سیدہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی المناک شہادت اور تجہیز وتدفین
شیعہ اور سنی راویوں نے ابوار فع کی زوجہ سلمیٰ “ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں حضرت زہراء (س)کی زندگی کے آخری ایام میں انکی تیمارداری میں مصروف رہی ایک دن انکی طبیعت وقتی طور پر سنبھل گئی اور انکی بیماری میں افاقہ سا محسوس ہوا ۔ حضرت علی ؑ اپنے کسی کام کے لئے گھر سے باہر چلے گئے ۔
حضرت فاطمہ ؑ نے مجھ سے فرمایا :کچھ پانی لاؤ میں غسل کرنا چاہتی ہوں اور اپنے بدن کو صاف کرنا چاہتی ہوں میں بی بی کے لئے پانی لائی آپ نے اٹھ کر اچھی طرح سے غسل کیا اور لباس تبدیل کیا ۔
پھر آپ نے مجھ سے فرمایا گھر کے درمیان میرا بستر بچھاؤ ۔( میں نے بستر بچھایا ) آپ قبلہ رو ہوکر بستر پر لیٹ گئیں ۔
پھر مجھ سے فرمایا :میں آج دنیا سے جا رہی ہوں ۔میں نے غسل کر لیا ہے اب میرا منہ کوئی نہ کھولے ۔پھر آپ نے اپنے سر کے نیچے ہاتھ ر کھا اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
روایا ت میں مذکور ہے کہ حضرت فاطمہ (س)کی وفات مغرب اور عشا کے در میان ہوئی ا ور جب آپ کی زندگی کا آخری لمحہ آیا تو آپ نے (ایک جانب ) غور سے دیکھا اور فرمایا :السلام علی جبرائیل ،السلام علی رسول اللہ ،اللھم مع رسولک ،اللھم فی رضوانک و جوارک و دارک الدار السلام ۔
یعنی جبرائیل ؑ پر سلام ،رسول خدا ؐ پر سلام ،اے پروردگار ! اپنے رسول کے ساتھ محشور کرنا ،اے پروردگار ! اپنی رضا اور اپنے جوار اور اپنے سلامتی کے گھر میں منتقل کرنا ۔
پھر آپ نے فرمایا : جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں کیا تم بھی اسے دیکھ رہے ہو ؟
گھر میں موجود افراد میں سے کسی نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھ رہی ہو؟
آپ ؑ نے فرمایا : مجھے اہل آسمان گروہ در گروہ اترتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
میں انہیں انکی اصلی شکل میں دیکھ رہی ہوں ۔ میں جبرئیل ؑ کو دیکھ رہی ہوں اور میں رسول خداؑ کو دیکھ رہی ہوں ۔ آپ مجھ سے فرمارہے ہیں بیٹی ! ہمارے پاس آجائیں آپ کے لئے آخرت کی نعمات بہتر ہیں۔
حضرت زید بن علی زین العابدین ؑ کا بیان ہے:حضرت فاطمہ ؑ نے جبرئیل اور پیغمبر اور عزرائیل ؑ کو سلام کیا تو ان شخصیات نے آپ کے سلام کا جواب دیا جسے گھر میں موجود تمام افراد نے اپنے اپنے کانوں سے سنا تھا اور اس وقت عمدہ خشبو پھیل گئی جسے حاضرین نے محسوس کیا تھا۔
اسماء بنت ِ عمیس ؒ کی روایت
اسماء بنت عمیسؒ کا بیان ہے:
حضرت سیدہؑ نے آخری لمحات میں مجھ سے فرمایا: وفات پیغمبر اکرم ؐ کے وقت جبرئیل امین ؑ جنت سے کافور لے کر آئے تھے ۔رسول خداؑ نے اس کے تین حصے کئے تھے ۔ایک حصہ انہوں نے اپنے لئے رکھا تھا اور ایک حصہ علیؑ کے حوالے کیا تھا اور ایک حصہ میرے حوالےکیا تھا۔اس کا وزن چالیس درہم ہے ۔میرے حصے کا وہ کافور فلاں جگہ رکھا ہوا ہے ۔ تم وہ کافور لے آؤ اور میرے سرہانے رکھ دو۔
