مجالسمصائب حضرت فاطمہ زھرا ؑمکتوب مصائب

احوال زندگانی سیدہ سلام اللہ علیھا بعد از رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پوری کائنات کےلئے سب سے بڑا المیہ تھا۔ آپؐ کی وفات نے ہر چھوٹے بڑے، مرد و عورت کو یکساں متاثر کیا۔ مدینہ کا پورا شہر گریہ و عزا کے شہر میں تبدیل ہو گیا۔ لوگوں کی آنکھوں سے سیلاب اشک جاری ہوا اور مدینہ کے ہر کونے سے گریہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ آپؐ کی وفات سے حجاج بیت اللہ کے احرام باندھنے کا سا منظر پیدا ہو گیا۔ جس طرح سے حجاج احرام باند ھ کر روتے ہیں اور ان کے رونے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اسی طرح سے اہل مدینہ کے رونے کی آوازوں سے کان پڑی سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر شخص آپ کی موت پر گریہ و بکا کر رہا تھا۔ آنحضرتؐ کی موت جہاں اہل مدینہ کے لئے عظیم صدمہ تھی وہاں آپؐ کے اہلبیتؑ کے لئے قیامت صغریٰ بپا ہونے کا سبب تھی۔ آپؐ کی موت امیر المؤمنینؑ کے لئے صدمہ جانکاہ تھی۔ امیر المؤمنینؑ پر پڑنے والی مصیبت اگر پہاڑوں پر پڑتی تو وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے۔
آنحضرتؐ کے خاندان کے بعض افراد شدت غم میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ انہیں دنیا کی کسی چیز کا ہوش تک نہ تھا اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں تک سلب ہو چکی تھیں۔
الغرض رسول خداؐ سے جس شخص کا جتنا تعلق تھا وہ اس صدمے سے اتنا ہی متاثر ہوا بعض رو رہے تھے، بعض بین کر رہے تھے اور بعض شدید بے تابی اور جزع و فزع میں مبتلا تھے۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات نے جہاں تمام مسلمانوں کو بالعموم اور ان کے خاندان کو بالخصوص متاثر کیا تھا۔ وہاں سیدہ کے لئے قیامت کبریٰ قائم کر دی تھی۔ حضرت سیدہؑ کے غم و اندوہ کا اندازہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ بی بی کے غم میں ہر روز مسلسل اضافہ ہوتا رہتا تھا، آپ کے گریہ و بکا کی آوازیں روزانہ بلندہ سے بلند تر ہوتی رہتی تھیں اور آپ کا دردِ دل روزانہ بڑھتا ہی رہتا تھا۔
بابا کی قبر پر گریہ و بکاء
راوی کا بیان ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کی وفات کے بعد سات دن تک حضرت سیدہؑ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ آٹھویں دن پیغمبر اکرمؐ کی قبر کی زیارت کےلئے گھر سے باہر نکلیں، اس وقت آپ کی آنکھوں سے سیلاب اشک رواں تھا۔ آپ کی چادر کا پلو زمین پر گھسٹ رہا تھا اور آپ کی چادر آپ کے پاؤں میں لپٹ جاتی تھی۔ شدت گریہ کی وجہ سے آپ کو کچھ دکھائی تک نہ دیتا تھا۔ آپ بڑی مشکل سے اپنے والد کے قبر پر آئیں۔ جیسے ہی آپ قبر مطہر پر پہنچیں تو قبر منور پر گر پڑیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ مدینہ کی دوسری مستورات دوڑتی ہوئی آئیں اور انہوں نے آپ کے چہرے پر پانی کے چینٹے مارے جس سے آپ ہوش میں آئیں۔ آپ نے روکر اپنے والد سے یوں خطاب کیا:
