے جس کی ڈیوٹی آئمہ علیہ السلام پر ہے وہ ہر امام کی خدمت میں موجود رہتا ہے، امام کی حفاظت کرتاہے، امام کی ضروریات پوری کرتاہے، امامعلیہ السلام کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے آج کی اصطلاح میں وہ ہر امام علیہ السلام کے لئے خصوصی سیکرٹری کا درجہ رکھتاہے۔

اس سے زیادہ خاص اور کوئی نہیں ہے وہ ہر امام کے بارے مکمل آگاہ ہوتا ہے اور امام کے ہر حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو امام تک لے آتا ہے، الٰہی علوم کو بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے امام علیہ السلام کی طرف منتقل کرتاہے۔گویا تازہ اورباقاعدہ معلومات امام علیہ السلام تک ساری کائنات کے بارے پہنچانا اس کی ذمہ داریوں سے ہے پس یہ روح القدس ہے جو امام علیہ السلام کی خدمت میں بندگان میں سے ہر ایک کے بارے تفصیلی معلومات پہنچاتا رہتا ہے، اس کی مزیدتفصیلات عقائد کی کتابوںمیں دیکھیں۔

تیسرافائدہ:امام مہدی علیہ السلام کے موجودہونے سے اللہ کی عبادت ہو رہی ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے

"جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو خلق فرمایا ہے تو یہ زمین اللہ کی حجت اور نمائندگی سے خالی نہیں رہی یا تو وہ حجت ظاہر اًموجود تھی یا پھر پردہ میں پوشیدہ موجود تھی یہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہو گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اگر زمین پر اللہ کی حجت موجود نہ ہو تو پھر اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔اللہ تعالیٰ کی عبادت حجت کے وجود کی وجہ سے ہے”۔

(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۲۹)

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ایک بہت ہی اہم حقیقت کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ کی عبادت کرنا توقیفی اور تعبدی ہے، اللہ تعالیٰ بندگان سے یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ جس طرح چاہیں عبادت کریں ، وہ چاہتا ہے کہ وہ عبادت اس طرح کریں جس طرح وہ خود چاہتا ہے، اسی طریقہ پر عبادت کریں جو اس نے عبادت کے لئے بنایا ہے اسی کیفیت اور ترتیب سے عبادت کریں جس طرح اس نے قرار دی ہے عبادت کی شرائط اس کی تفصیلات سب اللہ کی جانب سے معین ہیں کسی کو اس میں اپنی مرضی سے ردو بدل کا اختیار نہیں ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاءکو اپنی رحمت سے دور کر دیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اللہ کی عبادت کرنے کی ٹھان لی تھی۔

” وَاتلُ عَلَیهِم نَبَاَالَّذِی اَتَینٰهُ اَیٰتِنَا فَان سَلَخَ مِنهَا فَاَتبَعَهُ الشَّیطٰنُ فَکَانَ مِنَ الغٰوِینَ وَلَو شِئنَا لَرَفَقنٰهُ بِهَا وَلٰکِنَّهُ اَخلَدَ اِلَی الاَرضِ وَاتَّبَعَ هَوٰئهُ فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الکَل بِاِن تَحمِل عَلَیهِ يلهَث اَو تَترُکهُ یَلهَث ذٰلِکَ مَثَلُ القَو مِ الَّذِینَ کَذَّبُوابِاَیَتِنَا فَاقصُصِ القَصَصَ لَعَلَّهُم یَتَفَکَّرُونَ”

”اور (اے رسول)تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جسے ہم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخر کار وہ گمراہ ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ہم اسے انہیں آیتوں کی بدولت بلندمرتبہ کر دیتے مگر وہ توخود ہی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن بیٹھا تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ہے کہ اگر اس کو دھتکاردو تو بھی زبان نکالے رہے اور اس کوچھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے یہ مثل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔اے رسول یہ قصے ان لوگوں سے بیان کردو تاکہ یہ لوگ خود بھی غور کریں“۔

(سورہ اعراف آیت ۵۷۱ تا ۶۷۱)

