محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاام المومنین حضرت عائشہ کی نگاہ میں

تحریر نگار: علامہ تقی عباس رضوی
حیات طیبہ کا مختصر تعارف:
حضرت فاطمہؑ رسول اللہؐ اور حضرت خدیجہؑ کی بیٹی، حضرت امام علیؑ کی شریک حیات، امام حسنؑ، امام حسینؑ، جناب زینبؑ و ام کلثومؑ اور محسن شہید کی والدہ گرامی ہیں۔
اہل تشیع آپؑ کی عصمت کے قائل ہیں۔ صدیقہ ، طاہرہ، راضیہ ، مرضیہ ، زہرا، بَتول اور دیگر بہت سے القاب حضرت فاطمہؑ کیلئے مذکور ہیں۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت فاطمہؑ مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہؑ کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ شیعہ مصادر میں آپ کی تاریخ ولادت 20 جمادی‌الثانی ذکر ہوئی ہے۔
(الرحلۃالرحلۃ الحجازیۃ، ص۱۲۸، مسارالشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، ص۵۴)
شیعہ اور سنی دونوں فریق کے علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو خدا نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔
علما آیۂ مودت کے نام سے مشہور سورہ شوری کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کی دوستی اور محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔
آیۂ مودت میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت اور نبوت کے اجرت کو آپ کی اہل‌ بیتؑ سے مودت اور محبت کرنے کو قرار دیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس آیہ میں اہل‌ بیتؑ سے مراد فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ شریفین ہیں۔
(روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ج۱۷، ص۱۲۲, البرہان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص۸۱۵)آیۂ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپ کی خشنودی سے خشنود ہوتا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج۳، ص۱۵۴)
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام تمام مکارم اخلاق اور فضائل و اوصاف حمیدہ سے متصف تھیں۔ آپؑ متین الطبع، سنجیدہ، باوقار، بہت زیادہ عبادت میں مشغول رہنے اور سخت مجاہدات کی عادی تھیں۔ تقوی و پرہیز گاری میں یکتا، توکل و صبر و قناعت میں بے مثال،سخاوت و مہربانی، جود و عطا، لطف و کرم میں بے نظیر، وسیع القلب، کشادہ دست،غریبوں، محتاجوں ، یتیموں، بیوائوں،مسکینوں، فقیروں، محتاجوں اور ناداروں کی امداد فرمایا کرتیں، یتامیٰ و بیوگان کی سرپرست، شکرگزار، اطاعت الٰہی میں منہمک اور اپنے والد بزرگوار سرکار دو عالمؐ کا بے حد ادب و احترام اور تعظیم و توقیر معمول تھا۔ ذات اطہرؐ پر جان نچھاور کیا کرتیں۔جس کے سبب سر کار دو عالمؐ آپ ؑ کو ام ابیہا کہا کرتے تھے ۔
(صحیح بخاری، ج 3، ص 83، كتاب فضائل أصحاب النّبی (ص)، ب 42، ح 232 و ب 61، مناقب فاطمة، ح 278)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپؑ کو کسی نے ہنستا ہوا نہیں دیکھا۔ آپؑ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائےجانے لگے ۔ علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئیں ۔ پھر آپؑ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبر و تشدّد سے کام لیا جانے لگا۔ انتہا یہ کہ سیّدہ عالمؑ کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی۔ اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپؑ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالمؑ کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ : صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا ۔ یعنی "مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے!
سیدہ دوعالمؑ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے ۳ مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں شہادت پائی . آپؑ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا، صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسیؓ، مقدادؓ و عمارؓ جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا، آپؑ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ آپؑ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جزو بن گیا۔
جنت البقیع میں جو آپؑ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ۱۳۴۴ہجری قمری میں آل سعود کے نمک خوار وہابی قاضی القضات عبداللہ بن سلیمان بن بلیہد کے فتوے کے بعد اہل بیت علیہ السّلام سے منسوب عبارتوں، گنبدوں، مقبروں اور مزاروں کے ساتھ اسے بھی منہدم کرا دیا گیا۔
حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحلت سے پہلے ہی اپنی امت اور اپنے اصحاب کی جانب سے اپنی لخت جگر پر ہونے والے مظالم کی روداد ان الفاظ میں بیان فرما چکے تھےکہ:
میری بیٹی فاطمہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اور وہ اس حالت میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔
(فرائد السمطین ج 2، ص 34)
بی بی فاطمہ زہرا علیہا السلام کے گھر کو نذرِ آتش کرنا اسلام کی سب سے پہلی وہ دہشت گردی ہے جس کی امت مسلمہ جتنی مذمت کرے کم ہے بنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بی بی دوعالم ؑ اور جنت البقیع کا انہادم در حقیقت امت مسلمہ کی پیشانی پر اک بدنما داغ ہے !!
حضرت فاطمہؑ کی عبادی، سیاسی اور اجتماعی زندگی اور دیگر امور میں آپؑ کی فرمائشات ایک گراں بہا معنوی میراث کی طرح تمام شیعہ مسلمان اپنی روز مرہ زندگی میں انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ مصحف فاطمؑہ، خطبہ فدک، تسبیحات اور نماز حضرت زہراؑ اسی معنوی میراث میں سے ہیں۔
جگر گوشۂ رسول:
بے شک فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا اور میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔
(ینابیع المودة ص 260)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ زہرا میرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔
(کنز العمال ، فیض القدیر ، فضائل الصحابہ)