یہ کہہ کر آپ نے منہ پر چادر ڈال دی اور مجھ سے فرمایا :تم کچھ دیر صبر کرنا اور میرا انتطار کرنا۔ پھر مجھے آواز دینا اگر میں جواب نہ دوں تو تم سمجھ لینا کہ میں اپنے والدہ کی خدمت میں پہنچی ہوں ۔
اسماء نے کچھ دیر صبر کیا ۔ پھر بی بی کو صداد ی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو انہوں نے کہا:
"یا بنت محمد المصطفی یا بنت اکرم من حملتہ النساء یا بنت خیر من وطا الحصی و یا بنت من کان من ربہ قاب قوسین او ادنی۔ "
یعنی اے دختر محمد مصطفیؐ اے بہترین انسان کی دختر،اے روئے زمین پر چلنے والوں سے افضل ترین شخص کی دختر اوراے اس کی دختر جو شب معراج مقام قاب قوسین پر پہنچا۔
مگر اس آواز کے بعد بھی بی بی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔
اسماء نے منہ سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ سیدہ ؑ دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔انہوں نے اپنے آپ کو سیدہ ؑ کے اوپر گرادیا ۔بی بی کا بوسہ لیا اور عرض کی۔ اے فاطمہ ؑ!جب آپ ؑ اپنے والدپیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پہنچیں تو انہیں میرا سلام عرض کرنا۔
یتیم بچے ماں کے جنازے پر :
اسماء مضطرب ہو کر گھر سے نکلیں۔ گھر کے باہر حسنؑ و حسینؑ سے ملاقت ہوئی ۔ بچوں نے ان سے اپنی والدہ کی خیریت دریافت کی ۔اسماءنے انہیں کوئی جواب نہ دیا بچے گھر کو روانہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کی والدہ قبلہ رخ لیٹی ہوئی ہیں ۔امام حسینؑ نے اپنی والدہ کے جسد اطہر کو حرکت دی تو معلوم ہوا کہ ان کی والدہ اس جہان فانی سے کوچ کر چکی ہیں انہو ں نے اپنے بھائی امام حسنؑ کی طرف رخ کرکے کہا ۔اجرک اللہ فی الوالدۃ یعنی اللہ تمہیں تمہاری والدہ کے صدمے پر اجر عطا فرمائے۔
امام حسنؑ نے اپنے آپ کو ماں پر گرادیا ۔کبھی والدہ کوچومتے اور کبھی کہتے امی جان!آپ مجھ سے بات کریں ورنہ میری روح نکل جائے گی ۔پھر امام حسینؑ نے اپنی والدہ طاہرہ کے قدم چومے اور کہا : امی جان !میں آپ کا بیٹا حسین ہوں ۔اس سے پہلے کہ میرادل پھٹ جائے اور میں مر جاؤں ،آپ مجھ سے گفتگو کریں۔
حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع
اسماء نے حسنین کریمین ؑ سے کہا کہ تم دونوں اپنے والد کے پاس جاؤ اور انہیں اپنی والدہ کی موت کی خبر دو۔
حسنین کریمین ؑ گھر سے نکلے تو ان کی زبان سے یہ کلمات جاری تھے یا محمد اہ !یا احمداہ ! الیوم جدد لنا موتک اذ ماتت امنا۔ یعنی اے محمد مصطفیٰؐ ! آہ اے احمد مجتبیؑ! آج آپ کی موت کا صدمہ ہمارے لئے پھر تازہ ہوگیا ہے آج ہماری والدہ دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔
حسنین کریمینؑ مسجد میں آئے جہاں حضرت علیؑ پہلے سے موجود تھے ۔ بچوں نے اپنے والد کو اپنی امی کی موت کی خبر دی ۔اس خبر کو سن کر حضرت علیؑ بےتاب ہو کر زمین پر گرپڑے ۔آپ کے چہرہ اطہر پر پانی ڈالا گیا۔جب آپ کی طبیعت کچھ سنبھلی تو آپ نے درد مندانہ لہجے میں کہا ۔لمن العزآء یا بنت محمد کنت بک اتعزی ففیم العزء من بعدک یعنی اے بنت محمد ! اب میں کس سے تسلی حاصل کروں گا۔ جب تک تم زندہ تھیں تو تمہیں دیکھ کر مجھے تسلی ہوتی تھی ، اب تمھارے بعد مجھے کس سے تسلی ملے گی۔