ابا جان! میری طاقت ختم ہو گئی، میرا صبر جواب دے گیا، میرے دشمن میرے صدمے سے خوش ہیں۔ آپ کی موت کا صدمہ مجھے ہلاک کر دے گا۔
ابا جان! میں اکیلی رہ گئی ہوں اور سرگرداں و پریشاں ہوں۔
ابا جان! میری آواز خاموش ہوگئی، میری کمر ٹوٹ گئی، میری زندگی بدمزہ ہو گئی اور میرا زمانہ مکدر ہوگیا۔
ابا جان! آپ کے بعد مجھے کوئی اپنا مونس دکھائی نہیں دیتا اور میرے آنسوؤں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔
پھر آپ نے دردمندانہ لہجے میں یہ اشعار پڑھے:
إن حزني عليك حزن جديد * وفؤادي والله صب عنيد
كل يوم يزيد فيه شجوني * واكتيابي عليك ليس يبيد
يا أبتاه من للأرامل والمساكين * ومن للأمة إلى يوم الدين
يا أبتاه أمسينا بعدك من المستضعفين * يا أبتاه أصبحت الناس عنا معرضين
فأي دمعة لفراقك لا تنهمل؟ * وأي حزن بعدك عليك لا يتصل؟
وأي جفن بعدك بالنوم يكتحل * رميت يا أبتاه بالخطب الجليل
آپ کا غم ہر وقت میرے لئے تازہ ہے۔ خدا گواہ ہے کہ میرا دل اس سے سخت متاثر ہے۔ ہر روز میرے غموں میں اضافہ ہو رہا ہے اور آپ کے فراق کا غم ختم نہیں ہوگا۔
ابا جان! آپ کے بعد بیوگان اور مساکین کا مددگار کون ہے اور قیامت تک آپ کی امت کا نگہبان کون ہے؟
اباجان! آپ کے بعد ہمیں کمزور بنا دیا گیا اور لوگوں نے ہم سے منہ موڑ لیا۔
اباجان! وہ آنسو ہی کیا جو آپ کی جدائی پر نہ بہے اور وہ غم ہی کیا جو آپ کے بعد ختم ہو جائے۔ آپ کی رحلت کے بعد کونسی آنکھ نیند کا سرمہ لگائے گی۔ اباجان! مجھ پر عظیم مصیبت ٹوٹی ہے۔
ابا جان! آپ کی رحلت کوئی معمولی مصیبت نہین ہے، آپ کا منبر ویران ہو چکا ہے اور آپ کی محراب سے صدائے مناجات سنائی نہیں دیتی۔ لیکن آپ کی قبر آپ کو اپنے اندر لے کر خوش ہے۔ میرے حال پر افسوس یہاں تک کہ آپ سے ملاقات کروں۔
پھر آپ نے ٹھنڈی سانس بھری جس سے آپ کی روح پرواز کرنے کے قریب ہو گئی اور آپ نے یہ اشعار پڑھے:
قل صبري وبان عني عزائي * بعد فقدي لخاتم الأنبياء
عين يا عين أسكبي الدمع سحا * ويك لا تبخلي بفيض الدماء
يا رسول الاله يا خيرة الله * وكهف الأيتام والضعفاء
لو ترى المنبر الذي كنت تعلوه * علاه الظلام بعد الضياء
يا إلهي عجل وفاتي سريعا * فلقد تنغصت الحياة يا مولائي
جب سے میں نے خاتم الانبیاءؐ کو کھویا ہے تب سے میرا صبر کم ہو گیا اور میرا قرار جاتا رہا۔
اے آنکھ! اے آنکھ! دل کھول کر آنسو بہا، تجھ پر افسوس خون بہانے سے بھی دریغ نہ کر۔
اے اللہ کے رسولؐ! اے اللہ کے مختار اور یتیموں، ضعیفوں کو پناہ دینے والے! آپ اس منبر کو دیکھیں جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے کہ اس پر روشنی کے بعد تاریکی چھا گئی ہے۔
خدایا! مجھے جلدی سے موت دے دے۔ میرے مولا! میں زندگی سے تنگ آچکی ہوں۔
گریۂ زہراءؑ اور اہل مدینہ کی جفا
