عدلعقائد

نو جوانوں کے لئے عدل الٰہی کے چند اسباق

1۔ عدل الہی کیا ہے؟

خدا کی صفات میں سے صرف عدل کو اصو ل دین کا جزو کیوں قرار دیا گیا ہے؟
”عدالت“اور”مساوات“کے در میان فرق
۱۔تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے ؟
اس بحث میں دوسری چیزوں سے پہلے یہ نکتہ واضح ہو نا چاہئے کہ عدالت کو جو کہ صفات خدا میں سے ایک صفت ہے ،بڑے علماء نے دین اصول کے پنجگانہ میں سے ایک اصل کے طور پرکیوں منتخب کیا ہے؟
خداوند متعال عالم ہے،قادر ہے،عادل ہے،حکیم ہے،رحمان ورحیم اور ازلی وابدی ہے،خالق ورازق ہے۔ان تمام صفات میں سے کیوں صرف عدالت کا انتخاب کیا گیا ہے اور اسی کو دین کے پنجگانہ اصول میں سے ایک قرار دیا گیا ہے؟
اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند مطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:
۱۔خدا وند متعال کی صفات میں عدالت کو ایک ایسی اہمیت حاصل ہے کہ بہت سی دوسری صفات اس کی طرف پلٹتی ہیں ،کیونکہ”عدالت“ اپنے وسیع معنی میں ہر ایک چیز کو اپنی جگہ پر قرار دینا ہے ۔اس صورت میں حکیم ،رزّاق،رحمان و رحیم اور ان جیسی دوسری صفات اس پر منطبق ہو تی ہیں۔
۲۔معاد کا مسئلہ بھی ”عدل الہی“ پر منحصر ہے۔انبیاء ومرسلین کی نبوت ورسالت اور ائمہ کی امامت بھی عدل الہٰی سے مربوط ہیں۔
۳۔اسلام کی ابتداء میں عدل الہٰی کے مسئلہ پر کچھ اختلا فات رو نما ہوئے:
سنّی مسمانوں کا ایک گروہ جنھیں ”اشاعرہ“ کہتے تھے، عدل الہٰی کے بالکل منکر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے بارے میں عدل و ظلم کو ئی مفہوم نہیں رکھتا ہے۔پوری کائنات اس کی ملک ہے اور اس سے متعلق ہے،وہ جو بھی کام انجام دے وہی عین عدالت ہے۔ یہاں تک کہ وہ حسن و قبح عقلی کے بھی قائل نہیں تھے ۔وہ کہتے تھے کہ ہماری عقل اکیلے ہی برے اور بھلے کو درک نہیں کر سکتی ہے ،یہاں تک کہ نیکی کر نے کی خوبی اور ظلم کی بدی کو بھی درک نہیں کر سکتی ہے(وہ اس قسم کے بہت سے مغالطے سے دو چار تھے)
اہل سنت کا ایک دوسرا گروہ جنھیں ”معتزلہ“ کہتے تھے اور تمام”شیعہ“ پرور دگار عالم کے بارے میں عدالت کے اصول کے قائل تھے اور کہتے تھے وہ ہر گز ظلم وستم نہیں کرتا ہے۔
ان دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر نے کے لئے دوسرے گروہ کا نام ”عدلیہ“ رکھا گیا،جوعدل الہٰی کو اپنے مکتب کی علا مت کے عنوان سے اصول دین کا جزو سمجھتے تھے اور پہلے گروہ کا نام ”غیر عدلیہ“رکھا گیا،شیعہ”عدلیہ“گروہ میں شمار ہو تے تھے۔
شیعوں نے دوسرے تمام عدلیہ سے اپنے آپ کو مشخص کر نے کے لئے ”امامت“ کو بھی اصول دین کا جزو قرار دیا۔
لہذا جہاں کہیں بھی ”عدل“و”امامت“کی بات ہو وہ”شیعہ امامیہ“ کی پہچان ہے ۔
۴۔چونکہ فروع دین ہمیشہ اصول دین کا ایک پرتو ہے اور عدالت الہٰی کا اثر انسانی معاشروں میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے اور انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیاد بھی اجتماعی عدالت پر منحصر ہے ،اس لئے عدالت کو اصول دین کے ایک جزو کے طور پر چن لینا ایک ایسا راز ہے جو انسانی معاشرے میں عدل کو زندہ کر نے اور ہر قسم کے ظلم وستم سے مقابلہ کر نے کا سبب بنتا ہے۔
جس طرح پرور دگار کی توحید ذات و صفات اور اس کی عبادت و پر ستش کی تو حید انسانی معا شرے میں وحدت و یکجہتی اور اتحاد کا نور ہے اور توحید صفوف کو تقویت بخشتی ہے ،اسی طرح انبیاء اور ائمہ کی رہبری بھی انسانی معا شرے میں ”سچی (عادلانہ)رہبری“کا مسئلہ القا کرتی ہے۔اس لئے پوری کائنات پر حاکم پروردگار کی عدالت کی اصل انسانی
معاشرے کے تمام مواقع میں عدالت کی ضرورت کی طرف ایک اشارہ و راز ہے۔
عظیم عالم خلقت عدالت پر بر قرار ہے۔انسانی معاشرہ بھی اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔
۲۔عدا لت کیا ہے؟
عدالت کے دو مختلف معانی ہیں:
۱۔اس لفظ کے وسیع معنی ،جیسا کہ ہم نے بیان کئے ”ہر چیز کا اپنی جگہ پر قرار پانا“ ہیں ۔دوسرے الفاظ میں موزون اور متعادل ہو نا ہے ۔
عدالت کے یہ معنی ،پوری خلقت کائنات، عالم کے نظام ،ایٹم ،انسانی وجود کی بناوٹ اور تمام نباتات وحیوانات میں پائے جاتے ہیں ۔
یہ وہی بات ہے جو پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ آپنے فر مایا:
”بالعدل قامت السموٰت والارض“
”عدالت کے ذریعہ آسمان اور زمین برقرار ہیں“
مثال کے طور پر اگر زمین کے قوائے ”جاذبہ“و ”دافعہ“ اپنے توازن کو کھودیں اور ان میں سے ایک دوسرے پر غلبہ پاجائے تو زمین ،یاسورج کی طرف جذب ہو جائے گی،اس میں آگ لگ جائے گی اور نابود ہو جائے گی اور یا اپنے مدار سے خارج ہو کر وسیع فضا میں آوارہ ہو کر نابود ہو جائے گی ۔
عدالت کے اسی معنی کو شاعر نے مندرجہ ذیل مشہور اشعار میں بیان کیا ہے :