حضرت علی علیہ السلام جنازہ سیدہ پر
مشہور مورخ مسعودی نقل کرتے ہیں۔
جب حضرت سیدہ ؑکی وفات ہوئی تو حضرت علیؑ سخت بے تاب ہوئے اور بہت روئےاور آپ ؑ نے یہ مرثیہ پڑھا،
لکل اجتماع من خلیلین فرقۃ و کل الذی دون الممات قلیل
وان افتقادی فاطمۃ بعد احمؐد دلیل علی ان لا یدوم خلیل
دو دوستوں کے اجتماع کا انجام جدائی ہے اور موت کے علاوہ ہر مصیبت قابل برداشت ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کے بعد فاطمہ ؑ کا دنیا سے رخصت ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بھی دوست ہمیشہ نہیں رہتا ۔
راوی کہتا ہے کہ حضرت علیؑ نے اپنے صاحبزادوں کو اٹھایا اور انہیں لے کر اس کمرے میں آئے جہاں حضرت سیدہؑ کا جنازہ رکھا ہوا تھا ۔ جنازے کی پائتی کی طرف اسماء بنت عمیس رورہی تھیں اور کہہ رہی تھیں اے یتیمان محمد ؐ! ہم پیغمبر اکرم کے بعد فاطمہؑ کے ذریعے سے اپنے آپ کو تسلی دیتے تھے اب ہم کس سے اپنے آپ کو تسلی دیں گے۔
سیدہ فاطمہ ؑ کا تحریر ی وصیت نامہ
امیرالمومنین ؑ نے سیدہؑ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو آپ نے سیدہؑ کے سر کے قریب ایک خط رکھا ہوا دیکھا ۔ آپ نے اسے اٹھا کر پڑھا تو اسمیں لکھا ہوا تھا:
یہ ہے فاطمہؑ کی وصیت
1۔فاطمہ ؑ گوہی دیتی ہے کہ خدا واحد لاشریک ہے۔محمد ؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
جنت و دوزخ حق ہے اور قیامت قائم ہونے میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے اٹھا ئے گا۔
یاعلیؑ! میں فاطمہؑ بنت محمؐد ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے نکاح میں دیا تاکہ میں دنیا و آخرت میں آپ کی زوجہ ر ہوں آپ میرے لئے دوسروں سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ:حنطنی وکفنی بالیل وصل علی ادفنی بالیل ولا تعلم احدا۔۔۔۔الی آخر
مجھے رات کے وقت غسل و کفن اور حنوط دینا اورمیری نماز جنازہ پڑھنا ۔رات کے وقت مجھے دفن کرنا اور کسی کو اطلاع نہ دینا ۔ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتی ہوں اور میری اولاد کو روز قیامت تک میرا سلام پہنچے۔
مسلمانوں پر سیدہ ؑکی موت کا اثر
روایت ہے کہ اہل مدینہ کو جیسے ہی حضرت سیدہؑ کی وفات کا علم ہواا تو ان کے نالہ و بکا کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ بنی ہاشم کی خواتین حضرت سیدہؑ کے گھر آئیں اور انہوں نے اتنا گریہ وبکا کیا کہ شہر مدینہ لرز تا ہوا محسوس ہوتا تھا ۔ خوتین بنی ہاشم باربار کہتی تھیں : یا سیدتاہ یا بنت رسول اللہ ۔ یعنی ہائے سیدہؑ! ہائے دختر پیغمبر ۔
مدینہ کے مرد بہت بڑی تعداد میں جمع ہو کر حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
جہاں حضرت علیؑ فرش عزا پر بیٹھے تھے اور ان کے آگے حسن ؑ وحسینؑ بیٹھے رو رہے تھے ۔لوگ بھی شہزادوں کو روتا ہوا دیکھ کر رونے لگے۔حضرت ام کلثوم ؑ اس حالت میں گھر سے باہر نکلیں کہ ان کے چہرے پر نقاب تھا اور ان کے سر پر چادر تھی اور چادر کا پلو زمین پر گھسٹتا جاتا تھا ان کا گریہ انہیں بیتاب کررہا تھا بی بی سیدھی نانا کے مزار پر گئیں اور قبر مطہر پر رو روکر کہا۔