اس کے بعد حضرت سیدہ اپنے گھر تشریف لائیں۔ گھر میں آپ دن رات روتی رہتی تھیں اور کسی طرح سے بھی آپ کو قرار میسر نہ آتا تھا جس سے مدینہ کے لوگ تنگ آگئے۔ چند بزرگ حضرت علیؑ کے پاس آئے اور کہا: فاطمہؑ دن رات روتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ہم رات کو سو نہیں سکتے اور دن کو سکون حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ ان سے کہیں کہ وہ اگر رات کو روئیں تو ہم دن کو آرام کریں اور اگر وہ دن کے وقت روئیں تو ہم رات کو آرام کریں۔
حضرت علیؑ نے کہا: میں تم لوگوں کا پیغام انہیں پہنچا دوں گا۔
امیر المؤمنینؑ گھر میں تشریف لائے اور اپنی زوجہ کو روتے ہوئے پایا۔ حضرت سیدہؑ نے اپنے شوہر کو دیکھا تو کچھ دیر کےلئے خاموش ہوگئیں۔
حضرت علیؑ نے ان سے کہا: مدینے کے بزرگوں نے مجھ سے تقاضا کیا ہے کہ آپؑ رونے کا وقت مقرر کریں۔ یا دن کو روئیں یا رات کو روئیں۔
حضرت سیدہؑ نے عرض کی: اے ابوالحسنؑ! ان لوگوں میں میری زندگی بہت کم رہ گئی ہے اور میں عنقریب یہاں سے رخصت ہو جاؤں گی۔ خدا کی قسم! میں مسلسل اپنے والد کو روتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ میں ان کے پاس چلی جاؤں۔
حضرت علیؑ نے فرمایا: آپ مختار ہیں جو چاہیں کریں۔
اس کے بعد حضرت علیؑ نے بی بی کے لئے قبرستان بقیع میں ایک سائبان تیار کیا جس کا نام بیت الاحزان رکھا گیا۔
حضرت فاطمہؑ روزانہ حسنؑ و حسینؑ کو ساتھ لے کر بیت الاحزان میں چلی جاتیں تھیں جہاں شام تک آپ اپنے والد کو رویا کرتی تھیں اور جیسے ہی شام ہوتی حضرت علیؑ وہاں آتے اور بی بی کو ساتھ لے کر گھر آ جاتے تھے۔
بی بی کے جگر سوز اشعار
روایت ہے کہ رسولِ خداؐ کی وفات اور اہل اقتدار کی طرف سے ظلم و ستم سہنے کی وجہ سے بی بی بیمار ہو گئیں۔ آپ اتنی کمزور اور لاغر ہو گئی تھیں کہ آپ کے جسم اطہر کا گوشت تحلیل ہو گیا تھا اور آپ کا وجودِ اطہر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
روایات میں ہے کہ حضرت سیدہؑ، خاتم الانبیاء کی وفات کے بعد ہمیشہ سر پر غم کی پٹی باندھے رہتی تھیں، شدت غم سے آپ کا جسم اطہر روز بروز تحلیل ہونے لگا تھا اور آپ کا دل جلتا رہتا تھا۔ فراقِ پدر کی وجہ سے آپ کی آنکھیں روتی رہتی تھیں۔ کبھی بے ہوش ہو جاتیں اور کبھی ہوش میں آجاتی تھیں۔ آپ اپنے فرزندوں سے مسلسل یہ کہا کرتی تھیں:
تمہارا وہ باپ کہاں ہے جو تمہیں ہمیشہ عزیز رکھتا تھا؟
تمہارا وہ باپ کہاں ہے جو تمہیں اپنے کندھوں پر سوار کئے رہتا تھا؟
تمہارا وہ باپ کہاں ہے جو تمہارے لئے از حد شفیق اور مہربان تھا؟
تمہارا وہ باپ کہاں ہے جو تمہیں زمین پر چلنے نہ دیتا تھا اور ہر وقت تمہیں اٹھائے رہتا تھا؟
اب وہ دروازہ پھر کبھی نہ کھلے گا اور پھ رتمہارا باپ تمہیں اپنے گندھے پر سوار نہ کرےگا۔