عدل چبود ؟وضع اندر موضعش ظلم چبود؟وضع در نا موضعش
عدل چبود؟آب دہ اشجاررا ظلم چبود ؟آب دادن خاررا
عدل کیا ہے؟ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا ۔ظلم کیا ہے ؟چیز کو اس کی جگہ پر نہ رکھنا۔
عدل کیا ہے؟ درختوں کو پانی دیناظلم کیا ہے ؟کانٹوں کو پانی دینا۔
واضح ہے کہ پھولوں کے پودے یا میوہ دار درخت کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال ہے اور عین عدالت ہے ۔اگر بیکار گھاس پھوس یا کانٹوں کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال نہیں ہے اور عین ظلم ہے۔
۲۔عدالت کا دوسرامعنی”افراد کے حقوق کی رعایت کر نا“ہےاوراس کا مخالف”ظلم“ یعنی دوسروں کا حق چھین کر اپنے لئے مخصوص کر نا،یا کسی کا حق چھین کردوسرے کو دینا یا تفریق کا قائل ہو نا ہے ،اس صورت میں کہ بعض کو ان کا حق ادا کریں اور بعض کو ان کا حق ادا نہ کریں۔
واضح ہے کہ دوسرے معنی”خاص“اور پہلے معنی ”عام“ہیں قابل توجہ بات ہے کہ”عدل“کے دونوں معانی خداوند متعال کے بارے میں صحیح ہیں اگر چہ ان مباحث میں زیادہ تر دوسرے معنی مقصود ہیں ۔
عدل الہٰی کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نہ کسی کا حق چھینتا ہے اور نہ کسی کا حق کسی دوسرے کو دیتا ہے اور نہ افراد کے در میان امتیازبرتتا ہے،وہ ہر لحاظ سے عادل ہے۔
”ظلم“کسی کا حق چھیننے کے معنی میں ہو یا کسی کا حق کسی دوسرے کو دینے کے معنی میں یاتفریق وزیادتی کی صورت میں ،خدا کی ذات کے بارے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہ ہرگز نیک انسان کو سزا نہیں دیتا ہے اور بُرے انسان کی تشویق نہیں کرتا ہے۔کسی سے دوسرے کے گناہ پر مواخذہ نہیں کرتا ہے اوربُرے اور بھلے سے ایک ہی قسم کا برتاؤ نہیں کرتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر ایک بڑے معاشرے میں ایک شخص کے علاوہ سب گناہ گارہوں تو خدا وند متعال اس ایک شخص کے حساب کو دوسروں سے جدا کرتا ہے اور اسےگنا ہ گاروں کے ساتھ سزا میں شامل نہیں کرتا ہے۔
یہ جو”اشاعرہ“کی جماعت نے کہا ہے کہ”اگر خدا تمام انبیاء کوجہنّم میں ڈال دے اور تمام بد کاروں اور ظالموں کو بہشت میں ڈال دے، تو یہ ظلم نہیں ہے“یہ ایک بیہودہ، ناشائستہ، شرم ناک اور بے بنیاد بات ہے ،جس شخص کی بھی عقل خرافات اور تعصب سے آلودہ نہ ہو گی وہ اس بات کے قبح کی گواہی دے گا۔
۳۔مساوات اور عدالت میں فرق۔
ایک اور اہم نکتہ،جس کی طرف اس بحث میں اشارہ کر نا ضروری ہے ،یہ ہے کہ بعض اوقات ”عدالت“کا ”مساوات“ سے مغالطہ کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ عدالت کے معنی یہ ہیں کہ مساوات کی رعایت کی جائے،جبکہ ایسا نہیں ہے۔
عدالت میں ہرگز مساوات شرط نہیں ہے بلکہ حق اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے ۔
مثال کے طور پر ایک جماعت کے شاگردوں میں عدالت یہ نہیں ہے کہ سب کو مساوی نمبر دئیے جائیں اور دو مزدوروں کے در میان یہ عدالت نہیں ہے کہ دونوں کو مساوی مزدوری دی جائے ۔بلکہ عدا لت یہ ہے کہ ہر شاگرد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق نمبر دئے جائیں اور ہر مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری دی جائے۔
عالم فطرت میں بھی وسیع معنی میں عدالت کا مفہوم یہی ہے ۔اگر ایک وہیل مچھلی کا دل جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہو تا ہے،ایک چڑیا کے دل کے برابر ہوتاتو یہ عدالت نہیں تھی ۔اگر ایک مضبوط لمبے درخت کی جڑ ایک چھوٹے سے پودے کی جڑ کے برابر ہو تو یہ عدالت نہیں ہے بلکہ عین ظلم ہے۔
عدالت کے معنی یہ ہیں کہ ہر مخلوق اپنے حق،استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ حاصل کرے۔
2۔ عدل الہٰی کے دلائل
۱۔حسن وقبح عقلی
پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری عقل اشیاء کی ”خوبی“اور ”بدی“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتی ہے ۔(یہ وہی چیز ہے،جس کا نام علماء نے ”حسن قبح عقلی“رکھا ہے)
مثلا ہم جانتے ہیں کہ عدالت واحسان اچھی چیز ہے اور ظلم وبخل بری چیز ہے۔یہاں تک کہ ا ن کے بارے میں دین و مذہب کی طرف سے کچھ کہنے سے پہلے بھی ہمارے لئے یہ چیز واضح تھی،اگر چہ دوسرے ایسے مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں ہمارا علم کافی نہیں ہے اور ہمیں رہبران الہٰی و انبیاء کی رہبری سے استفادہ کر نا چاہئے۔
اس لئے اگر”اشاعرہ“ کے نام سے مسلمانوں کے ایک گروہ نے ”حسن قبح عقلی“ سے انکار کر کے اچھائی اور برائی کو پہچاننے کا راستہ ۔حتی عدالت وظلم وغیرہ کے سلسلہ میں۔صرف شرع ومذہب کو کافی جانا ہے ،تو یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔
کیونکہ اگر ہماری عقل نیک وبد کو درک کر نے کی قدرت وصلاحیت نہ رکھتی ہوتو ہمیں کہاں سے معلوم ہو گا کہ خداوند متعال معجزہ کو ایک جھوٹے انسان کے اختیار میں نہیں دیتا ہے؟لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بُرا اور قبیح ہے اور خدا سے یہ کام انجام پا نا محال ہے،تو ہم جانتے ہیں کہ خدا کے وعدے سب حق ہیں اور اس کے بیانات سب سچے ہیں ۔وہ کبھی جھوٹے کی تقویت نہیں کرتا ہے اور معجزہ کو ہر گز جھوٹے کے اختیار میں نہیں سونپتا ہے۔
اسی وجہ سے شرع ومذہب میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
اس لئے ہم نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ حسن وقبح عقلی پر اعتقاددین و مذہب کی بنیاد ہے۔(توجہ کیجئے!)
اب ہم عدل الہٰی کے دلائل کی بحث شروع کرتے ہیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں جاننا چاہئے:
۲۔ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟
”ظلم“کا سر چشمہ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ہے:
الف۔جہل:بعض اوقات ظالم انسان حقیقت میں نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔نہیں جانتا ہے کہ وہ کس کی حق تلفی کرتا ہے،اور اپنے کام سے بے خبر ہے۔
ب۔احتیاج:کبھی دوسروں کے پاس موجود چیز کی احتیاج انسان کو وسواس میں ڈالتی ہے کہ اس شیطانی کام کو انجام دے،جبکہ اگر بے نیاز ہو تا،اس قسم کے مواقع پر اس کے لئے ظلم کر نے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تی۔
ج۔عجز و ناتوانی: بعض اوقات انسان راضی نہیں ہو تا کہ دوسروں کا حق ادا کر نے میں کو تاہی کرے لیکن اس میں یہ کام انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہو تی ہے اور ناخواستہ ”ظلم“کا مرتکب ہو تا ہے۔
د۔خود پرستی ، حسد اور انتقامی جذبہ۔ گاہےمذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک مؤثرنہیں ہوتا ہے،لیکن”خود پرستی“اس امر کا سبب بنتی ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کو پائمال کرے ۔یا ”انتقامی جذبہ“اور”کینہ وحسد“ اسے ظلم وستم کر نے پر مجبور کرتے ہیں ۔یا کبھی”اجارہ داری“دوسروں کی حق تلفی کا سبب بن جا تی ہے۔اور ان کے مانند دوسرے عوامل و اسباب۔
لیکن چونکہ مذکورہ بری صفات اور عیوب ونقائص میں سے کو ئی چیز خدا وند متعال کے وجود مقدس میں نہیں پائی جاتی ،وہ ہر چیز کا عالم ،سب سے بے نیاز،ہر چیز پر قادر اور ہر ایک کے بارے میں مہر بان ہے،اس لئے اس کے لئے ظلم کا مرتکب ہو نا معنی نہیں رکھتا ہے۔
اس کا وجود بے انتہا اور کمال لا محدود ہے،ایسے وجود سے خیر،نیکی،عدل وانصاف ،مہر بانی اور رحمت کے علاوہ کوئی چیز صادر نہیں ہو تی ہے ۔
اگر وہ بد کاروں کو سزا دیتا ہے تو وہ حقیقت میں ان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انھیں ملتا ہے،اس شخص کے مانند جو نشہ آورچیزیں یا شراب پینے کے نتیجہ میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔قرآن مجید فر ماتا ہے:
<ھل تجزون إلاّ ماکنتم تعلمون>(سورہ نمل/۹۰)
”کیا تمھیں تمھارے اعمال کے علاوہ بھی کوئی معادضہ دیا جاسکتا ہے۔“
3۔قرآن مجید اور عدل الہٰی
قابل توجہ بات ہے کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔
ایک جگہ پر فر ماتا ہے:
<إنّ اللّٰہ لا یظلم النّاس شیئاً ولکنّ الناّس انفسھم یظلمون>(سورہ یونس/۴۴)
”اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خودہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“
ایک دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:<إنّ اللّٰہ لا یظلم مثقال ذرّة
”اللہ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے۔“
روز قیامت کے حساب اور جزا کے بارے میں فر ماتا ہے:
<ونضع الموازین القسط لیوم القیمة فلا تظلم نفس شیئاً> (سورہ انبیاء/۴۷)
”اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازوقائم کریں گے اور کسی نفس پر ادنی ساٰ ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
قا بل توجہ بات ہے کہ یہاں پر ”میزان“سے مقصود نیک و بد کو تولنے کا وسیلہ ہے نہ اس دنیا کے مانند کو ئی ترازو)
4۔عدل و انصاف کی دعوت
ہم نے کہا کہ انسان کی صفات ،خدا وند متعال کی صفات کا ایک پر تو ہو نا چاہئیں تا کہ انسانی معاشرے میں الہٰی صفات کا نور پھیلے ۔اسی اصول کی بنیاد پر جس قدر قرآن مجید عدل الہٰی کو بیان کر تا ہے ،اسی قدر انسانی معاشرے اور ہر انسان میں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہمیت دیتا ہے۔قرآن مجید بار بار ظلم کو معاشروں کی تباہی و بر بادی کا سبب بتاتا ہے اور ظالموں کے انجام کو درد ناک ترین انجام شمار کرتا ہے۔
قرآن مجید گزشتہ اقوام کی داستان بیان کر نے کے ضمن میں باربار اس حقیقت کی یاد دہانی کرتا ہے کہ دیکھو ظلم وفساد کے نتیجہ میں کس طرح وہ اقوام عذاب الہٰی سے دو چار ہو کر نابود ہوئے ،تم بھی اس سے ڈرو کہ کہیں ظلم کر نے کے نتیجہ میں اس قسم کے انجام سے دوچار نہ ہو جاؤ۔