یا ابتاہ! یا رسول اللہ ! الان حقا فقدناک فقدا لا لقآء بعدہ ابدا۔اے نانا جان ! آج ہم نے آپ کو پوری طرح کھودیا ہے جس کے بعد ملاقات کا کوئی امکان نہیں ۔
شہزادوں کے یہ جملے سن کر لوگوں کی چیخیں نکل گیئں اور ہر طرف سے گریہ و بکا کی آواز یں ہونے لگیں ۔ تمام حاضرین بے تابی سے بی بی کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے تاکہ وہ نماز جنازہ پرھ سکیں ۔
اتنے میں حضرت ابوزر ؒ گھر سے باہر آئے اور لوگوں سے کہا :آپ حضرات چلے جائیں ابھی جنازے کے باہر آنے میں دیر ہے۔
یہ اعلان سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
غسل و کفن اورنماز جنازہ
جیسے ہی رات ہوئی تو حضرت علیؑ نے دختر پیغمبر کو غسل دیا اور غسل کے وقت امام حسن ؑ و حسین ؑ اور شہزادی زینؑب و ام کلثومؑ کے علاوہ فضہ ؒاور اسماء بنت ِ عمیس ؒ کے علاوہ اور کوئی موجود نہ تھا۔
اسماء بنتِ عمیس کا بیان ہے کہ حضرت سیدہ ؑ کو غسل حضرت علی ؑ نے دیا اور میں ان کی مدد کرتی رہی۔
روایت میں مذکور ہے کہ غسل دیتے وقت حضرت علیؑ یہ الفاظ دہراتے رہے:
اے پروردگار ! فاطمہ ؑ تیری کنیز اور تیرے منتخب رسول ؐ کی بیٹی ہے ۔ خدایا ! اسے اپنی حجت تلقین فرما اور اس کی برہان کو عظیم بنااوراس کےدرجہ کو بلند و بالا فرما اور اسے اس کے والد محمد مصظفیٰ کا ہم نشین بنا۔
روایت میں مذکور ہے کہ حضرت سیدہ ؑ کے جسد اطہر کو اسی کپڑے سے خشک کیا گیا جس سے رسول خدا ؑ کے جسم اطہر کو خشک کیا گیا تھا ۔ جب غسل مکمل ہوا تو حضرت علی ؑ نے (اپنی زوجہ طاہرہ کو کفن پہنایا پھر) بی بی کے جنازے کو تابوت نما چارپائی پر رکھ دیا گیا اور آپ نے امام حسنؑ سے فرمایا کہ تم ابوزر کو اطلاع دو ۔ابوزر آئے ۔بی بی کا جنازہ اٹھا یا گیا اور وہاں لایا گیا جہاں نماز جنازہ پڑھی جاتی تھی ۔حسنؑ وحسینؑ ماں کے جنازے میں شریک تھے ۔حضرت علیؑ نے بی بی کی نماز جنازہ پڑھائی۔
بچے ماں کا آخری دیدار کرتے ہیں:
ورقہ کی روایت میں ہےکہ امیر المومنین ؑ کا بیان ہے:
میں نے فاطمہ زہرا ؑ کو غسل دیا اور میں نے غسل کے لئے ان کے پیراہن کو جدا نہیں کیا تھا ۔ خدا کی قسم ! فاطمہؑ پاک و پاکیزہ تھیں ۔ غسل کے بعد رسول خدا کے بچے ہوئے کافور سے میں نے انہیں حنوط کیا ،انہیں کفن پہنایا اور کفن کے بند باندھنے سے قبل میں نے اپنے بچوں اور فضہ ؒ کو آواز دے کر کہا۔
یا حسن ؑ یاحسین ؑ یازینب یا ام کلثوم یا فضہ ھلموا و تزودوا من امکم فھذا الفراق و اللقاء فی الجنۃ۔یعنی اے حسن ؑ ، اے حسینؑ ،اے زینب ؑ،اے ام کلثوم اور فضہ! آؤ ماں کا دیدار کرلو ۔ماں تم سے جدا ہوتی ہے ، پھر جنت میں اس سے ملاقات ہوگی۔
حسن ؑو حسینؑ آگے بڑے اور رو رو کر کہا ۔
وا حسرتا ہ لا تنطفی ابدا من فقد جدنا محمد المصطفیٰ و ا منا فاطمۃ الزہرآء
یعنی ہائے ہمارے نا نا محمد مصطفیٰ اور ہماری ماں فاطمہ زہرا ءکی جدائی ایک ایسی حسرت ہے جس کے شعلے نہیں بجھیں گے۔