رسول خداؐ نے زندگی کے آخری لمحات میں اپنی بیٹی کے متعلق جو کچھ فرمایا تھا وہ سچ لگ جاتیں اور کبھی والد کے فراق کو یاد کرتیں تو بین کرنے لگ جاتیں۔ جب رات کا پچھلا پہر ہوتا اور آپ کو اپنے والد کی تلاوت قرآن کی دلنشین آواز سنائی نہ دیتی تو آپ وحشت زدہ ہو جاتیں اور کبھی آپ اپنی موجودہ زندگی کا موازنہ اپنے والد کے زمانوں کی زندگی سے کرتیں جس میں آپ کو عزت و حشمت حاصل تھی تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی تھیں۔
آپ اپنے والد کی قبر اطہر پر آتیں اور بابا کے مرثیے میں یہ اشعار پڑھتی تھیں:
ماذا عَلى من شم تُربة أَحمَد * أَن لا يشم مَدى الزَمان غَواليا
صبت علي مَصائب لَو انَّها * صبت عَلى الأَيام صرنَ لَياليا
جس نے زندگی میں تربت احمدؐ کی خوشبو کو سونگھ لیا تو وہ اگر پوری زندگی کوئی دوسری خوشبو نہ سونگھے تو اسے فرق نہیں پڑے گا۔ مجھ پر اتنے مصائب آئے کہ اگر وہ مصائب دنوں پر نازل ہوتے تو وہ وراتوں میں بدل جاتے۔
بجانم ریختہ چندان غم و درد و مصیبتہا
کہ گر بر روزہا ریزند کر دد تیرہ چوں شبہاْ
کبھی آپ یہ اشعار پڑھتی تھیں:
اِذا ماتَ يَوْماً مَيِّتٌ قَلَّ ذِكرُه * وَذِكْرُ اَبي مُذْ ماتَ وَاللهِ ازید
تَذكّرت لمّا فرّق الموتُ بيننا * فَعزّيتُ نفسي بالنبيّ محمّدِ
فَقُلتُ لها إِنّ المَمات سبيلُنا * وَمَن لَم يَمت في يومهِ ماتَ في غدِ
مرنے کے بعد ہر شخص کا ذکر کم ہو جاتا ہے۔ خدا کی قسم! موت کے بعد میرے والد کا ذکر زیادہ ہو چکا ہے۔ جب موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈالی تو میں نے اپنے آپ کو رسول اکرم محمد مصطفیٰؐ کے ذریعے سے تسلی دی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ موت ہی ہمارا راستہ ہے او جو آج نہ مرا وہ کل ضرور مرے گا۔
کبھی آپ یہ اشعار پڑھتی تھیں:
إذا اشتد شوقي زرتُ قبرك باكيا * أنوح وأشكو لا أراك مجاوبي
فيا ساكن الصحراء علّمتني البكا * وذكرك أنساني جميع المصائب
فإن كنتَ عنّي في التراب مغيّبا * فما كنتَ عن قلبي الحزين بغائبِ
جب میے شوق دیدار میں اضافہ ہوتا ہے تو میں روتے ہوئے آپ کی قبر کی زیارت کرتی ہوں۔ آپ کی قبر پر نوحہ پڑھتی ہوں اور جدائی کا شکوہ کرتی ہوں لیکن آپ مجھے جواب نہیں دیتے۔ دامن خاک میں آرام کرنے والے! اپ نے مجھے رونا سکھا دیا اور آپ کے ذکر نے مجھے تمام مصائب فراموش کرا دیئے۔ اگر چہ آپ مجھ سے جدا ہو کر مٹی میں چھپ گئے ہیں لیکن آپ میرے غمگین دل سے غائب نہیں ہیں۔
حضرت امیر المؤمنینؑ نے رسول خداؐ کے جنازۂ اطہر کو ایک پیراہن میں غسل دیا تھا۔ ایک دفعہ حضرت سیدہؐ نے ان سے اس پیراہن کے دیکھنے کی خواہش کی تو حضرت علیؑ نے وہ پیراہن انہیں دکھایا۔ بی بی نے جیسے ہی وہ پیراہن دیکھا تو اسے منہ پر رکھ کر اسے خوشبوئے نبوت سونگھا اور بے ہوش ہو گئیں۔
جب حضرت علیؑ نے ان کی یہ حالت ملاحظہ کی تو آپ نے وہ پیراہن اٹھا لیا او بی بی سے چھپا دیا۔
سیدہؑ اور اذانِ بلال(رض)
رسول خداؐ کی وفات کے بعد بلالِ حبشی نے اذان دینی چھوڑ دی تھی (تاکہ اس اذان کو کسی کی تائین نہ سمجھا جائے۔)