قرآن مجید واضح الفاظ میں ایک بنیادی اصول کے عنوان سے کہتا ہے:
<إنّ اللہ یاٴمر بالعدل والاحسان و إتیاء ذی القربیٰ وینھی عن الفحشآء والمنکر والبغی> (سورہ نحل/۹۰)
”بیشک اللہ عدل،احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بد کاری ،ناشائستہ حر کات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔“
قابل توجہ بات ہے کہ جس طرح ظلم کر نا ایک برا اور قبیح کام ہے ،اسی طرح ظلم کو بر داشت کر نا بھی اسلام اور قرآن کی نظر میں غلط ہے،چنانچہ سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۹ ۲ میں آیا ہے:
”لا تظلمون ولا تظلمون > ( سورہ بقرہ/۲۷۹)
”نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے “
اصولی طور پر ظلم کو قبول کر نا ظلم کی حوصلہ افزائی ،اس کی تقویت اور ظالم کی مدد کر نے کا باعث ہے۔
5: آفات و بلیّات کا فلسفہ ( اول)
قدیم زمانہ سے آج تک ایک ناآگاہ گروہ نے عدل الہٰی پر نکتہ چینی کی ہے اور ایسے مسائل پیش کئے ہیں جو ان کے اعتقاد کے مطابق عدل الہٰی سے ساز گار نہیں ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات نہ صرف ان مسائل کو عدل الہٰی کی نفی کی دلیل بلکہ انھیں وجود خدا کے انکار کی دلیل سمجھے ہیں!
من جملہ ان کے ناگوار حوادث کا وجود ،جیسے طو فان ،زلزلہ اور دوسرے عام مصائب ۔اسی طرح وہ فرق جو مختلف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ انسان ،نباتات اور دوسری مخلوقات کو پیش آنے والی مصیبتیں اور آفتیں۔
یہ بحث،کبھی مادہ پرستوں کے مقابلہ میں معرفت خدا کی بحث میں پیش کی جاتی ہے اور کبھی عدل الہٰی کی بحث میں،ہم اسے اس بحث میں پیش کرتے ہیں۔
یہ جاننے کے لئے کہ،دقیق تجزیہ کے نتیجہ میں یہ تصور کس حدتک غلط ہے ،اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور مندرجہ ذیل مطالب کی د قیق کی تحقیق ضرورت ہے:
۱۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلے
عام طور پرہم اپنے فیصلوں اور مصادیق کی تشخیص میں مختلف اشیاء کے اپنے ساتھ رابطہ پر تکیہ کرتے ہیں ۔مثلاًہم کہتے ہیں فلاں چیز دور ہے یانزدیک یعنی ہماری نسبت۔
یافلاں شخص طاقتور ہے یا کمزور،یعنی ہماری روحی یا جسمی حالت کی نسبت اس کی حالت ایسی ہے ۔خیر وشر اور مصیبت وبلا کے بارے میں بھی لوگوں کے فیصلے اکثر اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔
مثلاًاگر کسی علاقہ میں وسیع پیمانے پر بارش برسے ،ہمیں اس سے سرو کار نہیں ہے کہ اس بارش کے مجموعی اثرات کیسے تھے ،ہم صرف اپنی زندگی،گھر اورکھیت یازیادہ سے زیادہ اپنے شہر کی حد تک نظر ڈالتے ہیں ،اگر اس کا مثبت اثر تھا تو کہتے ہیں یہ نعمت الہٰی تھی ،اگر منفی تھا تو اسے ”بلا“کہتے ہیں۔
جب ایک پرانی اور فرسودہ عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے گراتے ہیں اور ہم پر وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے گرد وغبار پڑتے ہیں تو کہتے ہیں :کیسا برا حادثہ ہے،اگر چہ آئندہ وہاں پرہسپتال ہی کیوں نہ تعمیر ہو اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں اور بارش کی مثال میں اگرچہ مجموعی طور پر علاقہ کے لئے مثبت اثرات ظاہر ہوں۔
ہم سطحی اور عام طور پر سانپ کے ڈسنے کو ایک مصیبت اور شر سمجھتے ہیں ۔ہم اس سے غافل ہیں کہ یہی ڈسنا اور زہر اس حیوان کے لئے دفاع کا ایک موثر وسیلہ ہے اور ہم اس سے بے خبر ہیں کہ گاہے اسی زہر سے حیات بخش دوائی بنائی جاتی ہے جو ہزاروں انسانوں کو موت سے نجات دیتی ہے۔
اس لئے اگر ہم مغالطہ سے بچناچاہیں تو ہمیں اپنی محدود معلو مات پر نظر ڈالنی چاہئے اور فیصلہ کرتے وقت صرف اشیاء کے اپنے ساتھ روابط کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہمیں تمام جہتوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرناچاہئے۔
بنیادی طور پر دنیا کے حوادث زنجیر کی کڑیوں کے مانند آپس میں ملے ہوئے ہیں: آج،ہمارے شہر میں آنے والاطوفان اور سیلاب لانے والی بارش کا برسنا اس طولانی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو دوسرے حوادث کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے اسی طرح یہ ماضی میں رو نما ہوئے اور مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے جڑے ہوئے ہیں۔
نتیجہ کے طور پر حوادث کے ایک چھوٹے حصہ پر انگلی رکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کر نا منطق اورعقل کے مطابق نہیں ہے۔
قابل انکار چیزصرف مطلق شر کی خلقت ہے۔لیکن اگرکوئی چیز کسی جہت سے خیر اور کسی جہت سے شر ہو اور اس کا خیر غلبہ رکھتا ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے ۔ایک آپریشن کچھ جہات سے تکلیف دہ اور زیادہ تر جہات سے مفید ہے ،اس لئے نسبتاً خیر ہے۔