روایات میں بیان ہوا ہے کہ

"حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بلعم نامی شخص اولیاءاللہ سے تھا وہ عرش الٰہی کا نظارہ کرتا تھا اس کی دعا قبول ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ، کیونکہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر اعتراض کر دیا اور ان کے ساتھ حسد کیا اور یہ کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں میں یہ عبادت اپنے طریقہ پر کروں گا اس طریقہ پر عبادت نہیں کروں گا جو موسیٰ علیہ السلام نے تعلیم دیاہے اس نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہی اور اللہ تعالیٰ کی حجت اور نمائندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طریقہ کو اختیار کرنے سے انکار کردیا”۔

(تاریخ المدینہ ج ۱ ص ۵۵)

پس اللہ کی عبادت ان شروط کے ساتھ ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں اس میں بندے کی مرضی شامل نہیں ہے۔

نماز پڑھنے کا طریقہ توقیفی ہے

(ازمترجم)نماز اسی طرح اور اسی کیفیت اور ان ہی اذکار و تسبیحات و قرائت و دعا کے ساتھ پڑھنی ہے جو اللہ کی طرف سے بیان ہوئی ہے کوئی اپنی مرضی سے مستحبی نمازوں کے لئے باجماعت پڑھنے کا حکم دے دے تو یہ عبادت اللہ کو قبول نہیں ہے اور کوئی نماز کے تشہد سے درود شریف کو نکال دے یا رسول اللہ پر درود پڑھے اور آل پر نہ پڑھے یہ اللہ کو قبول نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی اپنی مرضی سے اور بغیر کسی مضبوط شرعی ثبوت اور حوالہ سے تشہد میں دوسری گواہی کے ساتھ تیسری گواہی علی علیہ السلام مولا کی ولایت کی شروع کر دے ، علی علیہ السلام کی ولایت برحق ہے اور علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام کی ولایت اور محبت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہے اس شخص کی عبادت جس میں محمد وآل علیہ السلام محمد سے محبت نہیں اس کے منہ پر مار دی جائے گی اور خدا کو بغیر محبت علی علیہ السلام والی عبادت قبول نہیں، لیکن علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کس جگہ کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے یہ بندے کے اختیار میں نہیں یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔

لہٰذا نماز میں دو گواہیوں کے بعددرود پڑھنے کا حکم ہے درمیان میں تیسری چوتھی پانچویں بہت ساری اور شہادتیں ہیں جن کے کہنے اور اقرار کرنے کا حکم ہے ان سب شہادات کو نماز کی حالت میں دینے کا حکم نہیں ہے پس اپنی مرضی سے تیسری شہادت شامل کرنے پر خداکو یہ عبادت قبول نہ ہو گی کیونکہ خدا اس عبادت کو قبول کرتا ہے جس عبادت کو اسی طرح انجام دیا جائے جس طرح اس نے خود فرمایا ہے مومنین اس امر پر توجہ کریںکیونکہ نمازکی حیثیت ترکیبی اور اس کے اذکار اور اوراد توفیقی ہیں اللہ کی طرف سے طے شدہ ہیں اس میں کمی یا زیادتی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ اللہ کی عبادت معصوم کی موجودگی کے بغیر نہ ہو گی، اللہ کی عبادت کے لئے ہر زمانہ میں ایک معصوم امام علیہ السلام کی موجودگی ضروری ہے ، کیونکہ وہی امام معصوم بندگان اور اللہ کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اگر وہ واسطہ موجود نہ ہوگا تو اللہ کی عبادت نہ ہوگی۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کا اہم تشریعی اثر

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود مقدس کے اہم آثار اور فوائد میں یہ انتہائی اہم تشریعی اثر اور فائدہ ہے۔

الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے:

"بتحقیق! اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلق فرمایا ہے اور ہمیں اپنے بندگان میں اپنی آنکھ قرار دیاہے،اپنی مخلوق میں ہمیں اپنی بولنے والی زبان قرار دیا ہے، اپنے بندگان کے سروں پر ہمیں اپنی رحمت و شفقت و کرم و فضل کا پھیلا ہوا ہاتھ بنایا ہے اور ہم ہی اللہ کا وہ رخ انور ہیں جس کی جانب توجہ کر کے خدا تک پہنچا جاتا ہے خدا سے وصل ہو جاتا ہے اور ہم ہی اللہ کا وہ دروازہ ہیں جس کے ذریعہ خدا کے پاس جانا ہوتاہے….اور ہماری عبادت کی وجہ اوروسیلہ سے اللہ کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم موجود نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی”۔

