مصائب امام حسن مجتبیٰ ؑمکتوب مصائب

مظلومیت و مصائب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

شہادت:
معاویہ جو امام (ع) کی کمسنی کے بہانے سے اس بات کے لیے تیار نہیں تھا کہ آپ (ع) کو خلافت دی جائے، وہ اب اس فکر میں تھا کہ اپنے نالائق جوان بیٹے یزید کو ولی عہدی کے لیے نامزد کرے تا کہ اس کے بعد مسند سلطنت پر وہ متمکن ہو جائے۔
اور ظاہر ہے کہ امام حسن (ع) اس اقدام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے، اس لیے کہ اگر معاویہ کے بعد امام حسن (ع) مجتبی زندہ رہ گئے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو معاویہ کے بیٹے سے خوش نہیں ہیں، وہ امام حسن (ع) کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کے بیٹے کی سلطنت کو خطرہ میں ڈال دیں لہذا یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے امام حسن (ع) کو راستے سے ہٹا دینے کا ارادہ کیا۔ آخر کار اس نے شیطانی مکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے، امام حسن (ع) کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعے سے آپ (ع) کو زہر دے دیا اور امام معصوم (ع) 47 سال کی عمر میں شہید ہو گئے اور مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔
(حیاة الامام الحسن بن علی ج 1 ص 239/مستدرک حاکم ج 4 ص 479)
مصائب امام حسن مجتبی (ع):
آپ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد مسلسل دشمنوں کے مصائب کا نشانہ رہے، خاص طور پر اسلام اور شیعیان کی حفاظت کے لیے خاموشی سے معاویہ کا ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے بھی آپ سے بے وفائی کی۔ آپ نے چھ مہینے خلافت کی اور صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور تا آخر عمر وہیں رہے۔
معاویہ کی خونخوار سازش:
معاویہ کی قاتلانہ سازش یہ تھی کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن علیہ السلام کو قتل کر دیا جائے۔ اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لیے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن ابن علی علیہ السلام کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کر دوں گا۔ ان چار کا نام تھا:
1- عمرو ابن حریث
2- اشعث ابن قیس
3- حجر ابن الحارث
4- شبث بن ربعی ۔
معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا، انہیں حاصل کرنے کے لیے ان سب نے حامی بھر لی۔
معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طور پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے۔
امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ مکمل طور پر نگران رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے نیچے زرہ پہنتے تھے، یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے، آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا۔ (بحار الانوار، ج 44 ص 33)
خوارج کی سازش:
دوسری طرف خوارج آپ کی گھات میں تھے ، یعنی وہی تقدس مآب جاہل افراد آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، ان کا بہانہ یہ تھا کہ آپ نے معاویہ سے جنگ کیوں نہیں کی ، وہ آپ کو ( معاذ اللہ ) مشرک و مذل المؤمنین پکارتے تھے۔
انہیں خوارج میں ایک جراح ابن سنان نامی شخص نے ساباط ( مدائن ) میں سر راہ امام حسن علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور تلوار سے آپ کو اس طرح مارا کہ ران کا گوشت شگافتہ ہو کر تلوار استخوان تک پہنچ گئی۔ امام نے درد کی شدت سے اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور دونوں زمین پر گر گئے ، امام حسن (ع) کے ایک شیعہ عبد اللہ ابن خطل نے لپک کر تلوار اس کے ہاتھ سے چھین کر اسے قتل کر دیا ، ایک دوسرے ساتھی کو بھی پکڑ کر قتل کر دیا۔ امام حسن علیہ السلام کو مدائن کے گورنر سعد ابن مسعود ثقفی کے مکان پر لے گئے اور آپ کا علاج کرایا گیا۔(کتاب ترجمۂ ارشاد، شیخ مفید ،ج 2 ص 8)
امام حسن (ع) کو زہر دیا گیا:
جعدہ بنت اشعث امام حسن (ع) کی زوجہ تھی ، معاویہ نے اسے ایک لاکھ درہم بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اگر حسن ابن علی علیہ السلام کو زہر دو گی تو، تمہاری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دوں گا ، جعدہ نے معاویہ کی یہ پیش کش قبول کر لی اور امام حسن علیہ السلام کو زہر دیدیا۔
معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا، امام حسن (ع) روزے سے تھے، ہوا گرم تھی ، افطار کے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :
تو نے مجھے قتل کیا ، خدا تجھے قتل کرے ، خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہو گی ، خدا تجھے ذلیل کرے گا۔
دو دن کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا، اسے پورا نہ کیا، یزید سے اس کی شادی نہیں کی، اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی، اور اس سے کئی بچے ہوئے، جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان تکرار ہوتی تو انہیں کہا جاتا:
یا بنی مسمّة الازواج،
اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں،
(کتاب ارشاد، شیخ مفید ج 2 ص 13)
روایت ہے کہ جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا: میری یزید سے شادی کر دو۔ اس نے جواب دیا:
اذهبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید،
دفع ہو جاؤ ! تجھ جیسی عورت نے جب حسن ابن علی علیہ السلام سے وفا نہیں کی تو میرے بیٹے یزید سے کیا وفا کرے گی۔ (بحار الانوار، ج 44 ص 148 ، 154)
عمر ابن اسحاق کا بیان ہے کہ: میں حسن و حسین علیھما السلام کے ساتھ گھر میں تھا، اتنے میں امام حسن علیہ السلام طہارت کے لیے گھر سے باہر گئے، واپس آ کر فرمایا کہ کئی بار مجھے زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ سب سے شدید تھا، میرے جگر کا ایک ٹکڑا گرا ہے، اسے میں نے اپنے اس عصا سے حرکت دی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے پوچھا: کس نے آپ کو زہر دیا ہے ؟
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا اسے قتل کرو گے ؟ جسے میں سمجھتا ہوں اس پر تم سے زیادہ خدا عذاب کرے گا اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو۔ (بحار الانوار، ج 44 ص 148 ، 154)
امام حسن (ع) زہر کھانے کے بعد 40 دن بیمار اور بستر پر رہے، آخر ماہ صفر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔(کشف الغمہ، ج 2 ص 163)
ایک دوسری روایت میں حضرت صادق آل محمد (ع) کا ارشاد ہے کہ: جس وقت امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے۔ امام حسن علیہ السلام نے پوچھا، بھائی کیوں روتے ہو ؟
امام حسین علیہ السلام نے کہا: کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں، لوگوں نے مجھے بے بھائی کر دیا ہے۔
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی ! اگرچہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ، دوا وغیرہ ) چاہوں یہاں مہیّا ہے۔ بھائی ، بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ، لیکن
لا یوم کیومک یا ابا عبد اللّه.
اے ابا عبد اللہ ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر 30 ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا، جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی میں سے ہیں۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ، تمہارا مال لوٹ لیں گے، اس وقت بنی امیہ پر خدا کی لعنت روا ہو گی۔
میرے بھائی تمہاری شہادت دلگداز ہے کہ
و یبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحش فی الفلوات و الحیتان فی البحار،
تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گے۔
(امالی صدوق مجلس نمبر 30/مقتل المقرم، ص 240)
امام حسین (ع) سے وصیت:
امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ امام حسن (ع) پر حالت احتضار طاری ہوئی ، امام حسین علیہ السلام سے کہا : میرے بھائی تم سے وصیت کرتا ہوں اس کا لحاظ کرنا اور پوری کرنا:
جب میں مر جاؤں تو دفن کا انتظام کرنا ، پھر مجھے قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ ان سے تجدید عہد کروں، پھر مجھے قبر مادر پر لانا پھر بقیع میں لے جانا کر دفن کر دینا، یہ سمجھ لو کہ حمیرا (عائشہ) جس کی دشمنی و عناد میرے خاندان سے سبھی جانتے ہیں، اس کی طرف سے مجھ پر مصیبت ڈھائی جائے گی۔
جس وقت حضرت امام حسن (ع) شہید ہو گئے، جنازے کو تابوت میں رکھا گیا ، جہاں رسول (ص) نماز پڑھتے تھے وہیں لے جایا گیا، امام حسین (ع) نے نماز جنازہ پڑھائی، وہاں سے قبر رسول (ص) پر لیجا کر تھوڑی دیر کے لیے رکھا گیا۔
اعتراض عائشہ اور امام حسین (ع) کا جواب:
عائشہ کو خبر دی گئی کہ بنی ہاشم جنازے کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئی اور ڈیرا ڈال دیا کہنے لگی :
نحّوا ابنکم عن بیتی.