پھر مزید وضا حت کے لئے زلزلہ کی مثال پر غور کیا جاسکتا ہے:صحیح ہے کہ ایک جگہ پر زلزلہ ویرانی اورتباہی لاتا ہے ۔لیکن اگر ہم دوسرے مسائل سے اس کے سلسلہ وار روابط کو مد نظر رکھیں تو ممکن ہے ہمارا فیصلہ بدل جائے ۔
اس سلسلہ میں سائنسدانوں کے مختلف نظریات ہیں کہ زلزلہ زمین کی اندرونی گرمی اوربھاپ سے مربوط ہے یا چاند کی قوت جاذبہ سے مربوط ہے جو زمین کی خشک و جامد سطح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کبھی اسے توڑ دیتا ہے ،یا دونوں چیزوں سے مربوط ہے؟
لیکن مذکورہ عوامل میں سے جوبھی ہو،اس کے آثار کو مد نظر رکھناچاہئے ۔یعنی ہمیں جاننا چاہئے کہ زمین کی اندرونی گرمی ،زمین کے اندر موجود تیل کے ذخائر اور کوئلے کی کانوں اور دوسری چیزوں کی تولیدپرکیا اثر ڈالتی ہے؟!اس لئے یہ نسبتاً خیر ہے۔
اس کے علاوہ سمندروں کے مدوجزر،سمندروں کے پانی اور اس میں موجود جانوروں کی حفاظت اور کبھی خشک سواحل کی آبیاری میں کتنے موثر ہیں!یہ بھی نسبتاً خیر ہے۔
یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سطحی فیصلے اور محدود معلو مات ہیں جنھوں نے عالم خلقت کے ان امور کوتاریک کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ہم جس قدر حوادث کے آپسی روابط اور پیوند کے بارے میں زیادہ غور کریں گے اس مطلب کی اہمیت کے بارے میں اتناہی زیادہ آگاہ ہوں گے۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:وما اٴویتم من العلم إلاّ قلیلاً> ( سورہ اسراء/۸۵)
”اور تمھیں بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔“
لہذا اس تھوڑے سے علم و دانش کے ذریعہ فیصلہ کر نے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔
۲۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادث
ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی نعمت میں غرق ہوتے ہیں تو”خود خواہی اور غرور“سے دو چار ہوتے ہیں اور اس حالت میں بہت سے اہم انسانی مسائل اور اپنے فرائض کو بھول ڈالتے ہیں ۔
اور ہم سب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زندگی کے مکمل آرام وآسائش کی حالت میں انسان کس طرح”خواب غفلت “میں پڑ جا تا ہے کہ اگر انسان کی یہ حالت جاری رہی تو وہ بد بختی سے دو چار ہو جاتا ہے ۔
بیشک زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث انسان کو غرور وتکبر اور غفلت کی نیند سے بیدار کر نے کے لئے ہیں۔
آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ با تجربہ اور ماہر ڈرائیور صاف و ہموار اور پیچ و خم اور موڑوں سے خالی سڑ کوں کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں اور اس قسم کی سڑ کوں کو خطر ناک جانتے ہیں ،کیونکہ سڑکوں کا ہموار و یکسان ہو نا ڈرائیور کے لئے خواب آور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور وہ خطرہ سے دوچار ہوسکتا ہے۔
حتی کہ بعض ملکوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی سڑکوں پر مصنوعی نشیب و فراز (speed breaker) سپیڈبریکراور موڑ بنائے جاتے ہیں تاکہ اس قسم کے خطرات کو روکا جاسکے ۔
انسان کی زندگی کا راستہ بھی ایسا ہی ہے ۔اگر زندگی میں نشیب و فرازاور مشکلات نہ ہوں اور اگر کبھی کبھار ناگوار حوادث پیش نہ آئیں تو انسان کے لئے خدا، اپنے سر انجام اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا یقینی بن جاتا ہے ۔ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ انسان خود اپنے لئے ناخوشگوار حوادث ایجاد کرے اور مصیبتوں کی طرف بڑھے، کیونکہ انسان کی زندگی میں یہ امورہمیشہ سے تھے اور رہیں گے ،بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسے توجہ کر نی چاہئے کہ ان حوادث میں سے بعض کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے غرور وغفلت کے لئے رکاوٹ بنیں کیو نکہ یہ چیزیں اس کی سعادت وخوشبختی کی دشمن ہیں ۔ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ فلسفہ بعض ناخوشگوار حوادث سے متعلق ہے،نہ کہ تمام حوادث سے متعلق۔باقی حصہ کے بارے میں انشا اللہ بعد میں بحث کریں گے۔
اس سلسلہ میں ہماری عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوتا ہے:
"فاٴخذنٰھم بالباسآء والضرّآء لعلّھم یتضرّعون”( سورہ انعام/۴۲)
”اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں۔“
6:آفات و بلیّات کا فلسفہ۔ (دوئم)
ہم نے کہا کہ انسانی زندگی میں رو نما ہو نے والے ناخوشگوار حوادث،آفات،مشکلات اور ناکامیوں پر اعتراض کر نے والوں نے ان چیزوں کوعدل الہٰی سے انکار کر نے کا بہانہ قرار دیا ہے بلکہ بعض اوقات اسی بہانہ سے پرور دگار کے وجود کے بھی منکر بن گئے ہیں!