(الکافی ج ۱ ص ۴۴۱ ، باب النوادر)

یعنی آئمہ اطہار علیہم السلام اللہ کی عبادت کرنے کا ذریعہ اور واسطہ ہیں، ایک واسطہ کاموجودہونا خدا اور بندگان کے درمیان ضروری ہے جو اللہ کی مرضی اور منشاءکو بندگان سے بیان کرے اور بندگان اس کے بیان کردہ دستور کے مطابق اللہ کی عبادت کریں اگر ایسا واسطہ نہ ہو گا تو پھر بندگان کو کس طرح پتہ چلے گا کہ ان کا رب ان سے کس قسم کی اور کس طرح کی کس کیفیت اور شرائط کے تحت ہم سے عبادت چاہتا ہے۔

آئمہ علیہم السلام نے خود عبادت کا طریقہ بیان کیا، اللہ کی عبادت کر کے دکھائی اور اللہ کی عبادت کے طریقے تفصیل سے بیان بھی کئے تو اس سے پھربندگان کو پتہ چلا کہ ہم نے اللہ کی اس طرح عبادت کرتا ہے ، پس اللہ کی عبادت آئمہ علیہم السلام کے وجود سے مشروط ہے اوریہ عبادت اس لئے ہو رہی ہے کہ حضرت ولی العصر علیہ السلام زمین پرموجود ہیں۔(ازمترجم)

دعاءندبہ میں یہ جملے موجودہیں:

”اے اللہ! ہماری نمازوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ اور واسطہ سے قبول کرلے(یعنی قبولیت نماز کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کا واسطہ اور وسیلہ ضروری ہے….مترجم)ہمارے گناہوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے صدقہ میں بخش دے، امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے ہماری دعا قبول کر لے، ہماری روزی کو امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے بڑھا دے، ہمارے غموں اور پریشانیوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے بابرکت وجود کے صدقہ میں ٹال دے اور ہماری ساری حاجات کو امام زمانہ علیہ السلام کے وسیلہ سے پورا کر دے“۔

پس نماز کاقبول ہونا، دعا کا منظور ہونا، پریشانیوں کا دور ہونا، حاجات کا پورا ہونا، حضرت مولانا صاحب العصر والزمان امام مہدی علیہ السلام کے وجود ذیجود کے تشریعی آثار اور فوائد سے ہے۔

(خدا ہمیں ان کی ساری برکات اور مہربانی نصیب کرے۔آمین)

چوتھافائدہ: بندگان کی ہدایت

تمام اہل ایمان کی ہدایت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے نور کی روشنی اورضیاءکے صدقہ میں ہو رہی ہے یہ ان فیوض و برکات کے علاوہ ہے جو آپ علیہ السلام نے اپنی توقیعات اور خطوط کے ذریعہ احکام بیان فرمائے اور فقہاءکی راہنمائی کی۔

آپ علیہ السلام نے جو تحریر شیخ مفید کو بھیجی اس میں یہ جملہ موجود ہے:

”ہم نے تمہاری مراعات کو ایسے نہین چھوڑا ہوا اور بے توجہی کے سپرد تمہارے معاملات نہیں ہیں، تم ہمیں یاد ہو اور ہم نے تمہارا ہر لحاظ سے خیال رکھا ہوا ہے اگر ہماری عنایات تمہارے لئے نہ ہوتیں تو تمہارے اوپر مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے اور ظالموں کا تم شکار بنتے، دشمن تمہارا صفایا کر دیتے“۔

(الاحتجاج ،ج ۲ ص ۳۲۳)

احتجاج میں ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ شیعوں کی ایک جماعت میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آئمہ علیہ السلام کے سپرد رزق اور خلق کے معاملات کر دیئے ہیں اوران کے ذمہ ہے کہ وہ خودخلق کریں اورخودمخلوق کورزق دیں۔