اپنے فرزند کو میرے گھر سے باہر لے جاؤ، کیونکہ یہاں کوئی چیز دفن نہیں ہو سکتی ، حجاب رسول کو پارہ نہیں ہونا چاہیے۔
امام حسین (ع) نے اس سے فرمایا :
تم نے اور تمہارے باپ نے تو پہلے ہی حجاب رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے،۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے بھائی حسن نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ تجدید عہد کروں۔ تم سمجھ لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں سے زیادہ خدا و رسول اور معنی قرآن کو سمجھتے تھے، وہ حجاب رسول کے پارہ ہونے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اگر ان کا دفن ہونا میری رائے میں مناسب ہوتا تو سمجھ لو کہ تمہاری خواہش کے بر خلاف یہاں ضرور دفن ہوتے۔
اس کے بعد محمد حنفیہ نے فرمایا :
اے عائشہ! ایک دن تم خچر پر سوار ہوئی اور ایک دن تم اونٹ پر سوار ہوئی تھی، تمہیں جو بنی ہاشم سے نفرت ہے اس کی وجہ سے نہ تو تم اپنے اختیار میں ہو، نہ چین سے رہ سکتی ہو۔
عائشہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا: اے حنفیہ کے بیٹے ! یہ فرزندان فاطمہ ہیں جو مجھ سے بات کر رہے ہیں، تم کیوں بیچ میں بول رہے ہو۔
امام حسین (ع) نے فرمایا : محمد کو بنی فاطمہ سے الگ کیوں کر رہی ہو، خدا کی قسم ! اسے تین فاطمہ نے جنم دیا ہے۔ فاطمہ بنت عمران (مادر ابو طالب )، فاطمہ بنت اسد (مادر علی ) فاطمہ بنت زائدہ بن اصم (مادر عبد المطلب )۔
عائشہ نے جھلا کر کہا: اپنے فرزند کو ہٹاؤ ، لے جاؤ کہ تم لوگ عناد پرست ہو۔
امام حسین (ع) جنازے کو بقیع کی طرف لے کر چلے گئے ۔ (اصول کافی، ج 1 ص 302)
دوسری روایت ہے کہ غسل کے بعد جب جنازے کو قبر رسول (ص) کی طرف لے چلے تو حاکم مدینہ مروان اور اس کے ساتھیوں نے یقین کر لیا کہ امام حسن کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے تیاری شروع کر دی اور لباس جنگ پہن کر بنی ہاشم کے سامنے آ گئے، عائشہ خچر پر سوار ہو کر فریاد کر رہی تھی ، مجھے پسند نہیں کہ اپنے فرزند کو میرے گھر میں لاؤ۔
مروان نے کہا :
یا ربّ هیجا هی خیر.
کتنے ہی موقعے ہوتے ہیں کہ جنگ آسائش سے بہتر ہوتی ہے،
کیا عثمان مدینے کے کنارے دفن ہوں اور حسن علیہ السلام پیغمبر کے قریب دفن کیے جائیں ؟ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے، ایسا نہیں ہونے دوں گا۔
قریب تھا کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں شدید جنگ چھڑ جائے کہ عبد اللہ ابن عباس نے مروان سے جا کر کہا:
اے مروان ! ہم چاہتے ہیں کہ قبر رسول (ص) پر تجدید عہد کریں ، ہم امام حسن علیہ السلام کو پہلوئے رسول میں دفن نہیں کرنا چاہتے،
اس کے بعد عائشہ کی طرف رخ کیا :
یہ کیا ذلیل حرکت ہے عائشہ ! ایک دن خچر پر، ایک دن اونٹ پر۔ تم نور خدا کو بجھانا چاہتی ہو۔ دوستان خدا سے جنگ کرنا چاہتی ہو۔ واپس جاؤ کہ جو کچھ تم چاہتی ہو پا گئی ہو۔ ( اطمینان رکھو کہ ہم امام حسن کو پہلوئے رسول میں دفن نہیں کریں گے ) خداوند عالم اس خاندان سے انتقام ضرور لے گا چاہے زیادہ عرصہ ہی کیوں نہ گزر جائے۔ (ترجمہ کتاب ارشاد شیخ مفید، ج 2 ص 15)
جنازے پر تیر بارانی:
محدث قمی نے مناقب ابن شہر آشوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
جنازہ امام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے۔
(انوار البہیہ، ص 83)
اسی لیے ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:و انتم صریع قد فلق ،