گزشتہ بحث میں ہم نے ان حوادث کے ایک حصہ پر بحث و تحقیق کی اور اس کے دو فلسفوں کی وضاحت کی ۔یہاں پر ہم اسی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔
۳۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے
ہم پھر یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہاتھوں اپنے لئے مشکلات اور حوادث ایجاد نہیں کر نے چاہئے ۔لیکن اس کے باوجود بہت سے مواقع پر سخت اور نا خوشگوار حوادث اور مشکلات ہمارے ارادہ کو تقویت بخشنے کا سبب بنتے ہیں،جس طرح لوہا بھٹی میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے اور وہ سرد و گرم جھیل کر پائدار ہو جاتا ہے ،اسی طرح ہم بھی حوادث کی بھٹی میں سرد و گرم زمانہ جھیل کر پختہ اور قوی بن جاتے ہیں۔
جنگ ایک بری چیز ہے،لیکن کبھی ایک سخت اور طولانی جنگ ایک ملت کی استعداد کو وسعت بخشتی ہے ،اختلافات کو اتحاد و یکجہتی میں تبدیل کرتی ہے اور پسماند گیوں کی تیزی کے ساتھ تلافی کر تی ہے۔
ایک معروف مغربی مورّخ کہتا ہے :”پوری تاریخ میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہر نمایاں تہذیب کا ظہور،ایک ملک پر کسی بیرونی بڑی طاقت کے حملہ کے بعد رونما ہو تا ہے اور یہی بیرونی حملہ اس ملک کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کر کے انھیں منسجم و متحد کر دیتا ہے“
لیکن زندگی کے تلخ حوادث کے مقابلہ میں ہر فرد اور ہر معا شرہ کا رد عمل یکساں نہیں ہو تا ہے ۔بعض لوگ ان حوادث کے مقا بلہ میں یاس و نا امیدی اور ضعف وبد ظنی کے شکار ہو جاتے ہیں اور منفی نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔لیکن جن لوگوں کے پاس مناسب وسائل موجود ہو تے ہیں ،وہ ان حوادث کے مقابلہ میں جوش وجذبہ سے حرکت میں آجاتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کی تیزی کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں۔
چونکہ ایسے مواقع پر اکثر لوگ سطحی فیصلہ کر تے ہیں اورصرف مشکلات اور سختیوں کو دیکھتے ہیں اس لئے وہ ان کے مثبت اور تعمیری آثار کو نہیں دیکھ پاتے۔
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تمام تلخ حوادث کے ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں ،لیکن کم از کم ان میں سے بعض ایسے ہی ہیں۔
اگر آپ دنیا کے غیر معمولی انسانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا تقریباً وہ سب مشکلات اور سختیوں میں پلے ہیں ،ایسے بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں ،جو عیش وعشرت میں پلے ہوں اور غیر معمولی شخصیت بن کر شہرت پائے ہوں۔فوج کے کمانڈر وہ بنتے ہیں جوسخت اور طولانی میدان کار زار میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔عظیم اقتصاددان وہ ہو تے ہیں جو بحران زدہ اقتصادی بازاروں میں گرفتار رہے ہیں ۔
بڑے اور قدرتمند سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی تحریک میں مشکلات سے مقابلہ کرتے ہیں اور سختیاں جھیلتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ انسان مشکلات اور سختیوں کی آغوش میں پرورش پاتا ہے۔
ہم قرآن مجید میں یوں پڑھتے ہیں:
<فعسیٰ ان تکرھوا شیئاً ویجعل اللّٰہ فیہ خیرا کثیراًً>(سورہ نساء/۱۹)
”ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے۔“
۴۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں
ہم نے گزشتہ بحثوں میں پڑھا کہ ہمارے وجود کے ہر ایک حصہ کا ایک مقصد ہے۔آنکھ ایک مقصد کے لئے ہے ،کان ایک دوسرے مقصد کے لئے ،دل،دماغ اور اعصاب میں سے ہرایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ،یہاں تک کہ ہماری انگلیوں کی لکیروں میں بھی ایک فلسفہ مضمر ہے۔
اس بنا پر کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پورا وجود مقصد اور فلسفہ کے بغیر ہو؟
ہمیںگزشتہ بحثوں میں معلوم ہوا کہ یہ مقصد،انسان کے تمام جہتوں میں تکامل حاصل کر نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے۔