ایک گروہ نے یہ نظریہ اپنایا کہ یہ بات محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کیونکہ اجسام خوداجسام کو خلق کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، یہ قدرت فقط اللہ کے لئے ہے غیر اللہ کے لئے نہیں ہے، دوسرے گروہ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ آئمہ علیہم السلام کو یہ قدرت خود دی ہے کہ وہ ایسا کریں پس اللہ نے معاملہ ان کے سپرد کر دیاہے پس انہوں نے خلق کیا اور انہوں نے رزق دیا اس بارے بہت شدید جھگڑا کھڑا ہو گیاان میں سے کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ تم اس بارے آپس میں لڑتے جھگڑتے کیوں ہو؟

ابوجعفر محمد بن عثمان کے پاس یہ سوال کیوں نہیں لے جاتے تاکہ اس بارے تمہارے لئے حق واضح اور روشن ہو جائے کیونکہ وہ اس وقت جب حضرت صاحب الزمان علیہ السلام تک رسائی کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں، پس انہوں نے اس پر اتفاق کر لیا اور ابوجعفر کے پاس ساری صورتحال لکھ بھیجی تو جب ان کو خط ابوجعفر کے وسیلہ سے امام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ علیہ السلام کی طرف سے جو جواب آیا وہ اس طرح ہے۔

بتحقیق اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اجسام کو خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے ارزاق(روزیاں) تقسیم کی ہیں کیونکہ اللہ جسم نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کسی جسم میں حلول کئے ہوئے ہے اور اللہ کی مثال کوئی بھی چیز نہیں ہے اور اللہ سمیع و بصیر ہے(اس سے یہ اشارہ دیا گیا کہ اجسام کو وہی خلق کر سکتا ہے جو خود جسم نہ ہو، جسم میں حلول بھی نہ کیا ہو، اس کی مثال کوئی نہ ہو سمیع وبصیرہو)باقی بات رہی آئمہ علیہم السلام کی(جو اللہ کے اللہ کی زمین پر نمائندگان ہیں)تو وہ اللہ سے سوال کرتے اور اللہ خلق فرمادیتا ہے وہ اللہ سے سوال کرتے ہیں تو اللہ روزی دے دیتا ہے اللہ ان کے سوال کو پورا کرتا ہے اور ان کے حق کو عظمت اور بزرگی دیتاہے۔

(الاحتجاج ج ۲ ص ۴۸۲ ، توقیعات الناحیہ المقدسہ)

اس باب میں بہت سارے واقعات ہیں کہ آپ بعض بندگان کو دعائیں تعلیم دیں، مناجات کے طریقے بتائے، توسل کرنے کاانداز بتایا(خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام پردہ غیبت میں رہتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا سامان مہیا کئے ہیں جہاں ضرورت پڑی براہ راست ہدایت فرما دیتے ہیں اور جہاں پر چاہتے ہیں بالواسطہ ہدایت کردیتے ہیں، آپ ہدایت کا منبع ہیں آپ کے وجود مقدس کی نورانی شعائیں جہالت و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں اور تاریکیوں میں ہدایت کا سامان ہیں اور صراط مستقیم پر برقرار رکھنے کا وسیلہ ہیں۔

(النجم الثاقب، مفاتیح الجنان)

پانچواں فائدہ: حضرت امام مہدی علیہ السلام سے تربیتی دروس اور آپ علیہ السلام کے آداب

