ہمارا شعور اور عاشورا (حصہ دوئم)

تحریر:محمد بشیر دولتی
استاد نے گہری سانس لی اور کہا: "کیا تم نے کبھی خود امام حسینؑ سے پوچھا کہ آپؑ نے اتنی عظیم قربانی کیوں پیش کی؟”
میں نے حیرانی سے پوچھا: "قبلہ! میں امامؑ سے کیسے پوچھ سکتا ہوں؟”
استاد نے کتابوں کی الماری سے ایک کتاب نکالی اور فرمایا: "اس میں وہ تمام خطبات اور فرمودات موجود ہیں جن میں امام حسینؑ نے خود اپنے قیام کے مقاصد کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔”
پھر کہا: "یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم خود امامؑ سے پوچھنے کے بجائے ذاکرین، خطباء اور دوسروں سے پوچھتے ہیں، جو اپنے ذوق و مزاج کے مطابق جواب دیتے ہیں۔ اگر ہم امامؑ کے خطبات کا مطالعہ کریں تو ہمیں کربلا کا اصل مقصد سمجھ آئے گا، جب ہمیں کربلا کا مقصد سمجھ آئے تو ہم بھی حسینی اور کربلائی بنیں گے۔
جب ہم کربلائی و عاشورائی بنیں گے تو ہم حقیقی حسینی بنیں گے۔
جب ہم کسی مقصد کے لئے مجلس کریں گے تو ہمیں کربلا سے شجاعت، غیرت، فداکاری، شریعت کی پاسداری اور رضائے الٰہی سیکھنے کو ملے گی، ورنہ ہم صرف رونا، رلانا اور خود ستائی ہی کو اصل مقصد و ہدف سمجھتے رہیں گے۔”
پھر استاد محترم نے امام حسینؑ کا وصیت نامہ نکال کر مجھے دیا۔ اس میں امامؑ نے قیامت تک اپنے قیام کے اہداف و مقاصد کو ہر قسم کی خرافات، خواہشات اور سہل پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے یوں فرمایا تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وصیت حسین بن علیؑ کی طرف سے ان کے بھائی محمد بن حنفیہؓ کے نام ہے۔
حسینؑ گواہی دیتے ہیں کہ:
اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جنت و جہنم حق ہیں، قیامت برحق ہے اور اللہ قیامت کے دن قبروں میں موجود ہر شخص کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
میں مدینہ سے نہ کسی عیش و عشرت کی خاطر نکلا ہوں، نہ فساد یا ظلم کے لیے، بلکہ میں نکلا ہوں اپنی نانا کی امت کی اصلاح کے لیے، یعنی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے، یعنی لوگوں کی دین سے دوری کو دور کر کے دین سے قریب کرنے کے لئے نکل رہا ہوں۔
میں چاہتا ہوں
معاشرے میں امر بالمعروف ہو یعنی لوگوں سے کہوں کہ اچھے کام کریں (نیکی کا حکم دوں)،
میں لوگوں کو برائی سے روکنا چاہتا ہوں یعنی نہی عن المنکر کروں۔
اور اپنے نانا محمد مصطفیٰؐ اور اپنے والد علیؑ بن ابی طالب کی سیرت پر عمل کروں اور اسے معاشرے میں زندہ کروں، یعنی معاشرے میں حق گوئی،امانت داری،عدالت اور دین داری ہو۔
ظلم و زیادتی، فریب و دھوکہ اور بے دین نہ ہو۔
"جو مجھے قبول کرے گا، اس نے حق کو قبول کیا۔ جو انکار کرے گا، میں صبر کروں گا، یہاں تک کہ اللہ میرے اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔”
بھائی! یہ میری وصیت ہے۔ میری توفیق اللہ ہی سے ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے۔
اس وصیت کو پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ امام حسینؑ کے قیام کا مقصد:
1۔ عقیدۂ توحید کی حفاظت و ترویج
2۔ امر بالمعروف کا قیام
3۔نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دہنا
4۔سیرتِ رسولؐ خدا و امام علیؑ کو زندہ کرنا
5۔معاشرے میں فکری اور عملی اصلاح کرنا
6۔شریعتِ الٰہی کو عملی زندگی میں نافذ کرنا ہے۔
رہی بات ثواب کمانے، گناہ بخشوانے کی، تو وہ تو معرفت اور مقصدِ قیام اور شعور کے ساتھ عزاداری کی صورت میں خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔ یہ چیزیں مقصد نہیں، بلکہ مقصد کے ساتھ عزاداری کرنے کا لازمہ اور نتیجہ ہے۔
رونا اور ماتم کرنا ایک فطری عمل ہے، جب دل میں سچی معرفت و محبت ہو پھر اس محبت کے ساتھ سوچوں ،فکروں اور کرداروں میں حسینیت کی جھلک ہو تو پھر یہی چراغ ہمیں جنت تک لے جائے گا۔
باقی امام اور امام کے پیام و مقصد کے عشق میں تبرک دینا اور کھانا ، مجلس منعقد کروانا اور مجلس میں جانا، مجلس پڑھنا اور سننا یہ سب کشتی نجات میں ہونے کی علامتیں ہیں؛ یہ سب عقیدت و نصیب کی بات ہے۔
کربلا رزم ہے بزم نہیں،عزاداری عبادت ہے ثقافت نہیں،ہمارا مجلس میں جانا ہمارے اندر موجود حمایت کی علامت ہے عادت کی نہیں۔
پس محرم میں ایسے خطباء کو سنیں جو تمہیں حماسی،رزمی،حسینی بنائیں، باشعور و باکردار بنائیں۔
ایسے لوگوں کو نہ سنیں جو تمہیں سست و کاہل اور لاپرواہ بنائیں۔
استاد کی ان باتوں سے مجھے مقصد امام بھی سمجھ میں آیا اور عزاداری کی علت بھی سمجھ ائی۔
خدا ہمیں اس محرم میں امام حسینؑ کے اصل مقاصد کو سمجھنے اور اپنی فکر، گفتار اور کردار کو ان مقاصد میں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور تمام خطباء و ذاکرین کو توفیق دے کہ وہ اپنی مجالس میں خود امام حسینؑ کے خطبات کی روشنی میں ان کے قیام کے اہداف بیان کریں اور ایک حسینی معاشرے کی تشکیل کی جانب رہنمائی کریں، تاکہ ہم واقعی حسینی بن سکیں۔
آمین، ثم آمین