اس تکامل تک پہنچنے کے لئے یقینا،تعلیم وتر بیت کے ایک ایسے عمیق نظام کی ضرورت ہے جو انسان کے پورے وجود پر حاوی ہے ۔اسی لئے خداوند متعال نے انسان کو پاک توحیدی فطرت عطا کر نے کے علاوہ عظیم انبیاء کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیجا تاکہ اس راہ میں انسان کی رہبری کی ذمہ داری نبھائیں ۔
اس کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اس کے گناہوں اور خطاؤں کا رد عمل دکھا یا جائے اور خدا کی نافر مانی کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے دو چار ہو تاکہ اپنے برے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہو کر خدا کی طرف پلٹ آئے ۔ایسے ہی مواقع پر بعض بلائیں اور نا خوشگوار حوادث رحمت و نعمت الہٰی ہو تے ہیں۔
جیساکہ قرآن مجید یاددہانی کرتا ہے:
<ظھر الفساد فی لبرّ والبحر بما کسبت ایدی النّاس لیذیقھم بعض الّذی عملوا لعلّھم یرجعون>(سورہ روم/۴۱)
”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھادے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں ۔“
مذکورہ بیان کے پیش نظر درد ناک حوادث کو”شر“ کامصداق جاننا، انھیں ”بلائیں“کہنا،اور انھیں عدل الہٰی کے خلاف سمجھنا عقل و منطق کے خلاف ہے،کیو نکہ جتنا ہم اس مسئلہ میں عمیق تر غور کریں گے زیادہ سے زیادہ اس کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں گے۔
7;آفات و بلیّات کا فلسفہ ۔(سوئم)
چونکہ خدا کی معرفت اور توحید کے مباحث کا مطالعہ کر نے والوں کے لئے ناخوشگوار آفات و حوادث کی مشکل ایک قابل غور مشکل ہے،اس لئے ہم آفات و حوادث کے بارے میں مزید فلسفوں کو بیان کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،لہذا اس بحث کو آگے بڑھا تے ہیں ۔
۵۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں
شاید بعض افراد کے لئے اس مسئلہ کا ادراک مشکل ہو گا کہ اگر خدا کی نعمتوں کا سلسلہ جاری اور یکساں ہو تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔
آج ثابت ہو چکا ہے کہ اگرایک جسم کوایک کمرہ کے بیچ میں رکھا جائے اور اسپر ہر طرف سے یکساں اور تیز روشنی ڈالی جائے اور خود جسم اور کمرہ بھی مکمل طور پر شفاف اور گول ہوں،تواس جسم کو ہر گز دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ جب روشنی کے کنارے سائے قرار پاتے ہیں تو وہ جسم کے ابعاد کو مشخص کر تے ہیں اور اسے اپنے اطراف سے جدا کرتے ہیں اور ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔
زند گی کی نعمتوں کی قدر و قیمت بھی مشکلات کے پرُ رنگ اور کم رنگ سایوں کے بغیر قابل مشاہدہ نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص زندگی بھر کبھی بیمار نہ ہو تو وہ ہر گز صحت و سلا متی کے مزہ کا احساس نہیں کر سکتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر وہ ایک رات کو شدید بخار اور سر درد میں مبتلا ہو جا ئے اور صبح ہو نے پر وہ اس بخار اور سر درد سے نجات پا جائے تو صحت و سلامتی کا مزہ اس کے ذائقہ کو اس قدرشیرین کر تا ہے کہ جب کبھی اسے اس بحرانی اور المناک رات کی یاد آتی ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ اس کے پاس صحت وسلامتی نام کا کون ساقیمتی گوہر ہے۔
یکساں زندگی۔حتی خوشحال ترین زندگی۔بالکل تھکا دینے والی،بے روح اور مہلک زندگی ہو تی ہے ۔اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض افراد خوشحال اور ہر قسم کے رنج والم سے خالی زندگی سے اس قدر تھک چکے ہیں کہ خود کشی کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں یا ہمیشہ اپنی زندگی کے بارے میں گلہ شکوے کرتے ہیں۔
آپ کسی باذوق معمار کو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ،جو ایک بڑے ہال کی دیواروں کو ایک زندان کی دیواروں کے مانند صاف اور یکساں تعمیر کرے،بلکہ وہ اس ہال کی دیواروں کو اتار چڑھاؤاور پیچ و خم کے ساتھ تعمیر کرکے پُر کشش بنا دیتا ہے ۔
یہ عالم طبیعت کیوں اس قدر خوبصورت ہے؟
پہاڑوں پر موجود جنگلوں کے مناظر اور چھوٹے بڑے درختوں کے بیچ میں سے مار پیچ کے مانندگزرنے والی نہریں کیوں اس قدرخوبصورت اور دل آویز ہوتی ہیں؟!