کمال الدین میں شیخ صدوقؒ نے اپنے ذرائع سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر خطبہ دیا اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”اے اللہ! ضروری ہے کہ تیری زمین پر تیری حجت تیری مخلوق پر موجود ہو جو انہیں تیری جانب ہدایت دے اور تیرا علم ان تک پہنچائے تاکہ تیری دلیل جو ہے وہ باطل نہ ہو جائے اور تیرے اولیاءکے پیروکار گمراہ نہ ہوجائیں جب کہ تو نے انہیں ان کے ذریعہ سے ہدایت دے دی ہے، ہدایت لینے کے بعد گمراہ نہ ہو جائیں بوجہ اس کے کہ تیری حجت موجود نہ ہو تیری زمین پر یاتو تیری حجت ظاہر اورصاف ہو گی لیکن اس کی اطاعت نہ ہو رہی ہو گی یا تیری حجت پردہ میں انتظار کر رہی ہوگی، اگر وہ لوگوں سے حضوری کے لحاظ سے غائب ہو گا لیکن ان لوگوں سے اس کا علم غائب نہ ہو گا یعنی امام غائب کا علم لوگوں میں موجود رہے گا اور ان کے تربیتی دروس اور آداب زندگی مومنوں کے دلوں میں ثابت و موجود اورقائم ہوں گے اور وہ لوگ ان آداب کے مطابق عمل کر رہے ہوں گے”۔

(کمال الدین ج ۱ ص ۲۰۳ ، باب ۶۲ حدیث ۱۱)

الاصفہانی نے آداب کے معنی میں تحریر کیا ہے، آداب ادب کی جمع ہے جیسا کہ القاموس میںبیان ہوا ہے اس کا معنی حالت اور عادت کے ہیں۔

تو اوپر والے بیان کا معنی یہ ہو گا کہ ان کی عادات اور ان کے پسندیدہ اوصاف مومنوں کے دلوں میں موجود ہوں گے جو سبب بنیں گے کہ وہ ایسا عمل کریں جو امام علیہ السلام کی پسند ہو اس بناءپر کہ وہ علت اور وجہ بیان کرنے کے لئے موجودہیں۔

یا اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے آداب مومنوں کے دلوں میں قائم ہوں گے یہ مومنین ایسے اعمال کریں گے جو امام علیہ السلام کے آداب اورآپ کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہوں گے تو اس صورت میں عربی عبارت میں موجوداللام کو بائ(وسیلہ) کے معنی میں لیں گے جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ مومنین امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اعمال صالحہ کو بجا لائیں گے تاکہ اس طرح وہ امام علیہ السلام کے آداب سے تربیت لے سکیں اور خود کو امام علیہ السلام کی صفات سے آراستہ کر یں اس صورت میں اللام غرض اور غایت کے معنی میں ہوگا، جو بھی ہو مطلوب و مقصود ثابت ہے کہ مومنوں کی صفات سے یہ ہے کہ ان کا دل و دماغ اور افکار میں امام غائب کے تربیتی دروس اور آداب موجود ہوں ان کے ایمان کے لوازمات سے ہے اس پر گواہ یہ بات ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام امام غائب حضرت امام مہدی علیہ السلامکے آداب آپ علیہ السلام کی صفات، آپ علیہ السلام کے اعمال کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ آپ علیہ السلام کے زمانہ والے مومنین ان صفات اور خصوصیات کو اپنے دلوں میں بٹھائیں خٰود کو ان صفات اور آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ علیہ السلام کے لئے ہیں آپ علیہ السلام کے آداب میں کیچھ امتیازی خصوصیات موجود ہیں جو باقی آئمہ علیہ السلام کے ادوار میں موجود نہ تھیں۔

یہ سب کچھ نہیں ہے مگر اس لئے کہ ان کی صفات کی معرفت حاصل کی جائے ان کی خصوصیات کو جانا جائے، اس کی وجہ بھی بڑی واضح ہے کہ آپ علیہ السلام جیسی ہستی کی غیبت میں آپ کے منصب کے جھوٹے دعوے داروں کی پہچان ہو سکے۔

پس ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام بارے ان کی خصوصی صفات، ان کے رہن سہن کے خصوصی آداب زندگی، ان کی عملی زندگی، سیرت و کردار، اخلاقیات سب کی معلومات رکھنا۔ تاکہ اگرکوئی ملحد اس منصب کا دعویٰ کر بیٹھے تواس کے حق پر ہونے کے بارے ذرا برابربھی شک و خیال دل میں نہ آئے۔

(مکیال المکارم ج ۲ ص ۵۹ حدیث ۸۵۱۱)

(اقتباس از:” حکومت مہدی علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں”)

مترجم: علامہ سید افتخار حسین نقوی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button