Uncategorized

سلام بحضور سیدہ النساء العالمین علیھا السلام

1۔ شکوہ کناں دیکھا تھا
کس طرح اہل مدینہ یہ سماں دیکھا تھا
باب تطہیرسے جب اٹھتا دھواں دیکھا تھا
جن کی خوشیوں میں نبی پاکؐ کی بھی خوشیاں تھیں
ان کی آنکھوں سے بھی اشکوں کو رواں دیکھا تھا
جب گرا ں شہر سے ہونے لگی گریہ کی صدا
شہر سے دور پھر ایک غم کامکاں دیکھا تھا
ایک شہزادہ تیرا چاک جگر ہو کے چلا
دوسرا سب نے سر نوکِ سناں دیکھا تھا
جس کی تعظیم میں ہوتے تھے کھڑے سروردین
اس کو دربار میں کیوں شکوہ کناں دیکھا تھا
جاذب اس پہلے ستارے کی دمک ہیں زہراء ؑ
جس نے امکان سے پہلے کا جہاں دیکھا تھا
(شکیل جاذب)

2۔ سلام بحضور سیدہ النساء حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
لٹا تھا بن میں پور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا
مگر چمکا شعور فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا
محمد ؐمالک کوثر ہوئے اور بولہب تا حشر ابتر
کچھ ایسا تھا ظہور فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا
میرے کانوں میں جو جنت علیّاکی صدا آتی ہے اب تک
میرا دل ہے زبور فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا
وہ جب آئیں گے ہر جانب حسینی روشنی کا راج ہوگا
جہاں دیکھے گا نور فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا
شہادت ایک ہو۔ اک زخم ہو تو دوں ا نہیں پر سہ بھی اختر
کہوں کیا کیا حضور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
(اختر عثمان)
3۔ احوال تربت خستہ حال
اس سانحہ سے گنبد خضر یٰ ہے پر ملال
لخت دل رسوؐل کی تربت ہے خستہ حال
دل میں ٹھٹک گیا کہ نظر میں سما گیا
اس جنت البقیع کی تعظیم کا خیال
طیبہ میں بھی ہے آل پیمؐبر پہ ابتلاء
اس ابتلا ءسے خاطر کونین ہے نڈھال
سوئے ہوئے ہیں ماں کی لحد ہی کے آس پاس
پورخلیل، سبط پیمبر، علیؑ کے لال
اڑتی ہے دھول مرقد آل رسول ؐ پر
ہوتا ہے دیکھتے ہی طبیعت کو اختلال
افتگان خواب میں علؑی ابو تراب
اب تک وہی ہے گردش دوران کے چال ڈھال
فرّشہی رو اہے پیمؐبرکے دین میں
لیکن حرام شےہے عقابر کی دیکھ بھال
جس کی نظر میں بنت نبی کی حیا نہ ہو
اس شخص کا نوشتہ تقدیر ہے زوال
پھٹتی ہے یوں تو صبح بھی ہوتی ہے بالضرور
پھرتے ہیں روزو شب تو پلٹتے ہیں ماہ و سال
کب تک رہے گی آل پیمبؐر لٹی پٹی
کب تک رہیں گے جعفرؑ وباقرؑ گستہ حال
از بس کہ ہوں غلام غلامان اہل بیت
ہر لحظہ ان کی ذات پہ قربان جان و مال
کیا یوں ہی خاک اڑے گی مزارات قدس پر
فیصل کی سلطنت سے شورش مرا سوال
(شورش کاشمیری)
4۔ روداد غم سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا
ہے پریشاں یہ جہاں قرآں سے ناطہ توڑ کر
پھر رہا ہے دربدر زہراء ؑ کے در کو چھوڑ کر
ہیں جو اس گھر میں علیؑ و فاطمہؑ ، حسؑن و حسینؑ
کیوں نہ پھر سد را سے یوں جبریلؑ آئے دوڑ کر
کیا مصائب تھے کہ دن، شب میں بدل جانے کو تھے
امتِ احمد ؐ ذرا کچھ غور کر سر جوڑ کر
روئے کیا بابا کو جاکر روز ” دارالحزن ” میں
لو چلی جاتی ہے زہرؑاء اس جہاں کو چھوڑ کر
ہے غیور اس دن سے یہ دنیا گرفتارِ بلا
جب چلی دنیا درِ زہرؑاء سے منہ کو موڑ کر
(غیور زیدی )

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button