ایک مرتبہ حضرت سیدہؑ نے فرمایا: میری خواہشن ہے کہ میں اپنے والد کے مؤذن کی آواز میں اذان سنوں۔
جیسے ہی بلال کو بی بی کی خواہش کا علم ہوا تو انہوں نے اذان دی۔ جب انہوں نے اللہ اکبر کہا تو بی بی کو اپنے والد کا زمانہ یاد آیا۔ آپ بے ساختہ رونے لگیں جب بلال اشھد ان محمد رسول اللہ پر پہنچے تو بی بی نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئیں۔
لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان ختم کرو۔ رسول خداؐ کی بیٹی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ہیں۔ بلال نے اذان روک دی اور جب سیدہ کو ہوش آیا تو آپ نے ان سے اذان مکمل کرنے کی خواہش کی۔
بلال نے بڑے ادب سے معذرت کرتے ہوئے کہا: سیدۃ النساءؑ! میں اس خدمت سے معافی چاہتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میری اذان سن کر آپ کو کوئی صدمہ نہ پہنچے۔
حضرت سیدہؑ نے بلال کو معاف کر دیا۔
سیدہؑ شہدائے اُحد کی قبور پر
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت فاطمہؑ، رسول خداؐ کے بعد پچہتر دن تک زندہ رہیں اور اس تمام مدت میں خسی نے آپ کو خوش ہوتے اور ہنستے ہوئے نہ پایا۔ آپ ہر ہفتے میں دو بار یعنی پیر اور جمعرات کے دن شہدائے احد کی قبروں پر جاتی تھیں اور وہاں اشارہ کر کے کہتی تھیں ”رسولِ خداؐ یہاں تھے اور مشرکین یہاں تھے۔“ (احد کی جنگ سے مراد تھی۔)
ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ حضرت سیدہ وہاں نماز پڑھتی تھیں اور دعا مانگتی تھیں اور زندگی کے آخری ایام تک آپ کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔
محمود بن لبید کا بیان ہے: رسول خداؐ کی وفات کے بعد فاطمہؑ شہدائے احد کی قبروں پر آتی تھیں اور حضرت حمزہ کی قبر کے کنارے بیٹھ کر رویا کرتی تھیں۔
ایک دن میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ بی بی، حضرت حمزہ کی قبر پر بیٹھ کر رورہی تھیں۔ میں نے انہیں ان کے حال پر رہنے دیا۔ جب سیدہ رو چکیں تو میں ان کے حضور حاضرہوا اور میں نے سیدہؑ کو سلام کر کے عرض کیا: سیدۃ النسآءؑ! آپ کے دردناک بین سن کر میرے دل کے ٹکڑے ہو گئے۔
آپ نے فرمایا: اے ابو عمر! مجھے رونا ہی چاہیئے کہ میں دنیا کے سب سے بہتر والد حضرت رسول خداؐ کو کھو چکی ہوں۔ آہ! میں ان کے دیدار کی کس قدر مشتاق ہوں۔
پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
اذ مات میت قل ذکرہ و ذکر ابی مذمات واللہ اکثر
ہر مرنے والال کا ذکر اس کی موت کی وجہ سے کم ہو جاتا ہے لیکن خدا کی قسم میرے والد کی وفات کے بعد ان کا ذکر بڑھ گیا ہے۔
جنابِ سیدہؑ کی دعا اور ان کی وصیت
