سیرتسیرت امام حسن مجتبیٰؑ

علم امام حسن علیہ السلام

1۔ بچپنے کا زمانہ تھا اورابوبکر کا دور خلافت تھا۔ ایک شخص نے خلیفۃ المسلمین سے سوال کیا کہ حالت احرام میں شتر مرغ کے انڈے کھالیے ہیں تو کیا کفارہ دینا ہوگا؟ آپ نے مسئلہ کو عبد الرحمن بن عوف کے حوالے کر دیا۔ اس نے سنگینی مسئلہ کو دیکھ کر اسے حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کر دیا۔آپ ع نے امام حسن کو جواب دینے کا حکم دیا۔ امام حسن علیہ السلام نے اس کمسنی کے عالم میں فرمایا:
کہ اونٹنیوں پر اتنی ہی مقدار میں اونٹ چھوڑ دیے جائیں اور جو بچے پیدا ہوں، انہیں خانہ خدا کے حوالے کر دیا جائے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ فرزند!بعض انڈے خراب بھی تو ہوسکتے ہیں۔عرض کیا کہ بے شک ، لیکن بعض حمل ضائع بھی تو ہو سکتے ہیں۔
مناقب ابن شہر آشوب
2۔ حضرت علی ؑ مقام رحبہ میں تھے کہ ایک شخص نے آکر اظہار خلوص کیا تو آپ نے فرمایا تو میرا دوست نہیں ہے، بلکہ معاویہ کا جاسوس ہے اور اس سے بادشاہ روم نے چند سوالات کئے ہیں، وہ ان کے جوابات سے عاجز تھا تو اس نے تجھے یہاں روانہ کیا ہے اور پھر امام حسن ؑ کو حکم فرمایا کہ جواب دے دیں۔
سوالات یہ تھے:
حق و باطل کا فرق کیا ہے؟
زمین و آسمان کا فاصلہ کتنا ہے؟
مشرق و مغرب کی مسافت کتنی ہے؟
خنثیٰ کسے کہتے ہیں اور اسکی شناخت کا ذریعہ کیا ہے؟
وہ دس اشیاء کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے قوی تر ہے؟
امام حسن علیہ السلام نے بالترتیب فرمایا:
کہ حق وباطل کا فاصلہ چار انگشت کے برابر ہے کہ جسے تو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں وہ حق ہے اور جسے صرف سنیں وہ ناقابل اعتبار ہے۔
زمین و آسمان کا فاصلہ بقدر آہ مظلوم ہے کہ اس فاصلہ کو وہی طے کر سکتی ہے اور بس۔
مشرق و مغرب کا بعد، بقدر سیر آفتاب ہے کہ وہ ایک دن میں یہ فاصلہ طے کرلیتا ہے۔
خنثی اس انسان کو کہتے ہیں جس کے مرد یا عورت ہونے کا معاملہ مشتبہ ہو۔ اس کا پہلا حل یہ ہے کہ جوانی میں اعضاء و جوارح کی ساخت دیکھی جائے ، اگر غیر واضح ہو تو پیشاب کرنے کا انداز دیکھ کر اس کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ کر لیا جائے۔
دس اشیاء میں سے ایک سخت شے پتھر ہے جس سے شدید تر لوہا ہے جو اسے توڑ دیتا ہے اور اس سے قوی تر وہ آگ ہے جو اسے پگھلا دیتی ہے اور اس سے قوی تر پانی ہے جو اسے بجھادیتا ہے اور اس سے قوی تر بادل ہے جو اسے اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے طاقتور وہ ہوا ہے جس کے کاندھوں پر یہ بادل رہتا ہے اور اس سے قوی وہ فرشتہ ہے جو اسے حرکت دیتا ہے اور اس سے قوی تر قہ فرشتہ موت ہے جو اسے بھی موت دے دیتا ہے اور اس سے قوی تر وہ موت ہے جس سے وہ بھی بچ نہ پائے گا اور اس سے قوی تر وہ حکم خدا ہے جو موت پر بھی حکمرانی کرتا ہے۔
امام حسن علیہ السلام کے ان جوابات میں عظیم ترین علمی ، سیاسی اور اجتماعی نکات پائے جاتے ہیں جن میں آپ نے ہر جواب سے معاویہ کو ایک اہم مسئلہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے تاکہ وہ ہدایت یافتہ نہ ہوسکے تو کم از کم اپنی طرف سے اتمام حجت کا فریضہ ادا ہو جائے۔
مثال کے طور پر حق و باطل کے فاصلہ میں سماعت و بصارت کا حوالہ دے کر اس امر کو واضح کر نا چاہا ہے کہ ہمارے پاس جو سیرت رسول ؐ ہے وہ ہمارے مشاہدے کی بنیاد پر ہے اور تیرے پاس جو سیرت ہے وہ صرف سنی سنائی ہے، اور سنی سنائی کا اعتبار مشاہدہ کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہوتا ہے، لہذا اصل دین ہمارا اور اصل مذہب ہمارا ہے۔
زمین و آسمان کے فاصلہ میں آہ مظلوم کو حوالہ دیکر اس بات کا علان کیا ہے کہ آہ مظلوم، ظالموں کے کانوں تک پہونچے یا نہ پہونچے آسمان اور عرش خدا تک بہرحال پہونچ جاتی ہے۔
قوی ترین اشیاء کی ترتیب و تدریج سے اس امر کا اعلان فرمایا ہے کہ تیرے اختیار میں صرف لوہا، پتھر، آگ یا پانی ہے اور میرے اختیار میں وہ امر خدا ہے جو ہر صاحب امر کے اختیار میں رہتا ہے اور جس سے قوی تر کوئی شئی نہیں ہے، لہذا ایسے صاحب اختیار کو مجبور سمجھ کر اس کی طاقت سے مقابلہ کرنا جہالت ، سفاہت اور حماقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
3۔ بادشاہ روم نے حضرت علی ؑ اور معاویہ کے اختلافات کا ذکر سنا تو چاہا کہ دونوں کے نمائندوں کو بلا کر صورت حال کا اندازہ کرے۔ جنانچہ اس نے فریقین کے نمائندے طلب کئے۔معاویہ نے یزید کو بھیجا اور امیر المؤمنین ؑ نے امام حسن ؑ کو۔
یزید نے بادشاہ روم کی دست بوسی کی اور امام حسن علیہ السلام نے شکر پروردگار ادا کیا ۔ اس نے چند تصویریں نکالیں جن کا کوئی شناخت کرنے والا نہیں تھا۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ جناب آدم ، نوح ،ابراہیم ، اسماعیل اور جناب شعیب علیھم السلام کی تصویریں ہیں اور ایک تصویر کو دیکھ کر رونے لگے کہ یہ میرے جد بزرگوار کی تصویر ہے۔جس پر بادشاہ روم نے یہ عجیب و غریب سوال کیا کہ وہ کون سی مخلوق ہے جو بغیر ماں باپ اور نر و مادہ کے پیدا ہوئی ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ سات مخلوق ہیں اور یہ ہیں:
جناب آدم
حضرت حوا
فدیہ اسماعیل کا دنبہ
جناب صالح کا ناقہ
جناب موسی علیہ السلام کا اژدھا
ابلیس
وہ کوا جس نے قابیل کو دفن کا طریقہ سکھایا تھا ۔
اس پر بادشاہ روم بہت خوش ہوا اور اس نے امام حسن ؑ کو بہت سارے تحفے تحائف کا نذرانہ پیش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرائع: نقوش عصمت صفحہ نمبر212-214

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button