اس کی ایک واضح وجہ ان کا یکساں نہ ہو نا ہے۔
”روشنی“اور”تاریکی“،اورشب وروز کی آمد ورفت کا نظام ،جس کا ذکر قرآن مجید نے مختلف آیات میں کیا ہے،اس کا ایک اہم مقصد انسانوں کی یکساں زندگی کو ختم کر نا ہے ،کیو نکہ اگر سورج آسمان کے ایک کو نے سے یکساں اور مسلسل طور پر کرئہ زمین پر اپنی روشنی پھیلاتا اور نہ اپنی حالت میں تبدیلی لاتا اور نہ اس کی جگہ رات کا پردہ پڑتا،تو دوسرے مشکلات کے علاوہ ،تھوڑی ہی مدت میں سب انسان تھک جاتے۔
اس وجہ سے ماننا چاہئے کہ کم از کم زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث اور مشکلات میں یہ فلسفہ ہے کہ یہ بقیہ زندگی کو روح بخشتے ہیں اسے شرین اور قابل برداشت بناتے ہیں،نعمتوں کی قدر وقیمت کو واضح کر دیتے ہیں اور انسانوں کے لئے یہ ممکن بناتے ہیں کہ موجودہ نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
۶۔خود ساختہ مشکلات
ایک اور نکتہ،جس کی طرف ہم اس بحث کے اختتام پر اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،یہ ہے کہ بہت سے لوگ ناخوشگوار حوادث اور مصائب کے عوامل کا محاسبہ کر نے میں بعض اوقات مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ظالم انسانوں کے ذریعہ وجود میں آئے ظلم کو خلقت کے نظام کی نا انصافی جانتے ہیں اور انسان کے کام کی بد نظمی کو خلقت کی بد نظمی شمار کرتے ہیں۔
مثلاًکبھی اعتراض کرتے ہیں کہ مصیبت زدہ پر ہی کیوں مصیبتیں ٹوٹ پڑ تی ہیں ؟
!زلزلوں میں کیوں شہروں میں نقصا نات کم ہوتے ہیں اور گاؤں میں زیادہ قربانیاں رو نما ہو تی ہیں اور بہت سے لوگ ملبے میں پھنسے رہ جاتے ہیں ،یہ کونسا انصاف ہے؟اگر کوئی مصیبت قسمت میں طے ہو تو کیوں یکساں نہیں آتی؟
درد ناک حادثات سے کیوں اکثر مستضعفین (کمزرولوگ)دو چار ہو تے ہیں؟اور وبائی بیماروں کے کیوں یہی لوگ زیادہ تر شکار ہو تے ہیں؟
جبکہ حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی چیز خلقت کے نظام اور خدا کی خلقت اور عدالت سے مربوط نہیں ہے،بلکہ یہ خود انسانوں کے ایک دوسرے پر ظلم واستعمار کا نتیجہ ہو تا ہے۔
اگر گاؤں والے شہر نشینوں کے ظلم کی وجہ سے فقر و محرومیت سے دو چار نہ ہو تے اور اپنے لئے مضبوط مکانات تعمیر کر سکتے تو وہ زلزلہ میں زیادہ نقصا نات سے کیوں دوچار ہو تے اور دوسرے کم؟
لیکن جب ان کے گھر معمولی مٹی،پتھر اور لکڑی کے بنے ہوں اور ان میں چونا اورسمینٹ کا نام تک نہ ہو اور ہوا کے ایک جھونکے یا معمولی زلزلہ سے زمین بوس ہو جائیں تو انھیں اس سے بہتر حالت کی توقع نہیں کر نی چاہئے ،لیکن اس کا خدا کے کام سے کیا ربط ہے؟
ہمیں اس شاعر کے مانند اعتراض نہیں کر نا چاہئے ،جس نے کہا ہے:
”یکے را دادہ ای صد نازو نعمت“
ایک کو سو نعمتیں عطا کی ہیں اور دوسرے کو خاک ذلت پر بٹھا دیا ہے،
ایک کومحل کو عطا کئے ہیں اور دوسرے کو جھونپڑی!
حقیقت میں یہ اعتراض معاشرہ کے غیر عادلانہ اور غلط نظام پر کئے جانے چاہئے ۔ہمیں ان اجتماعی نا انصافیوں کا خاتمہ کرنا چاہئے فقر و پسماند گی سے مقابلہ کر نا چاہئے اور مستضعفین کو ان کے حقوق دینے چاہئے تاکہ معاشرہ میںاس قسم کے حالات پیدا نہ ہو نے پائیں۔
اگر معاشرہ کے تمام لوگوں کو مناسب غذا ،صحت اور طبی خدمات ملیں تو وہ عام بیماریوں کے مقابلہ میں مقاومت پیدا کریں گے۔
لیکن جب ایک معاشرہ کاغلط اجتماعی نظام اور اس پر حاکم استکبارایک شخص کے لئے اس قدر وسائل فراہم کرے کہ اس کے پالتو کتے اور بلی کے لئے بھی مخصوص ڈاکٹر معین ہو اور اس کے مقا بلہ میں دوسرے کے ایک نوزاد ہ بچے کے لئے بھی صحت وسلامتی کے ابتدائی وسائل مہیا نہ ہوں تو اس قسم کے ناخوشگوار حالات زیادہ رو نما ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمیں خدا کے کام پر اعتراض کر نے کے بجائے خود اپنے ہی کام پر اعتراض کر نا چاہئے۔
ہمیں ظالم سے کہنا چاہئے کہ ظلم نہ کرے ۔
ہمیں مظلوم سے کہنا چاہئے کہ ظلم برداشت نہ کرے!
ہمیں کو شش کر نی چاہئے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کم از کم صحت و صفائی ،علاج و معالجہ ،کھانے پینے،رہائشی ،ثقافتی اور تعلیم وتر بیت کے ابتدائی ضروریات سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔
مختصر یہ کہ ہمیں اپنے گناہوں کو خلقت کے نظام کی گردن پر نہیں ڈالنا چاہئے۔
خدا وند متعال نے ہم پر کب ایسی زندگی مسلط کی ہے؟اور کہاں پر اس قسم کے نظام کی تعریف کی ہے؟
اس نے ہمیں آزاد خلق کیا ہے ،کیونکہ آزادی ہمارے تکامل اور ارتقا اورتر قی کا راز ہے۔
لیکن ہم اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں اور دوسروں پر ظلم وستم کرتے ہیں اوریہی ظلم وستم معاشرہ کی بد حالی کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔
افسوس کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ،یہاں تک کہ معروف ومشہور شعراء کے اشعار میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں۔
قرآن مجید ایک مختصر اور بامعنی جملہ میں فر ماتا ہے:
<إن اللّٰہ لا یظلم النّاس شیئاً ولکن النّاس انفسھم یظلمون> ( سورہ یونس/۴۴)
”اللہ انسا نوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“
اب ہم آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ختم کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ ایک طولانی موضوع ہے لیکن ہم اسی مختصر بحث پر اکتفا کرتے ہیں۔
Source:http://www.duas.org/urdu/URDU-www-alhassanain-com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button