تم ( خاندان نبوت ) میں سے کسی کو محراب عبادت میں سر شگافتہ کیا گیا، دوسرے کو تابوت کے اندر تیر بارانی کی گئی ، کسی کو بعد قتل نوک نیزہ پر سر بلند کیا گیا اور بعض کو زندان کے گوشے میں کھینچا گیا اور اعضاء کو لوہے کے نیچے دبایا گیا۔ یا زہر کے اثر سے داخلی طور سے قطع قطع کیا گیا۔
امام حسین (ع) جنازے کو بقیع میں لے گئے اور جدۂ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کر دیا۔
مرثیۂ امام حسین (ع):
امام حسین (ع) نے جنازے کو تابوت میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :
کیا میں سر میں تیل لگاؤں یا ریش کو عطر سے خوشبو دار کروں ؟ جبکہ میں آپ کے سر کو مٹی میں دیکھ رہا ہوں اور آپ کو کٹی شاخ یا پتے کی طرح دیکھ رہا ہوں۔
جب تک کبوتر کی آواز گونجے گی اور شمالی و جنوبی ہوا چلے گی، میں آپ پر روتا رہوں گا۔
میرا گریہ طولانی ہے، میرے آنسو رواں ہیں، آپ مجھ سے دور ہیں اور قبر نزدیک ہے۔
جس کا مال چھین لیا گیا ہو، غارت شدہ نہیں ہے، بلکہ غارت شدہ وہ ہے کہ جو اپنے بھائی کو خاک میں دفناتا ہے۔
(مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 45)
طشت میں خون جگر:
جنادہ ابن امیہ روایت کرتا ہے کہ جس بیماری میں امام حسن (ع) نے شہادت پائی، میں انکی عیادت کے لیے گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کے پاس طشت رکھا ہے، جس میں گلے سے خون کے لوتھڑے گر رہے ہیں، جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے تھے، میں نے عرض کی: اے مولا ! علاج کیوں نہیں کرتے ؟
فرمایا: اے بندۂ خدا ! موت کا علاج کس چیز سے کروں ؟
اس کے بعد میں نے عرض کی: مولا ! مجھے موعظہ فرمایئے۔ فرمایا:
استعد لسفر .
اے جنادہ ! آخرت کے سفر کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور عمر ختم ہونے سے پہلے توشۂ آخرت حاصل کر لو۔ سمجھ لو کہ تم دنیا کی طلب میں ہو اور موت تمہاری طلب میں ہے، کبھی آنے والے کل کا غم آج نہ کرو۔
جنادہ کہتا ہے کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ امام حسین (ع) حجرے میں تشریف لائے، حالانکہ امام حسن علیہ السلام کا رنگ زرد ہو گیا ، سانسیں رک رہی گئیں، امام حسین علیہ السلام نے خود کو برادر کے بدن پر گرا دیا اور سر آنکھوں کا بوسہ دینے لگے ، تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ کر راز کی باتیں کرتے رہے۔
(انوار البہیہ، (شیخ عباس قمی) ص 80)
شہادت امام حسن (ع) پر معاویہ (لع) کی خوشی:
معاویہ کو جب شہادت امام حسن (ع) کی خبر ملی تو بہت خوش ہوا۔ سجدے میں گر کر شکر خدا بجا لایا پھر تکبیر کہی۔ اس وقت ابن عباس شام میں تھے۔ معاویہ نے انہیں بلایا اور بڑے مسرور انداز میں تعزیت پیش کی، پھر ابن عباس سے پوچھا حسن ابن علی علیہ السلام کی عمر کتنی تھی ؟
ابن عباس نے جواب دیا: تمام قریش کے لوگ ان کے سن و سال سے آگاہ ہیں۔ تعجب ہے کہ تم نا واقفیت ظاہر کر رہے ہو۔
معاویہ نے کہا: سنا ہے کہ حسن علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟
ابن عباس نے کہا: ہر چھوٹا ایک دن بڑا ہوتا ہے اور یہ سمجھ لو کہ ہمارے بچے بھی بوڑھوں کی طرح ہوتے ہیں۔
سچ بتاؤ کہ وفات حسن علیہ السلام سے تم اتنے خوش کیوں ہو ؟ خدا کی قسم ان کی موت تمہارے اجل کو ٹالے گی نہیں، نہ ان کی قبر تمہاری قبر کو بھرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے بعد میری اور تمہاری عمر کس قدر مختصر ہے۔ (عقد الفرید، ج 4 ص 362)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button