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: رسول خدا کی رحلت کے ساٹھ دن بعد حضرت زہراؑ بیمار ہوئیں اور جب ان کی بیماری میں شدت پیدا ہوئی تو آپ نے یہ دعا پڑھی: يا حي يا قيوم ، برحمتك استغيث فأغثني ، اللهم زحزحني عن النار ، وادخلني الجنة ، والحقني بابي محمد صلى الله عليه واله۔یعنی اے زندہ و توانا خدا! میں تیری رحمت کی پناہ لیتی ہوں، تو مجھے پناہ دے۔ مجھے آتش دوزخ سے دور رکھ۔ مجھے جنت میں داخل فرما اور مجھے میرے والد محمد مصطفیٰؐ سے ملحق فرما۔
حضرت علیؑ نے سیدہ سے فرمایا: خدا تمہیں عافیت عطا کرے گا اور تمہیں زندگی دے گا۔
حضرت سیدہؑ کہتی تھیں: خدا کے حضور پیش ہونے کا وقت بالکل قریب آچکا ہے۔
حضرت سیدہؑ نے حضرت علیؑ کو وصیت کی: میری وفات کے بعد ”امامہ“ بنت ابو العاص سے شادی کرنا، وہ میری بہن زینب کی بیٹی ہے اور میری اولاد کےلئے مہربان ثابت ہوگی۔
ایک اور روایت میں مذکورہ ہے:
حضرت سیدہؑ نے اپنے شوہر سے عرض کی: میں آپ سے ایک حاجت رکھتی ہوں۔
حضرت علیؑ نے فرمایا: میں آپ کی حاجت پوری کروں گا۔
حضرت فاطمہؑ نے عرض کی: آپ کو خدا اور میرے والد محمد مصطفیٰؐ کی قسم دیتی ہوں کہ ابو بکر و عمر میری نماز جنازہ میں شامل نہ ہوں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ میں نے آج تک وکوئی چیز اپ سے نہیں چھپائی۔ رسول خدا نے مجھ سے فرمایا تھا:
يا فاطمة انك اول من يلحق بي من اھل بيتي فكنت اكره ان اسوئك
یعنی اے فاطمہؑ! میرے اہل بیت میں سے تو سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوگی۔
اور میں آپ کو یہ بات بتا کر پریشنان نہین کرنا چاہتی تھی۔
امام باقرعلیہ السلام کا فرمان ہے:
رسول خداؐ کی وفات کے پچاس دن بعد حضرت زہراءؑ کی بیماری کا آغاز ہوا۔ اس بیماری سے بی بی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مزید زندہ نہ رہ سکیں اسی لئے انہوں نے حضرت علیؑ سے وعدہ لیا کہ وہ ان کی وصیت پر ہر صورت پر عمل کریں گے۔ حضرت امیر المؤمنینؑ نے جو کہ حضرت زہراءؑ کی وفات سے فکرمند تھے، وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی وصیت پر عمل کریں گے۔
حضرت فاطمہؑ نے عرض کی: اے ابو الحسنؑ! رسول خداؐ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ان کے اہل بیتؑ میں سے سب سے پہلے میںہی ان سے ملاقات کروں گی۔ اسی لئے خٰدا کے حکم پر صبر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ تقدیر خداوندی پر آپ کو راضی رہنا چاہیئے۔ رات کے وقت مجھے غسل و کفن دے کر دفن کر دینا۔
حضرت علیؑ نے حضرت سیدہؑ کی وصیت پر عمل کیا۔
ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ زہراءؑ نے فرمایا: مجھے خواب میں رسول خدا کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ان سے شکایت کی۔ رسول خداؐ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے لئے آخرت کا ابدی گھر ہے جو پرہیزگاروں کےلئے تیار کیا گیا ہے اور تم جلد ہی ہمارے پاس آجاؤ گی۔
کتاب ” بیت الاحزان” سے اقتباس (مصنف: محدث اکبر شیخ محمد عباس قمی ؒ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button