نبی اکرم ؐ کی سب سے چہیتی شخصیت:
آپ فرماتی ہیں کہ رسول خدا ؐ کو سب سے عزیزترین اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ ؑہی تھیں ۔ روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہا کی خوشبو سونگھ کر فرماتے کہ ان میں سے مجھے بہشت کی خوشبوآتی ہے کیونکہ یہ اس میوہ ٔجنت سے پیداہوئی ہیں جو شب معراج جبرائیل نے مجھے کھلایا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ:
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ انھوں نے نشست و برخاست، عادات و خصائل، طرز گفتگو اور لب و لہجہ میں رسول اللہؐ کے مشابہ (حضرت سیدہ) فاطمہؑ سے بڑ ھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اﷲ ؐ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی ۔
(صحیح مسلم)
اسی طرح حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات و اطوار میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے زیادہ کسی کو رسولؐ مشابہ نہیں دیکھا۔
نیز فرماتی ہیں کہ میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم ؐ سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔
(الحديث رقم 48 : أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 326، 377، الرقم : 947، 971، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، الرقم : 9236)
کائنات میں سب سے زیادہ با فضیلت اور سچا:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’میں نے کسی کو فاطمہؑ سے زیادہ سچا نہیں پایا مگر اُن کے بچوں کو۔
(الإستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۴۵۰ )
’’میں نے سوائے پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، فاطمہؑ سے زیادہ کسی کو بافضیلت تر نہیں دیکھا۔‘‘
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، احمد ابن علی ابن حجر عسقلانی، ج۸، ص۲۶۴)
ایک دفعہ ام المؤمنین اور حضرت صدیقہ طاہرہ کے درمیان کچھ ایسی باتیں پیش آ گئیں کہ رسول خدا کے خشم و غضب کا سبب واقع ہوا تو ام المؤمنین کو صدیقہ طاہرہ کا حوالہ دینا پڑا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی لخت جگر سے معلوم کریں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتیں۔ میں نے سیدہ دو عالم جیسا سچا کسی کو نہیں پایا مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ۔
(مسند ابو یعلی، ج ۸ ص ۱۵۳ )
فاطمہ زہرا کی تعظیم اور استقبال:
’’ام المؤمنین بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم ؐ سیدہ سلام اﷲ علیہا کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔
(الحديث رقم 19 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4732، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 78، الرقم : 264، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8)
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم ؐ فاطمہؑ کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔
(الحديث رقم 19 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4732، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 78، الرقم : 264)
عورتوں کی سردار:
’’اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم ؐنے سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام سے فرمایا : اے فاطمؑہ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تم مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اِس اُمت کی سب عورتوں کی سردار ہو۔
(الحديث رقم 24 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين يدي الناس ولم يخبر بسر صاحبه، 5 / 2317، الرقم : 5928)
خدا کی ناراضگی اور خوشحالی:
پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: اے فاطمہ ! خداوند تیری ناراضگی سے ناراض ہو جاتا ہے اور تیری خوشحالی سے خوش ہو جاتا ہے۔
(مناقب، میزان الاعتدال، ذخائر العقبیٰ ، اسد الغابہ، ج٥)

اہل محشر اپنی نظریں جھکالو:
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا: روزِ قیامت ایک ندا دینے والا آواز دے گا : اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت محمدِ مصطفیٰ ؐ گزر جائیں۔‘‘
(الحديث رقم 40 : أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 142، و المحب الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : 94)
پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ اور ان کے فرزندان اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے جنت میں داخل ہوں گے کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا کہ روز قیامت کے ہولناک عذاب اور سختی سے وہ لوگ غمگین نہ ہوں گے اور وہ لوگ جو جنت کے مشتاق ہیں وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ان سے خدا کی قسم فاطمہؑ اور ان کے فرزند ان اور ان کے پیروکار منظور ہیں۔
(تفسیر فرات ابن ابراہیم)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button