پھر بچوں نے ماں کو مخاطب کرکے کہا : امی جان ! جب ہمارے نانا سے آپ کی ملاقات ہو تو ان سے کہنا کہ ہم دنیا میں یتیم ہوچکے ہیں۔
امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں۔ انی اشھد اللہ انھا جنت و انت و مدت یدیھا و ضمتھما الی صدرھا ملیّا
یعنی میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس وقت بنت پیغمبر ؐ کے کفن سے آہ ونالہ کی آواز آئی اور زہرا ؑ نے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکالے اور حسنؑ و حسین ؑ کو سینے سے لگایا ۔ اس وقت ہاتف نے آسمان سے یہ صدادی:
یا ابالحسنؑ ! ارفعھما عنھا فلقد ابکیا واللہ مالئکۃ السمآء و قد اشتاق الحبیب الی حبیبہ۔
یعنی اے علی ؑ ! ان دونوں بچوں کو ماں کی میت سے جدا کرو ۔ انہوں نے آسمان کے فرشتوں کو رولادیا ہے جبکہ حبیب اپنی حبیبہ کا مشتاق ہے۔ حضرت علی ؑ یہ آواز سن کر آگے بڑھے ، ماں کے سینے سے لپٹے ہوئے بچوں کو تسلی دی اور انہیں ماں سے جدا کیا ۔
سیدہ طاہرہ ؑکا کفن
روایت ہے کہ کثیر بن عباس نے حضرت زہراء ؑ کے کفن کے ایک کونے پر یہ عبارت لکھی تھی:
ان فاطمۃ تشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔یعنی فاطمہ گوہی دیتی ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفیٰ ؐ اللہ کے رسول ہیں۔
کتاب”مصباح الانوار “کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہراؑ کا کفن موٹے اور کھردرے کپڑے کے ٹکڑوں پر مشتمل تھا کیونکہ اس کتاب میں مروی ہے کہ حالت احتضار میں حضرت سیدہؑ نے پانی کا ایک برتن طلب کیا اور اس پانی سے غسل کیا پھر انہوں نے خوشبو طلب کی اور اس سے حنوط کیا۔(یعنی اسلام کے حکم کے مطابق آپ نے سات اعضائے سجدہ پر خوشبو لگائی )آپ نے لباس طلب کیا تو آپ کی خدمت میں موٹا اور کھر درا لباس پیش کیا گیا ۔آپ نے وہ لباس زیب تن فرمایا ۔۔۔تا آخر روایت
نماز جنازہ اور تدفین
کتاب روضۃ الواعظین میں منقول ہے:
رات ہوئی اور لوگ سوگئے۔رات کا ایک حصہ گزرا تو حضرت علیؑ ،حسنؑ ،حسینؑ عمارؒ،مقدادؒ،عقیلؒ،زبیرؒ،ابوذرؒ،سلمان ؒاور بریدہؒ کے علاوہ بنی ہاشم کے چند خاص افراد بی بی کے جنازے کو گھر سے باہر لائے ،بی بی کی نمازجنازہ پڑھی رات کے وقت بی بی کو سپر د خاک کیا گیا ۔ حضرت علیؑ نے بی بی کی قبر کے ارد گرد دوسری سات قبریں بنائیں تاکہ حضرت سیدہؑ کی قبر پہچانی نہ جاسکے ۔
مصباح الانوار میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا : امیر المومنینؑ نے حضرت سیدہ ؑ کے جنازے میں کتنی تکبیریں کہی تھیں؟
آپ نے فرمایا : امیرالمومنین ؑ جب ایک تکبیر کہتے تھے تو آپ کے بعد جبرئیل ؑ ایک تکبیر کہتے تھے ،پھر ملائکہ مقربین تکبیر کہتے تھے ۔یہاں تک کہ آپ نے پانچ تکبیریں مکمل کیں ۔
ایک اورشخص نے پوچھا :حضرت سیدہؑ کی نماز جنازہ کس جگہ پڑھی گئی؟
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا :سیدہ ؑ کی جنازہ ان کے گھر میں ادا کی گئی،اس کے بعد جنازہ کو باہر لایا گیا اور تدفین کی گئی۔
کتاب ” بیت الاحزان” سے اقتباس (مصنف: محدث اکبر شیخ محمد عباس قمی ؒ)